دہشت گردی اور اسمگلنگ کا خاتمہ ضروری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
وفاقی کابینہ نے معرکہ حق، آپریشن بنیان مرصوص کی اعلیٰ حکمت عملی اور دلیرانہ قیادت کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے اور دشمن کو شکست دینے پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر (نشان امتیاز ملٹری) کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دے دی۔
ادھر پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کا رابطہ ہوا ہے، جس میں افواج کو فرنٹ لائن سے ہٹانے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ ادھر بدھ کے روز بلوچستان کے شہر خضدار میں بچوں کو اسکول لے جانے والی ایک بس پر خودکش حملے کے نتیجے میں 3 بچوں سمیت 5 افراد شہید اور 38 شدید زخمی ہوگئے۔
بلاشبہ آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کا کریڈٹ سپہ سالار حافظ سید عاصم منیر کو جاتا ہے، ان کی جدید جنگی حکمت عملی کے سبب بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، لٰہذا ان کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی کو سراہا گیا ہے۔
ان کا اہم قومی امور کے حل میں انتہائی کلیدی کردار رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ملک کی معیشت کی مضبوطی، خارجہ امور، دہشت گردی کے خاتمے، مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ سمیت اہم ترین مسائل کے حل میں وفاقی حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے۔ دوسری جانب پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطے کے نتیجے میں افواج کو فرنٹ لائن سے ہٹانے پر اتفاق ہونا خوش آیند امر ہے،کیونکہ امن کا راستہ اختیار کرنے میں دونوں ممالک کے عوام کی بھلائی پوشیدہ ہے۔
بلوچستان کے شہر خضدار میں دہشت گردوں کا اسکول کے معصوم طلبہ پر حملہ کرنا انسانیت سے گرا ہوا فعل ہے، ان درندہ صفت عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ دہشت گردوں نے پاکستان کے مختلف حصوں کو بارہا نشانہ بنایا ہے۔ چاہے وہ مساجد ہوں، تعلیمی ادارے، بازار، فوجی تنصیبات یا عام شہری، دہشت گردوں کے حملوں نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔ دہشت گردی محض ایک داخلی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیرونی عوامل بھی کارفرما ہیں۔
بعض عالمی طاقتیں اور ہمسایہ ممالک پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں، اور انھوں نے بعض علیحدگی پسند اور شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی کر کے پاکستان میں عدم استحکام کو فروغ دیا ہے۔ ان گروہوں کو مالی، فکری اور عسکری معاونت فراہم کی جاتی رہی ہے، جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انٹیلجنس بیسڈ آپریشنز کیے جارہے ہیں، دہشت گرد سرحد پار چلے جاتے ہیں مگر افغانستان کا ان دہشت گردوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے یا وہ کنٹرول کرنا نہیں چاہتا۔ بلوچستان میں اکثر بسوں میں اسلحہ بردار نقاب پوش داخل ہوتے ہیں۔ بس میں سوار مسافروں کا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور جن کا شناختی کارڈ پنجاب کا ہو، انھیں قتل کردیتے ہیں جب کہ باقی مسافروں کو بس سمیت آگے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے بعد ازاں ان افراد کی لاشیں ملتی ہیں۔
اب خضدار میں اسکول کے طلبہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ۔ میڈیا، سیاستدان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اگرچہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کے مسئلے پر بہت بات کرتی ہیں۔
اس پر دھرنے، لانگ مارچ اور مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں جس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن بلوچستان میں دہشت گرد جو ظلم کررہے ہیں،ان کے بہیمانہ قتل و غارت پر سول سوسائٹی اور اہل علم کا رردعمل خاصا کمزور نظر آتا ہے۔ بلوچستان میںدہشت گردوں نے متعدد بے قصور ڈاکٹرز، پروفیسرز، اساتذہ، کاروباری افراد اور محنت کشوں کو قتل کیاہے،اب اسکول کے بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے، اس ظلم کو ظلم کہتے ہوئے کسی کو ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
افغانستان مسلسل دوہری پالیسی پر عمل پیرا ہے ، افغانستان کی کسی حکومت نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گینگز کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کی ہے ۔ پاکستان میں ایک مخصوص لابی دہائیوں سے پاکستان کے مفادات کے برعکس افغانستان کے مخصوص گروہوں کے ساتھ ہم آہنگ چلی آرہی ہے۔پاکستان نے جب بھی افغانستان کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے کی تیاری کی تو اس لابی نے پاکستان کے سسٹم کو دباؤ میں لاکر کچھ نہیں کرنے دیا۔
کوئی ان سے پوچھے کہ کیا افغان سیاسی عمائدین اور ان کا کاروباری طبقہ بھی پاکستان کے حق میں ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے بھارت اور افغانستان دونوں برابر ہیں۔ درحقیقت دہشت گردی کو ایک مناسب ڈھانچے میں تبدیل کردیا گیا ہے، بشمول منشیات جو یہاں تیار نہیں کی جاتی ہیں وہ افغانستان سے آتی ہیں۔ ہنڈی/ حوالہ کا نظام پاکستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے قائم ہے۔
یہ اتنے لمبے عرصے سے دہشت گردی کی مالی معاونت سمیت ہر طرح کے کالے دھن کو لانڈرنگ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ یہ بہت سے جائز کاروباروں میں کامیاب رہتا ہے اور ہمارے لوگوں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے۔
جرائم کی زیادہ تر آمدنی غیر قانونی ذرائع سے ہوتی ہے، یعنی بدعنوانی، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی جوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں۔ طویل عرصے بعد لگا تار دہشت گردی کی کارروائیوں نے واضح کر دیا ہے کہ مبہم اور نیم دلانہ پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا، ساتھ ہی بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسے بہت سے سوال موجود ہیں جن کا جواب دوعملی کا چولا اتار کر سیاسی اور تزویراتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر تلاش کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں اسمگلنگ اور بلیک منی ایک اہم مسئلہ ہے، اور اس کا ملکی معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ اس پر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں موجود بدعنوان اور جرائم پیشہ عناصر طرح طرح سے ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں تیزی سے مصروف عمل ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اسمگلنگ ہے، اگرچہ معیشت کی تباہی میں اپنے حجم کے اعتبار سے اس کا حصہ دیگر بد اعمالیوں کے مقابلے میں کم نظر آتا ہے، لیکن اس کے اثرات کثیر الجہتی ہیں۔ اس سے ایک جانب قومی خزانے کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو دوسری جانب بہت سی صنعتیں اور کاروبار اس کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں یا ہو رہے ہیں۔
جہاں دہشت گردی نے ملک کی سلامتی کو نشانہ بنایا، وہیں اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر سال اربوں روپے کا ٹیکس چوری ہو جاتا ہے کیونکہ اسمگلنگ شدہ اشیاء قانونی راستوں سے ملک میں داخل نہیں ہوتیں، جس کے باعث حکومت کی آمدنی کم ہوتی ہے۔ یہ آمدنی وہی ہے جس سے صحت، تعلیم، سڑکوں اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے بجٹ مختص ہوتا ہے۔ جب ریاست کے مالی وسائل کم ہوں گے تو عوامی خدمات بھی متاثر ہوں گی، اور یوں ایک عام شہری ہی اس کا سب سے بڑا متاثر بنتا ہے۔
اسمگلنگ کی وجہ سے ملک کی مقامی صنعتیں بھی شدید متاثر ہوتی ہیں۔ جب اسمگل شدہ سستی اشیاء بازار میں دستیاب ہوتی ہیں تو مقامی کارخانے اور کاروباری افراد ان کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً کارخانے بند ہو جاتے ہیں، بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، اور معاشی بدحالی جنم لیتی ہے۔ اس کے علاوہ اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم غیرقانونی سرگرمیوں میں استعمال ہوتی ہے، جن میں منشیات کی خرید و فروخت، غیرقانونی ہتھیاروں کی ترسیل، اور بعض اوقات دہشت گردی کی فنڈنگ بھی شامل ہوتی ہے۔ دہشت گردی اور اسمگلنگ کے پیچھے بعض اوقات وہی عناصر ہوتے ہیں جو ریاستی نظام میں شامل ہو کر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ یہ ریاستی نظام کی کمزوری اور بدعنوانی کا ثبوت ہے، جو ان مسائل کو مزید سنگین بناتا ہے۔
اداروں کے مابین بہتر رابطہ کاری کی بھی ضرورت ہے۔ ادارہ جاتی اصلاحات اور انفورسمنٹ کے نظام کو جدید بنانا ناگزیر ہے تاکہ پاکستان معاشی لحاظ سے ایک پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اور صرف ہماری ہے، ملک اور نسل کی بقا کی جنگ، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
دانش مندانہ اور فلسفیانہ موشگافیوں سے نکل کر حقیقت سے آنکھیں چار کرنی ہوں گی۔ نظام میں اصلاحات کا کام سویلین حکومت اور پارلیمنٹ کا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ مصلحتوں کا بالائے طاق رکھ کر بلوچستان میں دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور آپریشن کرکے بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنایا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بلوچستان میں نشانہ بنایا پاکستان کے ہوتی ہے اور اس کیا ہے ملک کی گیا ہے
پڑھیں:
دوحہ کا وعدہ اور خوارج کی تلوار
تاریخ کے اوراق پر اگر کسی قوم نے خلوصِ نیت کے ساتھ امن کا پرچم بلند کیا تو وہ پاکستان ہے۔ وہ پاکستان جو خود خاک و خون کی نہروں سے گزرا، اپنے ہزاروں سپوتوں کی قربانی دے کر بھی اس خطے میں امن کی شمع جلانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ مگر افسوس! ہمارے خلوص کو ہماری کمزوری سمجھا گیا، ہمارے صبر کو بے بسی گردانا گیا، اور ہمارے دروازوں پر پھر سے وہی ناسور دستک دے رہا ہے جسے ہم نے خون جگر دے کر نکالا تھا۔افغان سرزمین جس پر ایک عشرہ قبل پوری دنیا نے خون کی ہولی کھیلی، اب دوبارہ اس سازشی بساط کا مرکز بنتی جا رہی ہے۔ دوحہ معاہدے کا جو خواب افغان طالبان نے دنیا کو دکھایا تھا وہ خواب اب مٹی میں رل رہا ہے۔ معاہدے کی شقیں جو دنیا کے سامنے دہرا کر امید دلائی گئی تھی کہ افغان سرزمین کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی وہ صرف لفظوں کی بازی گری ثابت ہوئی۔آج جب ہم شمالی و جنوبی وزیرستان، بنوں، ڈی آئی خان اور بلوچستان کے پہاڑوں میں بارود کی بو محسوس کرتے ہیں، جب مسجدوں میں سجدے کرنے والے نمازی شہید کیے جاتے ہیں جب بچوں کی اسکول وینیں دہشت کی لپیٹ میں آتی ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف دہشت گردی نہیں یہ منظم نیٹ ورکس کی کارستانی ہے۔ شمالی وزیرستان کی دھرتی پر 13 جانبازوں کی شہادت اور باجوڑ کی سرزمین پر اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی کو نشانہ بنانے والا بہیمانہ حملہ اس پورے سازشی جال کا پردہ چاک کر رہا ہے جس کی ڈوریاں کابل کے اندھیروں میں ہلائی جا رہی ہیں اور یہ نیٹ ورکس کہاں سے کنٹرول ہو رہے ہیں؟
یہ سوال اب سوال نہیں رہا حقیقت ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہ بالخصوص فتنہ خوارج یعنی تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) ہر حملے کے بعد افغان حدود میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔یہ کیسا اسلامی اخوت کا دعوی ہے؟ ایک جانب ہم ان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں ان کے سفارتی دفاتر کھولتے ہیں، ان کے عوام کو ریلیف مہیا کرتے ہیں اور دوسری جانب ان کی سرزمین سے وہ درندے ہمارے بے گناہ شہریوں پر حملے کرتے ہیں جنہیں ہم نے ہزاروں قربانیوں کے بعد نکالا تھا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ افغان حکومت یا تو بے بس ہے یا باقاعدہ سرپرستی کر رہی ہے۔ بلوچستان کے ضلع بولان میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس جو کوئٹہ سے راولپنڈی جا رہی تھی اچانک بم دھماکے کا نشانہ بنی۔ دھماکہ اس وقت کیا گیا جب مسافر غفلت کی نیند میں تھے، مائیں اپنے بچوں کو سلانے میں مصروف تھیں اور بزرگ اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔ فتنہ خوارج اور فتنہ ہند کی بزدلانہ کارستانی نے درجنوں شہریوں کو شہید کر دیا۔ یہ حملے نہ صرف انسانی المیہ تھا بلکہ بین الاقوامی قانون، دوحہ معاہدے اور اسلامی اخوت کے چہرے پر طمانچہ تھا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد نیٹ ورکس کا یہ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے مطابق جعفر ایکسپریس پر حملے کے ماسٹر مائنڈز افغانستان میں موجود ہیں جنہیں ٹی ٹی پی کی چھتری تلے تحفظ حاصل ہے اور جنہیں بھارتی تربیت اسلحہ اور مالی مدد حاصل ہے۔ افغان حکومت اگر واقعی خودمختار ہے اگر واقعی ان کے فیصلے کابل میں ہوتے ہیں نہ کہ قندھار کے عقبی کمروں میں تو پھر وہ کھلے الفاظ میں اعلان کرے کہ ٹی ٹی پی ان کی سرزمین پر کیوں موجود ہے؟ ان کے اسلحہ خانوں تک کیسے رسائی ہے؟ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ وہاں کس حیثیت میں آپریٹ کر رہی ہے؟ اور یہ کیوں کر ممکن ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوں اور ان کے تانے بانے سیدھے افغانستان سے جا ملیں؟دنیا کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دو دہائیوں تک مسلسل جنگ لڑی ہے۔ ضربِ عضب، ردالفساد، اور ان گنت خفیہ آپریشنز میں ہمارے جوانوں کا لہو بہا ہے۔
ہمارے بچوں نے یتیمی کا درد سہا ہے، ماں نے سروں پر دوپٹے باندھ کر اپنے بیٹوں کو کفن پہنایا ہے۔ ہم نے کبھی دہشت گردی کو جنم نہیں دیا لیکن جب دہشت آئی ہم نے اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی لغت میں سرینڈر کا لفظ ہی نہیں، ہم لڑے، مرے مگر جھکے نہیں۔اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا خاموشی کے بت کو توڑے اور افغان حکومت سے کھل کر پوچھے کہ وہ دوحہ معاہدے کے کس حصے پر قائم ہے؟ کیا بین الاقوامی برادری کے سامنے کیا گیا وعدہ کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی صرف ایک وقتی چال تھی؟ یا اب وہ اس وعدے کی لاش کو دفنا چکے ہیں؟پاکستان بار بار امن کی بات کرتا ہے۔ ہم نے بھارت سے بھی کہا کہ آئیے کشمیر، پانی اور دہشت گردی جیسے مسائل پر کھل کر بات کریں لیکن برابری کی سطح پر۔ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کو بھی تیار ہیں بشرطیکہ وہ اپنے عزائم ترک کرے ’’را‘‘کی سرگرمیوں کو بند کرے اور دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی سے باز رہے۔یہ وقت ہے افغان قیادت کے امتحان کا۔ یا تو وہ دنیا کے سامنے اپنے وعدے پورے کرے یا یہ تسلیم کرے کہ اس کی سرزمین اب بھی عالمی دہشتگردی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ اگر افغان طالبان واقعی اسلامی حکومت کے دعوے دار ہیں تو وہ خوارج کے خلاف تلوار اٹھائیں اور ان عناصر کو بے نقاب کریں جنہوں نے افغانستان کی زمین کو بھارت کے اڈے میں تبدیل کر رکھا ہے۔دنیا سے ہمارا مطالبہ واضح ہیکہ پاکستانی پاسپورٹ، قربانیوں اور عزم کا احترام کیا جائے۔ ہم کوئی کرائے کی فوج نہیں ہم اس خطے کے اصلی محافظ ہیں۔ اور اگر دشمن نے ہمیں کمزور سمجھا ہے تو وہ پاکستان کے ماضی سے واقف نہیں۔ کیا دنیا نے آپریشن بنیان المرصوص میں پاکستان کے وار نہیں دیکھے ؟ کیا بھارت کی ٹھکائی افغان طالبان نظر انداز کر سکتے ہیں ؟ یہاں ہر مٹی کا ذرہ شہید کے لہو سے رنگا ہے اور ہر بچہ اپنے سینے پر کلمہ لکھوا کر پیدا ہوتا ہے۔اگر افغان حکومت نے اب بھی ہوش نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب ان کی اپنی سرزمین بھی ان فتنوں کی آگ میں جھلس جائے گی۔ جو خنجر آج وزیرستان میں لہرا رہا ہے وہ کل کابل کے دروازے پر بھی رقص کر سکتا ہے۔