Express News:
2025-11-03@18:03:29 GMT

یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT

وہ چھوٹا سا لڑکا جو ملبے کے ڈھیر سے کتاب نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ماں جو لاپتہ بیٹے کی تصویر لیے دہلیز پر بیٹھی ہے۔ وہ نوجوان جو جنگ زدہ شہر کی دیواروں پر امید کے اشعار لکھتا ہے۔ یہ سب کون ہیں؟ اور وہ کون ہے جو ہمیں دن رات سمجھاتا ہے کہ یہ سب دہشت گرد ہیں؟ صدیوں سے ایک سوال ہے جو تہذیبوں کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔ جو کوئی چیختا ہے تو اسے شور مچانے والا کہا جاتا ہے۔ جب کوئی مزاحمت کرتا ہے تو اسے باغی یا فسادی لکھا جاتا ہے اور جب کوئی بندوق اٹھاتا ہے تو اس کے ساتھ ایک لیبل چپکا دیا جاتا ہے، دہشت گرد کا۔ یہ لیبل وہ ہیں جو طاقتور قومیں اپنے مفاد کی بنیاد پرگھڑتی ہیں۔

جن ہاتھوں میں بارود کے ڈھیر ہوتے ہیں وہی طے کرتے ہیں کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ۔ جس کے پاس میڈیا ہے، میزائل ہیں، منڈی ہے، وہی اپنی مرضی کی کہانی لکھتا ہے اور باقی دنیا بس تماشائی بن کر دیکھتی ہے ،کچھ تالیاں بجاتی ہے ،کچھ چپ رہتی ہے اور کچھ کچلے ہوئے لوگ بند گلیوں میں مر جاتے ہیں۔

میں نے فلسطین میں وہ بچی دیکھی ہے جس کے پاؤں کے نیچے سے زمین چھینی گئی۔ میں نے ان نوجوانوں کو سنا ہے جن کے سوالوں کو گولیوں سے جواب دیا گیا۔ میں نے کشمیر کے ان بچوں کی آنکھوں میں وہ دھند دیکھی ہے جو پیلٹ گنوں سے پیدا ہوتی ہے۔ میں نے کابل، بغداد، یمن،کردستان اور غزہ کی لاشوں پر وہ جھنڈے لہراتے دیکھے ہیں جن پر امن اور ترقی کا دعویٰ ہوتا ہے۔پھر پوچھا جاتا ہے یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟ میں کہتی ہوں انھیں ہم نے ہی پیدا کیا ہے، یہ ہماری خاموشی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ اس ناانصافی کے اندھیرے میں پلتے ہیں جسے ہم قانون کا نام دیتے ہیں۔ یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ناانصافی ہوتی ہے، بھوک ہوتی ہے، جنگ ہوتی ہے۔ یہ کہانی صرف ایک ملک کی نہیں، یہ کہانی ہر اس جگہ کی ہے جہاں طاقتور اور انصاف کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ چکا ہے۔

ایک فلسطینی بچہ اگر پتھر اٹھاتا ہے تو وہ دہشت گر ایک کشمیری نوجوان اگر آزادی کا نعرہ لگاتا ہے تو وہ شدت پسند۔ ایک بلوچ اگر اپنی ماں کے لیے انصاف مانگتا ہے تو وہ ریاست کا دشمن لیکن اگر ایک سپر پاور ہزاروں میل دور جا کر بمباری کرے تو وہ امن قائم کر رہی ہے۔کیا انصاف کا پیمانہ یہی ہے؟ کیا ہم صرف اس لیے خاموش ہیں کہ ہم محفوظ ہیں؟ یا اس لیے کہ ہمارے ضمیر کو نیند پسند ہے؟ ہم نے دہشت گردی کو اتنا سیاسی اتنا معاشی اور اتنا مفاد پرست بنا دیا ہے کہ اب اصل سوال دب چکے ہیں۔ ہم بھول گئے کہ کسی بھی شدت پسندی کے پیچھے فقر ظلم جبر اور محرومی ہوتی ہے۔ ہم نے صرف نتائج پر شور مچایا اسباب پر کبھی نہیں۔

ہم نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایک لڑکی اگر مدرسے سے نکل کر بندوق اٹھاتی ہے تو اس پر کیا بیتی؟ ایک لڑکا اگر مزدوری کے بجائے خودکش جیکٹ پہن لیتا ہے تو وہ اس مقام تک کیوں پہنچا؟وہ کیا حالات ہوتے ہیں جب ایک انسان انسان رہنا چھوڑ دیتا ہے؟مجھے اپنا ایک جملہ یاد آ رہا ہے جو برسوں پہلے لکھا تھا’’ ہم نے المیوں کو گنتی میں بدل دیا اور زندگی کو لاش میں۔‘‘ آج بھی وہی گنتی جاری ہے۔ لاشیں گنی جا رہی ہیں مگر درد کوکوئی نہیں تولتا۔ہماری دنیا وہ دنیا ہے جہاں پینٹاگون کا بیان حقیقت بن جاتا ہے، جہاں اسرائیل کی گولی خبر نہیں بنتی لیکن فلسطینی کی چیخ اشتعال کہلاتی ہے۔

ہماری لغت میں دہشت گرد ایک ایسا لفظ ہے جو صرف کمزوروں کے لیے مخصوص ہے۔ طاقتورکا کوئی عمل دہشت گردی نہیں کہلاتا۔ جب نیٹو غلطی سے شادی کی تقریب پر بم گرا دیتی ہے تو وہ کولَیٹرل ڈیمیج کہلاتا ہے۔ جب اسرائیلی ٹینک مسجد کے مینار پرگولہ داغتا ہے تو وہ دفاعی کارروائی کہلاتی ہے لیکن جب ایک بچہ پتھر مار دیتا ہے تو وہ عالمی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔

 ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہر دہشت گرد ایک دن معصوم بچہ تھا۔ ہر شدت پسند نے کبھی کسی ماں کی گود میں مسکراہٹ کے ساتھ آنکھ کھولی تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ اس مسکراہٹ کو بارود میں بدل بیٹھا؟ اور ہاں کچھ لوگ واقعی درندے ہوتے ہیں لیکن کیا درندے بھی پیدا ہوتے ہیں؟ یا حالات محرومیاں اور ظلم انھیں درندہ بنا دیتے ہیں؟ یہ سوال میں دنیا سے نہیں خود سے کرتی ہوں۔

جب کوئی نوجوان افریقہ کے کسی جنگ زدہ علاقے سے آتا ہے اور یورپ میں نفرت کی دیواروں سے ٹکرا کر پلٹتا ہے جب کوئی میانمار سے جان بچا کر بنگلہ دیش کے کیمپوں میں سسکنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کوئی شام میں کیمیائی گیس سے اپنے بچوں کو مرتا دیکھتا ہے اور جب کوئی ہندو، مسلمان، یہودی، عیسائی اپنی شناخت کی بنیاد پر جبر سہتا ہے تو ان سب کے دلوں میں ایک ہی آگ سلگتی ہے دنیا ہمیں سنتی کیوں نہیں؟ ہمیں جینے کیوں نہیں دیتی؟

یہ وہ مقام ہے جہاں کچھ لوگ صبر کا دامن تھامے رکھتے ہیں اورکچھ لوگ بندوق اٹھا لیتے ہیں۔ تب دنیا انھیں دہشت گرد کہتی ہے اور اپنی جان چھڑا لیتی ہے لیکن میں یہ سوال دوبارہ اٹھاتی ہوں، یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟ کیا وہ واقعی دہشت گرد ہوتے ہیں؟ یا ہم سب جو ظلم دیکھتے ہیں اور چپ رہتے ہیں ان کے خاموش خالق ہوتے ہیں؟ دنیا میں کہیں بھی اگر کوئی نوجوان بارود کا راستہ اختیارکرتا ہے تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچا؟ یہ سوال بہت ضروری ہے۔

 اگر ہم نے یہ سوال نہ پوچھا نہ سمجھا تو ہرگلی ہرکوچہ ہر بستی میں ایک اور دہشت گرد جنم لیتا رہے گا ہمارے نظام کی کوکھ سے ہماری خاموشی ہماری بے حسی سے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے اگر یہ خاموشی اور ظلم نہ رکا تو انسانیت کو اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوتے ہیں ہے تو وہ ہے تو اس ہوتی ہے جاتا ہے یہ سوال جب کوئی ہے اور

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے: امریکا
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر