وہ چھوٹا سا لڑکا جو ملبے کے ڈھیر سے کتاب نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ماں جو لاپتہ بیٹے کی تصویر لیے دہلیز پر بیٹھی ہے۔ وہ نوجوان جو جنگ زدہ شہر کی دیواروں پر امید کے اشعار لکھتا ہے۔ یہ سب کون ہیں؟ اور وہ کون ہے جو ہمیں دن رات سمجھاتا ہے کہ یہ سب دہشت گرد ہیں؟ صدیوں سے ایک سوال ہے جو تہذیبوں کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔ جو کوئی چیختا ہے تو اسے شور مچانے والا کہا جاتا ہے۔ جب کوئی مزاحمت کرتا ہے تو اسے باغی یا فسادی لکھا جاتا ہے اور جب کوئی بندوق اٹھاتا ہے تو اس کے ساتھ ایک لیبل چپکا دیا جاتا ہے، دہشت گرد کا۔ یہ لیبل وہ ہیں جو طاقتور قومیں اپنے مفاد کی بنیاد پرگھڑتی ہیں۔
جن ہاتھوں میں بارود کے ڈھیر ہوتے ہیں وہی طے کرتے ہیں کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ۔ جس کے پاس میڈیا ہے، میزائل ہیں، منڈی ہے، وہی اپنی مرضی کی کہانی لکھتا ہے اور باقی دنیا بس تماشائی بن کر دیکھتی ہے ،کچھ تالیاں بجاتی ہے ،کچھ چپ رہتی ہے اور کچھ کچلے ہوئے لوگ بند گلیوں میں مر جاتے ہیں۔
میں نے فلسطین میں وہ بچی دیکھی ہے جس کے پاؤں کے نیچے سے زمین چھینی گئی۔ میں نے ان نوجوانوں کو سنا ہے جن کے سوالوں کو گولیوں سے جواب دیا گیا۔ میں نے کشمیر کے ان بچوں کی آنکھوں میں وہ دھند دیکھی ہے جو پیلٹ گنوں سے پیدا ہوتی ہے۔ میں نے کابل، بغداد، یمن،کردستان اور غزہ کی لاشوں پر وہ جھنڈے لہراتے دیکھے ہیں جن پر امن اور ترقی کا دعویٰ ہوتا ہے۔پھر پوچھا جاتا ہے یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟ میں کہتی ہوں انھیں ہم نے ہی پیدا کیا ہے، یہ ہماری خاموشی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ اس ناانصافی کے اندھیرے میں پلتے ہیں جسے ہم قانون کا نام دیتے ہیں۔ یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ناانصافی ہوتی ہے، بھوک ہوتی ہے، جنگ ہوتی ہے۔ یہ کہانی صرف ایک ملک کی نہیں، یہ کہانی ہر اس جگہ کی ہے جہاں طاقتور اور انصاف کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ چکا ہے۔
ایک فلسطینی بچہ اگر پتھر اٹھاتا ہے تو وہ دہشت گر ایک کشمیری نوجوان اگر آزادی کا نعرہ لگاتا ہے تو وہ شدت پسند۔ ایک بلوچ اگر اپنی ماں کے لیے انصاف مانگتا ہے تو وہ ریاست کا دشمن لیکن اگر ایک سپر پاور ہزاروں میل دور جا کر بمباری کرے تو وہ امن قائم کر رہی ہے۔کیا انصاف کا پیمانہ یہی ہے؟ کیا ہم صرف اس لیے خاموش ہیں کہ ہم محفوظ ہیں؟ یا اس لیے کہ ہمارے ضمیر کو نیند پسند ہے؟ ہم نے دہشت گردی کو اتنا سیاسی اتنا معاشی اور اتنا مفاد پرست بنا دیا ہے کہ اب اصل سوال دب چکے ہیں۔ ہم بھول گئے کہ کسی بھی شدت پسندی کے پیچھے فقر ظلم جبر اور محرومی ہوتی ہے۔ ہم نے صرف نتائج پر شور مچایا اسباب پر کبھی نہیں۔
ہم نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایک لڑکی اگر مدرسے سے نکل کر بندوق اٹھاتی ہے تو اس پر کیا بیتی؟ ایک لڑکا اگر مزدوری کے بجائے خودکش جیکٹ پہن لیتا ہے تو وہ اس مقام تک کیوں پہنچا؟وہ کیا حالات ہوتے ہیں جب ایک انسان انسان رہنا چھوڑ دیتا ہے؟مجھے اپنا ایک جملہ یاد آ رہا ہے جو برسوں پہلے لکھا تھا’’ ہم نے المیوں کو گنتی میں بدل دیا اور زندگی کو لاش میں۔‘‘ آج بھی وہی گنتی جاری ہے۔ لاشیں گنی جا رہی ہیں مگر درد کوکوئی نہیں تولتا۔ہماری دنیا وہ دنیا ہے جہاں پینٹاگون کا بیان حقیقت بن جاتا ہے، جہاں اسرائیل کی گولی خبر نہیں بنتی لیکن فلسطینی کی چیخ اشتعال کہلاتی ہے۔
ہماری لغت میں دہشت گرد ایک ایسا لفظ ہے جو صرف کمزوروں کے لیے مخصوص ہے۔ طاقتورکا کوئی عمل دہشت گردی نہیں کہلاتا۔ جب نیٹو غلطی سے شادی کی تقریب پر بم گرا دیتی ہے تو وہ کولَیٹرل ڈیمیج کہلاتا ہے۔ جب اسرائیلی ٹینک مسجد کے مینار پرگولہ داغتا ہے تو وہ دفاعی کارروائی کہلاتی ہے لیکن جب ایک بچہ پتھر مار دیتا ہے تو وہ عالمی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہر دہشت گرد ایک دن معصوم بچہ تھا۔ ہر شدت پسند نے کبھی کسی ماں کی گود میں مسکراہٹ کے ساتھ آنکھ کھولی تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ اس مسکراہٹ کو بارود میں بدل بیٹھا؟ اور ہاں کچھ لوگ واقعی درندے ہوتے ہیں لیکن کیا درندے بھی پیدا ہوتے ہیں؟ یا حالات محرومیاں اور ظلم انھیں درندہ بنا دیتے ہیں؟ یہ سوال میں دنیا سے نہیں خود سے کرتی ہوں۔
جب کوئی نوجوان افریقہ کے کسی جنگ زدہ علاقے سے آتا ہے اور یورپ میں نفرت کی دیواروں سے ٹکرا کر پلٹتا ہے جب کوئی میانمار سے جان بچا کر بنگلہ دیش کے کیمپوں میں سسکنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کوئی شام میں کیمیائی گیس سے اپنے بچوں کو مرتا دیکھتا ہے اور جب کوئی ہندو، مسلمان، یہودی، عیسائی اپنی شناخت کی بنیاد پر جبر سہتا ہے تو ان سب کے دلوں میں ایک ہی آگ سلگتی ہے دنیا ہمیں سنتی کیوں نہیں؟ ہمیں جینے کیوں نہیں دیتی؟
یہ وہ مقام ہے جہاں کچھ لوگ صبر کا دامن تھامے رکھتے ہیں اورکچھ لوگ بندوق اٹھا لیتے ہیں۔ تب دنیا انھیں دہشت گرد کہتی ہے اور اپنی جان چھڑا لیتی ہے لیکن میں یہ سوال دوبارہ اٹھاتی ہوں، یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟ کیا وہ واقعی دہشت گرد ہوتے ہیں؟ یا ہم سب جو ظلم دیکھتے ہیں اور چپ رہتے ہیں ان کے خاموش خالق ہوتے ہیں؟ دنیا میں کہیں بھی اگر کوئی نوجوان بارود کا راستہ اختیارکرتا ہے تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچا؟ یہ سوال بہت ضروری ہے۔
اگر ہم نے یہ سوال نہ پوچھا نہ سمجھا تو ہرگلی ہرکوچہ ہر بستی میں ایک اور دہشت گرد جنم لیتا رہے گا ہمارے نظام کی کوکھ سے ہماری خاموشی ہماری بے حسی سے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے اگر یہ خاموشی اور ظلم نہ رکا تو انسانیت کو اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں ہے تو وہ ہے تو اس ہوتی ہے جاتا ہے یہ سوال جب کوئی ہے اور
پڑھیں:
ملک میں پیسے والا آدمی ڈائریکٹ ٹیکس دینے کو تیار نہیں
لاہور:تجزیہ کار فیصل حسین کا کہنا ہے کہ جو ٹیکس کی بات ہے یہ وہی والی بات آ رہی ہے کہ جس پر زور چل رہا ہے اسی سے ٹیکس لے رہے ہیں، اس ملک میں تنخواہ دار آدمی کی گردن آپ کے جوتے کے نیچے آ چکی ہے تو آپ اس کو دبائے چلے جا رہے ہیں دبائے چلے جا رہے ہیں، لیکن جو آپ کے قابو میں نہیں آ رہا اس پر سے آپ نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس ملک کے اندر پیسے والا آدمی ڈائریکٹ ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہے، ان ڈائریکٹ دیتا ہوگا۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہاکہ میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے کہ جب ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتے ہیں توہمیں سال ڈیڑھ سال بڑی اسٹیبلیٹی نظر آتی ہے اکانومی میں، ہمیں سارے مائیکرو اکنامک انڈیکیٹرز بہتری کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل سچویشن اس کے بعد اسٹارٹ ہوتی ہے جب گورنمنٹ گروتھ کی طرف جاتی ہے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ ظاہر ہے اس میں ہماری غلطیاں ہیں ، کبھی کوئی فوجی حکمران کوئی ڈرامہ لگا کہ بیٹھ جاتا تھا، کچھی کچھ، کبھی امریکا کے پیسوں کے سہارے چلتے تھے اور جیسے ہی پیسے گئے سارے کے سارے یہاں پر انسٹی ٹیوشنز ہی غائب تھے، کوئی کام ہی نہیں تھا۔
تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ آئی ایم ایف اگلے مالی سال کیلیے 14ہزار ارب روپے ٹیکس کا بڑا ہدف دے رہی ہے، رواں مالی سال میں بجٹ میں ٹیکسوں کی وصولی کا جو ہدف تھا اس میں بھی پہلے دس ماہ میں 830 ارب روپے کا شارٹ فال ہے، ایک طرف تو حکومت اور ایف بی آر کو چیلنج یہ ہوگا کہ کیا وہ اس ہدف کو پورا کر سکیں گے؟، بھارت کے ساتھ جو کشیدگی ہوئی ہے جو بھارتی جارحیت ہوئی ہے اس کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا جو دفاعی بجٹ ہے اس میں بڑا اضافہ ناگزیرہوگا۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہاکہ آئی ایم ایف کا پریشر یہی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ ریونیو جنریٹ کریں، ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو بڑھایا جائے تاکہ ٹیکس نیٹ میں جو چیزیں ہیں وہ لے کہ آئی جائیں، اب گورنمنٹ کا یہی تھا کہ سیلیرڈ کلاس کو ریلیف دیا جائے، کتنا ریلیف دے دیں گے دو پرسنٹ ،تین پرسنٹ یا ٹیکس کی جو سلیب ہے ایک لاکھ سوا لاکھ تک کر دیںگے،گورنمنٹ پٹرولیم لیوی سے یا سیلیرڈ کلاس سے ریونیو جنریٹ کرتی ہے باقی کیا دیتے ہیں۔