وردی کسی بھی رنگ کی ہو ہماری شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ ہے، ترجمان پاک فوج
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
وردی کسی بھی رنگ کی ہو ہماری شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ ہے، ترجمان پاک فوج WhatsAppFacebookTwitter 0 20 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی قوم تو نہ پہلے جھکی تھی اور نہ ہم اب جھکیں گے، میں پہلی بھی کہتا رہا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ ہماری شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ ہے۔
بھارت کے ساتھ تنازع اور پاک چین تعلقات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے چائنا میڈیا گروپ کو خصوصی انٹرویو دیا، جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کے ساتھ کشیدگی، پاک چین تعلقات اور خطے کی صورتحال پر اپنا موقف پیش کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے چائنا میڈیا گروپ کے ہر سوال کا مفصل اور حقائق پر مبنی جواب دیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے سب اہم چیز اس کا عزم اور اس کی طاقت ہے، ہم اللہ کے بعد سب سے زیادہ اپنے آپ پر انحصار کرتے ہیں۔ جب ہمارا عزم مضبوط ہوگا جو ہم نے دکھایا بھی تو پھر بین الاقوامی کمیونٹی بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے جتنے بھی ممالک ہیں سب کو اس وقت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، جو بڑے ممالک ہیں ان کا ویژن بھی بڑا ہے، لوگ انسانیت کی ترقی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اس دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے مسائل ہیں، بڑھتی آباد کے مسائل ہیں یعنی بہت سارے مسائل سے دنیا نبردآزما ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کیا ایسے میں ایک ملک دوسرے ملک پر بلاجواز، جھوٹے بیانیے اور بغیر ثبوت کے چڑھ دوڑے، پڑوسی ممالک کے اوپر اپنی اجارہ داری مسلط کرنے کی کوشش کرے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی قوم تو نہ پہلے جھکی تھی اور نہ ہم اب جھکیں گے، میں پہلی بھی کہتا رہا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ ہماری شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ ہے۔ چاہے کسی نے نیلی، سفید یا خاکی وردی پہن رکھی ہے شہادت ہمارے لیے اعزاز ہے۔
صحافی کے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان اور چین دنیا میں دو ذمہ دار ملک ہیں، پاکستان اور چین دونوں کی پہلی ترجیح لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔ لوگوں کی خوشحالی ہمیشہ امن و استحکام سے آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین دونوں خطے میں امن و استحکام کے لیے کوشاں ہیں، اس کے لیے ہم دہشتگردی کی لعنت سے لڑ رہے ہیں اور دہشتگردی کا مقصد ہی ترقی کو روکنا ہے۔ چین نے انتہائی کم عرصے میں اتنی بڑی آبادی کے ساتھ جو ترقی کی ہے اسے دنیا کو دیکھنا چاہیے، پاکستان کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم ترقی اور استحکام کی جانب جائیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح امن ہے، آج پاکستان کی گلیوں میں دیکھیں تو آپ کو فتح نہیں بلکہ امن کی خوشی مناتے لوگ نظر آئیں گے۔ پاکستان کے لوگوں میں آپ کو انسانیت نظر آئے گی، ہم عاجزی کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ ہم امن پسند ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جو آہنی دیوار جس میں عوام، مسلح افواج اور تمام شعبے شامل ہیں، کو دہشتگردی کے ناسور کی جانب موڑنا ہے، آپ دیکھیں گے کہ ملک کیسے دوڑتا ہوا ترقی کی منازل طے کرے گا، ان شاء اللہ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارتی پارلیمان میں ٹرمپ پر وار، جنگ بندی میں امریکی صدر کی ثالثی کا انکار کردیا بھارتی پارلیمان میں ٹرمپ پر وار، جنگ بندی میں امریکی صدر کی ثالثی کا انکار کردیا امیر کویت نے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کاعندیہ دے دیا محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں مزید 4روز کیلئے ہیٹ ویو الرٹ جاری کردیا سپریم کورٹ نے 8سالہ بچی کے قتل کے ملزم کو عدم شواہد کی بنیاد پربری کردیا کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل واپس نہ لیا گیا تو سڑکوں پر آئیں گے، فضل الرحمان ہماری افواج نے دشمن کو وہ سبق سکھایا جسے وہ قیامت تک یاد رکھے گا، وزیراعظمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ہماری شہادت کی ا رزو زندگی سے زیادہ ہے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر پاکستان کی کہ پاکستان نے کہا کہ پاک فوج کے لیے
پڑھیں:
پاکستانی قوم پر امریکا اور جرنیلوں کی غلامی کے اثرات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اکثر لوگ ’’غلامی‘‘ کو صرف ایک سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ غلامی ایک سیاسی مسئلہ بھی ہے لیکن جمالیاتی سطح پر دیکھا جائے تو غلامی ایک ’’بدصورتی‘‘ ہے۔ اسی لیے اقبال نے جمالیات کے پیمانے سے غلامی کا تجزیہ کرتے ہوئے کیا شاندار نکتے بیان کیے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جیسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ ’’غلامی‘‘ اپنی اصل میں ’’ذوقِ حُسن‘‘ اور ’’زیبائی‘‘ سے محرومی کا نام ہے۔ چنانچہ خوبصورت چیز صرف وہی ہے جسے آزاد انسان خوبصورت قرار دے۔ رہے ’’غلام‘‘ تو ہم ان کی بصیرت پر بھروسا نہیں کرسکتے کیونکہ اس دنیا میں صرف آزاد انسان کی آنکھ ہی دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رہے غلام تو وہ سب کے سب ’’نابینا‘‘ ہوتے ہیں۔
اقبال کی فکر ’’مجردّ‘‘ نہیں ہے۔ ان کی شاعرانہ فکر کی پشت پر پورا اسلام کھڑا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک ’’جمال پسندی‘‘ سے بھرا ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کہیں خدا نے اپنی بات کہنے کے لیے ’’حُسن‘‘ اور اس کے اشتقاقات کو استعمال کیا ہے۔ کہیں ’’جمال‘‘ اور اس کے اشتقاقات سے کام لیا ہے اور کہیں لفظ ’’زینت‘‘ اور اس کے اشتقاقات سے استفادہ کیا ہے۔ ذرا قرآن پاک کی چند آیات کا ترجمہ تو ملاحظہ کیجیے۔
(1) ہم نے آسمان کو ستاروں کی زینت سے مزیّن کیا ہے۔ (6-37)
(2) اے فرزندانِ آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرلیا کرو۔
(3) چوپایوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’تمہارے لیے ان کے اندر شام کو لوٹاتے وقت اور صبح کو لے جاتے وقت ایک جمال ہوتا ہے‘‘۔ (6-16)
(4) بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو گائے کی جمالیاتی خوبی بھی بیان کی۔ فرمایا: ’’ایسی گائے جو بھڑکدار زرد ہو اور دیکھنے والوں کو بھلی لگے‘‘۔ (69-2)
(5) خدا نے اپنی مخلوقات سے متعلق فرمایا: ’’جس نے اپنی پیدا کردہ ہر شے کو حُسن بخشا‘‘۔ (7-12)
(6) انسان کی صورت گری کے متعلق خدا نے فرمایا: ’’تمہاری صورت گری کی تو حسین صورتیں بخشیں‘‘۔ (3-64)
(7) انسان کے آخری ٹھکانے کے متعلق فرمایا: ’’اللہ کے یہاں جو ٹھکانہ ہے اس میں بھی حُسن ہے‘‘۔
رسول اکرمؐ کا ذوقِ جمال اس قدر نازک تھا کہ ذوقِ سلیم کے خلاف کوئی شے حضور کو گوارانہ تھی۔ وفات سے تھوڑی دیر پہلے بھی حضور نے مسواک فرمائی۔ اس وقت حضور اتنے کمزور تھے کہ خود مسواک نہ چبا سکتے تھے۔ چنانچہ سیدہ عائشہؓ نے چبا کر دی۔ رسول اکرمؐ جب کہیں کوئی ایسی چیز دیکھتے جو عمدگی، سلیقے، صفائی اور ذوق جمال کے خلاف ہوتی تو وہیں اس کی اصلاح فرمادیتے۔
ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خود پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے۔ ستھرا ہے اور ستھرائی کو عزیز رکھتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھو اور یہود کی مشابہت سے بچو۔
امام مالک عطا بن طیار سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ مسجد میں جلوہ افروز تھے کہ ایک شخص داخل ہوا۔ اس کے بال پریشان اور ڈاڑھی الجھی ہوئی تھی۔ حضورؐ نے اشارے سے حکم دیا کہ اپنے بال اور ڈاڑھی ٹھیک کرو۔ اس نے حکم کی تعمیل کی اور واپس چلا گیا۔ حضورؐ نے فرمایا بکھرے بال لے کر آنا؟ جیسے شیطان چلا آرہا ہو۔
ابو دائود اور ترمذی سیدہ عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے گھروں یا محلّوں میں مسجد تعمیر کرنے، اس میں صفائی رکھنے اور انہیں خوشبو میں بسائے رکھنے کا حکم دیا۔
سیدنا انس کی ایک مشہور روایت کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا اس دنیا میں مجھے بیویوں اور خوشبو سے بڑی محبت ہے۔
ان حقائق کا اسلامی جمہوریۂ پاکستان سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلام جمالِ الٰہی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ چنانچہ پاکستان کو بھی جمالِ الٰہی کے مظہر سے ہم آہنگ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہمارے جرنیلوں
اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کو امریکا کی غلامی میں دے دیا اور اور جیسا کہ قرآن و حدیث اور فکر اقبال سے ثابت ہے ہر غلامی ایک بدصورتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کے پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کو شعوری طور پر بدصورت بنایا۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکا کے ساتھ خفیہ خط و کتابت کررہے تھے۔ وہ امریکا سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاستدان نااہل ہیں وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے اور فوج ہرگز ایسا نہیں ہونے دے گی۔ یہ اپنے گھر کے پوتڑے امریکا کے سامنے دھونے کا عمل غلامی کی نفسیات کا حاصل تھا۔ یعنی جنرل ایوب خود ایک ’’بدباطن‘‘ اور ’’بدصورت‘‘ شخص تھے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں پہلا مارشل لا قوم پر مسلط کیا۔ مارشل لا کے لیے قرآن و حدیث یا سیرت طیبہ سے کوئی سند نہیں لائی جاسکتی۔ مارشل لا خلافت راشدہ کے تجربے سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ یہاں تک بادشاہت کا ادارہ بھی اس لیے مارشل لا لگانے والے جرنیلوں سے برتر ہے کہ بادشاہ اسی ریاست پر حکومت کرتے تھے جو انہوں سے جنگ لڑ کر دشمنوں سے حاصل کی ہوتی تھی۔ یا جو ریاست بادشاہ کو ’’وراثت‘‘ میں ملی ہوتی تھی مگر پاکستان کے جرنیلوں نے پاکستان جنگ کرکے انگریزوں یا ہندوئوں سے حاصل نہیں کیا تھا، نہ جرنیلوں کے باپ نے پاکستان ورثے کے طور پر چھوڑا تھا، نہ ہی جرنیلوں کی بیویوں کو پاکستان جہیز میں ملا تھا کہ جرنیل اسے شیرمادر کی طرح ہڑپ کرکے بیٹھ جائیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کا ’’اعلانیہ مارشل لا‘‘ ہو یا جنرل اسلم بیگ، جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر کا ’’غیر اعلانیہ‘‘ مارشل لا یہ سب مارشل لا ’’بدصورت‘‘ ہیں۔ یہ مارشل لا حسن، جمال اور زینت کی ضد ہیں۔
پاکستان کے جرنیل ہوں یا ان کے پیدا کردہ سیاست دان سب مغرب کے دیوانے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ خود کو مغرب کی قربان گاہ پر قربان کردیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’جمہوریت‘‘ مغربی تہذیب کا ’’حُسن‘‘ ہے۔ اس کا ’’جمال‘‘ ہے اس کی ’’زینت‘‘ ہے۔ چنانچہ ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کو جمہوریت سے عشق ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پورے جمہوری نظام کو پاکستان کی ایک بہت ہی بڑی ’’بدصورتی‘‘ بنادیا ہے۔ جرنیل جب چاہتے ہیں جمہوریت پر شب خون مار کر اس کی عزت پامال کردیتے ہیں۔ جرنیل مارشل لا نہ بھی لگائیں تو بھی وہ جمہوری نظام کی طرح طرح سے بے حرمتی کرتے رہتے ہیں۔ جنرل ایوب نے صدارتی انتخابات دھاندلی سے جیتا، جنرل ضیا الحق نے ریفرنڈم کرایا جس میں پانچ فی صد سے بھی کم ووٹ پڑے مگر جنرل ضیا الحق ’’بھاری اکثریت‘‘ سے فاتح قرار پا گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ریفرنڈم کرایا اس میں دو فی صد لوگوں نے ووٹ ڈالے مگر جنرل پرویز بھی ’’بھاری اکثریت‘‘ سے کامیاب ہوگئے۔ جنرل عاصم منیر نے 2024ء کے انتخابات کرائے ان انتخابات میں تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود بھی تحریک انصاف نے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی لیکن فارم 47 کے ذریعے تحریک انصاف کو ہرا دیا گیا اور پنجاب میں نواز لیگ کو جتا دیا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کی جمہوریت پاکستان کی ایک بہت ہی بڑی ’’بدصورتی‘‘ ہے۔ کیونکہ یہ جمہوریت جرنیلوں کی ’’غلامی‘‘ کی پیداوار ہے۔
آزاد قوموں کی معیشت بھی آزاد ہوتی ہے مگر ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ہماری معیشت کو آئی ایم ایف کا ’’غلام‘‘ بنایا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف بتاتا ہے کہ بجٹ کیا ہوگا؟ کس طبقے پر کتنا ٹیکس لگے گا؟ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں ہوگا تو کتنا؟ اس صورت حال نے ہماری معیشت کو قوم کی ایک اور بڑی ’’بدصورتی‘‘ بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ معیشت امریکا اور آئی ایم ایف کی مکمل غلامی پر کھڑی ہوئی ہے۔ آئیے اقبال کے اشعار ایک بار پھر پڑھتے ہیں۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا