پاک بحریہ کا ملکی بڑی بندرگاہوں پر 2 روزہ مشقوں کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
پاک بحریہ کی 2 روزہ مشقوں کا مقصد اہم بحری تنصیبات کے تحفظ کے طریقہ کار کو مزید مؤثر بنانا تھا، بندگاہوں کی حفاظتی مشقوں کا انعقاد پاک بحریہ کی کوسٹل کمانڈ کے زیر اہتمام کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاک بحریہ نے پاکستان کی بڑی بندرگاہوں پر کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے 2 روزہ مشقوں کا انعقاد کیا۔ مشقوں کا مقصد اہم بحری تنصیبات کے تحفظ کے طریقہ کار کو مزید مؤثر بنانا تھا، بندگاہوں کی حفاظتی مشقوں کا انعقاد پاک بحریہ کی کوسٹل کمانڈ کے زیر اہتمام کیا گیا۔ ان مشقوں میں پاک میرینز اور ایس ایس جی (این) کے علاوہ نیوی کے بحری اور فضائی اثاثوں نے حصہ لیا جبکہ قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی کے لیے سمندری راستوں کی بلا تعطل حفاظت پاک بحریہ کی اولین ترجیح ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مشقوں کا انعقاد پاک بحریہ کی
پڑھیں:
پاکستان: انسداد پولیو مہم کو بڑا دھچکا، رواں برس 11ویں کیس کا اندراج
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جون 2025ء) پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں سات سال بعد پولیو کا پہلا کیس سامنے آنے پر اسے ملک سے پولیو کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ایک اور بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ انسداد پولیو کی متعدد حفاظتی مہمات چلائی جانے کے باجود یہ رواں سال جنوری سے اب تک رجسٹرڈ کیا جانے والا 11واں پولیو کیس ہے۔
پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کے مطابق متاثرہ بچہ ضلع دیامر کا رہائشی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ واحد دو ممالک ہیں، جہاں اب تک پولیو وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان نے اتوار کو اس سال کی تیسری قومی سطح کی پولیو ویکسین مہم مکمل کی تھی، جس کا ہدف 45 ملین بچوں کو ویکسین دینا تھا۔
(جاری ہے)
شمال مغربی علاقے میں پولیو پروگرام کے ڈائریکٹر محمد اقبال نے بتایا کہ مقامی صحت حکام ابھی بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنوبی بندرگاہی شہر کراچی میں پایا جانے والا پولیو وائرس کیسے ضلع دیامر کے بچے کو متاثر کر سکا۔گرمیوں کے موسم میں کراچی اور دیگر شہروں سے ہزاروں سیاح گلگت بلتستان کے سیاحتی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے کئی سالوں سے مہمات جاری ہیں، تاہم حفاظتی عملے اور ویکسینیشن ٹیموں کو عسکریت پسندوں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جو ان مہمات کو مغربی سازش قرار دیتے ہیں۔ 1990 کی دہائی سے اب تک پولیو ویکسینیشن ٹیموں پر حملوں میں 200 سے زائد انسداد پولیو مہم کے عملے کے ارکان اور ان کی حفاظت پر معمور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
پولیو ایک انتہائی متعدی وبائی مرض ہے جو خاص طور پر بچوں کو متاثر کرتا ہے اور ان کے اعصابی نظام کو نقصان پہنچا کر دائمی معذوری یا موت کا باعث بن سکتا ہے۔ عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں اور تقریباً تمام ممالک نے اس بیماری کو ختم کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
تاہم، پاکستان میں سیاسی، سماجی اور سیکورٹی مسائل کی وجہ سے پولیو کے مکمل خاتمے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔
خاص طور پر شمالی علاقہ جات اور قبائلی علاقوں میں حفاظتی عملے کو نشانہ بنانے کی وجہ سے ویکسینیشن مہمات متاثر ہو رہی ہیں۔پاکستان کی حکومت عالمی ادارے صحت (WHO) اور یونیسف کے تعاون سے ملک بھر میں پولیو ویکسین کی مہمات چلا رہی ہے تاکہ ہر بچے کو حفاظتی ٹیکے دیے جا سکیں۔ اس کے باوجود، پولیو وائرس کا پھیلاؤ روکنا ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ کچھ علاقوں میں ویکسین کے حوالے سے غلط فہمیاں اور مخالفت پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے بچے حفاظتی ٹیکے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق پولیو وائرس کی مسلسل مانیٹرنگ اور عوامی آگاہی مہمات کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن ہو سکے۔
شکور رحیم، اے پی کے ساتھ
ادارت: رابعہ بگٹی