رحیم یارخان: کچے کے علاقے سے ٹارگیٹڈ آپریشن کے دوران دو مغیوں کو بازیاب کروالیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
فوٹو بشکریہ پنجاب پولیس فیس بُک اکاؤنٹ
پنجاب پولیس نے رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں کامیاب ٹارگیٹڈ آپریشن کرتے ہوئے دو مغوی شہریوں کو بازیاب کروالیا۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق ڈی پی او رحیم یار خان عرفان علی سموں کی قیادت میں تھانہ احمد پور لمہ پولیس نے کچہ کرمنلز کے خلاف آپریشن کیا۔
اس دوران دو طرفہ شدید فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس کے نتیجے میں ملزمان مغوی شہریوں کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
پولیس کے ترجمان کے مطابق ڈاکوؤں کے خلاف جدید ٹیکنالوجی، بکتر بند ایلیٹ فورس کا استعمال کیا گیا، پولیس نے ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کو آگ لگادی جبکہ ڈاکوؤں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم مسلح ملزمان نے ضمیر اور رمضان نامی شہریوں کو چند روز قبل اغواء کر کے کچہ منتقل کیا تھا۔
مغوی ضمیر اور رمضان آرائیں کے اغواء کا مقدمہ تھانہ احمد پور لمہ میں درج تھا۔
دوسری جانب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے مغویوں کو باحفاظت بازیاب کروانے پر ڈی پی او عرفان علی سموں اور پولیس ٹیم کو شاباش دی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
جرمنی نے درجنوں عراقی شہریوں کو ملک بدر کر دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) مشرقی جرمن ریاست تھورنگیا کی وزارتِ انصاف کے مطابق، ملک بدر کیے گئے تمام افراد ''تنہا مرد‘‘ تھے جنہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وزارت نے مزید بتایا کہ ان میں سے کچھ افراد ماضی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، اس ملک بدری کے عمل میں سات وفاقی ریاستیں اور وفاقی پولیس شامل تھیں۔
ڈی پی اے نیوز ایجنسی کے فوٹوگرافر کے مطابق، مسافروں کو پولیس کی گاڑیوں اور ہوائی اڈے کی بسوں کے ذریعے جہاز تک لے جایا گیا، اور ہر ایک کو انفرادی طور پر پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں طیارے میں سوار کرایا گیا۔
تھورنگیا کی وزیرِ انصاف بیاتے مائسنر، جو حکمران کرسچن ریٹک پارٹی (سی ڈی یو) سے تعلق رکھتی ہیں، نے کہا، ''ہمارا پیغام واضح ہے: جو کوئی بھی رہائشی حق نہیں رکھتا، اسے ہمارے ملک سے جانا ہو گا۔
(جاری ہے)
‘‘اس سے قبل جمعہ کو، جرمنی نے 81 افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیجا، یہ چانسلر فریڈرش میرس کی حکومت کے تحت ایسی پہلی ملک بدری تھی۔
افغانستان کے لیے ملک بدریوں کا دوبارہ آغازجرمن وزارت داخلہ نے جمعے کے روز تصدیق کی تھی کہ 81 افغان باشندوں کو لیپزگ ایئرپورٹ سے ایک پرواز کے ذریعے ان کے وطن واپس بھیج دیا گیا۔
برلن حکومت نے کہا کہ وہ افغانستان میں طالبان حکومت سے بات چیت کے بعد مزید افغان شہریوں کی ملک بدری کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ جرمنی نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا البتہ اس کے دو سفارت کاروں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
برلن کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو افغان تارکین وطن کی مزید ملک بدری کی سہولت فراہم کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
جرمنی کی ملک بدریوں سے متعلق پالیسیتقریباً 10 ماہ قبل، جرمنی نے 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار افغان شہریوں کی ملک بدری دوبارہ شروع کی تھی۔ اس وقت کے چانسلر اولاف شولس نے مسترد شدہ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے عمل کو تیز کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ان کے جانشین فریڈرش میرس نے فروری 2025 کے انتخابی مہم میں سخت امیگریشن پالیسی کو بنیادی نکتہ بنایا۔
جرمنی کو اس فیصلے پر تنقید کا سامنا بھی ہے، کیونکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں رپورٹ ہو رہی ہیں، اور طالبان سے مذاکرات کو بھی متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا کہ لوگوں کو افغانستان واپس بھیجنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ''ہم افغانستان میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو دیکھ رہے ہیں۔
‘‘کابل میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ ''زمین پر حالات ابھی واپسی کے لیے مناسب نہیں ہیں۔‘‘
ملک بدری کے متعلق برلن کی دلیلوفاقی جرمن حکومت کی دلیل ہے کہ وہ ''اس اقدام کے ذریعے مخلوط حکومت کے معاہدے میں طے شدہ ایک اہم وعدے پر عمل کر رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے لیے ملک بدریوں کا آغاز ان افراد سے کیا جائے گا جو مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں یا سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔
‘‘ادھر جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیس نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک بدری کی مزید پروازیں ہوں گی۔
انہوں نے کہا، ''حکومت نے جرائم کے مرتکب افراد کو منظم طریقے سے بے دخل کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور یہ کام صرف ایک پرواز سے پورا نہیں ہو گا۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین