Express News:
2025-07-27@12:12:29 GMT

یہ ظلم کب تک ؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT

ثناء یوسف اب نہیں رہی، وہ ایک نوجوان ٹک ٹاکر تھی۔ خوبصورت، زندہ دل خوابوں سے بھری ہوئی آنکھیں لیے سوشل میڈیا کی چکا چوند دنیا میں اپنی شناخت بنانے کی تگ و دو میں مصروف۔ مگر اب وہ صرف ایک خبر ہے، ایک لاش، ایک شمار میں اضافہ جو روز بڑھتا ہے، وہ خواتین جو مار دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عزت کے نام پر، بعض اوقات نہیں کہنے پر،کبھی انکار پر،کبھی شک پر اور اکثر تو صرف اس لیے کہ وہ عورت تھیں۔

ثناء کی کہانی وہ کہانی ہے جو اس سرزمین کی ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ مگر ہر بار ہم سنتے ہیں دل تھوڑا دکھتا ہے ،کچھ دن اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر خاموشی سناٹا اور قاتلوں کا اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مردوں کی انا عورتوں کے لہو سے سیراب ہوتی ہے۔ جہاں نہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک گناہ ہے، ایک سزا ہے جس کی قیمت جان سے چکانی پڑتی ہے۔

ثناء کا جرم کیا تھا؟ کہ اس نے ایک رشتے، ایک مرد ، ایک رویے کو نہ کہا؟ یا یہ کہ وہ خود کو اپنی شرائط پر جینے کی کوشش کر رہی تھی؟ جو بھی تھا اس کا فیصلہ گولی سے ہوا۔ اس کی زندگی جو شاید کسی کے لیے بے معنی تھی لیکن اس کی ماں بہن دوست یا اس کے خود کے خوابوں کے لیے قیمتی ترین بیدردی سے چھین لی گئی۔

ثناء یوسف، قندیل بلوچ کی یاد دلاتی ہے۔ قندیل جو مذہبی منافقتوں، سماجی دوغلے پن اور مردانہ اقدارکی دیواروں پر ناخوشگوار مگر سچائی سے بھرے آئینے لٹکا رہی تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، عزت کے نام پر اس کا بھائی جو خاندان کی عزت بچانے آیا تھا، دراصل اپنی مردانگی کے زخم چاٹ رہا تھا جو قندیل کی بیباکی اور خود اختیاری سے خوفزدہ تھا۔

قندیل ہو یا ثناء سب عورتیں ایک ہی جرم کی سزا وار ٹھہرتی ہیں، خود کو انسان سمجھنے کا جرم خود کو اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگنے کا جرم۔ یہی جرم خدیجہ صدیقی کا بھی تھا جسے لاہورکی ایک سڑک پر چاقو سے 23 دفعہ وار کیا گیا اس لیے کہ اس نے جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ایک بااثر شخص کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ زندہ رہی مگر اس کی روح پرکتنے زخم ثبت ہوئے کون جانتا ہے۔

اسی طرح نور مقدم جس کا قصہ کوئی پرانی کہانی نہیں بلکہ جدید پاکستان کے طاقتور اشرافیہ کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ نور کا سر قلم کر دیا گیا اور قاتل کی آنکھوں میں شرمندگی نہیں بلکہ تکبر تھا۔ جیسے کہ کہہ رہا ہو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں مجھے کچھ نہیں ہوگا اور واقعی یہ ملک ایک ایسی پناہ گاہ بن چکا ہے جہاں طاقتور مرد عورت کو قتل کرنے کے بعد بھی فخر سے سر بلند رکھتے ہیں، جہاں قانون انصاف سے پہلے رشتے داری، دولت اور اثر و رسوخ کو پہچانتا ہے۔

اگر ہم تھوڑا اور پیچھے جائیں تو ہمارے حافظے میں مختاراں مائی کا دکھ اب تک تازہ ہے جو گاؤں کے مردوں کی اجتماعی ہوس کا نشانہ بنی اور پھر بھی کھڑی رہی۔ اس نے اپنی آواز نہ صرف بلند کی بلکہ ریاست کے ایوانوں تک پہنچائی۔ مگر اس کی جنگ آسان نہ تھی، اسے خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اس پر انگلیاں اٹھیں مگر وہ ٹوٹی نہیں۔

اور پھر ایک اور نام آتا ہے سبین محمود جو کراچی میں روشن خیالی مکالمے اور سوچ کی آزادی کی علامت تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، اس لیے کہ وہ بولتی تھی اور عورت جب بولتی ہے، سوال اٹھاتی ہے تو خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ سب کہانیاں اس معاشرے کے بدنما چہرے پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہم عورتوں کو عزت کے مقام پر بٹھانے کی بات کرتے ہیں مگر جب وہ جینے کا سانس لینے کا محبت کرنے کا انکارکرنے کا یا صرف نہیں کہنے کا حق مانگتی ہیں تو انھیں دفن کر دیا جاتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام کی گٹھ جوڑ ہے۔ یہاں عورت صرف تب تک قابل قبول ہے جب وہ اطاعت گزار ہو خاموش ہو سجی سنوری ہو مرد کے لیے باعث زینت ہو۔ جیسے ہی وہ سوال کرتی ہے مزاحمت کرتی ہے اپنی حدود خود طے کرتی ہے وہ خطرہ بن جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ مرد روتے ہیں کہ اب مردوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے کہ عورتیں حد سے بڑھ رہی ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے کہ روز نئی ثناء نئی قندیل، نئی نور، نئی زینب قتل کی جا رہی ہے۔ زینب کو کون بھولا ہے؟ وہ معصوم بچی جو قصور کی گلیوں سے اغوا ہوئی، ریپ کا نشانہ بنی اور اس کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔

ریپ اور قتل کے یہ واقعات صرف جرم نہیں یہ ہمارے سماج کی شکست ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے اور ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری کا آئینہ ہے۔اگر ہم سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لڑکیوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ صرف بیوی، بیٹی، بہن نہیں، انسان بھی ہیں اور لڑکوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عورت ان کی ملکیت نہیں بلکہ برابری کی حقدار ہے۔

ہمیں ریاست سے انصاف مانگنا ہے مگر ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرکا سماج بھی بدلنا ہو گا۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں بیٹی کو کم اور بیٹے کو برتر سمجھتے رہیں گے جب تک ہم عورت کی عزت گھر کی چار دیواری میں جیسے جھوٹے نظریات کو سینے سے لگائے رکھیں گے، تب تک ثناء یوسف، نور مقدم، قندیل بلوچ، زینب، خدیجہ، مختاراں، سبین سب کی قبریں ہمارے ضمیر پر سوال اٹھاتی رہیں گی۔

ثناء کی ماں کو انصاف چاہیے، مگر انصاف صرف اس کے قاتل کو پھانسی دینے سے نہیں ہوگا، انصاف تب ہوگا جب ہر لڑکی نہیں کہنے کا حق لے سکے اور وہ حق اس کی موت نہ بنے۔

ہمیں ثناء کے لیے آواز بلند کرنی ہے کیونکہ وہ خاموش کردی گئی۔ ہمیں اس کے لیے چیخنا ہوگا کیونکہ اس کا گلا گھونٹا گیا۔ ہمیں لکھنا ہوگا، بولنا ہو گا، سڑکوں پر نکلنا ہوگا، کیونکہ عورت کی جان عزت رائے خواب اور انکار سب کچھ قیمتی ہے۔ثناء صرف ایک نام نہیں وہ ہر وہ لڑکی ہے جو اپنے لیے جینا چاہتی ہے جو نہیں کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور جو جانتی ہے کہ وہ صرف ایک جسم نہیں ایک مکمل انسان ہے۔لیکن سوال یہ ہے کیا ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم ایک اور ثناء کے مرنے کا انتظارکریں گے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ نہیں کہنے صرف ایک ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

شاداب کے انتظار میں نائب کپتان کی پوسٹ ختم

لاہور:

شاداب خان کے انتظار میں نائب کپتان کی پوسٹ ہی ختم ہوگئی، دورہ بنگلا دیش کے بعد ویسٹ انڈیز سے سیریز کیلیے بھی کپتان سلمان علی آغا کا کوئی نائب مقرر نہیں کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ کوچ مائیک ہیسن کا ہے، وہ سینیئر آل راؤنڈر کی واپسی کے منتظر ہیں، دوسری جانب ایک ’’بااثر‘‘ سلیکٹر تو شاداب کی ٹیم میں شمولیت کے ہی سخت مخالف ہیں۔

تفصیلات کے مطابق مائیک ہیسن اور شاداب خان کوچ اور کپتان کی حیثیت سے ایک ہی پی ایس ایل فرنچائز اسلام آباد یونائٹیڈ میں شامل رہے ہیں، اس دوران ان کی اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی، کوچ کو آل راؤنڈر کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے، وہ انھیں اچھا ٹیم مین بھی سمجھتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ دورہ بنگلا دیش کے لیے نائب کپتان کی تقرری نہ کرنے کا کوچ مائیک ہیسن نے کہا تھا، وہ شاداب خان کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں جو جلد ہوتی نظر نہیں آتی، ویسٹ انڈیز سے سیریز کے لیے بھی سلمان علی آغا کے کسی نائب کا اعلان نہیں ہوا، ون ڈے اسکواڈ میں محمد رضوان کے نائب سلمان ہی ہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ ایک ’’بااثر سلیکٹر‘‘ تو شاداب خان کی ٹیم میں ہی شمولیت کے شدید مخالف ہیں، گزشتہ دنوں ایک میٹنگ میں ان کا کہنا تھا کہ سینئر آل راؤنڈر کا ٹیم میں آنا ہی غلط تھا، نائب کپتان تو بالکل نہیں بنانا چاہیے، ان کے مطابق سلمان علی آغا غیر سیاسی کرکٹر اور صرف اپنے کام پر توجہ دیتے ہیں۔

شاداب گو کہ نائب کپتان تھے لیکن فیلڈ میں قیادت بھی کرتے نظر آئے، وہ اپنا بیٹنگ آرڈر بھی خود تبدیل کر لیا کرتے تھے، بعض اوقات وہ کسی مخصوص پلیئر کو ٹیم میں شامل کرانے کے لیے بھی زور ڈالتے، اسلام آباد یونائیٹڈ کی وجہ سے ان کے ہیسن سے اچھے مراسم ہیں، وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایشیا کپ تک شاداب خان کے فٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ،ممکنہ طور پر وہ اکتوبر میں واپس لوٹیں گے، ابھی یہ واضح نہیں کہ میگا ایونٹ میں کسی نائب کپتان کا تقرر ہوگا یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • شاداب کے انتظار میں نائب کپتان کی پوسٹ ختم
  • نام ماں کا بھی
  • کیا یہ ہے وہ پاکستان
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • رائے عامہ
  • علی امین گورنر خیبر پختونخوا کے ساتھ بیٹھ کر اے پی سی بلائیں، رانا ثناء اللّٰہ
  • ثناء یوسف قتل کیس: پولیس چالان میں عمر حیات قاتل قرار
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس میں اہم پیشرفت
  • ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس میں بڑی پیشرفت،پولیس نے چالان تیارکرلیا