امام خمینیؒ اور اسلامی انقلاب کے ثمرات
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: بین الاقوامی فورموں پر کشمیر پر بات کرنیوالا، پاکستان اور کشمیریوں کے موقف کی حمایت کرنیوالا ملک ایران نظر آتا ہے۔ دنیا میں مظلوموں کی آزادی کی تحریکوں کی ایران سیاسی، مالی اور اخلاقی مدد کر رہا ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ عوام کے حقوق انکی خواہشات کے مطابق دیئے جائیں۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے مجھے اچھا لگا کہ اگر پاک انڈیا کشیدگی کے تناظر میں بھارتی میڈیا میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے تو ایران نے وزیراعظم شہباز شریف کو تہران دورے کی دعوت دی۔ اپنے دورے کے دوران وزیراعظم نے رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات بھی کی اور ایران کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی
الحمدللہ! ایران کے انقلاب اسلامی کو قائم ہوئے 46 سال ہوچکے ہیں۔ یہ انقلاب ایک شخص یا ایک دن کی جدوجہد نہیں، دہائیوں پر محیط زمانہ گذرا اور لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، تب جا کر ایران پہلا ملک بنا، جس نے صدیوں سے قائم بادشاہت کا بت پاش پاش کر دیا۔ ایران کے حوزہ ہائے علمیہ میں درس و تدریس میں مشغول علماء اسلام نے اسلامی انقلاب کی ابتداء امام خمینی کی قیادت کے منظرعام پر آنے سے بہت پہلے کر دی تھی۔ جیسے کہ علماء کی قیادت میں برطانوی حکومت کی مداخلت کے خلاف ’’تمباکو بائیکاٹ تحریک‘‘ شروع ہوئی، اس وقت کے مرجع تقلید آیت اللہ سید محمد حسن شیرازی نے 1891ء میں فتویٰ جاری کیا کہ تمباکو کا استعمال حرام ہے، جس کے نتیجے میں عوام نے تمباکو چھوڑ دیا اور اس وقت کی ایرانی شاہی حکومت کا برطانوی ریجی کمپنی کے ساتھ پچاس سالہ معاہدہ ختم ہوگیا۔
حوزہ علمیہ قم المقدس سے امام خمینیؒ کی طاقتور للکار اٹھی تو حکومت نے اسے دبانے کیلئے رہبر انقلاب اسلامی کو ایران سے عراق جلا وطن کر دیا، لیکن عراقی حکومت بھی امام خمینیؒ کی انقلابی سرگرمیوں کو برداشت نہ کرسکی تو وہ فرانس چلے گئے۔ انہوں سے بیرون ممالک بیٹھ کر بھی ایران میں موجود قیادت کیساتھ مسلسل رابطہ برقرار رکھا اور ان کی رہنمائی کرتے رہے۔ آخر شاہ ایران نے ظلم و بربریت اور غیر ملکی سرپرستی کے باعث علماء اور عوام کا جینا دوبھر کر دیا، اس وقت شاہ ایران کیخلاف متحرک افراد کو ایران کی ایجنسیوں کے ذریعے قتل کیا جاتا رہا اور بہت زیادہ تعداد میں نوجوانوں کو تہران اور قم کے درمیان "نمک کی جھیل المعروف حوز سلطان" میں ہیلی کاپٹر سے نیچے گرایا جاتا کہ ان کی چیخیں تک سنائی نہ دیتی تھیں۔
شاہ ایران کے ظلم کیخلاف عوام میں بیداری اور انقلابی راستوں کو آشکار کرنے کیلئے پیرس کے نواحی گاوں "نوفل لوشاتو" سے درویش صفت رہبر انقلاب اسلامی امام خمینیؒ نے ایران کے عظیم عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے اتنا دباو بڑھایا کہ شاہ ایران کو اپنے خاندان کے افراد کیساتھ ملک بدر ہونا پڑا۔ ایران کے بڑے شہروں خصوصاً تہران میں عوام کا جم غفیر سڑکوں پر نکل آیا تو متدین اور انقلابی ساتھیوں کی اپیل پر آپ فرانس سے تہران ایئرپورٹ پہنچے تو عوام کا جوش تاریخی استقبال کی شکل میں رونما ہوا۔ بادشاہت سے پاک ملک کو اسلامی جمہوری ایران کا نام دیا گیا، نئی انقلابی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ مکمل ہوا۔ چشم فلک نے حالیہ تاریخ میں ایسا انقلاب پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جس کی قیادت ایک بوریا نشین متقی عالم دین کر رہا ہو۔ آپؒ نے پہلی فرصت میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے مملکت کا اسلامی دستور بنا کر ریاست کے خدوخال واضح کر دیئے۔
اسلامی حکومت تشکیل پائی۔ ماہر سیاستدان سید ابوالحسن بنی صدر کو حکومت کا سربراہ بنایا گیا، لیکن چند ہی دنوں بعد اس کی مشکوک سرگرمیوں کی بنیاد پر اقتدار سے ہٹا دیا گیا تو وہ ملک چھوڑ کر فرانس فرار ہوگیا۔ پارلیمنٹ کے مواخذہ کے بعد عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا۔ ابتدائی دنوں میں ہی ایران کے نوزائیدہ انقلاب کو سبوتاژ کرنے کیلئے صدام حکومت کے ذریعے جنگ مسلط کی گئی، جبکہ ایران کے اندر اہم حکومتی عہدیداروں کو مختلف طریقوں سے قتل کیا جانے لگا۔ انقلاب کے بعد امام خمینیؒ نے عالی شان محلات کی بجائے تہران کے نواحی علاقے جماران میں بہت ہی سادہ رہائش گاہ رکھی، وہ دو کمروں کے گھر میں رہتے تھے، جس کیساتھ مسجد اور حسینیہ تھا۔ حسینیہ کی بالکونی میں بیٹھ کر لوگوں سے خطاب کرتے اور یہیں بیرون ملک سے آنیوالے رہنماوں سے ملاقاتیں بھی کرتے تھے۔
امام خمینی کے ساتھی اور حکومتی عہدیدار پارلیمنٹ ہاوس میں ہونیوالے دھماکے میں وزیراعظم محمد علی رجائی کیساتھ شہید ہوئے تو عوام کی ایک بڑی تعداد تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی کی رہائش گاہ پر پہنچی۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور نعرے لگا رہی تھی آغا، رجائی نیستند، باہنر نیستند، ترجمہ۔ "رجائی نہیں رہے، باہنر بھی نہیں رہے۔" امام خمینی حسینیہ کی بالکونی پر آئے اور ہاتھوں کو لہراتے ہوئے دنیا کی عظیم شخصیت کو یہ کہتے سنا کہ رجائی و ہاہنر نیستند، خدا ہست۔ ترجمہ۔ "رجائی اور باہنر نہیں تو کوئی بات نہیں، خدا تو ہے۔" اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ پر یقین رکھنے والے عظیم انسان نے اگلے عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ بین الاقوامی سامراجی سازشوں کے ذریعے ایران کے ہمسایہ ممالک کو انقلاب اسلامی کا خوف اجاگر کرکے ایران کیخلاف متحد کیا گیا اور ان کے حکمرانوں کے اندر افراتفری پھیلانے کیلئے سرمایہ کاری کی گئی، سازشوں کے جال بنے گئے، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
امام انقلاب نے امریکہ، اسرائیل، روس اور یورپی ممالک کو لا شرقیہ لا غربیہ کا نعرہ لگا کر للکارا۔ سامراج نے پراپیگنڈہ کے ذریعے ہمسایہ ممالک کو باور کروانا شروع کر دیا کہ ایران میں خمینی کا انقلاب تمہاری بادشاہتوں اور آمرانہ نظام کو بھی ختم کر دے گا۔ لہٰذا انقلاب کو ختم کرنے کیلئے سب متحد ہو جاو۔ آٹھ سالہ ایران عراق جنگ میں ہمسایہ عرب ممالک کا سرمایہ اور سامراجی ممالک خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کا اسلحہ بھی ایران کے اسلامی انقلاب کو نہ روک سکا، بلکہ ہر قسمی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود خمینیؒ صاحب کی زندگی کے بعد اب تک علمائے اسلام کی حکومت نہ صرف موجود ہے، بلکہ موجودہ رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ وہ وقت بھی سامنے ہے کہ لبنان کی شیعہ امل تحریک سے لیکر حزب اللہ کے سربراہ شہید حسن نصراللہ اور اب تک اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ ہے۔
وہ مسئلہ فلسطین جس کو سامراج سمجھتا تھا کہ سرزمین انبیاء صیہونی حکومت کے زیر اثر رہے گی اور ناجائز صیہونی حکومت کا حصہ بنے گی، لیکن ایران کے اسلامی انقلاب نے فلسطین اور غزہ کی پٹی میں حماس کے مختصر نوجوانوں کی مدد کرکے اسرائیل کا مقابلہ کیا، جو اب تک جاری ہے۔ یہ بھی اسی انقلاب کے اثرات میں سے ہے کہ یمن نے بھی بڑے دلیرانہ انداز میں بحر احمر کے اندر امریکہ جیسی بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوائے اور امریکہ آج مجبور ہوا ہے کہ حوثی قبائل کی تنظیم انصاراللہ کیساتھ مذاکرات کرکے اپنے بحری بیڑے اور جہازوں کو محفوظ کرنے کی اپیل کرے۔ اسلامی انقلاب نے عراق کی حشدالشعبی کو اتنا جرات مند کر دیا ہے کہ وہ امریکہ کو للکار کر ملک سے نکلنے کا حکم دے رہے ہیں۔ اس انقلاب کے دفاعی اور سائنسی میدان میں ترقی کے اثرات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ یوکرائن کی جنگ میں ایران کے تیار کردہ ڈرون روس جیسا ملک خرید کر تین سال سے استعمال کر رہا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود تمام شعبہ ہائے زندگی میں ایران دن دگنی رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے اور امریکہ جیسی بڑی طاقت اپنی تمام تر چال بازیوں کے باوجود ایران سے مذاکرات کی بھیک مانگتی ہے اور ایران اپنی شرائط پر مذاکرات کی میز پر آتا ہے۔
مذاکرات کا چوتھا دور بھی مکمل ہوگیا ہے اور خود امریکہ کہہ رہا ہے کہ ہماری بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن ایرانی قیادت ان مذاکرات سے کوئی زیادہ پرامید نہیں۔ کوشش کی گئی کہ انقلاب اسلامی کو محدود کیا جائے، لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں اگر انقلاب برپا نہیں ہوا تو اس کے اثرات اور اس کی قبولیت میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ ہر ذی شعور، انسانی اور اسلامی فکر رکھنے والا، وسعت فکر اور انسانی آزادیوں پر یقین رکھنے والا شخص انقلاب کا حامی نظر آتا ہے۔ پاکستان ہو، بھارت، یمن، سعودی عرب، عراق، شام یا دیگر مسلم ریاستیں یا انسانی حقوق کی بات کرنیوالے لوگ یا جماعتیں سب انقلاب اسلامی کی حمایت میں بات کرتی ہیں۔ نائیجیریا میں اسلامی انقلاب نے بڑے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آیت اللہ ابراہیم زکزکی نے جو انقلاب نائجیریا میں برپا کیا ہے اور جو تڑپ انہوں نے عوام کو دی ہے، یہ امام خمینیؒ کی فکر ہی کا نتیجہ ہے۔ بلاتفریق مذہب و مسلک پاکستان میں انقلاب اسلامی کو ماننے والے اور اس کا دفاع کرنیوالے اور اس کے ساتھ کھڑے ہونیوالوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
اسی طرح سے انقلاب ایران کے ہی اثرات ہیں کہ ایرانی وزیر خارجہ نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کیلیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ بین الاقوامی فورموں پر کشمیر پر بات کرنیوالا، پاکستان اور کشمیریوں کے موقف کی حمایت کرنیوالا ملک ایران نظر آتا ہے۔ دنیا میں مظلوموں کی آزادی کی تحریکوں کی ایران سیاسی، مالی اور اخلاقی مدد کر رہا ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ عوام کے حقوق ان کی خواہشات کے مطابق دیئے جائیں۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے مجھے اچھا لگا کہ اگر پاک انڈیا کشیدگی کے تناظر میں بھارتی میڈیا میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے تو ایران نے وزیراعظم شہباز شریف کو تہران دورے کی دعوت دی۔ اپنے دورے کے دوران وزیراعظم نے رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات بھی کی اور ایران کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ حالیہ کشیدگی میں ایران نے جو مثبت سفارتی کردار ادا کیا ہے، بھارت کی چیخوں کی آوازیں دنیا بھر نے سنی ہیں۔ تو وہ امریکہ جو ایران کو تنہا کرنا چاہتا تھا، آج سفارتی سائنسی دفاعی اور عالمی سیاست میں ہر جگہ موجود ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی کو اسلامی انقلاب بین الاقوامی آیت اللہ سید رہبر انقلاب شاہ ایران انقلاب کے انقلاب نے میں ایران کی قیادت ایران نے کے ذریعے کی حمایت ایران کے کرنے کی آتا ہے اور ان اور اس رہا ہے بھی کی کر دیا ہے اور کر رہا
پڑھیں:
کوئٹہ، "مظلوم فلسطین کی حمایت میں امام خمینیؒ کا کردار" کے عنوان سے کانفرنس منعقد
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے امام خمینیؒ کی بصیرت، عالمی سیاسی فہم اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بانی انقلاب اسلامی، رہبر کبیر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی 36ویں برسی کی مناسبت سے مدرسہ خاتم النبیینؐ کوئٹہ میں "مظلوم فلسطین کی حمایت میں امام خمینیؒ کا کردار" کے عنوان سے کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں علماء اور سماجی، مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے خطاب کیا۔ تقریب کا آغاز قرآن خوانی سے کیا گیا، جسے امام خمینیؒ اور شہدائے فلسطین کی یاد میں منعقد کیا گیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ملی یکجہتی کونسل بلوچستان و امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ امام خمینیؒ کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت اور اسلامی غیرت کی علامت ہے۔ آپ نے انقلاب اسلامی کے ذریعے نہ صرف ایران کو بیدار کیا بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں خصوصاً فلسطینی عوام کے لیے آواز بلند کی۔ ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران، کوئٹہ سید ابو الحسن میری نے کہا کہ امام خمینیؒ نے انقلاب سے قبل ہی 1963 میں فلسطین کی تحریک کی حمایت کی۔ آپ نے فلسطینی عوام کو صبر، جہاد اور استقامت کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ کو امت مسلمہ کے لیے خطرناک سازش قرار دیا۔
مرکزی سیکریٹری نشر و اشاعت، مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ امام خمینیؒ نے قرآن کے سیاسی و فکری تصورات کو عملی میدان میں نافذ کیا۔ آپ نے عالم اسلام کو عالمی استعمار کے خلاف قیام کا پیغام دیا، اور "یوم القدس" کا اعلان کر کے فلسطین کو عالمی اسلامی مسئلہ بنا دیا۔ کانفرنس کے دیگر مقررین میں نائب صدر، ایم ڈبلیو ایم بلوچستان علامہ شیخ ولایت حسین جعفری، رہنما جماعت اسلامی بلوچستان مولانا محمد عارف دمڑ، خطیب مسجد صاحب الزمانؑ، کوئٹہ مولانا چمن علی افضلی، سید میر حسین حسینی، صوبائی جنرل سیکرٹری ایم ڈبلیو ایم علامہ سہیل اکبر شیرازی و دیگر شامل تھے۔ تمام مقررین نے امام خمینیؒ کی بصیرت، عالمی سیاسی فہم اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ مقررین نے کہا کہ امام خمینیؒ کا پیغام آج بھی ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے، اور فلسطین کی آزادی امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔