Express News:
2025-05-25@04:59:06 GMT

پاک بھارت تعلقات: ’’نیا بیانیہ، نیا آغاز‘‘

اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT

دنیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور جذباتی ہمسائیگی جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک پاکستان اور بھارت کی ہے۔ دونوں ممالک کا مشترکہ ماضی، ثقافتی و مذہبی روابط اور جغرافیائی نزدیکی انھیں ایک دوسرے کا ناگزیر ہمسایہ تو بناتی ہے مگر بداعتمادی، سیاسی اختلافات اور تاریخ کے زخم ان تعلقات کو کبھی مکمل اعتماد کی سطح پر نہیں آنے دیتے۔

1947 کی تقسیم ہند نے جنوبی ایشیا کو دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم تو کر دیا لیکن کئی ایسے مسائل نے جنم لیا جو آج بھی سلگ رہے ہیں۔ سب سے نمایاں مسئلہ کشمیر کا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود آج تک حل نہ ہو سکا۔ اسی تنازع نے دونوں ممالک کو چار مرتبہ جنگ کی طرف دھکیلا اور اب بھی یہ خطہ نہ صرف یہ کہ روایتی جنگ کے دہانے پر ہے بلکہ سائبر اور ایٹمی جنگ کا مرکز بھی بن سکتا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے علاوہ پانی کی تقسیم، سیاچن گلیشیئر، سرحدی جھڑپیں، سرکریک کا مسئلہ، دہشت گردی کے الزامات اور سفارتی تعطل جیسے معاملات نے تعلقات کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث دونوں ممالک کے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے جب کہ تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبے پس پشت چلے جاتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں قوموں کی ترقی کا دارومدار اقتصادی استحکام، سائنسی تحقیق، انسانی وسائل کی ترقی اور عالمی تعلقات پر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی ان تمام شعبوں کو متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان کو غربت، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

دوسری طرف بھارت کو غربت، کسانوں کی تحریک، مذہبی انتہاپسندی، اقلیتوں کے تحفظ اور سماجی عدم مساوات جیسے چیلنج درپیش ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک میں غربت اور بے روزگاری کی شرح تشویشناک حد تک بلند ہے۔ ایسے حالات میں جنگ یا دشمنی کا رویہ نہ صرف خطرناک ہے بلکہ خودکشی کے مترادف ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان اچھے ہمسائے کی طرح رہنے کا ممکنہ اور حقیقت پسندانہ حل موجود ہے لیکن اس طرف بڑھنے کے لیے پہلی شرط نیک نیتی سے باہمی مذاکرات ہیں۔ اس کے لیے پیشگی شرط یہ ہے کہ دونوں ممالک بامعنی اور غیرمشروط مذاکرات کا آغاز کرنے پر رضامند ہوں اور دل ودماغ سے یہ چاہیں کہ بداعتمادی کو ختم کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کسی بھی واقعے یا تنازعے کو مذاکرات کا خاتمہ نہ بنایا جائے بلکہ اسے گفت و شنید کا موقع سمجھا جائے۔

ایک جامع مذاکراتی فریم ورک کے تحت تمام تنازعات بشمول کشمیر، پانی اور تجارت کو زیربحث لانا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کی بحالی اور فروغ نہ صرف معیشت کو سہارا دیں گے بلکہ سیاسی تعلقات میں بھی توازن پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔ پاکستانی اور بھارتی تاجر برادری ہمیشہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی بحالی کی خواہشمند رہی ہے کیونکہ دونوں طرف کی منڈیاں ایک دوسرے کے لیے قدرتی شراکت دار ہیں۔

دونوں ملکوں کو ویزہ پالیسی اور عوامی رابطے میں نرم رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ طلبہ، اساتذہ، فنکاروں، صحافیوں اور مذہبی زائرین کے لیے آسان ویزہ پالیسی دونوں ملکوں کی عوام کو قریب لا سکتی ہے۔ یہ رابطے نفسیاتی خلیج کو پاٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سارے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میڈیا کو بھی انتہائی ذمے دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

بدقسمتی سے دونوں ممالک کا مین اسٹریم اور سوشل میڈیا اکثر اشتعال انگیز بیانیے پھیلاتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ میڈیا ہاؤسز اور اینکرز کو قومی مفاد میں امن، مکالمہ اور حقیقت پر مبنی صحافت کی طرف مائل کریں۔ عوامی رائے عامہ کو متوازن بنانا دیرپا امن کے لیے ضروری ہے۔ سارک (SAARC) جیسے علاقائی پلیٹ فارمز کو فعال بنانا دونوں ممالک کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان اور بھارت، دونوں ممالک کے اندر ایک مؤثر طبقہ موجود ہے جو دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی ’’بس ڈپلومیسی‘‘، منموہن سنگھ کا ’’کامن ویژن‘‘ اور نریندر مودی کی نواز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت جیسے اقدامات اسی سوچ کے مظہر ہیں۔

اسی طرح پاکستان نے بھی کئی مواقع پر اسی مثبت جذبے کا اظہار کیا ہے۔ اگر جرمنی اور فرانس، امریکا اور ویتنام، چین اور جاپان جیسے ممالک ماضی کی خونریز جنگوں کے بعد نئے باب کا آغاز کر سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں؟ ہمیں جنگ کے بجائے تعلیم، تجارت اور تعاون کا انتخاب کرنا ہوگا۔

پاکستان اور بھارت کا مستقبل مشترکہ امن، ترقی اور احترام پر مبنی تعلقات میں پوشیدہ ہے۔ دشمنی کا تسلسل اب کسی کے مفاد میں نہیں۔ دونوں اقوام کو چاہیے کہ وہ ماضی کو تاریخ کا حصہ بنا کر ایک نئے، روشن اور پرامن مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے دونوں ملکوں کے درمیان کے لیے

پڑھیں:

اس سال مزید عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کر سکتے ہیں: امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو

واشنگٹن: امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اشارہ دیا ہے کہ 2025 کے اختتام سے قبل مزید عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب بھی تاحال اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، حالانکہ کچھ رکاوٹیں موجود ہیں۔

مارکو روبیو نے یہ بات ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا، "میرے خیال میں اس سال کے اختتام سے پہلے مزید ممالک ابراہیم معاہدے میں شامل ہو سکتے ہیں۔"

واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل سے تعلقات قائم کیے تھے۔ ان معاہدوں کو "ابراہیم اکورڈز" کہا جاتا ہے۔

سعودی عرب نے بھی 2023 میں امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے لیے بات چیت کی تھی، لیکن 7 اکتوبر 2023 کے حملے اور اس کے بعد اسرائیل کی غزہ پر جارحیت نے یہ عمل روک دیا۔

مارکو روبیو کے مطابق، سعودی عرب اور اسرائیل دونوں اب بھی معاہدے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن غزہ جنگ اور دو ریاستی حل کی عدم موجودگی بڑی رکاوٹیں ہیں۔

سعودی عرب نے واضح کیا ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک غزہ کی جنگ ختم نہیں ہوتی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی پیش رفت نہیں ہوتی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو جو دائیں بازو کی سخت گیر حکومت چلا رہے ہیں، فلسطینی ریاست کے قیام کے سخت مخالف ہیں۔ انہوں نے غزہ میں مزید فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جہاں پہلے ہی پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔


 

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا آذربائیجان کے وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ، دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • بھارت کے پاس بات کرنے کے لیے کچھ نہیں رہا، وفاقی وزیر اطلاعات
  • اسحاق ڈار کا سعودی وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ، خطے کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال
  • کارگل جنگ سے آپریشن سندورتک
  • بھارتی وزیر خارجہ نے پاک بھارت کشیدگی کم کرانے میں امریکی کردار تسلیم کر لیا
  • اس سال مزید عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کر سکتے ہیں: امریکی وزیر خارجہ
  • اس سال مزید عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کر سکتے ہیں: امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو
  • ٹرمپ کے تمام دعوے جھوٹے ہیں، بھارتی وزیر خارجہ
  • سینیٹ: پاک افریقہ تعلقات کے فروغ کی قرارداد متفقہ طور پر منظور