5 سال پرانی امپورٹڈ گاڑیوں پر پابندی ختم ہونے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
گزشتہ روز آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کے تحٹ ملنے والی تیسری قسط کے حصول کے لیے طویل مذاکرات ہوئے جس میں آئی ایم ایف کی جانب سے 11 شرائط رکھی گئی ہیں اور ان میں سے ایک شرط گاڑیوں کی امپورٹ پر لگی پابندی اٹھانے سے متعلق بھی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد پر تمام پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے مطلوبہ قانون سازی پارلیمنٹ میں جمع کرائے کیونکہ فی الحال صرف 3 سال تک پرانی گاڑیوں کو درآمد کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: کیا آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط سے عوام کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا؟
آئی ایم ایف نے کہا کہ ان پابندیوں کو ہٹانے کا مقصد تجارت کو آزاد کرنا اور گاڑیاں خریدنے کی سکت کو بڑھانا ہے۔ نئی شرائط عائد کرنے کے علاوہ آئی ایم ایف نے پہلے کی شرائط میں بھی ایڈجسٹمنٹ کی ہے، جس پر پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے دسمبر 2024 کے آخر تک 7 شرائط کے ساتھ کارکردگی کے معیار کو پورا کیا ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قانون سازی کے ذریعے جولائی کے آخر تک 5 سال تک کی گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ سے پابندی ختم کرنے کو کہا گیا ہے۔
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ اگر 5 سال تک پرانی گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ سے پابندی ہٹا دی جاتی ہے تو اس سے 5 سال پرانی جاپانی گاڑیاں کافی سستی ہوجائیں گی، یعنی جب ملک میں کم قیمت والی گاڑیاں آئیں گی تو عوام کو فائدہ ہوگا اور جب امپورٹ میں اضافہ ہوگا تو حکومت کو ڈیوٹیز اور ٹیکسز بھی زیادہ ملیں گے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اپنی گاڑی کب بنائے گا؟
ایچ ایم اکبر شہزاد نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو ٹیکسز، ریگولیٹری ڈیوٹی، سیل ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو کم کرنے کا بھی کہا گیا ہے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر آٹو سیکٹر پر مزید مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ایسا ہونا آٹو انڈسٹر کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان میں گاڑیوں کی امپورٹ میں اضافہ ہوگا تو یقیناً لوکل انڈسٹری بھی اپنے معیار اور کارکردگی کو بہتر کرنے کی کوشش کرے گی یعنی مقابلے کی فضا پیدا ہوگی۔
کار ڈیلر فاروق پٹیل کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ 5 سال تک گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ سے پابندی ہٹائے جانے سے سب سے زیادہ فائدہ عوام کو ہوگا کیونکہ ان کے لیے سستی اور اچھی گاڑیوں کی فراہمی ممکن ہوسکے گی، اس کے ساتھ ساتھ آٹو انڈسٹری کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ گاڑیوں کی قیمت میں مسلسل اضافے سے خرید و فروخت میں بہت حد تک کمی آچکی تھی۔
مزید پڑھیں: گاڑی خریدنے والوں کے لیے خوشخبری: آئندہ مالی سال گاڑیوں اور آٹو پارٹس کی قیمتوں میں کمی کا امکان
لیکن ان فوائد کے ساتھ ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق فاروق پٹیل کا کہنا تھا کہ جب جاپانی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہوگی تو اس سے لوکل اور پاکستان میں اسمبل گاڑیوں کی خرید و فروخت پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ باہر سے امپورٹ کی جانے والی گاڑیوں کے ریٹس کم ہوں گے اور ان پر ڈیوٹیز بھی کم ہوں گی جس سے لوگوں کی دلچسپی لوکل کے بجائے جاپانی گاڑیوں میں بڑھ جائے گی اور یوں پاکستان میں جاپانی گاڑیوں کی طلب اور رسد میں اضافے کی وجہ سے ملک سے ڈالرز ایک بار پھر تیزی سے پاکستان سے باہر جانا شروع ہوجائیں گے
فاروق پٹیل کا مزید کہنا تھا کہ عوام کو امپورٹڈ گاڑیاں کم قیمت میں تو مل جائیں گی مگر اس کے ساتھ پاکستان آٹو پارٹس انڈسٹری کے لیے یہ ایک اچھی خبر نہیں ہے اس لیے لوگوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ پاکستان میڈ گاڑی کی خریداری پر توجہ دیں تاکہ پاکستان کا آٹو سیکٹر بھی ہمسایہ ممالک کی طرح ترقی کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ئی ایم ایف کی جانب سے ا ئی ایم ایف گاڑیوں کی کے ساتھ عوام کو سال تک کے لیے
پڑھیں:
زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی
کراچی:زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی ریکارڈ کی گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق زرمبادلہ کے تسلسل سے بڑھتے سرکاری ذخائر 14 ارب 47کروڑ ڈالر سے متجاوز ہونے، عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی پی آئی اے کے 45ارب روپے ٹیکس واجبات کا تصفیہ کرنے، نئے طیاروں پر جی ایس ٹی معاف کرنے کی اجازت سے دسمبر تک قومی ایئر لائن کی نج کاری کی راہ ہموار ہونے اور جیو پولیٹیکل حالات میں بہتری کے باعث زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں جمعے کو بھی ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا رہا۔
وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب میں باہمی اقتصادی تعاون کے نئے فریم ورک، تجارت وسرمایہ کاری تعاون پر اتفاق، امریکا کے ساتھ باہمی تجارت بڑھنے اور آئی ایم ایف کی جانب سے دسمبر میں قرضوں کی اگلی قسط منظور ہونے کی توقعات کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے تمام دورانیے میں ڈالر تنزلی سے دوچار رہا۔
کاروبار کے دوران ایک موقع پر ڈالر کی قدر 17پیسے کی کمی سے 280روپے 75پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ کے سبب کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قدر صرف ایک پیسے کی کمی سے 280روپے 91پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔
اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر ایک پیسے کی کمی سے 281روپے 95پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔