کراچی: ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار ہونے کے معاملے میں اہم انکشاف سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
ڈسٹرکٹ ملیر جیل سے 216نہیں بلکہ225قیدی فرار ہوئے ہیں سابقہ جیل انتظامیہ نے دانستہ بات کو چھپایا یا ان سے غلطی ہوئی، قیدیوں کی دوبارہ گنتی کرنے پرمزید 10 قیدیوں کے فرارہونے کا علم ہوا، سپرنٹنڈنٹ ملیرجیل ایس پی شعبہ تفتیش ملیر کو خط لکھ کر فرارہونے والے قیدیوں کی تعداد سے متعلق آگاہ کردیا۔
رپورٹ کے مطابق 3 جون کو ڈسٹرکٹ ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
ڈسٹرکٹ ملیر جیل کی نئی انتظامیہ نے انکشاف کیا ہے کہ ڈسٹرکٹ ملیرجیل سے216نہیں بلکہ225قیدی فرار ہوئے ہیں، سابقہ جیل انتظامیہ نے دانستہ بات کو چھپایا یا ان سے غلطی ہوئی ہے؟ قیدیوں کی دوبارہ گنتی کرنے پرمزید 10 قیدیوں کے فرارہونے کا علم ہوا۔
سپرنٹنڈنٹ ملیرجیل شہاب الدین صدیقی نے ایس پی شعبہ تفتیش ملیر کو خط لکھ کر فرارہونے والے قیدیوں کی تعداد سے متعلق آگاہ کردیا۔
خط میں بتایا گیا کہ سابق جیل انتظامیہ نے 216 قیدیوں کے فرار کی رپورٹ دی تھی، خط میں جیل سپرنٹنڈنٹ شہاب الدین صدیقی نے بتایا کہ انھوں نے 4 جون کوملیر جیل کا بطورسپرنٹنڈنٹ چارج سنبھالا۔
عید کی تعطیلات کے دوران قیدیوں کی مکمل جانچ پڑتال کی گئی، 10 اضافی قیدی جیل کے احاطے سے لاپتہ پائے گئے ان کی عدم موجودگی ابتدائی فراررپورٹ میں ظاہرنہیں کی گئی تھی۔
خط میں بتایا گیا کہ اب تک 146 قیدیوں کوگرفتارکیا جبکہ 79 تاحال مفرورہیں ایک قیدی کا نام فرارہونے والی لسٹ میں 2 مرتبہ ڈال دیا گیا تھا۔
فرارہونے والی قیدیوں کی نظرثانی شدہ کل تعداد 225 ہےفرار 10 اضافی قیدیوں کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جائے۔
واضح رہے کہ جیل سے فرار ہونے والے رضا پرویزمسیح نامی قیدی نے ماڑی پور مدینہ کالونی خود کشی کرلی تھی جبکہ ایک قیدی جیل سے فرار ہونے کے بعد فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قیدیوں کے فرار ڈسٹرکٹ ملیر انتظامیہ نے قیدیوں کی فرار ہونے ملیر جیل جیل سے
پڑھیں:
منہ میں موجود بیکٹیریا کا خطرناک اعصابی بیماری سے تعلق کا انکشاف
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ رعشے کے مریض کے منہ اور پیٹ میں پائے جانے والے بیکٹیریا میں ہونے والی تبدیلیاں ان مریضوں کی علامات کے بدتر ہونے کے حوالے سے ابتدائی اشارے کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے سائنس دانوں نے بیماری سے متاثر افراد میں ان بیکٹیریل تبدیلیوں اور دماغی مسائل کے درمیان تعلق کی نشاند ہی کی۔
محققین نے بتایا کہ معالجین ٹاکسنز کو ’مارکرز‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ان رعشے کے مریضوں کی شناخت کر سکتے ہیں جن کے ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کے خطرات زیادہ ہوں۔
رعشے کا مرض ایک ارتقائی کیفیت ہے جو دماغ کو متاثر کرتی ہے جس کی علامات میں جسم کے ہلنے کے ساتھ ڈپریشن، توازن کا کھونا، نیند کے مسائل اور یادداشت کا جانا شامل ہے۔
الزائمرز سوسائٹی کے مطابق پارکنسنز میں مبتلا افراد کا ایک تہائی حصہ بالآخر ڈیمیشنیا میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کنگز کالج لندن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سعید شعے کا کہنا تھا کہ انسان کے پیٹ اور منہ کے بیکٹیریا کا تعلق ان اعصابی بیماریوں کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
کنگز کالج لندن کے ماہرین کی سربراہی میں کی جانے والی یہ تحقیق جرنل گٹ مائیکروبز میں شائع ہوئی جس میں سائنس دانوں نے رعشے کے 41 معتدل دماغی مسائل کا شکار رعشے کے مریضوں، 47 رعشے اور ڈیمینشیا کے مریضوں اور 26 صحت مند افراد سے حاصل ہونے والے 228 تھوک اور فضلے کے نمونوں کا جائزہ لیا۔