ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے شہری ہو جائیں خبردار، اہم فیصلے کر لیے گئے
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیرِ صدارت اجلاس میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد، حادثات سے بچاؤ اور چالان کے معاملے میں شفافیت لانے کیلیے متعدد فیصلہ کر لیے گئے۔
اجلاس میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ 10 گنا تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا، کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ پر والد ذمہ دار ہوں گے جبکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جائے گا۔فیصلہ کیا گیا کہ ون ویلنگ یا خطرناک طرز کی ڈرائیونگ پر مقدمہ درج کیا جائے گا۔ اجلاس میں بیدیاں و دیگر سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں رکاوٹیں فوری دور کرنے کی ہدایت کی گئی۔
پنجاب کے 372 اور لاہور کے 77 پوائنٹس کی ری ماڈلنگ پر غور کیا گیا جبکہ ٹریفک چالان کے ساتھ ویڈیو اور تصویری ثبوت منسلک کرنے کی ہدایت کی گئی، ٹریفک جام کی پیشگی نشاندہی کیلیے روڈ سائیڈ ڈیجیٹل اسکرین لگانے کا حکم دیا گیا۔اجلاس میں دوران ڈرائیونگ موبائل کے استعمال پر بھاری جرمانہ عائد، بڑی سڑکوں کے اطراف سامان سے لدی ٹرالیاں کھڑی کرنے پر پابندی اور خراب یا بند ہیڈ لائٹس کے ساتھ ڈرائیونگ پر سخت کارروائی کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
مریم نواز کی زیرِ صدارت اجلاس میں ٹریفک پولیس کا یونیفارم تبدیل کرنے کی تجویز کا جائزہ لینے کے علاوہ ٹریفک پولیس کی 5 کیٹیگری بنانے کا فیصلہ کیا گیا، انفورسمنٹ آفیسر، ٹریفک ریگولیٹر، ایجوکیشن لائسنسنگ اور پبلک سروس آفیسر کی کیٹیگری ہوگی جبکہ شفافیت کیلیے ٹریفک وارڈن ان کیمرہ ٹریفک چالان کریں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے ٹریفک پولیس کو جدید پیٹرول وہیکل اور آلات دینے کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ ٹریفک نظام میں بہتری نظر نہیں آ رہی، ٹھوس اور پائیدار اقدامات کرنے ہوں گے، ٹریفک حادثات کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے مؤثر اقدامات ہی کامیابی ہے، شہر کی سڑکوں پر ٹریفک صورتحال کا جائزہ خود لیتی ہوں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
لاہور میں سینئر بیوروکریٹس اور پولیس افسران کے زیراستعمال گاڑیوں کی ٹریفک قوانین کی بار بار خلاف ورزیاں
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 26 مئی ۔2025 )لاہور میں سینئر بیوروکریٹس اور پولیس افسران کے زیراستعمال سرکاری محکموں کی 3800 سے زائد گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائی گئی ہیں، جن میں سے زیادہ تر گاڑیوں نے کئی بار قوانین کی خلاف ورزی کی جو کہ عام شہریوں کے مقابلے میں اعلیٰ سرکاری افسران میں قانون شکنی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتا ہے.(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق حیران کن طور پر اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کی زیر استعمال سرکاری گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھی گئیں ان میں انسپکٹر جنرل پولیس، کمشنر لاہور اور ڈپٹی کمشنر، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، پاکستان پوسٹ، زراعت، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرلز، لیسکو کے سی ای او اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری شامل ہیں. یہ انکشاف سٹی ٹریفک پولیس (سی ٹی پی) لاہور کی جانب سے مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے جس میں 3896 سرکاری گاڑیوں کا ریکارڈ شامل ہے جنہوں نے ٹریفک قوانین کو نظر انداز کیا رپورٹ کے مطابق پنجاب پولیس سرکاری محکموں میں سرفہرست ہے جن کی 496 گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئیں اس کے بعد سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی 358 اور لاہور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (لیسکو) کی 328 گاڑیاں خلاف ورزی کرتے ہوئے پائی گئیں. سٹی ٹریفک پولیس کی رپورٹ کے مطابق یہ گاڑیاں وزیر اعلیٰ مانیٹرنگ سیل، قانون، پارلیمانی امور و انسانی حقوق محکمہ پنجاب، پاکستان ریلوے، پنجاب ریونیو اتھارٹی، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی سی ایل)، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے)، وزارت ریلوے، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل)، محکمہ داخلہ پنجاب، محکمہ ماحولیات پنجاب اور لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) سمیت 73 مختلف محکموں سے تعلق رکھتی ہیں. ایک ایس پی کے زیر استعمال گاڑی نمبر ایل آر زیڈ-6076 نے سب سے زیادہ 107 مرتبہ قوانین کی خلاف ورزی کی اور اس پر 50 ہزار 300 روپے جرمانہ عائد کیا گیا جو تاحال ادا نہیں ہوا اسی طرح ڈائریکٹر جنرل زراعت پنجاب کے زیراستعمال گاڑی نمبر ’ایل زیڈ آر-9872‘ نے 83 مرتبہ قوانین کی خلاف ورزی کی اور 74 ہزار روپے کا جرمانہ بھی ادا نہیں کیاایڈیشنل چیف سیکرٹری (ایس اینڈ جی اے ڈی) پنجاب کی گاڑی نمبر ایل ڈبلیو کیو-1235 نے 47 خلاف ورزیاں کیں اور 21 ہزار 300 روپے کا جرمانہ بھی ادا نہیں کیا، اسی افسر کی 7 دیگر گاڑیاں 65 مرتبہ قانون شکنی کی مرتکب پائی گئیں. رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی 300 گاڑیاں واپڈا، 184 لائیو اسٹاک و ڈیری ڈیپارٹمنٹ، 181 پی ٹی سی ایل، 130 ایس این جی پی ایل، 122 محکمہ آبپاشی، 117 پنجاب فوڈ اتھارٹی، 107 ڈی سی آفس، 102 لاہور کنٹونمنٹ بورڈ، 104 نیشنل ہائی وے اتھارٹی، 99 محکمہ زراعت، 89 لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، 76 پاکستان ریلویز، 69 پنجاب ریونیو اتھارٹی، 68 محکمہ صحت پنجاب، 61 پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی، 42 محکمہ داخلہ پنجاب، 41 رنگ روڈ اتھارٹی، 40 پنجاب بورڈ آف ریونیو،37 پنجاب اٹامک انرجی کمیشن جبکہ 31 ایف آئی اے سے تعلق رکھتی ہیں. ایک سرکاری افسر کے مطابق ان خلاف ورزیوں کا انکشاف پنجاب سیف سٹی کیمروں کے ذریعے ہوا جنہوں نے گاڑیوں کو شناخت کر کے انہیں ای چالان جاری کیے سٹی ٹریفک پولیس نے تفصیلی تحقیقات کے بعد گاڑیوں کی ملکیت کی تصدیق کی ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام افسران نے جرمانے ادا نہیں کیے جس پر ٹریفک پولیس نے متعلقہ محکموں کو خطوط لکھ کر گاڑیوں کے اصل استعمال کنندگان کی شناخت اور جرمانوں کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے اور قانونی کارروائی کی تیاری بھی شروع کر دی ہے. چیف ٹریفک افسر (سی ٹی او) لاہور اطہر وحید نے یہ معاملہ چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان اور آئی جی پی ڈاکٹر عثمان انور کے علم میں لا کر مداخلت کی درخواست کی ہے تاکہ صوبے کے اعلیٰ افسران کی جانب سے قانون شکنی کا سلسلہ روکا جا سکے دوسری جانب سٹی ٹریفک پولیس نے صرف گزشتہ 10 دنوں میں شہریوں کے خلاف 4 ہزار 541 ایف آئی آرز درج کیں جن میں سے کئی کو موقع پر ہی گرفتار کیا گیا اس تضاد نے انصاف اور قانون کی یکساں عملداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں.