اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (یو این ایف پی اے) نے منگل کے روز اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ رہن سہن کے اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ، صنفی عدم مساوات اور مستقبل کے بارے میں گہری ہوتی بے یقینی کے نتیجے میں بہت سے نوجوان والدین بننے اور اپنے بچوں کی پرورش کو مشکل کام سمجھنے لگے ہیں۔

چینی ویلنٹائنز ڈے پر نوجوانوں کو بچے پیدا کرنے کی ترغیب

دنیا میں آبادی کی صورتحال پر یو این ایف پی اے کی تازہ ترین رپورٹ بعنوان 'باروری کا حقیقی بحران: تبدیل ہوتی دنیا میں تولیدی اختیار کی جستجو' میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت لوگوں کی آزادانہ طور سے فیصلہ کرنے کی یہ صلاحیت خطرے میں ہے کہ آیا انہیں بچے پیدا کرنا چاہئیں یا نہیں اور اگر کرنا ہیں تو وہ کب کریں گے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں اس حوالے سے 14 ممالک کی صورتحال بتائی گئی ہے جو دنیا کی 37 فیصد آبادی کا احاطہ کرتے ہیں۔

معاشی خدشات

رپورٹ کے مطابق، معاشی رکاوٹیں نوجوانوں میں بچے پیدا کرنے سے گریز کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس حوالے سے جن لوگوں کے ساتھ بات کی گئی ان میں 39 فیصد کا کہنا تھا کہ معاشی تنگی کے باعث وہ حسب خواہش تعداد میں بچے پیدا نہیں کر سکتے۔

چینی نوجوانوں کو شادی میں دلچسپی کیوں نہیں ہے؟

انیس فیصد لوگوں نے موسمیاتی تبدیلی سے لے کر جنگوں تک اور 21 فیصد نے روزگار سے متعلق عدم تحفظ کو اس کی بڑی وجہ بتایا۔

تیرہ فیصد خواتین اور آٹھ فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ گھریلو کام کی غیرمساوی تقسیم کے باعث وہ حسب خواہش تعداد میں بچے پیدا نہیں کر سکتے۔

جائزے سے یہ بھی سامنے آیا کہ ایک تہائی بالغ افراد کو ان چاہے حمل کا تجربہ ہو چکا ہے جبکہ ایک چوتھائی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے وقت پر بچہ پیدا نہیں کر سکے۔

20 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ بچے نہیں چاہتے تھے لیکن کئی طرح کے دباؤ نے انہیں والدین بننے پر مجبور کیا۔ مسئلے کا حل

رپورٹ میں گرتی شرح تولید کو روکنے کے لیے بچوں کی پیدائش پر بونس دینے یا آبادی میں اضافے کے حوالے سے اہداف مقرر کرنے جیسے طریقوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اکثر غیرموثر ہوتے ہیں اور ان سے انسانی حقوق پامال ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔

یو این ایف پی اے نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے لوگوں کی ترجیحات اور ضروریات کو مدنظر رکھیں اور ایسی پالیسیاں اختیار کریں جن کی بدولت بالخصوص نوجوانوں کے لیے والدین بننا آسان ہو سکے۔

چین میں گزشتہ سال شادیوں میں بیس فیصد کمی، شرح پیدائش پر اظہار تشویش

اس ضمن میں ادارے نے رہائش اور اچھے روزگار پر سرمایہ کاری، بچوں کی پیداش پر والدین کو کام سے بامعاوضہ چھٹیاں دینے اور تولیدی صحت کی جامع خدمات تک رسائی بہتر بنانے کی سفارش کی ہے۔

یو این ایف پی اے نے حکومتوں سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مہاجرت کو افرادی قوت کی کمی کے مسئلے کا حل اور کم ہوتی آبادی کے تناظر میں پیداواری صلاحیت برقرار رکھنے کا ذریعہ سمجھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ والد کی حیثیت سے بچوں کی نگہداشت سے متعلق سماجی بدنامی، ماؤں کو افرادی قوت سے باہر رکھنے کے رواج، تولیدی حقوق پر قدغن اور صنفی ذمہ داریوں اور تعلقات سے متعلق نوجوانوں کی سوچ پر توجہ دینے کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں میں شادی نہ کرنے یا تاخیر سے کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں بچے پیدا بچوں کی

پڑھیں:

صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد قومی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمے قرضوں کا تناسب اگلے 3 سال میں 70.8 فیصد سے کم ہوکر 60.8 فیصد تک لانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ہے، تاہم خطرات اب بھی موجود ہیں۔

اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جون 2025ء تک مجموعی قرض 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، جب کہ صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جب کہ فنانسنگ کی ضروریات آئندہ برسوں میں 18.1 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رہیں گی۔

وزارت خزانہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی، تاہم قرضوں کا حجم اب بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔

رپورٹ میں قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی تفصیلی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں تبدیلی کو قرض کے بوجھ میں اضافے کی بنیادی وجوہات بتایا گیا ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد اندرونی جب کہ 32.3 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، جس سے شرح سود کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کا دباؤ بڑھا ہوا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں، جو دوطرفہ اور کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ ریٹ والے بیرونی قرضوں کی شرح 41 فیصد ہے، جو درمیانی سطح کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں اے آئی کا استعمال 15 فیصد سے بھی کم، یو اے ای اور سنگاپور سرفہرست
  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • وزارت خزانہ کے اہم معاشی اہداف، معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا امکان
  • یشونت سنہا کی قیادت میں کنسرنڈ سیٹیزنز گروپ کا وفد میرواعظ کشمیر ڈاکٹر عمر فاروق سے ملاقی
  • صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
  • روسی خواتین ماں بننے سے گریزاں، اربوں روبل کے ترغیباتی پروگرام ناکام