پاک بھارت تعلقات: ’’نیا بیانیہ، نیا آغاز‘‘
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
دنیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور جذباتی ہمسائیگی جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک پاکستان اور بھارت کی ہے۔ دونوں ممالک کا مشترکہ ماضی، ثقافتی و مذہبی روابط اور جغرافیائی نزدیکی انھیں ایک دوسرے کا ناگزیر ہمسایہ تو بناتی ہے مگر بداعتمادی، سیاسی اختلافات اور تاریخ کے زخم ان تعلقات کو کبھی مکمل اعتماد کی سطح پر نہیں آنے دیتے۔
1947 کی تقسیم ہند نے جنوبی ایشیا کو دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم تو کر دیا لیکن کئی ایسے مسائل نے جنم لیا جو آج بھی سلگ رہے ہیں۔ سب سے نمایاں مسئلہ کشمیر کا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود آج تک حل نہ ہو سکا۔ اسی تنازع نے دونوں ممالک کو چار مرتبہ جنگ کی طرف دھکیلا اور اب بھی یہ خطہ نہ صرف یہ کہ روایتی جنگ کے دہانے پر ہے بلکہ سائبر اور ایٹمی جنگ کا مرکز بھی بن سکتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے علاوہ پانی کی تقسیم، سیاچن گلیشیئر، سرحدی جھڑپیں، سرکریک کا مسئلہ، دہشت گردی کے الزامات اور سفارتی تعطل جیسے معاملات نے تعلقات کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث دونوں ممالک کے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے جب کہ تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبے پس پشت چلے جاتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں قوموں کی ترقی کا دارومدار اقتصادی استحکام، سائنسی تحقیق، انسانی وسائل کی ترقی اور عالمی تعلقات پر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی ان تمام شعبوں کو متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان کو غربت، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
دوسری طرف بھارت کو غربت، کسانوں کی تحریک، مذہبی انتہاپسندی، اقلیتوں کے تحفظ اور سماجی عدم مساوات جیسے چیلنج درپیش ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک میں غربت اور بے روزگاری کی شرح تشویشناک حد تک بلند ہے۔ ایسے حالات میں جنگ یا دشمنی کا رویہ نہ صرف خطرناک ہے بلکہ خودکشی کے مترادف ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان اچھے ہمسائے کی طرح رہنے کا ممکنہ اور حقیقت پسندانہ حل موجود ہے لیکن اس طرف بڑھنے کے لیے پہلی شرط نیک نیتی سے باہمی مذاکرات ہیں۔ اس کے لیے پیشگی شرط یہ ہے کہ دونوں ممالک بامعنی اور غیرمشروط مذاکرات کا آغاز کرنے پر رضامند ہوں اور دل ودماغ سے یہ چاہیں کہ بداعتمادی کو ختم کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کسی بھی واقعے یا تنازعے کو مذاکرات کا خاتمہ نہ بنایا جائے بلکہ اسے گفت و شنید کا موقع سمجھا جائے۔
ایک جامع مذاکراتی فریم ورک کے تحت تمام تنازعات بشمول کشمیر، پانی اور تجارت کو زیربحث لانا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کی بحالی اور فروغ نہ صرف معیشت کو سہارا دیں گے بلکہ سیاسی تعلقات میں بھی توازن پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔ پاکستانی اور بھارتی تاجر برادری ہمیشہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی بحالی کی خواہشمند رہی ہے کیونکہ دونوں طرف کی منڈیاں ایک دوسرے کے لیے قدرتی شراکت دار ہیں۔
دونوں ملکوں کو ویزہ پالیسی اور عوامی رابطے میں نرم رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ طلبہ، اساتذہ، فنکاروں، صحافیوں اور مذہبی زائرین کے لیے آسان ویزہ پالیسی دونوں ملکوں کی عوام کو قریب لا سکتی ہے۔ یہ رابطے نفسیاتی خلیج کو پاٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سارے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میڈیا کو بھی انتہائی ذمے دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔
بدقسمتی سے دونوں ممالک کا مین اسٹریم اور سوشل میڈیا اکثر اشتعال انگیز بیانیے پھیلاتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ میڈیا ہاؤسز اور اینکرز کو قومی مفاد میں امن، مکالمہ اور حقیقت پر مبنی صحافت کی طرف مائل کریں۔ عوامی رائے عامہ کو متوازن بنانا دیرپا امن کے لیے ضروری ہے۔ سارک (SAARC) جیسے علاقائی پلیٹ فارمز کو فعال بنانا دونوں ممالک کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان اور بھارت، دونوں ممالک کے اندر ایک مؤثر طبقہ موجود ہے جو دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی ’’بس ڈپلومیسی‘‘، منموہن سنگھ کا ’’کامن ویژن‘‘ اور نریندر مودی کی نواز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت جیسے اقدامات اسی سوچ کے مظہر ہیں۔
اسی طرح پاکستان نے بھی کئی مواقع پر اسی مثبت جذبے کا اظہار کیا ہے۔ اگر جرمنی اور فرانس، امریکا اور ویتنام، چین اور جاپان جیسے ممالک ماضی کی خونریز جنگوں کے بعد نئے باب کا آغاز کر سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں؟ ہمیں جنگ کے بجائے تعلیم، تجارت اور تعاون کا انتخاب کرنا ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کا مستقبل مشترکہ امن، ترقی اور احترام پر مبنی تعلقات میں پوشیدہ ہے۔ دشمنی کا تسلسل اب کسی کے مفاد میں نہیں۔ دونوں اقوام کو چاہیے کہ وہ ماضی کو تاریخ کا حصہ بنا کر ایک نئے، روشن اور پرامن مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے دونوں ملکوں کے درمیان کے لیے
پڑھیں:
سعودی، پاکستانی سٹریٹجک معاہدے کی اہمیت، عرب صحافت کی نظر میں
سعودی، پاکستانی سٹریٹجک معاہدے کی اہمیت، عرب صحافت کی نظر میں WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز
جدہ (سب نیوز ) 70 برسوں سے زائد عرصے کے دوران سعودی عرب اور پاکستان نے اخوت اور باہمی اعتماد پر مبنی گہرے تاریخی تعلقات قائم کیے ہیں جو آج بین الاقوامی تعاون میں ایک منفرد نمونہ سمجھے جاتے ہیں۔ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں ممالک کے خلاف جارحیت، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ طے پا گیاسبق ویب سائٹ کے مطابق علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ یہ تعاون سٹریٹجک شراکت داری کی سطح تک پہنچ گیا ہے جو دونوں ممالک کی قیادتوں کے اس عزم کو واضح کرتا ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو امن، استحکام اور خوشحالی کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔
مشترکہ سٹریٹجک دفاعی معاہدہ، جو 17 ستمبر 2025 کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے درمیان دستخط ہوا، اسی عزم کی توثیق کرتا ہے۔معاہدے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ کسی ایک ملک پر بیرونی حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا۔اس میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے، دفاعی صنعتوں کی ترقی اور مشترکہ مشقوں کے انعقاد جیسے نکات شامل ہیں تاکہ دفاعی صلاحیتوں کو تقویت دی جا سکے۔
یہ قدم عمومی سیاق و سباق سے الگ نہیں دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعاون عشروں سے جاری ہے اور عسکری قیادتوں کے درمیان باقاعدہ اجلاسوں میں اس کی تجدید ہوتی رہی ہے جیسا کہ حالیہ ملاقاتیں جن میں سعودی بحریہ کے سربراہ اور پاکستانی مشترکہ افواج کے سربراہ نے بحری سلامتی اور علاقائی دفاع کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔سعودی عرب اور پاکستان نے اپنی تاریخی شراکت اور دفاعی تعاون کو سٹریٹجک دفاعی معاہدے پر دستخط کے ذریعے مزید مستحکم کیاہے۔
معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات اور گہرے دفاعی تعاون کو مزید آگے بڑھانا ہے، تاکہ مشترکہ دفاعی صلاحیتوں کو ترقی دی جائے اور تیاری کی سطح کو بلند کیا جائے اور سرزمین کے امن و سلامتی کو درپیش کسی بھی خطرے کے خلاف مشترکہ طور پر دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنایا جائے۔دونوں برادر ممالک کے درمیان دفاعی تاریخ بھی خاصی گہری ہے، دونوں نے پہلے مشترکہ عسکری تعاون کمیٹی تشکیل دی تھی جو باقاعدہ اجلاس منعقد کرتی ہے۔ اسی طرح دونوں کے درمیان 1980 کی دہائی سے تربیت اور ترقی کے شعبوں میں عسکری معاہدے بھی موجود ہیں۔
نیا معاہدہ دونوں ممالک کے لیے سٹریٹجک اور حیاتی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کی شقوں کے مطابق کسی بھی ملک پر مسلح بیرونی حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے پر متفق ہیں تاکہ اپنے امن و استحکام کو یقینی بنائیں۔یہ نیا معاہدہ اس تاریخی شراکت داری کا تسلسل ہے، جس میں عسکری تربیت، دفاعی پیداوار، اور فضائی، بحری اور بری مشترکہ مشقیں شامل رہیں
برطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے والے سعودی عہدیدار نے کہا یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو مخصوص خطرے کے مطابق تمام دفاعی اور عسکری ذرائع استعمال کرے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کو اس شکل میں لانے کے لیے ایک سال سے زائد عرصہ لگا اور اس سے قبل دو سے تین سال تک مذاکرات ہوتے رہے تاکہ یہ معاہدہ روشنی میں آ سکے۔سعودی عرب، جو خطے میں ایک بڑی فوجی طاقت رکھتا ہے اور پاکستان، جو جنوبی ایشیا میں تقریبا 170 ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے (بحوالہ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ SIPRI کی 2024 رپورٹ)، کے درمیان ایسا معاہدہ ایک تاریخی کارنامہ ہے، خصوصا ایسے حالات میں جب عالمی امن اور سلامتی کو شدید خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔
یہ نیا معاہدہ اس تاریخی شراکت داری کا تسلسل ہے، جس میں عسکری تربیت، دفاعی پیداوار، اور فضائی، بحری اور بری مشترکہ مشقیں شامل رہیں جو دونوں ممالک کی افواج کے درمیان باقاعدگی سے ہوتی رہی ہیں۔ اس معاہدے پر دستخط ایک نئی پیش رفت ہے جو مشترکہ دفاعی صلاحیت کو نئی جہت دیتا ہے اور خطے اور دنیا کے امن کو مضبوط بنانے کی سیاسی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔سعودی عرب اور پاکستان نے اپنی تاریخی شراکت اور دفاعی تعاون کو سٹریٹجک دفاعی معاہدے پر دستخط کے ذریعے مزید مستحکم کیاہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ دفاعی تعاون کے لیے نئے افق کھولے گا، مشترکہ تعاون کو مضبوط کرے گا اور خطے میں توازنِ امن کو سہارا دے گا۔
توقع ہے کہ یہ مشترکہ دفاعی صنعتوں کو ترقی دے گا، مہارت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں کردار ادا کرے گا، جو سعودی وژن 2030 کے اہداف سے ہم آہنگ ہے اور پاکستان کو سلامتی اور دفاع میں اہم شراکت دار کے طور پر مزید تقویت دے گا۔یہ قدم ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دنیا تیز رفتار سٹریٹجک تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، جس کے باعث ریاض اور اسلام آباد کے درمیان قریبی عسکری ہم آہنگی سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے اور خطے کے استحکام کے لیے بنیادی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹرمپ کا دورہ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق ٹرمپ کا دورہ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق اسرائیل سے خطرات،عرب ممالک متحرک،اہم سیکیورٹی اقدامات کا اعلان,مشترکہ فضائی نظام،خلیج دفاعی اتحاد کی تشکیل شامل پاک-سعودیہ دفاعی معاہدہ: سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ، 100 انڈیکس تاریخی سطح پر پہنچ گیا نومئی مقدمات: عمر ایوب، شبلی فراز، زرتاج گل سمیت 18 پی ٹی آئی رہنما اشتہاری قرار یمن کے ساحل پر پانچ انٹرنیٹ کیبلز کٹ گئیں جس کی وجہ سے ملکی انٹرنیٹ متاثر ہے، سیکریٹری آئی ٹی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور بھارتی تعلق کو نقاب کردیا: وزیراعظم آزاد کشمیرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم