جمہوری سیاسی ساکھ کو بحال کرنا ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے اور اس کا مستقبل بھی جمہوری،آئینی اورقانونی معاملات سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا میں ہم ایک کمزور جمہوری ریاست ہیں اور ایک ارتقائی جمہوری عمل سے گزر رہے ہیں۔ جمہوری ریاستوں کی عالمی درجہ بندی میں ہم کافی پیچھے کھڑے ہیں۔اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ(ای آئی یو( 2025کے مطابق دنیا کے جمہوری ملکوں میں پاکستان124ویں نمبر پر ہے۔اس رپورٹ کے بقول پاکستان کی عالمی درجہ بندی 2.
جمہوریت محض عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں منتخب حکومت کی تشکیل کا نظام ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل سیاسی پیکیج ہے جس میں سیاسی قیادت، اہل علم اور اہل تجارت کے رویے اور سماجی کلچر بھی رواداری پر استوار ہوتا ہے، اور یوں حکومت کے ساتھ ساتھ شہریوں کے حقوق کی ضمانت بھی دی جاتی ہے۔
باشعور اور ذمے دار میڈیا، انسانی حقوق، آئین اور قانون کی پاسداری جمہوری نظام کے بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ دنیا کے پسماندہ اور نظریاتی خلفشار کا شکار ممالک نظر ڈالیں تو ان میں عام انتخابات سے لے کر حکومت سازی کی تشکیل اور انسانی حقوق سے لے کر میڈیا کی آزادی یا اظہار آزادی اور انصاف کا نظام کئی طرح کے سوالات رکھتا ہے۔
یہ بات علمی اور فکری حلقوں میں کافی شدت کے ساتھ زیر بحث ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ کمزور رہی ہے اور غیر جمہوری قوتیں بالادست ہوتی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری بظاہر جمہوری قوتوں اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان ہم آہنگی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اب جمہوری جدوجہد کے امکانات بھی محدود نظر آتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ ہمیں میڈیا،سول سوسائٹی اور عدلیہ کے نظام کی بھی کمزوری کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔یقیناً اس عمل کو پیدا کرنے میں یا جمہوریت کی کمزوری میں غیر سیاسی قوتوں کا بھی عمل دخل زیادہ ہے اور جمہوریت کے عدم تسلسل کی کہانی بھی ان ہی غیر سیاسی قوتوں سے جڑی ہوئی ہے۔لیکن یہ کہانی کا ایک پہلو ہے اور کہانی کا دوسرا پہلو سیاسی جماعتوں،سیاسی قیادتوںاور اہل دانش کا بھی ہے جن کے طرزعمل سے بھی جمہوری عمل کمزور ہوا ہے۔
اصل میں سیاسی جماعتوں کا اپنا داخلی یا سیاسی نظام بہت سی خرابیوں کے ساتھ موجود ہے اور اگر سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر جدیدیت کی بنیاد پر تبدیلیاں نہیں کی اور نئے جمہوری رجحانات کو قبول نہیں کیا تو پھر خارجی محاذ پر جمہوریت کو بچانا اور زیادہ مشکل ہوجائے گا۔جمہوریت اپنی ساکھ اس وقت قائم کرتی ہے جب اس کے اہم سیاسی فریق کا اپنا داخلی جمہوریت کا مقدمہ مضبوط ہو اوروہ اپنے سیاسی اور حکمرانی کے نظام میں لوگوں اور بالخصوص کمزور افراد کے بنیادی حقوق کی ضمانت دے رہی ہو۔اس لیے جمہوریت کی ساکھ براہ راست عوامی مفادات یا کمزور طبقات کی جدوجہد یا ان کے حقوق سے جڑی ہوتی ہے۔لیکن پاکستان میں ریاست،حکومت اور عوام کی سطح پر موجود بڑی خلیج یا بداعتمادی کا ماحول یا عوامی مفادات کے برعکس بری طرز حکمرانی میں جمہوریت کا مقدمہ کبھی بھی مضبوطی اختیار نہیں کرسکتا۔
کیونکہ یہاں عملی جمہوریت اور عوام ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔اسی طرح جمہوریت کی ساکھ کی بنیادی کنجی ملک میں موجود اداروں کی خودمختاری ہوتی ہے اور ادارے افراد کے مقابلے میںآئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔لیکن ہم نے عملاً اداروں کے مقابلے میں افراد کو کھڑا کیا یا ان کو طاقت دی تو ادارے بھی افراد کے ساتھ ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔اداروں میں سیاسی بنیاد پر تقرری کے عمل نے مجموعی طور پر ہماری ادارہ جاتی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔مثال کے طور پر عالمی درجہ بندی میں ہمارا عدالتی نظام کہاں کھڑا ہے خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔ایک بڑا مسئلہ سول ملٹری تعلقات کا ہے ۔ہم ابھی تک سول ملٹری تعلقات میں ایک ایسا مشترکہ فریم ورک طے نہیں کرسکے جس سے مستقبل کے تناظر میں کوئی مسائل پیدا نہ ہوں۔
پاکستان میں اگر جمہوریت کو درست سمت میں آگے کی طرف بڑھنا ہے تواس بنیادی نقطہ کا علاج مشترکہ طور پر تلاش کرنا ہوگا۔یہ کام مقابلہ بازی یا ایک دوسرے پر الزامات کی صورت میں ممکن نہیں ہوگا بلکہ حالات کو اور زیادہ بگاڑ کی طرف لے کر جائے گا۔ سب کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس ملک کا مستقبل جمہوریت ہی کی بنیاد پر جڑا ہوا ہے اور اس سے انحراف ہمارے جمہوری تشخص کی نفی ہوگا۔
اسی طرح جمہوریت یا پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت ہوتی ہے مگر ہم نے قومی فیصلوں کو پارلیمنٹ کے بجائے بند کمروں یا مخصوص لوگوں تک محدود کردیا ہے جس سے جمہوری نظام کی مختلف فریقوں میں قبولیت نہیںہوتی اور کوئی بھی اس موجودہ جمہوری نظام کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے حکمران طبقات جس انداز سے اس ملک کے نظام کو چلانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں،اس کے مثبت پہلو کم ہیں جب کہ منفی پہلو زیادہ ہیں۔
جمہوری معاشروں میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور مختلف خیالات کے باوجود باہمی رشتوں کا احترام کیا جاتا ہے۔لیکن اگر ہم نے اس کے برعکس متبادل یا مخالف خیالات کے نظریات کو طاقت کی بنیاد پر دبانا ہے یا کچلنا ہے تو اس کا ردعمل جمہوری معاشروں میں سخت ہوتا ہے اور یہ عمل ریاست اور حکومت کے بارے میںمنفی سوچ کو بھی جنم دیتا ہے۔اس لیے جمہوریت کی ایک بڑی خوبی مختلف نظریات کے حامل افراد کے بارے میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور ان کی قبولیت ہوتی ہے۔
اسی طرح جمہوریت طاقت کی حکمرانی کے بجائے مشاورت کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے اور اسی بنیاد پر سیاسی مسائل کا حل بھی سیاسی،آئینی اور قانونی فریم ورک میں تلاش کیا جاتا ہے ۔لیکن ہم یہ غلطی تواتر کے ساتھ کررہے ہیں کہ سیاسی مسائل کا حل طاقت کی حکمرانی میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے جمہوری عمل ایک طرف متاثر ہوتا ہے تو دوسری طرف مقابلے میںانتہا پسند اور پرتشدد رجحانات سامنے آتے ہیں جو ریاستی اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرکے سیاسی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
اس لیے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اس ریاست کو کس نظام کے تحت چلانا ہے اور اگر ہماری بنیاد سیاسی اور جمہوری نظام ہے تو پھر حقیقی جمہوریت کی طرف آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے تمام اداروںکوعملا جمہوری بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا جہاں جمہوری اصولوںکے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کی حکمرانی کو فوقیت حاصل ہوگی۔اس لیے اگر ہم نے اپنی ریاست کی جمہوری ساکھ کو قائم کرنا ہے تو کچھ نیا پن کرنا ہوگا اور جمہوریت کو عوامی مفادات کے ساتھ جوڑ کر لوگوں کے اعتماد کو بھی اس نظام پر لانا ہوگا تاکہ لوگ جمہوری نظام کے ساتھ کھڑے ہوسکیں ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں جمہوری نظام کی بنیاد پر جمہوریت کی کرنا ہوگا افراد کے ہوتی ہے ہوتا ہے کے ساتھ نظام کے آتے ہیں اور اس اس لیے ہے اور
پڑھیں:
غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
ترکیہ کے شہر استنبول میں ترکیہ، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ نے غزہ کی موجودہ صورتحال پر ایک اہم اجلاس منعقد کیا، جس کے مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غزہ کا انتظام فلسطینی عوام کے حوالے کیا جائے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے اور انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں دور کرے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پہنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ غزہ میں کم از کم 600 امدادی ٹرک اور 50 ایندھن کی گاڑیاں بغیر کسی تاخیر کے داخل کی جائیں۔
Deputy Prime Minister/Foreign Minister Senator Mohammad Ishaq Dar @MIshaqDar50 along with other Arab-Islamic Foreign Ministers, deliberated on the way forward for a lasting ceasefire and sustainable peace in Gaza.
The leaders jointly called for urgent humanitarian aid for the… pic.twitter.com/sPG2sz1uXm
— Ministry of Foreign Affairs – Pakistan (@ForeignOfficePk) November 3, 2025
مشترکہ اعلامیہ میں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور ان کی قومی نمائندگی کے احترام کو ضروری قرار دیا گیا ہے، اور کہا گیا کہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، نہ کہ بیرونی قوتوں کے زیرِ انتظام ہو۔
اعلامیہ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ غزہ میں ایک غیر جانبدار فورس تشکیل دی جائے جو امن کی نگرانی کرے اور انسانی امداد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے باوجود حملے جاری رکھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے جنگ بندی کے بعد بھی حملوں میں قریباً 250 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ حاقان فیدان نے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ غزہ میں بین الاقوامی فورسز کی تعیناتی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ پر کام جاری ہے اور اس فریم ورک کی تکمیل کے بعد ہی افواج کی تعیناتی کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ استنبول اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی، اور پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔
مزید پڑھیں: غزہ امن سربراہ اجلاس: صدر ٹرمپ سے وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات، گرمجوشی سے مصافحہ
اس سے قبل غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالث ملکوں نے معاہدے پر دستخط کیے تھے، تاہم اسرائیل کی جانب سے اس کے باوجود غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی پاکستان نے مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews استنبول اجلاس ٹرمپ امن منصوبہ غزہ انتظام فلسطینی اتھارٹی وی نیوز