میری ناکامی پر لوگوں نے آٹو رکشہ ڈرائیور کا بیٹا کہہ کر پُکارا
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
بھارتی ٹیم کے مسلمان فاسٹ بولر محمد سراج نے سوشل میڈیا پر ہونیوالی تنقید پر اپنے ردعمل کا اظہار کردیا۔
فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اپنے بھارتی فاسٹ بولر محمد سراج نے اپنے والدین کیساتھ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ "میرے والد کا آٹو رکشہ چلانا کوئی توہین نہیں، بلکہ ان کی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ میں آج اس مقام پر ہوں"۔
بھارتی کرکٹر نے اپنے والد 'محمد غوث' کی جانب سے انکے کیرئیر کے دوران مالی مدد کو یاد کیااور بتایا کہ "میرے والد مجھے روزانہ 60 روپے دیتے تھے تاکہ میں حیدرآباد کے اپل اسٹیڈیم میں کرکٹ کی تربیت حاصل کرسکوں یہ رقم اُسوقت بہت تھی، مگر انکی قربانیوں نے میرے خوابوں کی تکمیل کی"۔
مزید پڑھیں: جسپریت بمراہ وسیم اکرم کا کون سا ریکارڈ توڑ سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ "2019 آئی پی ایل سیزن میں اپنی کارکردگی پر تنقید کا سامنا کیا تو لوگوں نے میری خراب کارکردگی پر طنزیہ جملے کستے ہوئے کہا کہ میں کرکٹ چھوڑ کر اپنے والد کے ساتھ آٹو رکشہ چلاؤں، یہ باتیں دل کو تکلیف پہنچاتی ہیں لیکن میں نے ان سب کو نظرانداز کیا اور اپنی محنت جاری رکھی"۔
مزید پڑھیں: کرکٹر سے ممبر پارلیمنٹ کی منگنی ہوگئی، ویڈیو وائرل
محمد سراج نے اپنے جذباتی پیغام میں لکھا کہ "میری کیپ/جرسی اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کے کہنے سے فرق نہیں پڑا، چاہے آپ آٹو ڈرائیور کے بیٹے ہو یا سافٹ ویئر انجینئر! کامیابی نام اور پتہ نہیں بلکہ محبت پوچھتی ہے"۔
View this post on InstagramA post shared by Mohammed Siraj (@mohammedsirajofficial)
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
نوجوان معاشی و سماجی مسائل کے سبب بچے پیدا کرنے سے گریزاں، رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (یو این ایف پی اے) نے منگل کے روز اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ رہن سہن کے اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ، صنفی عدم مساوات اور مستقبل کے بارے میں گہری ہوتی بے یقینی کے نتیجے میں بہت سے نوجوان والدین بننے اور اپنے بچوں کی پرورش کو مشکل کام سمجھنے لگے ہیں۔
چینی ویلنٹائنز ڈے پر نوجوانوں کو بچے پیدا کرنے کی ترغیب
دنیا میں آبادی کی صورتحال پر یو این ایف پی اے کی تازہ ترین رپورٹ بعنوان 'باروری کا حقیقی بحران: تبدیل ہوتی دنیا میں تولیدی اختیار کی جستجو' میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت لوگوں کی آزادانہ طور سے فیصلہ کرنے کی یہ صلاحیت خطرے میں ہے کہ آیا انہیں بچے پیدا کرنا چاہئیں یا نہیں اور اگر کرنا ہیں تو وہ کب کریں گے۔
(جاری ہے)
رپورٹ میں اس حوالے سے 14 ممالک کی صورتحال بتائی گئی ہے جو دنیا کی 37 فیصد آبادی کا احاطہ کرتے ہیں۔
معاشی خدشاترپورٹ کے مطابق، معاشی رکاوٹیں نوجوانوں میں بچے پیدا کرنے سے گریز کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس حوالے سے جن لوگوں کے ساتھ بات کی گئی ان میں 39 فیصد کا کہنا تھا کہ معاشی تنگی کے باعث وہ حسب خواہش تعداد میں بچے پیدا نہیں کر سکتے۔
چینی نوجوانوں کو شادی میں دلچسپی کیوں نہیں ہے؟
انیس فیصد لوگوں نے موسمیاتی تبدیلی سے لے کر جنگوں تک اور 21 فیصد نے روزگار سے متعلق عدم تحفظ کو اس کی بڑی وجہ بتایا۔
تیرہ فیصد خواتین اور آٹھ فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ گھریلو کام کی غیرمساوی تقسیم کے باعث وہ حسب خواہش تعداد میں بچے پیدا نہیں کر سکتے۔
جائزے سے یہ بھی سامنے آیا کہ ایک تہائی بالغ افراد کو ان چاہے حمل کا تجربہ ہو چکا ہے جبکہ ایک چوتھائی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے وقت پر بچہ پیدا نہیں کر سکے۔
20 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ بچے نہیں چاہتے تھے لیکن کئی طرح کے دباؤ نے انہیں والدین بننے پر مجبور کیا۔ مسئلے کا حلرپورٹ میں گرتی شرح تولید کو روکنے کے لیے بچوں کی پیدائش پر بونس دینے یا آبادی میں اضافے کے حوالے سے اہداف مقرر کرنے جیسے طریقوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اکثر غیرموثر ہوتے ہیں اور ان سے انسانی حقوق پامال ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔
یو این ایف پی اے نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے لوگوں کی ترجیحات اور ضروریات کو مدنظر رکھیں اور ایسی پالیسیاں اختیار کریں جن کی بدولت بالخصوص نوجوانوں کے لیے والدین بننا آسان ہو سکے۔
چین میں گزشتہ سال شادیوں میں بیس فیصد کمی، شرح پیدائش پر اظہار تشویش
اس ضمن میں ادارے نے رہائش اور اچھے روزگار پر سرمایہ کاری، بچوں کی پیداش پر والدین کو کام سے بامعاوضہ چھٹیاں دینے اور تولیدی صحت کی جامع خدمات تک رسائی بہتر بنانے کی سفارش کی ہے۔
یو این ایف پی اے نے حکومتوں سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مہاجرت کو افرادی قوت کی کمی کے مسئلے کا حل اور کم ہوتی آبادی کے تناظر میں پیداواری صلاحیت برقرار رکھنے کا ذریعہ سمجھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ والد کی حیثیت سے بچوں کی نگہداشت سے متعلق سماجی بدنامی، ماؤں کو افرادی قوت سے باہر رکھنے کے رواج، تولیدی حقوق پر قدغن اور صنفی ذمہ داریوں اور تعلقات سے متعلق نوجوانوں کی سوچ پر توجہ دینے کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں میں شادی نہ کرنے یا تاخیر سے کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین