حال ہی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی نے جہاں خطے میں سیاسی بے چینی کو جنم دیا، وہیں عالمی ہوا بازی کے نظام کو بھی شدید متاثر کیا۔
اس کشیدہ صورت حال میں دونوں ممالک نے اپنی فضائی حدود میں غیر معمولی پابندیاں نافذ کیں، جس کے باعث سینکڑوں بین الاقوامی پروازیں یا تو منسوخ ہوئیں یا طویل متبادل راستوں پر چلائی گئیں۔
اس صورت حال میں جہاں فوجی ادارے متحرک نظر آئے، وہیں ایک ایسا ذمہ دار مستعد طبقہ بھی دن رات اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا، جس کا ذکر میڈیا یا سرکاری حلقوں میں شاذونادر ہی ہوتا ہے— اور یہ خاموش مرد مجاہد پاکستان کے ایئر ٹریفک کنٹرولرز (ATCs) ہیں۔ جن کو کم لوگ جانتے ہیں۔
یہ وہ ماہرین ہیں جنہوں نے ایک انتہائی دباؤ بھرے ماحول میں پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کی فضائی حدود کو محفوظ رکھا، بلکہ بین الاقوامی پروازوں کو بغیر کسی بڑے حادثے کے محفوظ راستہ فراہم کیا۔خاموشی سے۔
یاد رہے کہ جنگی حالات میں پاکستان کے ایئر ٹریفک کنٹرولرز کو کئی چیلنجز کا سامنا رہا، جن میں بین الاقوامی پروازوں کے رخ موڑنے سے فضائی ٹریفک میں بے پناہ اضافہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطہ اور فضائی ہم آہنگی فضائی حدود کی بندش اور بحالی کو حادثات سے محفوظ رکھنا اور سب سے بڑھ کے عسکری قیادت کے ساتھ بہترین ھم آہنگی (coordination)
ان تمام ذمہ داریوں کے باوجود یہ ماہرین پردے کے پیچھے کام کرتے رہے، نہ کوئی میڈیا کوریج، نہ کوئی حکومتی اعتراف۔ عالمی سطح پر اثرات، مگر مقامی سطح پر خاموشی___
انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے تحت کام کرنے والے تقریباً 375 ایئر ٹریفک کنٹرولرز نے نہایت مہارت سے ملکی سول ایئرپورٹس اور 150 سے زائد فوجی ہوائی اڈوں کا فضائی نظام کے ساتھ بہترین coordination کرتے رہے۔
کیو نکہ ایسے حالات میں ان کا کام صرف ارمڈ فورسز کے ساتھ coordination ہو تا ہے۔ جدید ریڈار سسٹمز جیسے Indra Aircon 2100 سے لیس ایریا کنٹرول سنٹرز میں بیٹھے یہ افراد ہر لمحہ جہازوں کی رہنمائی اور سلامتی کے ضامن رہے۔
مگر افسوس! نہ وزیرِ اعظم نے ان کا ذکر کیا، نہ وزیرِ دفاع نے، اور نہ ہی کسی حکومتی اعلامیے میں ان کی خدمات کا اعتراف ہوا
عام شہری شاید اس بات سے ناواقف ہوں کہ ایئر ٹریفک کنٹرولرز کیا کرتے ہیں۔
یہ ماہرین ہر پرواز کو لینڈنگ، ٹیک آف اور فضا میں محفوظ رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ بیک وقت کئی طیاروں پر نظر رکھتے ہوئے تصادم سے بچاؤ کو یقینی بناتے ہیں۔
فوج، ایئرلائنز، ایئرپورٹس اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی کرتے ہیں۔ ان کی ایک غلطی سینکڑوں جانوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، لہٰذا یہ ذمہ داری اعلیٰ ترین تربیت، صبر اور فیصلہ سازی کی متقاضی ہوتی ہے۔
اعتراف کیوں ضروری ہے؟یہ وہ خاموش مجاہد ہیں جو نہ تنقید کرتے ہیں، نہ توجہ مانگتے ہیں۔ مگر بطور قوم، ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے کردار کو تسلیم کریں، ان کی خدمات کو سراہیں، اور انہیں وہ مقام دیں جس کے وہ حقدار ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ان گمنام ہیروز کی طرف توجہ دیی جائے۔ پاکستان کے ایئر ٹریفک کنٹرولرز نے نہ صرف جنگی حالات میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں، بلکہ عالمی ہوابازی کے نظام میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کیا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایئر ٹریفک کنٹرولرز بین الاقوامی پاکستان کے کرتے ہیں کے ساتھ
پڑھیں:
ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔ تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔