امپورٹڈ گاڑیوں، کاسمیٹکس سمیت 6980اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ٹیکسز میں کمی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
امپورٹڈ گاڑیوں، کاسمیٹکس سمیت 6980اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ٹیکسز میں کمی WhatsAppFacebookTwitter 0 3 July, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)حکومت نے نئے بجٹ میں گاڑیوں درآمدی دودھ، دہی سمیت 6980اشیا پر ڈیوٹی اور ٹیکس میں کمی کردی، نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق امپورٹڈ جیپوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی 15سے کم کر کے 10 فیصد کردی گئی ہے جبکہ نئی امپورٹڈ اسپورٹس گاڑیوں پر ڈیوٹی بھی 5 فیصد کمی کے بعد 10 فیصد مقرر کی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ امپورٹڈ نئی اسپورٹس جیپوں پر ڈیوٹی 90 سے کم کرکے 50 فیصد مقرر کردی گئی ہے، نئے بجٹ میں لگژری شپس، کروز اور بوٹس پر ڈیوٹی 5 فیصد کردی گئی۔رپورٹ کے مطابق امپورٹڈ برانڈڈ سن گلاسز پر ڈیوٹی 30 سے کم کرکے 24 فیصد، امپورٹڈ کاسمیٹکس پر ڈیوٹی 50 فیصد سے کم کرکے 40 فیصد، امپورٹڈ واش بیسن پر ڈیوٹی 30 فیصد سے کم کرکے 24 فیصد کردی گئی۔نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ امپورٹڈ باتھ ٹب پر ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کرکے 16 فیصد، امپورٹڈ باتھ واشنگ ٹینک پر ڈیوٹی 30 سے کم کرکے 24 فیصد، امپورٹڈ میز پوش اور نیٹ ویئر پر ڈیوٹی 30 فیصد سے کم کرکے 24 فیصد مقرر کی گئی ہے۔حکومت نے نئے مالی سال کیلئے امپورٹڈ آرٹیفیشل جیولری پر ڈیوٹی 40 فیصد سے کم کرکے 36 فیصد، امپورٹڈ پرفیوم پر ڈیوٹی 50 فیصد کے بجائے اب 40 فیصد اور امپورٹڈ برانڈڈ گھڑیوں پر ڈیوٹی 30 سے کم کرکے 24 فیصد کردی گئی۔
رپورٹ کے مطابق موبائل فون سم کارڈز پر ریگولیٹری ڈیوٹی 15 سے 12 فیصد کردی گئی، مرغی اور مچھلیوں پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی بھی 5 فیصد کردی گئی، پرندوں کے انڈوں پر عائد ڈیوٹی 15 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد ہوگئی، کتے، بلی اور پالتو جانوروں کے کھانوں پر ڈیوٹی 5 فیصد کم کرکے 40 فیصد کردی گئی۔فنانس بل کے تحت تمباکو پر عائد ڈیوٹی 40 فیصد تک کم کردی گئی، کھجور، ناریل، برازیلی میوے اور کاجو پر ڈیوٹی میں 16 فیصد تک کمی، انجیر، انناس، ایواکاڈو، امرود اور آم پر ڈیوٹی میں 20 فیصد تک کمی کردی گئی، پپیتا اور سیب پر ڈیوٹی 45 فیصد سے کم کرکے 36 فیصد کر دی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق گری دار میووں پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی میں 4 فیصد کمی کی گئی، فروزن مچھلی پر عائد ڈیوٹی نصف کرکے 17.
نوٹیفکیشن کے مطابق شیونگ کریم، آفٹر شیو لوشن اور کریم پر ڈیوٹی 50 سے کم کرکے 40 فیصد، فیس واش، صابن اور دیگر خام مال پر ڈیوٹی بھی کم کرکے 40 فیصد، صنعتی شعبے کے خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق امپورٹڈ دودھ ، پاوڈر ملک اور دہی پر ڈیوٹی اب 20 فیصد ہوگی، امپورٹڈ کواڈ فش، مچھلی پرریگولیٹری ڈیوٹی کم کرکے 5 فیصد، امپورٹڈ ملک کریم، مکھن اور ملک فیٹس پر ڈیوٹی 20 فیصد، امپورٹڈ پنیر پر ڈیوٹی کم کرکے 40 فیصد اور شہد پر 24 فیصد جبکہ ڈبے میں بند امپورٹڈ سبزیوں پر عائد ڈیوٹی کم کرکے 5 فیصد کردی گئی۔نوٹیفکیشن کے مطابق نئے مالی سالی میں امپورٹڈ خشک کیلوں پر ڈیوٹی کم کرکے 10 فیصد، امپورٹڈ تازہ آڑو پر ڈیوٹی کم کرکے 36 فیصد، امپورٹڈ گندم کے آٹے اور میدے پر بھی ڈیوٹی کمی کے بعد 20 فیصد ہوگئی، امپورٹڈ مکئی پر عائد ڈیوٹی بھی 20 فیصد کردی گئی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد میں موٹرسائیکل سواروں کے لیے ڈبل ہیلمٹ لازمی قرار ایسا لگتا ہے فوجداری نظام انصاف طاقتور اور بااثر افراد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتا ہے، سپریم کورٹ باجوڑ دھماکےسے متعلق سی ٹی ڈی کی ابتدائی رپورٹ تیار،7مبینہ دہشت گردوں کی نشادہی ہوگئی چین کے مفادات کی قیمت پر کسی بھی تجارتی معاہدے کے خلاف جوابی اقدامات اٹھائے جائیں گے، چینی وزارت تجارت دوسری چین وسطی ایشیاء سمٹ سے شی جن پھنگ کے اہم خطاب کا سنگل ایڈیشن شائع جی ایچ کیو حملہ اور سانحہ 9 مئی کے مقدمات کی سماعت آج پھر ملتوی وزیراعظم شہباز شریف 2 روزہ دورے پر آذربائیجان روانہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پر ریگولیٹری ڈیوٹی سے کم کرکے 24 فیصد فیصد سے کم کرکے رپورٹ کے مطابق کم کرکے 40 فیصد پر عائد ڈیوٹی فیصد کردی گئی ڈیوٹی کم کرکے پر ڈیوٹی 30 ڈیوٹی میں ڈیوٹی بھی پر ڈیوٹی 5 کی گئی ہے
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا پنشن سے متعلق بڑا اقدام، سرکاری ملازمین کے لیے نئی اسکیم لاگو کردی
وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم لاگوکردی جس کے لیے پنشن میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے نئے کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم رولز نافذ کردیے جن کے تحت وفاقی ملازمین کو اپنی پنشن کے لیے تنخواہ کا 10 فیصد حصہ جمع کرانا ہوگا تاکہ وہ قومی خزانے سے 12 فیصد وصول کرنے کے لیے اہل بن سکیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ عمل نئے متعارف کرائے گئے ’کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم‘ کے تحت ہوگا، یوں کل مشترکہ حصہ 22 فیصد ہوگا جو نئے شامل ہونے والے ملازمین کے لیے پرانے پنشن نظام کی جگہ لے گا۔
اس حوالے سے وزارتِ خزانہ کے ریگولیشن ڈیپارٹمنٹ نے فیڈرل گورنمنٹ ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن (ایف جی ڈی سی) پنشن فنڈ اسکیم رولز 2024 جاری کر دیے ہیں جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت بنائے گئے ہیں۔
یہ اسکیم والنٹری پنشن سسٹم رولز 2005 اور نان بینکنگ فنانس کمپنیز اینڈ نوٹیفائیڈ اینٹیٹیز ریگولیشنز 2008 کے مطابق ریگولیٹ کی جائے گی۔
یہ قواعد اگست 2024 کے اْس حکم نامے کی جگہ لیں گے جس میں حکومت کا حصہ 20 فیصد مقرر کیا گیا تھا، 20 اگست 2024 کو وزارتِ خزانہ نے پہلی بار سول حکومت اور مسلح افواج کے نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔
اْس وقت ملازمین کو اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد جمع کرانا تھا جبکہ حکومت 20 فیصد حصہ ڈالنے کی پابند تھی نئی اسکیم کا اطلاق اْن سول ملازمین پر ہوگا جو یکم جولائی 2024 یا اس کے بعد بھرتی ہوئے ہوں گے جن میں سول ڈیفنس کے ملازمین بھی شامل ہیں جبکہ مسلح افواج کے اہلکاروں پر یہ یکم جولائی 2025 سے نافذ ہوگا (جس کا نفاذ ابھی زیرِ التوا ہے)۔
حکومت نے 25-2024 کے بجٹ میں اس پنشن فنڈ کے لیے 10 ارب روپے اور 26-2025 کے لیے 4 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں تاکہ اس نئے نظام کو سپورٹ فراہم کی جا سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اورعالمی بینک کی سفارش پر متعارف کرائی گئی ہے تاکہ بڑھتے ہوئے پنشن کے مالی بوجھ پر قابو پایا جا سکے جسے حکومت نے ایک سنگین مالی خطرہ قرار دیا ہے۔
یہ نظام موجودہ ملازمین پر نافذ نہیں ہوگا بلکہ مستقبل میں پنشن کے اخراجات کی رفتار کم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کا پنشن خرچ 25-2024 میں 10 کھرب 5 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے، جو 24-2023 کے 821 ارب روپے سے تقریباً 29 فیصد زیادہ ہے۔
مسلح افواج کے پنشن واجبات 26-2025 میں 742 ارب روپے تک پہنچنے کا اندازہ ہے جو 24-2023 کے 563 ارب روپے میں 32 فیصد اضافہ ہے۔
سول ملازمین کے پنشن اخراجات موجودہ مالی سال کے لیے 243 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے 228 ارب روپے سے 6.6 فیصد زیادہ ہیں، اس سے اصلاحات کے باعث کچھ بچت ظاہر ہوتی ہے نئے قواعد کے تحت صرف مجاز پنشن فنڈ منیجرز ہی اس فنڈ کو چلائیں گے۔
حکومت، بطور آجر ملازم کی پنشن کے قابلِ حساب تنخواہ کا 12 فیصد حصہ اکاوٴنٹنٹ جنرل کے دفتر کے ذریعے جمع کرائے گی جو ریکارڈ رکھنے اور فنڈز کی منتقلی کی نگرانی بھی کرے گا۔
اکاوٴنٹنٹ جنرل پنشن اکاوٴنٹس کی تفصیلات کی تصدیق کرے گا اور تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے ملازم اور آجر دونوں کے حصے ’ایمپلائر پنشن فنڈ‘ میں منتقل کرے گا۔
ملازمین اپنی تنخواہ سے 10 فیصد حصہ خود جمع کرائیں گے، ملازمین ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنی پنشن رقم نہیں نکال سکیں گے۔
ریٹائرمنٹ پر وہ زیادہ سے زیادہ 25 فیصد رقم نکال سکتے ہیں جبکہ باقی رقم کو والنٹری پنشن سسٹم رولز 2002 کے تحت کم از کم 20 سال یا 80 سال کی عمر تک سرمایہ کاری میں رکھا جائے گا جو بھی پہلے آئے۔
ملازمین کی سیلری سلپ میں تفصیلی معلومات شامل ہوں گی جن میں ملازم کا حصہ، آجر کا حصہ اور کل جمع شدہ رقم کی تفصیل درج ہوگی جبکہ وزارتِ خزانہ حکومت کے حصے کے لیے سالانہ بجٹ الاٹ کرے گی اور ایسے پنشن فنڈ منیجرز سے معاہدے کرے گی جو الیکٹرانک ٹرانسفر سسٹم کو سپورٹ کرتے ہوں۔
ان معاہدوں میں وفات یا معذوری کی صورت میں انشورنس کوریج بھی لازمی ہوگی جو فنڈ منیجرز کے ذریعے فراہم کی جائے گی، نظام کے نفاذ اور نگرانی کے لیے وزارتِ خزانہ ایک نان بینکنگ فنانس کمپنی (این بی ایف سی) قائم کرے گی، جو باضابطہ قیام تک عبوری طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دے گی ریٹائرمنٹ، برطرفی، استعفے یا قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی صورت میں ملازم کی پنشن کی رقم کا تعین حکومت کے جاری کردہ قواعد کے مطابق کیا جائے گا۔
یہ نئی پنشن فنڈ اسکیم روایتی مقررہ فائدے (ڈیفائنڈ بینیفٹ) نظام سے ایک بڑے مقررہ شراکتی (ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن) ماڈل کی طرف ایک اہم تبدیلی ہے، جس کا مقصد مالیاتی پائیداری کو بہتر بنانا اور مستقبل کے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد تحفظ فراہم کرنا ہے۔