Islam Times:
2025-06-04@13:47:19 GMT

امام خمینی (رح) کا معجزہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

امام خمینی (رح) کا معجزہ

اسلام ٹائمز: مصر کے مشہور و معروف صحافی محمد حسنین ہیکل دو مرتبہ امام خمینی (رح) کی زیارت کرچکے ہیں، پہلے پیرس اور پھر 1979ء میں تہران میں۔۔ تہران کے دورے کے بعد انہوں نے اس ملاقات کی یادوں کو تقریباً سو صفحات پر مشتمل کتاب میں شائع کیا۔ حسنین ہیکل لکھتے ہیں؛ "میں نے امام خمینی کو اسلام کے آغاز میں رسول خدا (ص) کے اصحاب میں سے ایک پایا، جو معجزانہ طور پر وقت کی سرنگ سے گزر کر موجودہ صدی میں علی (ع) کی فوجوں کی کمان کرنے کیلئے آئے، جو ان کی شہادت اور انکے اہلبیت (ع) کے خونی ایثار کے قائد کے بغیر تھے اور میں ان میں یہ طاقت دیکھتا ہوں۔ حسین شریعتمداری کے تفصیلی تجزیہ سے اقتباس

امام خمینی (رح) کے اس قول پر توجہ فرمائیں۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر آپ نے ایک بیان جاری کیا، جس میں آپ بے فرمایا، آج میں جو کہنا چاہتا تھا، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر کچھ واقعات رونما ہوئے، ہماری روایات کے مطابق نایاب واقعات نقل ہوئے ہیں، ان واقعات کی تحقیق کی جائے۔سنی شیعہ تاریخ میں ہے کہ اس دن محل کسریٰ میں پانی بھر گیا اور ایسا زلزلہ آیا کہ ایوان کسریٰ کے 14 کنگرے زمین پر گر پڑے اور طاق کسریٰ شگافتہ ہوگیا اور فارس کی وہ آگ جو ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھی، فوراً بجھ گئی۔

یہ حقیقت کہ جبر کے محل کی چودہ کنگریاں تباہ ہوگئیں۔ امام خمینی اپنے پیغام میں کہتے ہیں۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ چودھویں صدی یا چودہویں صدی کے بعد ہوگا۔؟ طاق کسریٰ کی چودہ کنگریوں کا ٹوٹنا اور فارس کی آگ کا معدوم ہونا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت بتوں کے گرنے کا قصہ اس وقت سے لے کر آج تک مورخین کی تحریروں اور تقریروں میں کئی بار آیا ہے۔ لیکن اس واقعہ کی امام مرحوم کی تشریح اور چودھویں صدی (موجودہ صدی) میں تسلط کے نظام کے خاتمے کا اعلان خود امام ہی نے کیا ہے۔ آپ نے کیا دیکھا جو دوسروں نے نہیں دیکھا؟!

دسمبر 1979ء کے اوائل میں، امریکی میگزین ٹائم کے ایک رپورٹر نے ایک خصوصی انٹرویو میں امام خمینی (رح) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "آپ نے جدید دنیا سے الگ زندگی گزاری ہے، آپ نے جدید معاشیات، بین الاقوامی قانون اور نئے بین الاقوامی تعلقات سے متعلق مسائل کا مطالعہ نہیں کیا، آپ سیاست کی موجودہ دنیا اور اس کے موجودہ مساوات میں شامل نہیں ہیں، کیا آپ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ آپ  موجودہ مساوات کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ آپ نے جواب میں فرمایا، ہم نے رائج عالمی مساوات اور سماجی اور سیاسی معیارات کو توڑ دیا ہے۔ ان معیارات کو ختم کر دیا ہے، جس سے اب تک دنیا کے تمام مسائل کو ماپا جاتا ہے، ہم نے ایک نیا فریم ورک بنایا ہے، جس میں ہم نے انصاف کو دفاع کا معیار اور جبر کو حملے کا معیار بنایا ہے۔

ہم ہر انصاف کا دفاع کرتے ہیں اور ہر ظالم پر حملہ کرتے ہیں، اب تم جو چاہو، اسے نام دو۔ آپ کے معیار کے مطابق میں کچھ نہیں جانتا اور میرا نہ جاننا بہتر ہے۔ ٹائم میگزین کے رپورٹر نے اپنے انٹرویو کی اشاعت کے وقت جو تعارف تیار کیا تھا، اس کی  طنزیہ تحریر کچھ یوں تھی۔’’ ہم ایک عظیم شیعہ عالم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس نظام کو بدلنے کے لیے آئے ہیں، وہ نظام جو آج کی دنیا میں نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا پر حکومت کرتا ہے اور وہ اس کی جگہ ایک ایسا نظام لانا چاہتے ہیں، جس میں انصاف، جبر، سماجی تعلقات اور سیاسی مساوات اسلامی معیار کے مطابق ہیں۔ امام خمینی (رح) نے جو کہا تھا، اس کی بازگشت واضح طور پر سنائی دے رہی ہے۔

ایک مشہور امریکی ماہر عمرانیات، ایمانوئل والرسٹائن تشویش کے ساتھ کہتے ہیں: "ہمارے عالمی نظام کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امام خمینی کا ولایت فقیہ کا نظریہ ہے۔۔۔۔۔ تمام نظریات وقت کے ساتھ معدوم اور متروک ہوتے جا رہے ہیں اور تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، لیکن امام خمینی کا نظریہ ولایت فقیہ کا عقیدہ اور علم و فکر کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ہر روز جاندار اور بہت سے مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔" Anton Giddens، ایک مشہور انگریز ماہر عمرانیات، موجودہ صدی کی بنیادی پیش رفت کے بارے میں لکھتے ہیں؛ "ماضی میں عمرانیات کے تین دانشوروں یعنی مارکس، ڈرکھائم اور میکس ویبر نے کچھ اختلاف کے ساتھ دنیا کے عمومی عمل کو مذہب کی پسماندگی کی علامت قرار دیا تھا، لیکن 1979ء کے بعد اور ایران میں اسلامی انقلاب کے ظہور کے بعد، ہم نے دیکھا کہ دنیا کا یہ عمل تیز رفتاری سے مذہبیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔"

مصر کے مشہور و معروف صحافی محمد حسنین ہیکل دو مرتبہ امام خمینی (رح) کی زیارت کرچکے ہیں، پہلے پیرس اور پھر 1979ء میں تہران میں۔۔ تہران کے دورے کے بعد انہوں نے اس ملاقات کی یادوں کو تقریباً سو صفحات پر مشتمل کتاب میں شائع کیا۔ حسنین ہیکل لکھتے ہیں؛ "میں نے امام خمینی کو اسلام کے آغاز میں رسول خدا (ص) کے اصحاب میں سے ایک پایا، جو معجزانہ طور پر وقت کی سرنگ سے گزر کر موجودہ صدی میں علی (ع) کی فوجوں کی کمان کرنے کے لئے آئے، جو ان کی شہادت اور ان کے اہل بیت (ع) کے خونی ایثار کے قائد کے بغیر تھے اور میں ان میں یہ طاقت دیکھتا ہوں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں: "فقیہ کی ولایت علی (ع) کی حاکمیت کی علامت ہے۔۔۔ فقیہ کی ولایت کی بارودی سرنگ علی علیہ السلام نے اسلام کے آغاز میں دشمن کے خلاف نصب کی اور بیسویں صدی میں خمینی نے اس کا استکبار کے قدموں تلے دھماکہ کر دیا۔ یہ سوال اب بھی پوشیدہ ہے: "کیا دنیا کی تمام چھوٹی اور بڑی طاقتوں کی کئی دہائیوں سے جاری کوششوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران اب بھی قائم و دائم نہیں۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے بعد

پڑھیں:

امام خمینی ؒ ۔۔۔۔۔ احیاء گر اسلام، عدیم المثال شخصیت

اسلام ٹائمز: یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بیسویں صدی کا یہ عظیم انسان اور دلوں پر حکمرانی کرنے والی سب سے بلند مرتبہ شخصیت آج بھی دنیا بھر کے آزادی و حریت کا شعار بلند کرنے والوں کی مکمل راہنمائی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ اس عظیم مسیحا اور روشنی کے مینار کا کردار ظلم کی چکی میں پسنے والے اور مظلوم بنا دیئے گئے، پا برہنہ لوگوں کیلئے مشعل راہ اور کامیابی کی کلید ہے۔۔۔۔ یہ اگرچہ سخت اور مشکل راہ ہے، تکلیفوں اور مصائب کی راہ ہے۔۔۔۔ قربانیوں و ایثار کی راہ ہے۔۔۔۔ دکھوں اور غموں کی راہ ہے۔۔۔۔ جان گنوانے کی راہ ہے۔۔۔۔ مگر یہ آزادی، حریت، غیرت، حمیت اور نسلوں کے مستقبل سنوارنے کی راہ ہے۔۔۔۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

آج امام خمینی (رح) کی چھتیسویں برسی ہے، سیاست عالم پر حضرت امام خمینی کے اثرات اس قدر گہرے اور موثر ہیں کہ ان چھتیس برسوں میں وہ مسلسل اپنے افکار، بلند کردار اور جدوجہد کے حامل انقلاب اسلامی ایران کی سیاست کے ذریعے ہر لمحہ و لحظہ سیاست کے بڑوں کے ذہنوں پر چھائے دیکھے گئے۔ اس لیے کہ یہ ان کا لایا ہوا انقلاب اور اس کے محافظین، اور ملت ایران نے ان کی روش، ان کے راستہ، ان کی سوچ، ان کے افکار اور ان کے راستے کو ترک نہیں کیا۔ سختیاں، پابندیاں اور ناروا سلوک برداشت کیا ہے، مگر انقلاب کے ہدف، امام خمینی (رح) کے مقصد کو زندہ رکھا ہے۔ قدیم و جدید، اگر غور کریں تو تاریخ انسانی زندگی کے روشن اور تاریک کرداروں کے کارناموں سے لبریز ہے، تاریک کرداروں کے بارے میں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے انسانوں کی فطری آزادی کو زنجیروں میں جکڑنے، ان کی سوچ، فکر اور حریت کو قید کرنے کیلئے اور لوگوں کے شخصی و اجتماعی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے طرح طرح کے ظالمانہ اقدامات کئے اور آزادی کے نعروں کے علمبرداروں، ایسے افکار و کردار کے حاملوں اور حق کے شعاروں کو بلند کرنیوالوں کو اپنے سخت شکنجوں میں جکڑ کر سخت سے سخت سزائیں دی ہیں۔۔۔

تاریخ کے یہ کردار ہر دور اور ہر زمانے میں کہیں حاکم بن کر، کہیں بادشاہ، کہیں فرعون، کہیں شداد اور کہیں جدید تہذیب کے بانی جمہوری وزیراعظم اور صدر بن کر ابھرے، ان کے زمانے تو مختلف تھے، ان کے ممالک اور سلطنتیں تو جدا تھیں، مگر ان کا کام، ان کا کردار، ان کے افعال، ان کی جدوجہد، ان کی خواہش، ان کی آرزوئیں، ان کے اہداف، نہ صرف یکساں تھے بلکہ ان مقاصد، اہداف اور آرزوئوں کی تکمیل میں سدراہ بننے والوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور طریقہء واردات بھی یکساں تھا۔ یعنی سختی، ظلم و جبر اور قتل۔۔۔ سختی کیساتھ یہ لوگ اپنے مقابل کھڑے ہونے والوں کو دبا دیتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ یہ سختی الٹا ان کے گلے پڑ جاتی۔۔۔۔ اور ان کا ظلم جلتی پر تیل کا کام کر جاتا۔۔۔۔ چنانچہ تاریخ کے جھروکوں میں ان کالے کرتوتوں کے مالک تاریک کرداروں کے مقابل ہمیں انبیاء الہیٰ اور اولیائے خدا سالاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ ، حضرت خاتم الانبیاء ؐ اور پھر مولائے متقیان حضرت علی ؑ اس کی چند مثالیں ہیں۔

آج جب حضرت امام خمینیؒ کو ہم سے جدا ہوئے 36برس ہوگئے ہیں تو آپ کی عظیم جدوجہد اور کامیاب اسلامی انقلاب اور اس کے ثمرات و اثرات انبیاء و اولیائے الہیٰ کی ان تاریخی و روشن تحریکوں کی طرح نمایاں اور بلند ترین دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت امام خمینیؒ کی تحریک اگرچہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی تحریک تھی، مگر اس کے اثرات کو دیکھا جائے تو یہ ایک تسلسل ہے، یہ تحریک اگرچہ ایک ظالم و سفاک حکمران خاندان کے خلاف تھی، جس نے اپنے عوام کو اپنی مملکت اور اس کے وسائل کو غیروں کے سامنے گروی رکھ چھوڑا تھا اور ظلم و بربریت و طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی کر رہا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک ان تمام ظالم و جابر اور استعماری کرداروں کے خلاف تھی، جو ایران کی شاہی حکومت کے "شہنشاہ" تھے اور اس خطے پر اصلی حکمران بھی تھے۔ لہٰذا۔۔۔۔ حضرت امام خمینیؒ کا انقلاب ان تمام طاقتوں کی شکست تھا، جو ایران پر اپنے پنجے گاڑ کر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کو اب ہلانے والا اب کوئی نہیں۔

امام خمینیؒ نے اس تحریک کی سپہ سالاری کی او راس راہ پُرخار میں آپ کو بے انتہاء مظالم کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ قید و بند، شکنجے، دربدری، نظر بندی، جلاوطنی، ہجرتیں اور اپنے پیاروں کا خون پیش کرنا پڑ، اپنوں اور پرایوں کے طعنے برداشت کرنا پڑے، انقلاب اسلامی کے قیام اور اس کی بقاء کیلئے ہزاروں نہیں لاکھوں جوان، مرد، پیر، بچے، خواتین اس راہ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اپنے خون سے آزادی، استقلال، حریت جیسے معتبر الفاظ لوگوں کے ذہنوں پر گہرے انمٹ نقوش کی مانند تحریر کر گئے۔ امام خمینیؒ نے عظیم فتح حاصل کرکے اسلامی انقلاب برپا کیا تو مشکلات اور مصائب نے ایران پر یلغار کر دی۔ عالمی طاقتوں کی مخالفتوں کی تمام توپوں کا رخ ایران کی طر ف مڑ گیا۔ سازشوں کے جال چہار اطراف میں ڈال دیئے گئے۔ کبھی صدام سے ایران پر حملہ کروا کر، کبھی مساجد اور پارلیمنٹ میں بم چلوا کر اس کے قائدین کا خون بہا کر اس انقلاب کو ناکام بنانے کی کوششیں ہوئیں۔

عالمی سطح پر ایران پر اقتصادی پابندیاں لگیں، بائیکاٹ ہوا، مگر امام ؒ کے پایہء استقلال میں کمی نہ آئی۔ شعب ابی طالب ؑ کے پروردہ امام خمینیؒ نے اپنے جد کی یاد بیسویں صدی میں تازہ کر دی اور ثابت کر دیا کہ کل مکہ کے سرداروں کے سامنے جس طرح پیغمبر اکرم ؐ نے جھکنے سے انکار کر دیا تھا، اسی طرح آج کے نام نہاد عالمی ٹھیکیداروں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور یہی عزت و غیرت کا راستہ و شیوہء پیغمبری ہے۔ امام خمینیؒ نے حریت، آزادی، استقلال اور غیر متزلزل اندازِ سیاست اور کردار کا جو نمونہ پیش کیا، اس نے دیگر مظلوم اور ستم رسیدہ اقوام میں بھی حوصلہ اور ہمت پیدا کر دی۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد مشرق وسطیٰ بالخصوص اور پوری دنیا میں چلنے والی اسلامی و آزادی کی تحریکوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ہمارے ملک سمیت ہر خطہ میں لوگوں کی زبان پر یہ جملہ ہوتا تھا کہ ہمارے ملک کو ایک خمینیؒ کی ضرورت ہے۔

فلسطین کی آزادی کی تحریک کی جو حمایت اور مدد امام خمینیؒ نے کی، اس کی وجہ سے ہی مظلومین فلسطین نے آج تک اپنی تحریک جہاد و شہادت کو جاری رکھا ہوا ہے اور امام خمینی کے بعد ان کے جانشین و مسئولین انقلاب اسلامی نے اس حوالے سے کبھی کوتاہی نہیں کی اور اہل فلسطین کو دیگر مسلم ممالک کی طرح مایوس نہیں کیا۔ ان کی برملا مدد اور تعاون جاری رکھا ہوا ہے، آج تحریک آزادی فلسطین اپنی حیثیت منوا چکی ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کا وجود حضرت امام خمینیؒ کی شاندار پالیسیوں اور افکار و کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حزب اللہ لبنان نے عالمی بدمعاش اسرائیل کے خلاف جس طرح جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے، وہ جہاد، شہادت، عزم، ارادہ، عہد، پیروی ولایت و رہبری جیسے خوبصورت افکار جن کی بنیاد حضرت امام خمینی (رح) کی ذات بابرکات ہے، کی بدولت ہی اسرائیل کا مقابلہ ڈت کے کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حزب اللہ نے جو عظیم المرتبت قربانیاں پیش کیں، وہ عشاقان امام خمینی کے سالار ہی تو تھے۔

اسلامی جہاد اور حماس کی صورت میں فلسطین کے اندر امام خمینیؒ کی فکر سے رُشد حاصل کرنے والے مزاحمت اسلامی کے سرخیل آج اپنی گردن اور سر جھکانے کیلئے تیار نہیں ہوئے، اس لئے کہ ان کے سامنے ایک روشن کردار موجود ہے، جو استعمار کے سامنے کبھی نہیں جھکا۔ عراق جس کیساتھ آٹھ سال تک مسلسل امام خمینی کو مسلط کردہ جنگ میں دھکیلا گیا تھا، آج فرزندان عراق امام خمینی کی فکر سے روشنی پا کر ہی اپنے ملک کو عالمی استعمار امریکہ کے چنگل سے آزاد کروانے میں مشغول اور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یمن میں انصاراللہ کا وجود اس دور میں کسی غیبی امداد و مدد کا بہترین نمونہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انصار اللہ یمن کے انقلابی افکار کے مالک پابرہنہ یمنی مسلمان فکر امام خمینی کی وراثت کا حق ادا کر ہے ہیں، اہل یمن کو دونوں ہاتھوں سے سلیوٹ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس کے حقدار ہیں، انہوں نے استعمار کے سامنے ایک دن بھی گردن نہیں جھکائی۔

امام خمینی کی جانب سے روس کے ٹوٹنے کی پیشین گوئی اور روسی صدر گورباچوف کو اسلام کی دعوت امام خمینیؒ کا افتخار و اعزاز بھی ہے اور اسلام کی صداقت پر مہر تصدیق بھی۔ رسول خدا ؐ کے خلاف سلمان رشدی ملعون کی کتاب کی اشاعت کے بعد آپ نے تاریخی فتویٰ دے کر اسے ہمیشہ کیلئے محدود کر دیا، یورپ اس فتویٰ کی وجہ سے کئی بار ایران سے تعلقات توڑنے کا اعلان کرتا رہا، مگر ایران نے اس فتویٰ کو ہمیشہ واپس لینے سے انکار ہی کیا اور ہر قسم کے پریشر اور دبائو کو خاطر میں لائے بغیر اس پر قائم و دائم رہا ہے، یہ فتویٰ آج بھی قابل عمل ہے۔ امام خمینیؒ اگرچہ 4 جون 1989ء کو ہم سے جدا ہوگئے، مگر ان کا دکھایا ہوا راستہ آج بھی اسی طرح روشن ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ امام خمینیؒ کی راہ، نجات کی راہ ہے۔۔۔ آزادی کی راہ ہے۔۔۔ عالمی قذاقوں اور غنڈوں کے سامنے جرات اظہار اور مظلوموں کی حمایت و نصرت کی راہ ہے۔۔۔۔ اپنے مقصد اور ہدف کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کی راہ ہے۔۔۔ اس راہ کا راہی ہر کوئی نہیں ہوسکتا۔

اس پر چلنے کیلئے گھر بار، اولاد، مال و دولت، ملک کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ رات کی تاریکیاں خدا سے راز و نیاز میں صرف کرنا پڑتی ہیں۔ کردار کا نمونہ عمل بننا پڑتا ہے، عمل کا ہمالیہ سر کرنا پڑتا ہے اور تقویٰ و اخلاص کی بلندی کو چھونا پڑتا ہے۔ امام خمینیؒ نے ہمیشہ عوام کی طاقت پر بھروسہ کیا اور اس یقین و بھروسہ کے بل بوتے پر طویل و کٹھن تحریک کے پُرخار مراحل کو طے کیا۔ عزم راسخ اور پختہ یقین کے ساتھ قربانیوں کی داستان رقم کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسلام و مسلمانوں کی عزت رکھ لی۔ آپ نے امریکی اسلام کو طشت از بام کیا اور ظالم حکمرانوں سے تنگ آئے ہوئے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں انقلاب و آزادی کی روح پھونکنے میں کامیاب ہوئے۔

یہ امام خمینیؒ ہی تھے، جنہوں نے امریکہ کو شیطان بزرگ، "بڑا شیطان" اور انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا اور اس کے خلاف بغاوت کی۔ اپنی اس بغاوت کے ذریعے عصرِ حاضر کے فرعونوں کی نافرمانی کا درس دیا۔ امریکہ جو عالمی سطح پر طاقتور ترین سمجھا جا رہا تھا، ناقابل شکست ہو چلا تھا، اس کا ناقابل شکست ہونے کا طلسم توڑ دیا۔ آپ کی اس بغاوت نے فلسطین، الجزائر، افغانستان اور دیگر کئی ممالک میں جہاد کے در وا کر دیئے اور امت کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد آگیا، امریکہ و استعماری طاقتوں کا گھمنڈ خاک میں ملا دیا۔۔۔ امام خمینیؒ کی عدیم المثال شخصیت تھی، جن کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھنے والی تحریکوں اور تنظیموں کی قیادتوں میں خود اعتمادی اور امید پیدا ہوئی اور ان کی جدوجہد میں تیزی آئی اور کئی ایک مسلمان ممالک میں باشعور نوجوان کھلے عام اپنے استعمار شکن نظریات کا اظہار کرنے لگے۔

یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بیسویں صدی کا یہ عظیم انسان اور دلوں پر حکمرانی کرنے والی سب سے بلند مرتبہ شخصیت آج بھی دنیا بھر کے آزادی و حریت کا شعار بلند کرنے والوں کی مکمل راہنمائی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ اس عظیم مسیحا اور روشنی کے مینار کا کردار ظلم کی چکی میں پسنے والے اور مظلوم بنا دیئے گئے، پا برہنہ لوگوں کیلئے مشعل راہ اور کامیابی کی کلید ہے۔۔۔۔ یہ اگرچہ سخت اور مشکل راہ ہے، تکلیفوں اور مصائب کی راہ ہے۔۔۔۔ قربانیوں و ایثار کی راہ ہے۔۔۔۔ دکھوں اور غموں کی راہ ہے۔۔۔۔ جان گنوانے کی راہ ہے۔۔۔۔ مگر یہ آزادی، حریت، غیرت، حمیت اور نسلوں کے مستقبل سنوارنے کی راہ ہے۔۔۔۔ آ ج ہم یہ بات برملا کہہ سکتے ہیں کہ 4 جون 1989ء بہشت زہراؑ تہران کی طرف ایک کروڑ انسانوں کا بڑھتا ہوا ہجوم جس انسان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے پورے ایران سے اُمڈ آیا تھا، دراصل یہ ان نظریات و افکار کو سلام پیش کیا جا رہا تھا، جس پر چلتے ہوئے آج کا ایران دنیا کی ظالم و متکبر طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر امام خامنہ ای اور ڈاکٹر احمدی نژاد کی ولولہ انگیز مدبر قیادت میں مقابلہ کرنے کیلئے تیار دکھائی دے رہا ہے اور دنیا بھر کے پسے ہوئے انسانوں کیلئے مینارہ نور کا کام کر رہا ہے۔

آخر میں ان کے الہیٰ و سیاسی وصیت نامہ کا ایک ٹکڑا قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں (یہ وصیت نامہ ہر جوان کو پڑھنا چاہیئے) امام اُمّت، بت شکن زمان، عارفِ زمان، مرجع جہان آیت اللہ العظمیٰ حضرت امام سید روح اللہ موسوی خمینی؛ میں پرسکون دل، مطمئن قلب، شادمان روح اور فضلِ الہیٰ کیلئے آرزو مند ضمیر کے ساتھ رخصت ہو کر ابدی دنیا کی طرف سفر کر رہا ہوں۔ مجھے آپ سب کی دُعاؤں کی شدید ضرورت ہے۔ میں اپنے پروردگار، خداوند رحمان و رحیم سے دعا گو ہوں کہ وہ میری کوتاہی، کمی اور لغزشوں کو درگزر فرمائے اور میری خدمت کو قبول فرمائے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور میں امام خمینیؒ کی برسی پر سیمینار
  • امام خمینی ؒ ۔۔۔۔۔ احیاء گر اسلام، عدیم المثال شخصیت
  • انقلاب، جمہور اور انتخابات امام خمینی کی نظر میں
  • امام خمینی ؒ، ایک منفرد قائد
  • وادی کشمیر میں امام خمینیؒ کی 36ویں برسی پر اہم سیمینار
  • امام خمینیؒ اور اسلامی انقلاب کے ثمرات
  • کراچی، تحریک بیداری کے تحت برسی امام خمینیؒ پر اجتماع
  • غزہ فلسطین کی نجات امام خمینیؒ کے راستے میں ہے، علامہ جواد نقوی
  • ہنگو میں برسی امام خمینی رح