حج بیت اللہ الحرام کے دوران "سعودی قوانین" کی خلاف ورزی کرنیوالوں کیلئے ریاض کیجانب سے سزاؤں کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں سعودی شاہی رژیم نے "خصوصی ویزا" کے بغیر حرمین شریفین میں داخل ہونیوالوں کیلئے انواع و اقسام کی مالی و غیر مالی سزاؤں کا اعلان کیا ہے اسلام ٹائمز۔ حجاز شریف میں موجود سعودی شاہی رژیم نے آج اپنے ایک بیان میں "حج کے قوانین" پر مکمل عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے "متعدد تعزیری سزاؤں" کا اعلان کیا ہے کہ جن کا قبل ازیں بھی اعلان کیا گیا تھا، اور تاکید کی ہے کہ حج بیت اللہ الحرام کی انجام دہی کے دوران "سعودی قوانین" کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مکمل قانونی تقاضوں پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کیا جائے گا۔ اپنے بیان میں سعودی وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ آج سے 14 ذیقعد تک؛ اگر کوئی شخص ایسے لوگوں کو مکہ و مدینہ لے جانے کی کوشش کرتا ہے کہ جن کے پاس "حج ویزا" موجود نہیں تو اس پر 1 لاکھ سعودی ریال (تقریباً 26 ہزار 600 ڈالر کے مساوی) کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق اس جرمانے کے علاوہ ایسے لوگوں کو مکہ و مدینہ لے جانے کے لئے استعمال ہونے والی گاڑی بھی ضبط کر لی جائے گی۔
سعودی شاہی رژیم کی جانب سے اعلان کردہ دیگر سزاؤں میں 20 ہزار سعودی ریال (تقریباً 5 ہزار 332 ڈالر کے برابر) کا جرمانہ بھی شامل ہے کہ جو "سعودی شاہی رژیم کے اجازت نامے" کے بغیر "مناسک حج" کی ادائیگی کرنے یا ایسا کرنے کی کوشش کرنے والے "زائرین" پر لاگو کیا جائے گا۔ سعودی وزارت داخلہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ ان سزاؤں کا نشانہ بننے والے "غیر قانونی حجاج" کو، چاہے وہ حجاز شریف میں "مقیم" ہوں یا "خفیہ طور پر آئے ہوں" کو نہ صرف فی الفور ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا بلکہ ان کے آئندہ 10 سالوں تک حجاز شریف میں دوبارہ داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی!
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
یورا گوائے کے وزیر خارجہ کی سعودی ہم منصب سے ملاقات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ریاض (انٹرنیشنل ڈیسک) سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ریاض میں وزارت کے ہیڈ کوارٹر میں یورا گوائے کے ہم منصب ماریو لوپاٹکن کا خیرمقدم کیا ۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں انہیں ترقی دینے کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال، مشترکہ دلچسپی کے امور اور اس حوالے سے کی جانے والی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔