Express News:
2025-09-18@20:58:34 GMT

جمہوری سیاسی ساکھ کو بحال کرنا ہوگا

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے اور اس کا مستقبل بھی جمہوری،آئینی اورقانونی معاملات سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا میں ہم ایک کمزور جمہوری ریاست ہیں اور ایک ارتقائی جمہوری عمل سے گزر رہے ہیں۔ جمہوری ریاستوں کی عالمی درجہ بندی میں ہم کافی پیچھے کھڑے ہیں۔اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ(ای آئی یو( 2025کے مطابق دنیا کے جمہوری ملکوں میں پاکستان124ویں نمبر پر ہے۔اس رپورٹ کے بقول پاکستان کی عالمی درجہ بندی 2.

84فیصد ہے۔یہ درجہ بندی دنیا کے دس جمہوری ملکوں میں خراب جمہوریت کی نشاندہی کرتی ہے۔

جمہوریت محض عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں منتخب حکومت کی تشکیل کا نظام ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل سیاسی پیکیج ہے جس میں سیاسی قیادت، اہل علم اور اہل تجارت کے رویے اور سماجی کلچر بھی رواداری پر استوار ہوتا ہے، اور یوں حکومت کے ساتھ ساتھ شہریوں کے حقوق کی ضمانت بھی دی جاتی ہے۔

باشعور اور ذمے دار میڈیا، انسانی حقوق، آئین اور قانون کی پاسداری جمہوری نظام کے بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ دنیا کے پسماندہ اور نظریاتی خلفشار کا شکار ممالک نظر ڈالیں تو ان میں عام انتخابات سے لے کر حکومت سازی کی تشکیل اور انسانی حقوق سے لے کر میڈیا کی آزادی یا اظہار آزادی اور انصاف کا نظام کئی طرح کے سوالات رکھتا ہے۔

یہ بات علمی اور فکری حلقوں میں کافی شدت کے ساتھ زیر بحث ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ کمزور رہی ہے اور غیر جمہوری قوتیں بالادست ہوتی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری بظاہر جمہوری قوتوں اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان ہم آہنگی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اب جمہوری جدوجہد کے امکانات بھی محدود نظر آتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ ہمیں میڈیا،سول سوسائٹی اور عدلیہ کے نظام کی بھی کمزوری کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔یقیناً اس عمل کو پیدا کرنے میں یا جمہوریت کی کمزوری میں غیر سیاسی قوتوں کا بھی عمل دخل زیادہ ہے اور جمہوریت کے عدم تسلسل کی کہانی بھی ان ہی غیر سیاسی قوتوں سے جڑی ہوئی ہے۔لیکن یہ کہانی کا ایک پہلو ہے اور کہانی کا دوسرا پہلو سیاسی جماعتوں،سیاسی قیادتوںاور اہل دانش کا بھی ہے جن کے طرزعمل سے بھی جمہوری عمل کمزور ہوا ہے۔

اصل میں سیاسی جماعتوں کا اپنا داخلی یا سیاسی نظام بہت سی خرابیوں کے ساتھ موجود ہے اور اگر سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر جدیدیت کی بنیاد پر تبدیلیاں نہیں کی اور نئے جمہوری رجحانات کو قبول نہیں کیا تو پھر خارجی محاذ پر جمہوریت کو بچانا اور زیادہ مشکل ہوجائے گا۔جمہوریت اپنی ساکھ اس وقت قائم کرتی ہے جب اس کے اہم سیاسی فریق کا اپنا داخلی جمہوریت کا مقدمہ مضبوط ہو اوروہ اپنے سیاسی اور حکمرانی کے نظام میں لوگوں اور بالخصوص کمزور افراد کے بنیادی حقوق کی ضمانت دے رہی ہو۔اس لیے جمہوریت کی ساکھ براہ راست عوامی مفادات یا کمزور طبقات کی جدوجہد یا ان کے حقوق سے جڑی ہوتی ہے۔لیکن پاکستان میں ریاست،حکومت اور عوام کی سطح پر موجود بڑی خلیج یا بداعتمادی کا ماحول یا عوامی مفادات کے برعکس بری طرز حکمرانی میں جمہوریت کا مقدمہ کبھی بھی مضبوطی اختیار نہیں کرسکتا۔

کیونکہ یہاں عملی جمہوریت اور عوام ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔اسی طرح جمہوریت کی ساکھ کی بنیادی کنجی ملک میں موجود اداروں کی خودمختاری ہوتی ہے اور ادارے افراد کے مقابلے میںآئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔لیکن ہم نے عملاً اداروں کے مقابلے میں افراد کو کھڑا کیا یا ان کو طاقت دی تو ادارے بھی افراد کے ساتھ ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔اداروں میں سیاسی بنیاد پر تقرری کے عمل نے مجموعی طور پر ہماری ادارہ جاتی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔مثال کے طور پر عالمی درجہ بندی میں ہمارا عدالتی نظام کہاں کھڑا ہے خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔ایک بڑا مسئلہ سول ملٹری تعلقات کا ہے ۔ہم ابھی تک سول ملٹری تعلقات میں ایک ایسا مشترکہ فریم ورک طے نہیں کرسکے جس سے مستقبل کے تناظر میں کوئی مسائل پیدا نہ ہوں۔

پاکستان میں اگر جمہوریت کو درست سمت میں آگے کی طرف بڑھنا ہے تواس بنیادی نقطہ کا علاج مشترکہ طور پر تلاش کرنا ہوگا۔یہ کام مقابلہ بازی یا ایک دوسرے پر الزامات کی صورت میں ممکن نہیں ہوگا بلکہ حالات کو اور زیادہ بگاڑ کی طرف لے کر جائے گا۔ سب کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس ملک کا مستقبل جمہوریت ہی کی بنیاد پر جڑا ہوا ہے اور اس سے انحراف ہمارے جمہوری تشخص کی نفی ہوگا۔

اسی طرح جمہوریت یا پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت ہوتی ہے مگر ہم نے قومی فیصلوں کو پارلیمنٹ کے بجائے بند کمروں یا مخصوص لوگوں تک محدود کردیا ہے جس سے جمہوری نظام کی مختلف فریقوں میں قبولیت نہیںہوتی اور کوئی بھی اس موجودہ جمہوری نظام کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے حکمران طبقات جس انداز سے اس ملک کے نظام کو چلانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں،اس کے مثبت پہلو کم ہیں جب کہ منفی پہلو زیادہ ہیں۔

جمہوری معاشروں میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور مختلف خیالات کے باوجود باہمی رشتوں کا احترام کیا جاتا ہے۔لیکن اگر ہم نے اس کے برعکس متبادل یا مخالف خیالات کے نظریات کو طاقت کی بنیاد پر دبانا ہے یا کچلنا ہے تو اس کا ردعمل جمہوری معاشروں میں سخت ہوتا ہے اور یہ عمل ریاست اور حکومت کے بارے میںمنفی سوچ کو بھی جنم دیتا ہے۔اس لیے جمہوریت کی ایک بڑی خوبی مختلف نظریات کے حامل افراد کے بارے میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور ان کی قبولیت ہوتی ہے۔

اسی طرح جمہوریت طاقت کی حکمرانی کے بجائے مشاورت کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے اور اسی بنیاد پر سیاسی مسائل کا حل بھی سیاسی،آئینی اور قانونی فریم ورک میں تلاش کیا جاتا ہے ۔لیکن ہم یہ غلطی تواتر کے ساتھ کررہے ہیں کہ سیاسی مسائل کا حل طاقت کی حکمرانی میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے جمہوری عمل ایک طرف متاثر ہوتا ہے تو دوسری طرف مقابلے میںانتہا پسند اور پرتشدد رجحانات سامنے آتے ہیں جو ریاستی اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرکے سیاسی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

اس لیے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اس ریاست کو کس نظام کے تحت چلانا ہے اور اگر ہماری بنیاد سیاسی اور جمہوری نظام ہے تو پھر حقیقی جمہوریت کی طرف آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے تمام اداروںکوعملا جمہوری بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا جہاں جمہوری اصولوںکے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کی حکمرانی کو فوقیت حاصل ہوگی۔اس لیے اگر ہم نے اپنی ریاست کی جمہوری ساکھ کو قائم کرنا ہے تو کچھ نیا پن کرنا ہوگا اور جمہوریت کو عوامی مفادات کے ساتھ جوڑ کر لوگوں کے اعتماد کو بھی اس نظام پر لانا ہوگا تاکہ لوگ جمہوری نظام کے ساتھ کھڑے ہوسکیں ۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں جمہوری نظام کی بنیاد پر جمہوریت کی کرنا ہوگا افراد کے ہوتی ہے ہوتا ہے کے ساتھ نظام کے آتے ہیں اور اس اس لیے ہے اور

پڑھیں:

کینیڈین شخص کی 20 سال بعد بینائی بحال، نایاب ’ٹوٹھ اِن آئی‘ سرجری کیا ہے؟

کینیڈا میں ایک انوکھے آپریشن کے ذریعے 20 سال سے نابینا شخص کی بینائی بحال کر دی گئی۔ 34 سالہ برینٹ چیپ مین نے بچپن میں ایک دوا کے مضر اثرات کے باعث بینائی کھو دی تھی اور گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران قریب 50 آپریشن کرائے لیکن ناکام رہے۔

رواں برس ماہرِ امراض چشم ڈاکٹر گریگ مولونی نے ان پر نایاب “ٹوٹھ اِن آئی” سرجری کی، جس میں مریض کا دانت نکال کر اس میں مصنوعی لینس لگایا گیا اور بعد ازاں آنکھ میں نصب کیا گیا۔ اس کامیاب عمل کے بعد چیپ مین کو ایک آنکھ سے 20/30 کی سطح کی نظر واپس مل گئی۔

مزید پڑھیں: بینائی سے محروم مگر حوصلے سے نہیں، سبی کے اللہ بخش سولنگی

چیپ مین کا کہنا ہے کہ برسوں بعد دوبارہ آنکھوں سے دنیا دیکھنا ایک نیا جنم ہے۔ انہوں نے پہلی بار اپنے ڈاکٹر سے آنکھ ملا کر بات کی اور اپنے بھانجے بھانجی کو دیکھنے کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی قرار دیا۔

ڈاکٹرز کے مطابق یہ سرجری دنیا میں شاذونادر ہی کی جاتی ہے اور صرف اُن مریضوں پر ممکن ہوتی ہے جن کے لیے عام طریقۂ علاج ناکام ہو جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

’ٹوٹھ اِن آئی‘ 20 سال بعد بینائی بحال کینیڈین شخص

متعلقہ مضامین

  • سرکاری ملازمین کیلئے پنشن کا پرانا نظام بحال
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • کینیڈین شخص کی 20 سال بعد بینائی بحال، نایاب ’ٹوٹھ اِن آئی‘ سرجری کیا ہے؟
  • اسرائیلی سفاکانہ رویہ عالمی یوم جمہوریت منانے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے، علامہ ساجد نقوی
  • امریکی کانگریس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی حکام پر پابندیوں کا بل
  • امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف
  • بھارت میں کرکٹ کو مودی سرکار کا سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • میانوالی مین ای بسپراجیکٹ کا افتتاح ، علی پور کے فلڈریلیف کا دورہ‘ جمہوریت کے پاسبانوں کو سلام : مریم نواز