جدہ: چوہدری حسنین گوندل اور چوہدری امجد گجر کی جانب سے عید ملن پارٹی، پاکستانی کمیونٹی کی بھرپور شرکت
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
جدہ: چوہدری حسنین گوندل اور چوہدری امجد گجر کی جانب سے عید ملن پارٹی، پاکستانی کمیونٹی کی بھرپور شرکت WhatsAppFacebookTwitter 0 12 June, 2025 سب نیوز
جدہ(خالد نواز چیمہ) سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ کی معروف کاروباری سیاسی وسماجی شخصیت چوہدری حسنین گوندل اور شرکہ ریس کے مینجنگ ڈائریکٹر چوہدری امجد گجر نے مقامی ریسٹورنٹ میں عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا جس میں پاکستان کے معروف سیاسی شخصیات منڈی بہاوالدین سے ممبر قومی اسمبلی چوہدری ناصر اقبال بوسال ضلع گوجرانوالہ کے تعمیر وترقی کے شہنشاہ ممبر قومی اسمبلی چوہدری اظہر قیوم ناہرہ مہمان خصوصی تھے ۔
مہمانوں کا شاندار استقبال کیا گیا ۔چوہدری حسنین گوندل سماجی شخصیت فدا حسین کھوکھر چوہدری امجد گجر وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کے فوکل پرسن سعودی عرب ملک منظور اعوان قومی یکجہتی فورم کے سربراہ سردار اقبال جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے راہنما انجینیئر سجاد خان معروف بزنس مین حافظ محمد افضال طور نے پھولوں کے گلدستے پیش کیے ۔
تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا ،مہمانوں کو حج کی سعادت حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کی گئی ممبر قومی اسمبلی چودھری ناصر اقبال بوسال نے پاکستانی کمیونٹی کو خطاب کرتے ہوئے کہافیلڈ مارشل عاصم منیر کی عسکری قیادت اور میاں شہباز شریف کی سیاسی قیادت کے اشتراک نے اپنے سے بڑی فوجی اور ٹیکنالوجی رکھنے والے ملک بھارت کے غرور کو دھول چٹا دی ۔
رکن قومی اسمبلی چوہدری ناصر اقبال بوسال رکن قومی اسمبلی چوہدری اظہر قیوم ناہرہ نے پاکستانیوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا آپُکی محنت سے کمائے جانے والا ذرمبادلہ پاکستان کی معیشت کا بڑا سہارہ ہے آپ میں ہر شخص پاکستان کا سفیر ہے ،سعودی عرب کے قوانین پر عمل کرنے سے پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے آپ یہاں کسی جماعت کے نہیں پاکستان کے نمائندے ہیں ،پاکستان آپکی پہچان ہے انہوں نے حج 2025 کو کامیاب اور با حفاظت حج کے انتظامات کرنے پر سعودی حکومت ،خادم حرمین شریف ، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ْ
مقررین نے میزبان چوہدری حسنین گوندل کو سعودی عرب میں کاروبار کرنے کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپکے کاروبار میں اللہ ترقی عطا کرے تاکہ ذرمبالہ پاکستان بھیج کر معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکیں پروگرام میں سعودی عرب کے معروف تاجر شیخ احمد الزھرانی اور شیخ عبداللہ احمد زھرانی نے بھی شرکت کی پاک سعودی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا کے ساتھ بھارت کی دوغلی پالیسی اور بدلتے پینترے، گودی میڈیا کی ٹرمپ پر تنقید اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایف آئی اے کو فرحت اللہ بابر کو ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم پیپلز پارٹی نے بجٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا ملزم ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے ،کسی ہمدردی کا مستحق نہیں،سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری رائٹ سائزنگ سے عوام پرٹیکس کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی: رکن اقتصادی مشاورتی کونسل پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس ، وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی بھاری بھرکم تنخواہوں پر وزیر خزانہ کا کیا موقف ہے؟ چین اور پاکستان 5 جی بیس اسٹیشن کے آلات کی آزمائش کر رہے ہیں، چینی میڈیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چوہدری حسنین گوندل چوہدری امجد گجر
پڑھیں:
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دھمکیوں کی مذمت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) ایچ آر سی پی نے ایک بیان میں کہا، ''گزشتہ چند ماہ کے دوران، ایچ آر سی پی کو، غیر قانونی اور غیر منصفانہ اقدامات کے سلسلے کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے تنظیم کی اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔‘‘
گروپ نے جنوبی ایشیائی ملک میں انسانی حقوق کی وکالت کے لیے بڑھتی مشکلات کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان میں بنیادی حقوق کی عدم موجودگی
خیبر پختونخوا میں قانون کی عملداری کمزور، ایچ آر سی پی
گروپ کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں غیر معمولی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حکام ہمیں ایونٹس منعقد کرنے سے روک رہے ہیں اور خلل ڈالتے ہیں۔
(جاری ہے)
انہوں نے ایچ آر سی پی کے لاہور دفتر کو سیل کر دیا ہے، تجارتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہمارے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے ہیں اور اضافی بل جاری کرتے ہوئے ہمارے بجلی کے میٹر بند کر دیے ہیں۔
‘‘ایچ آر سی پی کی بنیاد 1987ء میں رکھی گئی تھی، جو پاکستان کی معروف انسانی حقوق کی تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے ملک کے اندر اور عالمی سطح پر شہری آزادیوں کے لیے مسلسل آزاد اور قابل اعتماد طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔
ایچ آر سی پی کے ایونٹس میں رکاوٹاس تنظیم کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی اس کی تقریبات میں رکاوٹ ڈالی گئی اور عملے کو دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں جن میں انہیں حساس سمجھے جانے والے موضوعات پر بات کرنے کے خلاف متنبہ کیا گیا تھا۔
حارث خلیق کے مطابق، ''ہم ریاست کی آنکھیں اور کان ہیں۔ ہم تشدد اور عسکریت پسندی دونوں کے خلاف ہیں۔ سکیورٹی اداروں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے افراد اور وزارت داخلہ کے اہلکاروں کے طور پر شناخت کرنے والے افراد ہماری خواتین عملے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور، طلال چوہدری نے ایچ آر سی پی کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور دباؤ کے الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ایونٹس کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ طریقہ کار موجود ہے اور ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔ ہم نے اظہار رائے کی آزادی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آن لائن تقریبات بھی بغیر کسی پابندی کے منعقد کی جارہی ہیں اور ریاست ان پر پابندی نہیں لگا رہی ہے۔
ایچ آر سی پی کی بانی رکن اور کونسل کی موجودہ رکن حنا جیلانی کہتی ہیں، ''حکومت گروپ کی سرگرمیوں کو خاموش کرانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ہمارے ایونٹس میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے اور ایسے قوانین متعارف کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو ہمارے مالیاتی معاملات کو متاثر کر سکتے ہیں، جس سے کام کرنے کی ہماری صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
‘‘اس سال ایچ آر سی پی کا ہدف گلگت بلتستان میں قدرتی وسائل پر مقامی برادریوں کے حقوق پر مشاورت کرنا اور اسلام آباد میں ایک گول میز ایونٹ کی میزبانی کرنا ہے جس میں شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی جانا ہے۔
تاہم، حکام نے انتظامی رکاوٹیں عائد کر کے ان ایونٹس کو روکنے کے لیے مداخلت کی، جس کے نتیجے یہ منعقد نہ ہو سکے۔
اسلام آباد اور گلگت دونوں شہروں میں جن ہوٹلوں میں ان ایونٹس کو منعقد کیا جانا تھا ان کے لیے مقامی انتظامیہ کی جانب سے این او سی کی ضرورت لاگو کر دی ہے۔
ایچ آر سی پی مالی شفافیت کی حمایت کرتا ہے، حنا جیلانی نے تشویش کا اظہار کیا کہ ''ان اقدامات سے ایچ آر سی پی کی خود مختاری کو خطرہ ہے اور یہ چیز پاکستان کے عوام کے انسانی حقوق کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔
‘‘ مسائل کے حل کی امیدتاہم، ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق ریاست کے ساتھ مسائل کو جلد حل کرنے کے بارے میں پراُمید ہیں، اور وہ لوگوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اس گروپ کے عزم کو اہم قرار دیتے ہیں۔
ریاستی خدشات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے، ''ہم اہم دوست ہیں، مخالف نہیں اور ہم ایک صحت مند معاشرے اور ایک مضبوط ملک کے خواہاں ہیں۔
‘‘ان کا مزید کہنا ہے، ''ہم ایک آزاد تنظیم ہیں جو غیر جانبدار اور شواہد کی بنیاد پر کام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہماری رپورٹس کا حوالہ دفتر خارجہ کی جانب سے دیا گیا ہے لیکن ہم اپنی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘‘
خلیق کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے باوجود وہ اپنا کام جاری رکھیں گے اور پاکستان کے عوام کے حقوق کی وکالت کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حالپاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال اب بھی پریشان کن ہے، جس میں انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیاں، ادارہ جاتی استثنیٰ اور کم ہوتی ہوئی شہری آزادیاں شامل ہیں۔ سیاست میں فوج کا اثر و رسوخ، ناکافی عدالتی تحفظ اور بڑھتی ہوئی آمریت اس بحران کے اہم عوامل ہیں۔
جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے، خاص طور پر بلوچستان میں، جہاں مہرنگ بلوچ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف وکالت کرنے والے دیگر کارکنوں کو ہراسانی، حراست اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
32 سالہ مہرنگ بلوچ کو رواں برس مارچ میں دہشت گردی، قتل اور بغاوت کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن اور وکیل ایمان مزاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان مکمل طور پر آمرانہ حکومت بن چکا ہے، کوئی عدالتیں نہیں ہیں، میڈیا نہیں ہے، انہوں نے بارز کو توڑا ہے اور سول سوسائٹی کو توڑا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال افسوسناک ہے اور ہم اصل میں ایک مارشل لاء میں رہ رہے ہیں۔
‘‘حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو دبانے کے لیے قانونی اقدامات کو سخت کیا ہے، خاص طور پر نو مئی 2023ء کو ہونے والے مظاہروں کے بعد عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے رہنماؤں اور حامیوں کو قید کیا گیا، فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، یا پھر سیاست چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
سکیورٹی فورسز بلوچ علیحدگی پسندوں، خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف طویل عرصے سے آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔
علیحدگی پسند جو حکام اور غیر ملکی سرمایہ کاروں بشمول چین کے سرمایہ کاروں پر خطے کا استحصال کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔سینکڑوں بلوچ کارکنوں نے، جن میں بہت سی خواتین بھی شامل ہیں، اسلام آباد اور بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے بدسلوکی کا الزام عائد کیا ہے جس کی حکومت تردید کرتی ہے۔
اسلام آباد نے بھارت اور افغانستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے ان عسکریت پسندوں کی مدد کر رہے ہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ