ثناء یوسف اب نہیں رہی، وہ ایک نوجوان ٹک ٹاکر تھی۔ خوبصورت، زندہ دل خوابوں سے بھری ہوئی آنکھیں لیے سوشل میڈیا کی چکا چوند دنیا میں اپنی شناخت بنانے کی تگ و دو میں مصروف۔ مگر اب وہ صرف ایک خبر ہے، ایک لاش، ایک شمار میں اضافہ جو روز بڑھتا ہے، وہ خواتین جو مار دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عزت کے نام پر، بعض اوقات نہیں کہنے پر،کبھی انکار پر،کبھی شک پر اور اکثر تو صرف اس لیے کہ وہ عورت تھیں۔
ثناء کی کہانی وہ کہانی ہے جو اس سرزمین کی ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ مگر ہر بار ہم سنتے ہیں دل تھوڑا دکھتا ہے ،کچھ دن اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر خاموشی سناٹا اور قاتلوں کا اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مردوں کی انا عورتوں کے لہو سے سیراب ہوتی ہے۔ جہاں نہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک گناہ ہے، ایک سزا ہے جس کی قیمت جان سے چکانی پڑتی ہے۔
ثناء کا جرم کیا تھا؟ کہ اس نے ایک رشتے، ایک مرد ، ایک رویے کو نہ کہا؟ یا یہ کہ وہ خود کو اپنی شرائط پر جینے کی کوشش کر رہی تھی؟ جو بھی تھا اس کا فیصلہ گولی سے ہوا۔ اس کی زندگی جو شاید کسی کے لیے بے معنی تھی لیکن اس کی ماں بہن دوست یا اس کے خود کے خوابوں کے لیے قیمتی ترین بیدردی سے چھین لی گئی۔
ثناء یوسف، قندیل بلوچ کی یاد دلاتی ہے۔ قندیل جو مذہبی منافقتوں، سماجی دوغلے پن اور مردانہ اقدارکی دیواروں پر ناخوشگوار مگر سچائی سے بھرے آئینے لٹکا رہی تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، عزت کے نام پر اس کا بھائی جو خاندان کی عزت بچانے آیا تھا، دراصل اپنی مردانگی کے زخم چاٹ رہا تھا جو قندیل کی بیباکی اور خود اختیاری سے خوفزدہ تھا۔
قندیل ہو یا ثناء سب عورتیں ایک ہی جرم کی سزا وار ٹھہرتی ہیں، خود کو انسان سمجھنے کا جرم خود کو اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگنے کا جرم۔ یہی جرم خدیجہ صدیقی کا بھی تھا جسے لاہورکی ایک سڑک پر چاقو سے 23 دفعہ وار کیا گیا اس لیے کہ اس نے جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ایک بااثر شخص کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ زندہ رہی مگر اس کی روح پرکتنے زخم ثبت ہوئے کون جانتا ہے۔
اسی طرح نور مقدم جس کا قصہ کوئی پرانی کہانی نہیں بلکہ جدید پاکستان کے طاقتور اشرافیہ کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ نور کا سر قلم کر دیا گیا اور قاتل کی آنکھوں میں شرمندگی نہیں بلکہ تکبر تھا۔ جیسے کہ کہہ رہا ہو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں مجھے کچھ نہیں ہوگا اور واقعی یہ ملک ایک ایسی پناہ گاہ بن چکا ہے جہاں طاقتور مرد عورت کو قتل کرنے کے بعد بھی فخر سے سر بلند رکھتے ہیں، جہاں قانون انصاف سے پہلے رشتے داری، دولت اور اثر و رسوخ کو پہچانتا ہے۔
اگر ہم تھوڑا اور پیچھے جائیں تو ہمارے حافظے میں مختاراں مائی کا دکھ اب تک تازہ ہے جو گاؤں کے مردوں کی اجتماعی ہوس کا نشانہ بنی اور پھر بھی کھڑی رہی۔ اس نے اپنی آواز نہ صرف بلند کی بلکہ ریاست کے ایوانوں تک پہنچائی۔ مگر اس کی جنگ آسان نہ تھی، اسے خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اس پر انگلیاں اٹھیں مگر وہ ٹوٹی نہیں۔
اور پھر ایک اور نام آتا ہے سبین محمود جو کراچی میں روشن خیالی مکالمے اور سوچ کی آزادی کی علامت تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، اس لیے کہ وہ بولتی تھی اور عورت جب بولتی ہے، سوال اٹھاتی ہے تو خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ سب کہانیاں اس معاشرے کے بدنما چہرے پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہم عورتوں کو عزت کے مقام پر بٹھانے کی بات کرتے ہیں مگر جب وہ جینے کا سانس لینے کا محبت کرنے کا انکارکرنے کا یا صرف نہیں کہنے کا حق مانگتی ہیں تو انھیں دفن کر دیا جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام کی گٹھ جوڑ ہے۔ یہاں عورت صرف تب تک قابل قبول ہے جب وہ اطاعت گزار ہو خاموش ہو سجی سنوری ہو مرد کے لیے باعث زینت ہو۔ جیسے ہی وہ سوال کرتی ہے مزاحمت کرتی ہے اپنی حدود خود طے کرتی ہے وہ خطرہ بن جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ مرد روتے ہیں کہ اب مردوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے کہ عورتیں حد سے بڑھ رہی ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے کہ روز نئی ثناء نئی قندیل، نئی نور، نئی زینب قتل کی جا رہی ہے۔ زینب کو کون بھولا ہے؟ وہ معصوم بچی جو قصور کی گلیوں سے اغوا ہوئی، ریپ کا نشانہ بنی اور اس کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔
ریپ اور قتل کے یہ واقعات صرف جرم نہیں یہ ہمارے سماج کی شکست ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے اور ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری کا آئینہ ہے۔اگر ہم سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لڑکیوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ صرف بیوی، بیٹی، بہن نہیں، انسان بھی ہیں اور لڑکوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عورت ان کی ملکیت نہیں بلکہ برابری کی حقدار ہے۔
ہمیں ریاست سے انصاف مانگنا ہے مگر ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرکا سماج بھی بدلنا ہو گا۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں بیٹی کو کم اور بیٹے کو برتر سمجھتے رہیں گے جب تک ہم عورت کی عزت گھر کی چار دیواری میں جیسے جھوٹے نظریات کو سینے سے لگائے رکھیں گے، تب تک ثناء یوسف، نور مقدم، قندیل بلوچ، زینب، خدیجہ، مختاراں، سبین سب کی قبریں ہمارے ضمیر پر سوال اٹھاتی رہیں گی۔
ثناء کی ماں کو انصاف چاہیے، مگر انصاف صرف اس کے قاتل کو پھانسی دینے سے نہیں ہوگا، انصاف تب ہوگا جب ہر لڑکی نہیں کہنے کا حق لے سکے اور وہ حق اس کی موت نہ بنے۔
ہمیں ثناء کے لیے آواز بلند کرنی ہے کیونکہ وہ خاموش کردی گئی۔ ہمیں اس کے لیے چیخنا ہوگا کیونکہ اس کا گلا گھونٹا گیا۔ ہمیں لکھنا ہوگا، بولنا ہو گا، سڑکوں پر نکلنا ہوگا، کیونکہ عورت کی جان عزت رائے خواب اور انکار سب کچھ قیمتی ہے۔ثناء صرف ایک نام نہیں وہ ہر وہ لڑکی ہے جو اپنے لیے جینا چاہتی ہے جو نہیں کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور جو جانتی ہے کہ وہ صرف ایک جسم نہیں ایک مکمل انسان ہے۔لیکن سوال یہ ہے کیا ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم ایک اور ثناء کے مرنے کا انتظارکریں گے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ نہیں کہنے صرف ایک ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔
’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔
فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘
اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘
شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔
جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘
اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔
شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔