WE News:
2025-05-30@18:52:29 GMT

روس نے انڈیا کا ساتھ کیوں نہ دیا؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT

حالیہ پاک انڈیا کشمکش کے دوران ایک سوال انڈین میڈیا پر بار بار پوچھا گیا کہ روس نے انڈیا کا ساتھ کیوں نہ دیا؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوا تھا کہ روس نے شدید تناؤ کے ماحول میں انڈیا کی طرف جھکاؤ دکھانے کی بجائے یہ کہا  تھا کہ اگر دونوں ممالک چاہیں تو وہ مصالحت کے لیے تیار ہے۔

بین الاقوامی تعلقات میں جب کوئی ملک مصالحتی کردار ادا کرنے کی بات کرتا ہےتو اس کا سیاسی ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ بھئی! میں تم دونوں کے معاملے میں غیر جانبدار ہوں۔ سو انڈین انٹیلی جنشیا نے روس کے اس موقف سے بالکل درست معانی اخذ کیے تھے کہ روس بھی انڈیا کے ساتھ نہیں ہے۔مگر مذکورہ سوال کے جواب میں ان کے سیاسی تجزیہ کاروں نے اصل بات کہنے کی بجائے یہ باور کرانے کی کوشش کی جیسے انڈیا تو روس کا بہت ہی وفادار دوست رہا ہو مگر روس نے عین موقع پر اسے تنہا چھوڑ کر بے وفائی کر ڈالی ہو۔کیا واقعی ایسا ہی تھا؟ آئیے، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ روس کو بالآخر یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ انڈیا کی خارجہ پالیسی بالی ووڈ کی ’پیار پالیسی‘ کی طرح ہے کہ سلور سکرین پر تو ہیما مالینی امیتابھ بچن کی بانہوں میں ہے مگر سین ریکارڈ کرانے کے بعد ہیماجی لوٹتی دھرمندر کے گھر ہی ہیں۔

سو انڈین وزرائے اعظم بھی ماسکو آکر بس پیار کا ایک سین ریکارڈ کراتے ہیں، جس کے بعد وہ لوٹتے اپنے سسرال ہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انڈیا کا سسرال ہے کون سا؟ آپ 2 چیزیں دیکھ لیجیے سب سمجھ آجائے گا۔ ایک یہ کہ انڈین کلچر میں جس بیرونی کلچر کی آمیزش ہے وہ کس کا ہے؟ اور انڈین شہری میں جب تارک وطن بننے کا شوق جاگتا ہے تو اس کی منزل کیا ہوتی ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب انڈین شہری خود کو انڈین ہونے کے علاوہ کچھ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ خود کو ایک اچھا مغربی کاپی پیسٹر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ہندی نہیں بولتا تو انگریزی زبان میں بات کرتا ہے۔ رہ گیا دوسرا سوال تو انڈین تارکین وطن کی پسندیدہ منازل میں برطانیہ، امریکا اور کینیڈا شامل ہیں نہ کہ روس۔

 حالانکہ اگر آپ گوگل کرلیں تو پچھلے 4 سال کے دوران امریکا اور کینیڈا سے بڑی تعداد میں گوروں نے روس باقاعدہ ہجرت کی ہے اور وہاں کی شہریت حاصل کی ہے۔ اس سلسلے میں روس نے اپنی پالیسی اتنی نرم کردی ہے کہ روسی شہریت حاصل کرنے کے لیے بڑی شرائط بس 2 ہی ہیں۔

پہلی یہ کہ آپ کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ روس پر بوجھ نہیں بنیں گے، بلکہ آپ کوئی ایسی علمی یا فنی قابلیت رکھتے ہیں جس کے دم پر روس کے کارآمد شہری ثابت ہوں گے۔ اور دوسری شرط یہ کہ روسی زبان آنی چاہیے۔ اگر یہ زبان نہیں آتی تو ایک سال تک آپ روس میں ویزے پر قیام حاصل کرکے روسی زبان سیکھیں گے، تب شہریت ملے گی۔

انڈیا سے متعلق روس کو یہ بات بھی سمجھ آگئی ہے کہ انڈیا سے اس کا نام نہاد ’اسٹریٹیجک تعلق‘ ایک یک طرفہ تعلق ہے۔ جب انڈیا کو ضرورت پڑتی ہے تو وہ روس کی اس حد تک مدد حاصل کر لیتا ہے کہ اپنے خلاف آنے والی سلامتی کونسل کی قرارداد بھی روس سے ویٹو کروا لیتا ہے۔ لیکن جب روس کو سیاسی ساتھ کی ضرورت پیش آتی ہے تو یوکرین جیسے اہم معاملے پر بھی انڈیا ’غیرجانبداری‘ کا علم بلند کردیتا ہے۔ اور روس کو مشورے دینے لگتا ہے کہ اسے جنگ کی بجائے بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انڈیا کے اس بیہودہ مذاق پر اگر روسیوں نے اب تک یہ نہیں کہا کہ کشمیر پر بات چیت سے بھاگنے والے کس منہ سے یہ مشورہ دے رہے ہیں؟ تو اسے سرگئی لاروف کا تحمل سمجھنا چاہیے۔

پھر بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم چیز اور بھی ہے، جسے نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا۔ وہ یہ کہ دنیا کے مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً ایسے لیڈر نمودار ہوتے رہتے ہیں جو اپنے ملک کو ایک خاص نظریاتی جہت دیتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ، طیب اردوان اور نریندر موذی اس کی 3 بڑی مثالیں ہیں۔ مگر ان مثالوں میں ایک اور مثال بھی شامل ہے جو مذکورہ تینوں سے قدیمی بھی ہے اور مؤثر بھی۔ یہ مثال روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن ہیں۔آپ ذرا پیوٹن اور موذی کا نظریاتی بعد ملاحظہ کیجیے۔

پیوٹن کے روس میں مذہبی ہم آہنگی و آزادی اس حد تک اہم ہے کہ اس نے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روسی مسلمانوں والی 7 مسلم ریاستوں کو مکمل خود مختاری دے رکھی ہے۔ ان ریاستوں کی اسمبلیوں نے باقاعدہ اسلامی قانون سازی کر رکھی ہے اور وہاں کے شہری مکمل اسلامی ماحول اور قوانین کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں۔اگر یقین میں دشواری پیش آئے تو یوٹیوب پر صرف ’گروزنی سٹریٹس‘ سرچ کر لیجیے۔ سڑکوں اور گلیوں کا ماحول آپ کو سب بتا دے گا۔ مذہبی تعلیمات پر عمل درآمد میں پیوٹن نے اتنی سہولت فراہم کر رکھی ہے کہ رشین آرمی کے مسلمان افسر و سپاہی کو داڑھی اور سر کے مسنون بال رکھنے کی بھی اجازت ہے جو روایتی ملٹری کوڈ کے خلاف ہے۔

اس کے برخلاف انڈیا کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں مسلمان تقریباً 20 کروڑ ہیں مگر نریندر موذی نے اپنے ملک کی اس پہلی بڑی اقلیت کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اور ایک اور اہم چیز یہ کہ روس میں کسی بھی مذہبی شعار کی توہین پر سختی سے پابندی عائد ہے۔ دنیا کے کسی بھی مذہب کی مقدسات کی توہین قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ جبکہ موذی کے انڈیا میں بابری مسجد شہید کرنا اور اورنگزیب عالمگیر کے مزار کو ٹارگٹ لسٹ میں شامل کرنا قابل فخر کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔

پیوٹن کے روس میں روسی قومیت ہی شہری کا پہلا تعارف ہے، باقی سب اس کے بعد آتا ہے۔ جبکہ موذی کے انڈیا میں برہمن ہونا ہی سب کچھ ہے، باقی سب ’اچھوت‘ ہیں۔ سو پیوٹن اور موذی میں سوچ کا یہ بڑا فرق بھی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ’اسٹریٹیجک‘ رشتے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں مفادات دیکھے جاتے ہیں نظریاتی ہم آہنگی نہیں، تو اسے اسرائیل اور انڈیا کی قربت میں ’مسلم دشمنی‘ کی قدر مشترک پر غور کر لینا چاہیے۔

پھر ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں جب مغربی پابندیوں کے جواب میں روس نے یورپ کے لیے اپنی گیس بند کی تو اس کا یورپین معیشتوں پر تباہ کن اثر پڑا۔ یہ اثر اتنا شدید رہا کہ ٹاپ 10 معیشتوں کی فہرست سے کئی مغربی ممالک پیچھے چلے گئے اور انڈونیشیا و انڈیا جیسے ممالک آگے گئے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انڈونیشیا اور انڈیا آگے اس لئے نہیں آئے کہ ان کی معیشت نے کوئی غیر معمولی گروتھ دکھا کر ان یورپین ممالک کو پچھاڑا بلکہ ان کے آگے آنے کی وجہ یہ بنی کہ یورپین معیشتیں کمزور ہوکر پیچھے سرک گئیں۔ انڈونیشیا کے مزاج پر تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا لیکن انڈین اپنی اوقات ضرور بھول گئے۔ جس کا اظہار یوں ہوا کہ انڈین حکومت ہی نہیں بلکہ ان کی انٹیلی جنشیا بھی ایک عجیب تکبر کا شکار ہوگئی۔

 چنانچہ پچھلے 2 سالوں میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے بارہا پبلک فورمز پر مغربی ممالک کے وزرائے خارجہ کو توہین آمیز رویے کا نشانہ بنایا جبکہ صدر پیوٹن کو مشفقانہ وعظ و نصیحت بھی کی۔ یہی رویہ ان کے سیاسی تجزیہ کاروں کی طرف سے بھی دیکھنے کو ملا۔ اگر آپ پچھلے 2 سالوں کے دوران مغربی اخبارات میں شائع ہونے والے وہ مضامین دیکھ لیں جو انڈین تجزیہ کاروں نے لکھے تو یوں لگتا ہے جیسے انہیں فرانسس فوکویاما والی فیلنگز آرہی ہوں۔ گورا تو چینیوں کی ہمسری قبول نہیں کرتا تو وہ انڈین کیا چیز ہیں جو ابھی ’بیت الخلاء‘ والے دور میں بھی داخل نہیں ہوپائے؟ اگر دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہگنے کے لیے ہر صبح ریل کی پٹڑی اور کھیتوں کا رخ کرتی ہو تو گورا اسے فوکویاما مانے گا ؟

آپ اسی تکبر کا ایک دم تازہ خطرناک نتیجہ دیکھیے۔ روس ہر سال 9 مئی کو وکٹری ڈے مناتا ہے۔ اس سال والے وکٹری ڈے کی اہمیت یہ تھی کہ یہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف اس فتح کی 80 ویں سالگرہ تھی۔ سو پیوٹن نے اسے غیرمعمولی اہمیت دیتے ہوئے دنیا بھر سے دوست ممالک کے سربراہان کو اس پریڈ میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا۔

چینی صدر شی جن پنگ سمیت 29 ممالک کے سربراہان حکومت و مملکت اس پریڈ میں شامل ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ بین الاقوامی سطح کا بڑا ایونٹ تھا اور قدرتی طور پر صدر پیوٹن کی خواہش رہی ہوگی کہ دنیا بھر کا میڈیا اس روز ماسکو کے ریڈ اسکوائر کی جانب ہی متوجہ رہے۔ مگر اس موقع پر نریندر موذی نے کیا حرکت کی؟ صرف یہ نہیں کہ مدعو کیے جانے کے باوجود وہ ماسکو نہیں گیا بلکہ اس نے پاکستان پر حملے کے لیے عین وہی تاریخیں چنیں جب ماسکو میں غیر ملکی سربراہان کے طیارے لینڈ ہو رہے تھے۔

یوں بین الاقوامی میڈیا پر روس کے وکٹری ڈے کی غیر معمولی پریڈ کی جگہ پاک انڈیا تصادم چھا گیا۔ اور ساری دنیا کی توجہ ماسکو سے ہٹ کر پاک انڈیا سرحد پر آگئی۔ کیا صدر پیوٹن موذی کی اس حرکت کو ہضم کرجائیں گے؟ اپنی اس حماقت کا نتیجہ موذی کو جد یوں دیکھنا پڑسکتا ہےکہ پاک روس تعلقات میں پیش رفت کی رفتار بڑھ جائے۔ تب ارنب گوسوامی اور جی ڈی بخشی کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ جب ریل کی پٹڑی پر ہگنے والے اپنی اوقات بھولتے ہیں تو نتائج کیا نکلتے ہیں !

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی تعلقات میں انڈیا کی یہ ہے کہ کرنے کی کی کوشش کرتا ہے کے لیے کہ روس روس کو

پڑھیں:

پی ایس ایل، بنگلادیش سیریز میں ڈی آر ایس سسٹم کیوں نہیں؟ وجہ سامنے آگئی

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پلے آف میچز اور بنگلادیش کیخلاف ٹی20 انٹرنیشنل سیریز میں ڈیسیژن ریویو سسٹم (ڈی آرایس) نہ ہونے کی وجہ سے پردہ اُٹھ گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مقامی صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی کے بعد پاکستان میں ہونیوالے ایونٹس کے دوران ڈیسیژن ریویو سسٹم (ڈی آرایس) نہ ہونے کی بڑی وجہ آئی سی سی چیئرمین جے شاہ ہیں۔ 

انہوں نے اپنی ویڈیو میں کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانی اور غیر ملکی پلئیرز کے ملک میں آنے کے باوجود تکنیکی ٹیم نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا جبکہ اسی ملک کے کرکٹرز پی ایس ایل کے 10ویں ایڈیشن میں آخری گروپ میچز اور پلے آفس میں فرنچائز کا حصہ تھے۔

مزید پڑھیں: پی ایس ایل پلے آف میچز؛ ڈی آر ایس سمیت اہم ٹیکنالوجیز سے محروم

صحافی نے دعویٰ کیا کہ پی سی بی کے اعلیٰ عہدیداروں اور پروڈکشن کمپنی نے انگلینڈ کی ہاک آئی کمپنی سے ڈی آر ایس کیلئے بات کی تاہم بھارت کے جے شاہ کے دباؤ کے سبب ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

مزید پڑھیں: پی ایس ایل کے بعد پاک بنگلادیش سیریز میں ڈی آر ایس ٹیکنالوجی نہیں ہوگی

دوسری جانب پاکستان کے ہاتھوں تاریخی ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارت مختلف طریقوں سے پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ میں تنہا کرنا چاہتا ہے تاکہ نقصان پہنچایا جاسکے۔

تاحال آئی سی سی اور ہاک آئی کمپنی نے رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم توقع کی جارہی ہے کہ معاملے کو سالانہ اجلاس میں اٹھایا جاسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک انڈیا کشیدگی، بھارت امریکی صدر کی ثالثی کی کوششتوں کو جھٹلانے لگا
  • پاکستان کسی دھوکے میں نہ رہے ”آپریشن سیندور‘ ‘ابھی ختم نہیں ہوا .نریندرمودی
  • جان سینا ریسلنگ کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
  • پاکستان کی ایرانی ایٹمی پروگرام کی حمایت اور خطے کی بدلتی صورتحال
  • پی ایس ایل، بنگلادیش سیریز میں ڈی آر ایس سسٹم کیوں نہیں؟ وجہ سامنے آگئی
  • ایک بٹن دبائیں گے تو انڈیا کے ڈیم اڑ جائینگے، ڈاکٹر ثمر مبارک
  • چین کی سپائینگ ٹیکنالوجی پر  بھارت کو خدشات، سکیورٹی کیمروں کی خریداری کیلئے نئی پالیسی متعارف
  • ٹرمپ کا روسی صدر پیوٹن کو سخت انتباہ: وہ آگ سے کھیل رہا ہے!
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے روس پر نئی پابندیاں لگانے کا اشارہ دے دیا