پاکستانی قوم پر امریکا اور جرنیلوں کی غلامی کے اثرات
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اکثر لوگ ’’غلامی‘‘ کو صرف ایک سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ غلامی ایک سیاسی مسئلہ بھی ہے لیکن جمالیاتی سطح پر دیکھا جائے تو غلامی ایک ’’بدصورتی‘‘ ہے۔ اسی لیے اقبال نے جمالیات کے پیمانے سے غلامی کا تجزیہ کرتے ہوئے کیا شاندار نکتے بیان کیے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جیسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ ’’غلامی‘‘ اپنی اصل میں ’’ذوقِ حُسن‘‘ اور ’’زیبائی‘‘ سے محرومی کا نام ہے۔ چنانچہ خوبصورت چیز صرف وہی ہے جسے آزاد انسان خوبصورت قرار دے۔ رہے ’’غلام‘‘ تو ہم ان کی بصیرت پر بھروسا نہیں کرسکتے کیونکہ اس دنیا میں صرف آزاد انسان کی آنکھ ہی دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رہے غلام تو وہ سب کے سب ’’نابینا‘‘ ہوتے ہیں۔
اقبال کی فکر ’’مجردّ‘‘ نہیں ہے۔ ان کی شاعرانہ فکر کی پشت پر پورا اسلام کھڑا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک ’’جمال پسندی‘‘ سے بھرا ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کہیں خدا نے اپنی بات کہنے کے لیے ’’حُسن‘‘ اور اس کے اشتقاقات کو استعمال کیا ہے۔ کہیں ’’جمال‘‘ اور اس کے اشتقاقات سے کام لیا ہے اور کہیں لفظ ’’زینت‘‘ اور اس کے اشتقاقات سے استفادہ کیا ہے۔ ذرا قرآن پاک کی چند آیات کا ترجمہ تو ملاحظہ کیجیے۔
(1) ہم نے آسمان کو ستاروں کی زینت سے مزیّن کیا ہے۔ (6-37)
(2) اے فرزندانِ آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرلیا کرو۔
(3) چوپایوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’تمہارے لیے ان کے اندر شام کو لوٹاتے وقت اور صبح کو لے جاتے وقت ایک جمال ہوتا ہے‘‘۔ (6-16)
(4) بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو گائے کی جمالیاتی خوبی بھی بیان کی۔ فرمایا: ’’ایسی گائے جو بھڑکدار زرد ہو اور دیکھنے والوں کو بھلی لگے‘‘۔ (69-2)
(5) خدا نے اپنی مخلوقات سے متعلق فرمایا: ’’جس نے اپنی پیدا کردہ ہر شے کو حُسن بخشا‘‘۔ (7-12)
(6) انسان کی صورت گری کے متعلق خدا نے فرمایا: ’’تمہاری صورت گری کی تو حسین صورتیں بخشیں‘‘۔ (3-64)
(7) انسان کے آخری ٹھکانے کے متعلق فرمایا: ’’اللہ کے یہاں جو ٹھکانہ ہے اس میں بھی حُسن ہے‘‘۔
رسول اکرمؐ کا ذوقِ جمال اس قدر نازک تھا کہ ذوقِ سلیم کے خلاف کوئی شے حضور کو گوارانہ تھی۔ وفات سے تھوڑی دیر پہلے بھی حضور نے مسواک فرمائی۔ اس وقت حضور اتنے کمزور تھے کہ خود مسواک نہ چبا سکتے تھے۔ چنانچہ سیدہ عائشہؓ نے چبا کر دی۔ رسول اکرمؐ جب کہیں کوئی ایسی چیز دیکھتے جو عمدگی، سلیقے، صفائی اور ذوق جمال کے خلاف ہوتی تو وہیں اس کی اصلاح فرمادیتے۔
ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خود پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے۔ ستھرا ہے اور ستھرائی کو عزیز رکھتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھو اور یہود کی مشابہت سے بچو۔
امام مالک عطا بن طیار سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ مسجد میں جلوہ افروز تھے کہ ایک شخص داخل ہوا۔ اس کے بال پریشان اور ڈاڑھی الجھی ہوئی تھی۔ حضورؐ نے اشارے سے حکم دیا کہ اپنے بال اور ڈاڑھی ٹھیک کرو۔ اس نے حکم کی تعمیل کی اور واپس چلا گیا۔ حضورؐ نے فرمایا بکھرے بال لے کر آنا؟ جیسے شیطان چلا آرہا ہو۔
ابو دائود اور ترمذی سیدہ عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے گھروں یا محلّوں میں مسجد تعمیر کرنے، اس میں صفائی رکھنے اور انہیں خوشبو میں بسائے رکھنے کا حکم دیا۔
سیدنا انس کی ایک مشہور روایت کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا اس دنیا میں مجھے بیویوں اور خوشبو سے بڑی محبت ہے۔
ان حقائق کا اسلامی جمہوریۂ پاکستان سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلام جمالِ الٰہی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ چنانچہ پاکستان کو بھی جمالِ الٰہی کے مظہر سے ہم آہنگ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہمارے جرنیلوں
اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کو امریکا کی غلامی میں دے دیا اور اور جیسا کہ قرآن و حدیث اور فکر اقبال سے ثابت ہے ہر غلامی ایک بدصورتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کے پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کو شعوری طور پر بدصورت بنایا۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکا کے ساتھ خفیہ خط و کتابت کررہے تھے۔ وہ امریکا سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاستدان نااہل ہیں وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے اور فوج ہرگز ایسا نہیں ہونے دے گی۔ یہ اپنے گھر کے پوتڑے امریکا کے سامنے دھونے کا عمل غلامی کی نفسیات کا حاصل تھا۔ یعنی جنرل ایوب خود ایک ’’بدباطن‘‘ اور ’’بدصورت‘‘ شخص تھے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں پہلا مارشل لا قوم پر مسلط کیا۔ مارشل لا کے لیے قرآن و حدیث یا سیرت طیبہ سے کوئی سند نہیں لائی جاسکتی۔ مارشل لا خلافت راشدہ کے تجربے سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ یہاں تک بادشاہت کا ادارہ بھی اس لیے مارشل لا لگانے والے جرنیلوں سے برتر ہے کہ بادشاہ اسی ریاست پر حکومت کرتے تھے جو انہوں سے جنگ لڑ کر دشمنوں سے حاصل کی ہوتی تھی۔ یا جو ریاست بادشاہ کو ’’وراثت‘‘ میں ملی ہوتی تھی مگر پاکستان کے جرنیلوں نے پاکستان جنگ کرکے انگریزوں یا ہندوئوں سے حاصل نہیں کیا تھا، نہ جرنیلوں کے باپ نے پاکستان ورثے کے طور پر چھوڑا تھا، نہ ہی جرنیلوں کی بیویوں کو پاکستان جہیز میں ملا تھا کہ جرنیل اسے شیرمادر کی طرح ہڑپ کرکے بیٹھ جائیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کا ’’اعلانیہ مارشل لا‘‘ ہو یا جنرل اسلم بیگ، جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر کا ’’غیر اعلانیہ‘‘ مارشل لا یہ سب مارشل لا ’’بدصورت‘‘ ہیں۔ یہ مارشل لا حسن، جمال اور زینت کی ضد ہیں۔
پاکستان کے جرنیل ہوں یا ان کے پیدا کردہ سیاست دان سب مغرب کے دیوانے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ خود کو مغرب کی قربان گاہ پر قربان کردیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’جمہوریت‘‘ مغربی تہذیب کا ’’حُسن‘‘ ہے۔ اس کا ’’جمال‘‘ ہے اس کی ’’زینت‘‘ ہے۔ چنانچہ ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کو جمہوریت سے عشق ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پورے جمہوری نظام کو پاکستان کی ایک بہت ہی بڑی ’’بدصورتی‘‘ بنادیا ہے۔ جرنیل جب چاہتے ہیں جمہوریت پر شب خون مار کر اس کی عزت پامال کردیتے ہیں۔ جرنیل مارشل لا نہ بھی لگائیں تو بھی وہ جمہوری نظام کی طرح طرح سے بے حرمتی کرتے رہتے ہیں۔ جنرل ایوب نے صدارتی انتخابات دھاندلی سے جیتا، جنرل ضیا الحق نے ریفرنڈم کرایا جس میں پانچ فی صد سے بھی کم ووٹ پڑے مگر جنرل ضیا الحق ’’بھاری اکثریت‘‘ سے فاتح قرار پا گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ریفرنڈم کرایا اس میں دو فی صد لوگوں نے ووٹ ڈالے مگر جنرل پرویز بھی ’’بھاری اکثریت‘‘ سے کامیاب ہوگئے۔ جنرل عاصم منیر نے 2024ء کے انتخابات کرائے ان انتخابات میں تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود بھی تحریک انصاف نے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی لیکن فارم 47 کے ذریعے تحریک انصاف کو ہرا دیا گیا اور پنجاب میں نواز لیگ کو جتا دیا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کی جمہوریت پاکستان کی ایک بہت ہی بڑی ’’بدصورتی‘‘ ہے۔ کیونکہ یہ جمہوریت جرنیلوں کی ’’غلامی‘‘ کی پیداوار ہے۔
آزاد قوموں کی معیشت بھی آزاد ہوتی ہے مگر ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ہماری معیشت کو آئی ایم ایف کا ’’غلام‘‘ بنایا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف بتاتا ہے کہ بجٹ کیا ہوگا؟ کس طبقے پر کتنا ٹیکس لگے گا؟ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں ہوگا تو کتنا؟ اس صورت حال نے ہماری معیشت کو قوم کی ایک اور بڑی ’’بدصورتی‘‘ بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ معیشت امریکا اور آئی ایم ایف کی مکمل غلامی پر کھڑی ہوئی ہے۔ آئیے اقبال کے اشعار ایک بار پھر پڑھتے ہیں۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دیکھا جائے تو نے پاکستان پاکستان کے پاکستان کو جنرل ایوب نے فرمایا رسول اکرم مارشل لا دنیا میں اور اس کی ایک کیا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
یہ پاکستانی زائرین
سعودی عرب، یو اے ای کو خاص طور پر پاکستانیوں سے متعدد شکایات ہیں جس کی وجہ سے وہاں پاکستان سے جانے والوں کو وہ عزت نہیں ملتی جو دوسروں کو ملتی ہے اور یہ شکایت پاکستانیوں کو بھی مگر کیوں ہے؟اس پر حکومت کی توجہ ہے نہ ہمیں فکر کہ انھی شکایتوں سے ملک کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستانی اس سلسلے میں اپنے اعمال پر توجہ دینے کے بجائے کہتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کی اس طرف اس لیے توجہ نہیں کہ انھیں تو وہاں شان دار استقبال اور مہمان نوازی سے نوازا جاتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کے حکمران ہیں اور وہاں پاکستان کی عزت بھی اب متاثر ہو رہی ہے جو وہاں ہمیشہ قرضوں اور مراعات و امداد کے لیے شاہانہ طور پر جاتے ہیں اور موجودہ وزیر اعظم اب تک سعودیہ کے 8 دورے کرچکے ہیں جب کہ سعودی حکمران سات آٹھ برس میں صرف ایک بار ہی پاکستان آئے اور موجودہ حکمران جن کے ان سے خصوصی تعلقات رہے ہیں کہ ساڑھے تین برس میں سعودی ولی عہد نے پاکستان کا کوئی دورہ نہیں کیا۔
مکہ و مدینہ ہر مسلمان کے لیے باعث تقدس مقامات ہیں جہاں دنیا بھر کے مسلمان حج و عمرے کے لیے جانا سعادت سمجھتے ہیں مگر وہاں جا کر خاص کر کچھ پاکستانی ایسے مذموم کام کر جاتے ہیں کہ جن سے پاکستان کی عزت پر حرف آتا ہے اور اسی لیے دبئی میں ہمارے داخلے پر پابندی اور ویزے کے حصول میں سختی بڑھ جاتی ہے۔
سعودیہ میں بھی اس بار عمرہ ویزوں پرکچھ عرصہ پابندی رہی اور عمرہ ویزے سخت پابندیوں میں اور تاخیر سے جاری ہو رہے ہیں۔ پہلے سعودیہ عمرے کے لیے تین ماہ کا ویزا جاری کرتا تھا، جس کی مدت اب ایک ماہ تک محدود کردی گئی ہے اور 28 دن کے خواہش مندوں کو ایک ماہ سے قبل ہی واپس آنا پڑتا ہے کیونکہ تین ماہ کے ویزوں کا غلط استعمال ہو رہا تھا۔ عمرہ کرکے وہاں روزگارکرنا، چھپ کر ملازمتیں کر لی جاتی تھیں اور بڑی تعداد میں وہاں بھکاریوں نے خیرات مانگنا اپنا مذموم دھندا بنا لیا تھا۔
بعض گروہوں کی جانب سے پاکستان سے جان بوجھ کر ممنوعہ اشیا لے جائی جاتی تھیں اور اس کے لیے حیران کن و شرم ناک طریقے اختیارکرنا معمول بنا لیا گیا تھا اور سعودیہ کی سخت سزاؤں کی بھی پروا نہیں کی جاتی تھی، جس کی وجہ سے مزید سختیاں بڑھیں اور اب پہلے کی طرح اور جلد ویزہ کا اجرا نہیں ہو رہا۔
سعودی حکومت نے پولیو ویکسین کے سرٹیفکیٹ کی جو پابندی لگائی، اس کو بھی بعض ٹریول ایجنٹس نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا جس میں محکمہ صحت کی ملی بھگت بھی شامل ہے اور عمرہ عازمین سے پیسے لے کر گھر بیٹھے یہ سرٹیفکیٹ بنائے جا رہے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر یہ سرٹیفکیٹ طلب نہیں ہوتے، مگر جدہ ایئرپورٹ پر سعودی عملہ ہر آنے والے کو پولیو قطرے ضرور پلاتا ہے۔
بہت سے عازمین عمرہ ، جدہ سے مکہ عمرہ کر کے مدینہ سے واپسی چاہتے ہیں مگر ٹریول ایجنٹس یہ سہولت کم ہی دیتے ہیں اور گروپ کے علاوہ یہ سہولت مہنگی پڑتی ہے۔ ویزہ فیس میں اضافے اور رہائشی ہوٹلوں کی شدید قلت ہے، یوں ہوٹل والوں نے منہ مانگے نرخ وصول کرنا شروع کر دیے ہیں، جس سے عمرہ کے اخراجات بڑھ گئے ہیں صرف شیئرنگ عمرہ سستا رہ گیا ہے۔ ویزہ کھلنے کے بعد پاکستانیوں کی بڑی تعداد عمرے پر جا رہی ہے اور بعض پاکستانی وہاں جا کر بھی اپنے ہم وطنوں کو مختلف بہانوں سے لوٹ رہے ہیں۔
مکہ و مدینہ کے حرمین شریفین میں گھٹنوں اور ٹانگوں کی تکلیف کی وجہ سے بے ساکھیاں، وہیل چیئرز اور ہاتھوں میں آسانی سے لے جائی جانے والی کرسیاں اپنی ذاتی لے جاتے ہیں جب کہ دونوں جگہ وقف حرم کی گئی اشیا بھی موجود ہیں جو تعداد میں کم اور ضرورت مند زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی ٹانگوں و گھٹنوں کی تکلیف میں آسانی سے چل نہیں پاتے جنھیں جعل ساز پاکستانی شکار کر رہے ہیں۔
مدینہ میں ہجوم کم ہونے کے باعث نماز فجر کے بعد واپسی میں جعل ساز معذوری سے چلنے والے کے پاس آ کر بتاتا ہے کہ میرے والد کو یہی تکلیف تھی اگر آپ عجوہ کھجور کے پاؤڈر میں یہاں خالص ملنے والی یہ تین چیزیں ڈلوا کر استعمال کر لیں تو ایک ماہ میں دوڑنے لگیں گے مگر یہ اشیا مہنگی مگر بے حد فائدہ مند ہیں، اگر آپ کہیں تو میں اپنا ہم وطن سمجھ کر کسی پنسار اسٹور سے دلا دیتا ہوں۔ تکلیف سے تنگ شخص جس کے پاس دوائیں خریدنے کی رقم موجود نہیں ہوتی وجہ بتاتا ہے تو جعل ساز کہتا ہے کوئی بات نہیں میں دلوا دیتا ہوں، مجھے ہوٹل آ کر جو بل کی رقم بنے دے دینا۔ اس طرح جعل ساز گاہک پھانس کر قریبی پنساری پر لے جاتا ہے اور دوائیں لے کر عجوہ پاؤڈر میں ملا کر طریقہ استعمال بتاتا ہے اور خود کو پنسار اسٹور والے سے اجنبی بن کر مہنگی دوائیں دلا کر ضرورت مند کے ہوٹل جا کر وہ رقم وصول کر لیتا ہے جو اس نے پنساری کو دی تھی۔
پنسار اسٹور والے نے بل رکھے ہوتے ہیں جن پر علاقے کا نام اور فون نمبر تک نہیں لکھا ہوتا صرف حکیم لکھا ہوتا ہے جو بعد میں آسانی سے تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ حکیم نے ایک ضرورت مند سے تین دواؤں کی رقم ایک ہزار ریال وصول کی۔ اس جعل سازی میں ہمارے اپنے پاکستانی جعل ساز ملوث ہیں جو سادہ لوح گاہکوں کو پھانستے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں اور نیا شکار تلاش کر لیتے ہیں۔ اس جعل سازی میں پکڑے جانے کا امکان کم ہوتا ہے، وہ دوسرے گیٹ پر شکار ڈھونڈ لیتا ہے۔
عمرے پر جانے والوں کی تربیت یا آگاہی فراہم کرنے کا ٹریول ایجنٹس صرف کتابچہ دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے عازمین کو خاصی مشکل پیش آتی ہے۔ ایک ٹریول ایجسنی والے نے مکہ و مدینہ کی زیارتوں کے لیے ایک عالم دین قاری رکھا ہے، باقی صرف داڑھی رکھ کر معلومات فراہم کرتے ہیں جو نماز کے لیے خود اندر نہیں جاتے اور اکثر کو تو سفر کی دعا بھی نہیں آتی۔ گروپ میں جانے والوں کو دعائیں اور معلومات کی فراہمی ضروری ہے جب کہ حج کی تربیت حکومت خود دیتی ہے تو حکومت کو ٹریول ایجنٹس پر عمرہ زائرین کی تربیت و معلومات کی رسائی کا پابند بنانا ضروری ہونا چاہیے۔