ثناء یوسف کی آخری مسکراہٹ اور لال اسکوٹی چلاتی لڑکی
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
پرسوں شب جب وہ اپنی 17ویں سالگرہ کا کیک کاٹ رہی تھی، تو کمرے میں اس کی اپنی دوستوں کے ہمراہ کھلکھلاتی ہنسی گونج رہی تھی، نوجوانی کی الہڑ سی خوشبو اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ایسی روشنی جو ابھی کاجل اور میک اپ کی تہوں سے مبرا تھی۔ اس کے چہرے پر معصومیت اور مستقبل کے خواب ایک ساتھ جھلک رہے تھے۔ لیکن کیا اسے معلوم تھا کہ کیک کاٹنے والی وہ انگلیاں اگلے دن ٹھنڈی ہو جائیں گی؟
کیا اسے اندازہ تھا کہ یہ اس کی آخری رات ہے جب اس کے کمرے کی کھڑکی سے چاندنی اس پر چھن چھن کر برس رہی ہے اور ابھرتے چاند کی دودھیا روشنی میں وہ اپنی آخری ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہی ہے؟ کیا وہ جانتی تھی کہ کل دوپہر وہ ان سیل کلچر کی بھینٹ چڑھنے والی ہے؟ جی ہاں اڈولینس سیریز میں زیر بحث آنے والا ‘ان سیل کلچر’ ‘Involuntary Celibate’ جو مرد کو سکھاتا ہے کہ عورت انہیں رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اور اگر ایسا ہو تو ایسی عورتوں کی کردار کُشی، لعن طعن اور قتل تک کردینے کی اجازت ہے۔
ان سیل کلچر سکھاتا ہے کہ دنیا ظالم ہے۔ جہاں عورت مجرم اور مرد، انتقام میں جلتی ایک زندہ لاش۔’
کیٹی کے جسم پر چھرے سے وار کرنے والا 14سالہ جیمی، کند چھری سے نور مقدم کا سر تن سے جدا کرنے والا 28سالہ ظاہر جعفر اور ثناء یوسف پر گولیاں برسانے والا 22سالہ عمر حیات، سب کے پیچھے ایک ہی مائنڈ سیٹ ہے کہ اگر لڑکی کسی سے دوستی کرسکتی ہے تو پھر یقیناً سستا مال ہے جو سب کے لیے دستیاب ہے یا ہونی چاہیے اور اگر انکار کی جسارت کرتی ہے تو موت ہی اس کا مقدر ہے۔
ثناء یوسف 17سال کی باہمت چترالی لڑکی بھی ایسے ہی شخص کی گولیوں کا نشانہ بنی جو اس کے متواتر انکار پر اس کے قتل کو جائز سمجھتا تھاـ ثناء، جس کی مسکراہٹ میں دنیا کی تلخیوں کا علاج تھا، جس کی آنکھوں میں خوابوں کے کئی شہر آباد تھے کیونکہ وہ کم عمری میں ہی خود مختاری کی راہ پر چل نکلی تھیـ ثناء محبت یا شادی نہیں، بلکہ خود پر اختیار چاہتی تھی۔ لیکن سالگرہ کی اگلی دوپہر وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ بظاہر اس کا خاندان بھی اس کی ابھرتی ہوئی پُر اعتماد شخصیت پر نازاں تھا لیکن یہ بات معاشرے کو گوارا نہ تھی۔
معاشرے نے پوچھا: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
ہمارے معاشرے کے مردوں کی غیرت کہاں مرگئی؟
ان کا غرور کیوں خاموش ہے؟
یہ لڑکی تو خود سر عام مردوں کو دعوت دے رہی ہے کہ، ‘آؤ مجھے مار ڈالو، کیونکہ میں انکار کرنا جانتی ہوں۔ آؤ مجھے قتل کر دو، کہ میں اپنی ترجیح پر جینا چاہتی ہوں۔ آؤ مجھے گولیوں سے روند دو، کہ میں مہکنا چاہتی ہوں۔’ تو پھر کہاں جا مرے ہیں اس معاشرے کے سارے مائی کے لال جو اس بے غیرت کو جہنم واصل کریں؟
پھر ثناء کا بھی وہی انجام ہوا جو ظاہر جعفر نے نور مقدم کو انکار کرنے کی پاداش میں دیا تھاـ تب بھی کیا جہلا تو کیا پڑھے لکھے، کیا روشن خیال تو کیا دقیانوسی اور کیا مرد تو کیا خواتین، سب نور کو ہی ملامت کیے گئے کہ ایک نامحرم کے ساتھ وہ آخر تھی ہی کیوں؟ پھر تو یہی حشر روا رکھا جانا تھاـ
ثناء یوسف کے لیے بھی یہی عذر گھڑے جارہے ہیں کہ
‘خس کم، جہاں پاک۔’
‘اچھا ہوا، گند صاف ہوا۔’
‘ایسی لڑکیوں کو ایسے ہی مرنا چاہیے ـ’
“چلو کوئی تو غیرت مند نکلا ـ’
‘زبردست آہستہ آہستہ گند صاف ہو رہا ہے ـ’
یہ صرف الفاظ نہیں، یہ صدیوں پرانی سوچ جو اب ایک بیمار، زہریلے ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جو عورت کو انسان نہیں، ایک شے سمجھتی ہے۔
جسے ‘رکھا’ جاتا ہے۔
جسے ‘چلایا’ جاتا ہے۔
اور جب وہ اپنی مرضی دکھاتی ہے، تو ‘مار دیا’ جاتا ہے۔
جب کوئی لڑکی انکار کرتی ہے، اپنے وجود پر اختیار جتاتی ہے، یا زندگی سے اپنی راہ خود چنتی ہے، تو مرد کا انا پرست دل اسے برداشت نہیں کر پاتا۔ کیونکہ اس معاشرے نے مرد کو یہ سکھایا ہی نہیں کہ انکار سننا بھی سیکھو۔
یہ بتایا ہی نہیں کہ محبت کوئی لین دین نہیں۔
یہ جتلایا ہی نہیں کہ عورت کوئی پراپرٹی نہیں بلکہ ایک مکمل جیتا جاگتا وجود ہے۔ یہ بوسیدہ معاشرہ مرد کو صرف بےحسی، مردانگی کی جھوٹی انا سکھاتا آیا ہے اور اب یہ مردانہ خود سری سر چڑھ کر ناچ رہی ہے۔
تبھی تو ایک معصوم صورت بچی کے قتل پر کل سے سوشل میڈیا پر لوگ کہہ رہے ہیں ‘خس کم، جہاں پاک’ تو وہ یہ نہیں جانتے کہ خس نہیں گیا ایک انسان کی جان گئی ہےـ جہاں پاک نہیں ہوا مزید آلودہ ہوا ہے۔
یہ ان سیل جیسے کلچر صرف مرد کی انا کو ہی کیوں مجروع کرتے ہیں؟ کتنی عورتیں ہیں جو رشتہ ٹھکرانے پر مردوں پر تیزاب گیری کرتی پائی گئیں؟ یا سر راہ جان لیتی نظر آئیں؟ کتنی عورتوں نے اپنی انا کی تسکین، ہوس یا جذبات سے مغلوب ہو کر مردوں کی عزت کو تار تار کیا ہے؟
اگر ہے ایسا تو لائیں کوئی ڈیٹا، کوئی اعداد وشمار یا اخبارات کی سرخیاں؟ جبکہ عورتوں کے خلاف صرف پچھلے ایک سال میں رونما ہونے والے زیادتی، ریپ، قتل کے اعداد و شمار با آسانی دستیاب ہیں۔ اخبارات روز ایسی خبروں سے مردوں کے دلوں کو جِلا بخشتا ہے۔
یہ وہ معاشرہ ہے جہاں عورت کی مرضی تو جرم ہے، لیکن مرد کا غصہ قانون۔ شاید ہم کبھی نہیں سیکھیں گے کہ مرد اورعورت ایک دوسرے کی ملکیت نہیں ہیں۔ محبت اختیار نہیں، احترام میں ہے۔ اور انکار، قتل کا جواز نہیں بلکہ زندگی کا حق ہے۔
یہ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ مارنے والا کون تھا؟ کون نہیں؟ یا کون کون اس قتل میں ملوث ہے، یہ تمام سوالات ثناء کے لہو میں ڈوبے فرش پر تڑپ رہے ہیں۔ ثناء کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ زندہ رہنا چاہتی تھی؟ خوش تھی؟ آزاد تھی؟ جی ہاں فقط یہی اس کا قصور تھا اگر وہ سر جھکائے، سانس روکے، دوسروں کی مرضی کی قید میں صبر شکر کر کے رہتی تو آج ضرور زندہ ہوتی؟
لیکن چونکہ وہ ٹک ٹاکر تھیـ معصومانہ ویڈیوز بنا کر خوش ہوتی تھی اور غالباً چند پیسے بھی کما لیتی ہوگی۔ لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں یہ تمام باتیں ناقابل برداشت ہیں کہ ایک لڑکی دنیا کی نظروں میں نظریں ڈال کر جینے کی تمنا کرے تو مار ڈالیے اسے اور پھر جشن منائیےـ ثناء کا قاتل صرف وہ شخص نہیں جس نے گولی چلائی، اس کےقاتل ہم سب ہیں۔
ہمارا سڑاند بھرا معاشرہ، ہمارے دوغلے مقتدر ادارے، ہماری پرتشدد اور عورت دشمن مذہبی و سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما، ہمارے گھروں کی وہ خاموشیاں جہاں لڑکیوں کی مرضی کو جرم سمجھا جاتا ہے، وہ دوستیاں جو ملکیت بن کر ڈس جاتی ہیں، وہ رشتے جو ڈراتے ہیں دھمکاتے ہیں۔
کیا محبت کا مطلب گولی ہے؟
دوستی کا مطلب اختیار ہے؟
اگر ایک لڑکی ‘نہیں’ کہتی ہے تو اس کا مطلب ‘نہیں’ کے علاوہ ہرگز کچھ اور نہیں ہوتا، نہیں ایک مکمل جملہ ہے۔ اف خدایا! کیا میرے پاس لکھنے کے لیے صرف دکھ ہی رہ گئے ہیں؟ میں نے خود سے سوال کیاـ
لیکن پھر اچانک میری آنکھوں میں امید کے چراغ کی ایک لو لپکی۔ ایک نو عمر لڑکی لال اسکوٹی چلاتی ہوئی سنگم مارکیٹ کے ہجوم میں بلاجھجھک داخل ہوئی اور فرینچ فرائز کا آرڈر دینے لگی۔ میں نے اسے تھمز اپ کیا تو اس نے اس کا جواب گرم جوش مسکراہٹ سے دیاـ اس لمحے مجھے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن پھوٹتی محسوس ہوئی ‘کسی اگلی خوف ناک خبر آنے تک’۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ثناء یوسف جاتا ہے وہ اپنی رہی ہے ہیں کہ ان سیل
پڑھیں:
ثناء یوسف کے قاتل کی عدالت میں پیشی، چہرہ چھپانے پر عوام کا شدید ردِعمل
---فائل فوٹوزٹک ٹاک اسٹار اور سوشل میڈیا انفلوئنسر ثناء یوسف کے قاتل کی عدالت میں پیشی پر چہرہ سیاہ کپڑے سے ڈھاپنے پر عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔
17 سالہ ثناء یوسف کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ثناء کو 2 جون کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب ایک اور ٹک ٹاکر عمر حیات نے ان سے دوستی کی پیشکش کی جسے ثناء نے مسترد کردیا تھا۔
پولیس کے مطابق قاتل نے سوشل میڈیا کے ذریعے ثناء سے رابطہ کیا اور اسے پسند کرنے لگا، مگر بار بار انکار کے باوجود عمر حیات نے انکار برداشت نہ کیا اور انتہائی ظالمانہ قدم اٹھایا۔
اسلام آباد میں پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ عوام و خواص کو شدید دکھ اور صدمے سے دوچار کر گیا ہے
قاتل عمر حیات کا تعلق فیصل آباد سے ہے، پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے اسے گرفتار کیا، گرفتاری کے بعد اس نے اعترافِ جرم بھی کیا، عدالت نے اسے 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، عدالت میں پیشی کے دوران ملزم کے چہرے پر سیاہ نقاب تھا۔
پیشی کے دوران ملزم کا چہرہ چھپانے پر عوام کا شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا، سوشل میڈیا پر صارفین نے سوال اٹھایا کہ جب ایک بے گناہ بچی کی تصاویر ہر جگہ پھیلا دی گئیں ہیں اور لوگ اسے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، تو ایک قاتل کا چہرہ کیوں چھپایا جا رہا ہے؟
اداکارہ مشی خان نے بھی اس متعلق سے آواز بلند کی، انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی ملزم گرفتار ہوتا ہے تو اسے سیاہ کپڑے سے کیوں چھپا دیا جاتا ہے؟ ایسے مجرموں کا چہرہ عوام کے سامنے آنا چاہیے تاکہ سب کو پتہ چلے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے ایسا بھیانک جرم کیا۔
سوشل میڈیا پر عوام غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، صارفین کا کہنا ہے کہ اگر یہ اصل قاتل ہے تو اس کا چہرہ کیوں چھپایا جا رہا ہے؟ ایسے مجرموں کو اس لیے چھپایا جاتا ہے تاکہ بعد میں آسانی سے ضمانت پر رہا کیا جا سکے، اس کا چہرہ دکھاؤ تاکہ پورا ملک جانے کہ یہ وہ درندہ ہے۔