سائنس دانوں نے اندھیرے میں دیکھنے والے لینس بنا لیے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
سائنس دانوں نے ایسے کانٹیکٹ لینسز بنائے ہیں جن کو پہن کر صارفین انفرا ریڈ ویژن کا استعمال کرتے ہوئے اندھیرے میں بھی دیکھ سکیں گے۔ یہ ایجاد ایمرجنسی اور ریسکیو آپریشنز کو جدت بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جرنل سیل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق روایتی نائٹ ویژن عینکوں کے برعکس ان لینسز کو توانائی کے حصول کے لیے کوئی ذریعہ درکار نہیں ہوتا اور اس کو پہننے والوں میں بیک وقت انفرا ریڈ اور قابلِ دید روشنی دیکھنے کی صلاحیت آ جاتی ہے۔
چین کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سینئر مصنف ٹیان شو کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق پہننے کے لیے ایسی غیر تکلیف دہ ڈیوائسز کا راستہ کھولتی ہے تاکہ انسانوں کو بہترین نگاہ دی جا سکے۔
یہ لینس باریک نینو پارٹیکلز استعمال کرتا ہے جو انفرا ریڈ روشنی کو جذب کر کے ایسی ویو لینتھ میں بدلتے ہیں جن کو انسان کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔
یہ ذرات خاص طور پر نیئر-انفرا ریڈ لائٹ کی شناخت کرتے ہیں جن کی ویو لینتھ 800 سے 1600 نینو میٹرز کے درمیان ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انفرا ریڈ
پڑھیں:
مریخ پر زندگی کی تلاش: ناسا کے تازہ ترین انکشافات کی کہانی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنس کی دنیا میں مریخ پر زندگی کے امکان پر ہونے والی بحث نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ ناسا کے حالیہ تحقیقی نتائج نے سرخ سیارے کے بارے میں کئی دیرینہ سوالات کے جواب دیے ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے سائنسدان ڈاکٹر ایڈون کائٹ کی قیادت میں کی گئی اس تحقیق نے مریخ کے ماضی اور موجودہ حالات کے بارے میں اہم انکشافات کیے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مریخ نے اپنے ارتقائی سفر میں مختصر مدتی نمی کے دورانیے ضرور دیکھے ہیں، لیکن یہ سیارہ بنیادی طور پر ایک خشک اور زندگی کےلیے بنجر دنیا رہا ہے۔ ڈاکٹر کائٹ کے مطابق ’’مریخ پر پانی کے وجود کے ثبوت تو موجود ہیں، لیکن یہ کبھی بھی زمین جیسا مستقل اور پائیدار آبی ماحول نہیں رہا‘‘۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں مریخ کی چٹانوں کے نمونوں اور زمینی ماڈلز کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق مریخ پر پانی کے بہاؤ کے شواہد ضرور ملتے ہیں، لیکن یہ واقعات وقتی اور مقامی نوعیت کے تھے۔ ڈاکٹر کائٹ اس کا موازنہ صحرا میں کسی نخلستان سے کرتے ہیں جو ایک محدود اور عارضی کیفیت ہوتی ہے۔
زمین اور مریخ کے ماحولیاتی نظاموں میں بنیادی فرق کو واضح کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ جہاں زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا توازن برقرار رہتا ہے، وہیں مریخ پر یہ نظام کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکا۔ مریخ کے آتش فشانی نظام کے کمزور ہونے سے یہاں کا درجہ حرارت ہمیشہ کم رہا، جس کے نتیجے میں پانی طویل عرصے تک سطح پر موجود نہ رہ سکا۔
حالیہ برسوں میں ناسا کے کیوروسٹی روور اور دیگر مشنز نے مریخ کی سطح پر کاربونیٹ معدنیات کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے۔ یہ معدنیات زمین پر چونے کے پتھروں کی طرح فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتی ہیں۔ اس دریافت نے سائنسدانوں میں اس خیال کو تقویت دی ہے کہ شاید ماضی میں مریخ کا ماحول زندگی کےلیے زیادہ موزوں رہا ہو۔
فلکیاتی تحقیق کے موجودہ دور میں مریخ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر کائٹ کہتے ہیں کہ ’’مریخ ہمارے لیے ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ زمین کے قریب ترین سیارہ ہے جہاں سے ہم نمونے لے کر ان کا زمین پر تجزیہ کرسکتے ہیں‘‘۔
اگرچہ اب تک کی تحقیق سے مریخ کی سطح پر زندگی کے موجودہ یا ماضی کے ثبوت نہیں ملے ہیں، لیکن سائنسدان زیر زمین پانی کے ذخائر میں زندگی کے آثار کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کائٹ کے مطابق ’’اگر ہم مریخ سے نمونے زمین پر لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو ہم اس بنیادی سوال کا جواب دے سکیں گے کہ کیا زمین کے علاوہ کسی اور جگہ زندگی موجود ہے‘‘۔
یہ تحقیق نہ صرف مریخ کے ماضی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی، بلکہ یہ ہمیں یہ جاننے میں بھی معاون ہوگی کہ کائنات میں زندگی کا ظہور ایک عام واقعہ ہے یا پھر ایک نایاب اور منفرد عمل۔ جیسے جیسے ہماری تحقیق آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہم کائنات اور اس میں زندگی کے مقام کو بہتر طور پر سمجھ پا رہے ہیں۔