Daily Ausaf:
2025-07-30@19:42:42 GMT

انسان کی اصل ارتقائی منزل ؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

ایلیس سلور کے آبائی وطن اور شخصی زندگی کے بارے میں انتہائی محدود معلومات ملتی ہیں تاہم یہ طے شدہ بات ہے کہ وہ امریکہ میں ماہر ماحولیات کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا ہے ۔ اس نے ماحولیاتی تحفظ ،زمینی ماحول کے مسائل اور انسانی فطرت کے موضوع پر تحقیق کی ہے اور کائناتی علوم ،ارتقا اور مابعد الطبیعات کے بارے بہت حد تک جانکاری رکھنے والا سائنسدان مانا جاتا ہے۔وہ شہرت کے آسمان کا ستارہ اس وقت بنا جب 2023 ء میں اس کی چونکا دینے والی معلومات پر مشتمل اس کی کتاب ” Humans are not from Earth, A Scientific Evalution of the E vidence” منظر عام پر آئی ۔
جس میں اس نے انسانوں کی ابتدا کے بارے میں برطانوی ماہر حیاتیات چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا ’’کہ جاندار آہستہ آہستہ تبدیلیوں کے ذریعے ترقی کرتے ہیں اور تمام جاندار کسی نہ کسی مقام پر ۔مشترکہ آبائو اجداد سے ارتقا پذیر ہوتے ہیں‘‘ کے متبادل نظریہ پیش کیا ۔وہ انسانی جسمانی مسائل اور ان کی ممکنہ کائناتی وجوہات ،ماورائے زمین زندگی اور زمین پر زندگی کی ابتدا کے متبادلنظریات، سائنسی اور مابعد الطبیعاتی نظریات کا امتزاج پیش کرتا ہے ۔وہ سائنسی ثبوتوں کے ساتھ ساتھ قیاسی مفروضات پر بھی توجہ دلاتا ہے ۔
ایلیس سلور ’’کئی سائنسی اور عمرانی مشاہدات کو بنیاد بنا کر ‘‘ دلیل دیتا ہے کہ انسان زمین کے ماحول سے مکمل طور پرمطابقت نہیں رکھتے ،انسانوں میں ریڑھ کی ہڈی کے مسائل عام ہیں (زمین کی کشش ثقل کے لحاظ سے ہماری ریڑھ مکمل طور پر ایڈجسٹ نہیں )سورج کی شعائوں سے جلد کا جلد متاثر ہونا جس سے سن برن اور جلدی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں،بچوں کی پیدائش کے وقت پیچیدگیاں، نیند اور خوراک کے مسائل،الر جیز وغیرہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ انسان زمین کے قدرتی ماحولیاتی نظامسے پوری طرح ہم آہنگ نہیں۔
ایلیس سلور کا کہنا ہے کہ ’’دیگرجانوروں کو سورج کے جھلسائو،کمر کے درد ،الرجی اور بچوں کی پیدائش میں ایسے مسائل درپیش نہیں ہوتے، وہ بہتر طورپر زمین کے موسمی حالات میں زندہ رہتے ہیں ،جبکہ انسان ہرموسم کے لئے کپڑوں، گھروں اور مشینوں کا محتاج ہے ۔‘‘
’’ایلیس سلور کا یہ دعویٰ ہے کہ ’’انسان کسی اور سیارے کے باشندے تھے جنہیں زمین پرتجرباتی طور پر چھوڑا گیا۔ممکن ہے کوئی اعلیٰ مخلوق (Extraterrestrial civilization)انسان کو یہاں لے کر آئی ہو‘‘ وہ کہتا ہے کہ ’’ انسان کی اصل ارتقائی منزل کسی اور سیارے پر ہوئی ہے‘‘۔
ایلیس سلور کے مطابق ’’ انسانی ڈی این اے میں کچھ ایسے اجزا اورپیٹرنز پائے جاتے ہیں جو کسی ’’مصنوعی مداخلت‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ارتقائی زنجیرمیں ہومو سیپینز کی اچانک ترقی اور دوسری ہومینائیڈ انواع کس اچانک ختم ہوجانا بھی ایک راز ہے ۔ماحول میں مطابقت کے لئے وٹامن، سپلیمنٹ، ادویات ،علاج اور مشینوں پر انحصار کرنا پڑتاہے ۔موسمیاتی تبدیلیاں انسانی صحت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں ۔زمی۔ کے بعض ماحولیاتی نظام ہمارے لئے غیرموزوں ہیں (جیسے بعض جنگلات صحرا اور گلیشیئرز وغیرہ)‘‘
ایلیس سلور سمجھتا ہے کہ انسان کی تخلیق ، ارتقا اوراس کی زمین پر آمد کا قصہ شاید اتنا سادہ نہیں جتنا ہمیں عام حیاتیاتی نظریات میں بتایا گیا ۔وہ یہ باور کرتا ہے کہ ’’”ہم کائناتی سطح پر کسی بڑے تجربے کا حصہ ہو سکتے ہیں‘‘۔ایلیس سلور کی کتاب جو زیادہ تر متبادل نظریات پر مشتمل ہے نامور سائنسدان اس کے نظریات کو ثبوت کی کمی کے باعث قبول کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں تاہم’’پراسراریت پسند‘‘ محققین اور Extraterrestrial life میں دلچسپی رکھنے والوں میں سلور کے نظریات کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔
“Humans are not from Erth” ایسے فکری زاویوں کو پیش کرتی ہے جس پر قاری کے لئے نئی سوچ کے در وا ہوتے ہیں۔سلور کے نظریات روایتی سائنسی عقائد کے لئے چیلنجز کی حیثیت رکھتے ہیں اور پڑھنے والے کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ انسان کی تخلیق ،اس کے مقام اور کائنات میں اس کے کردار پر نئے سرے سے غورو فکر کے دروازے کھولے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کرتے ہیں کہ انسان انسان کی سلور کے کے لئے

پڑھیں:

زرعی ٹیکس، چھوٹا کسان اور طاقتور طبقہ

کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم کسی ایسی زمین پر بستے ہیں جہاں صرف طاقتور کو جینے کا حق حاصل ہے۔ جہاں قانون کی تلوار صرف کمزور کے گرد گھومتی ہے اور مراعات کا سورج صرف طاقتوروں پر چمکتا ہے۔ آج کسانوں کے حقوق، زرعی ٹیکس اور معاشی نابرابری کے تناظر میں جو بحث چل رہی ہے، اس میں ہمیں بہت کچھ کہنے اور سننے کی ضرورت ہے۔

 سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کی جانب سے 45 فیصد زرعی انکم ٹیکس کے خلاف احتجاج عدالت جانے کا اعلان اور گندم کی کاشت کے بائیکاٹ کی اپیل نے ملک بھر میں کسانوں کے غم و غصے کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ بظاہر یہ ردِ عمل چھوٹے کسانوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن ہمیں یہ سوال ضرور اٹھانا ہوگا کہ آیا واقعی یہ ٹیکس چھوٹے کسانوں پر نافذ ہو رہا ہے یا پھر اس شور کے پیچھے وہ بڑے زمیندار اور کارپوریٹ فارمرز ہیں جو دہائیوں سے ٹیکس سے مستثنیٰ چلے آ رہے ہیں؟

 یہ بات ایک تاریخی سچائی ہے کہ پاکستان میں زراعت پر براہ راست آمدنی کا ٹیکس کبھی سنجیدگی سے لاگو ہی نہیں ہوا۔ زمینوں پر قبضہ رکھنے والے جاگیردار جو اکثر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوتے ہیں، خود اپنے لیے قوانین بناتے اور پھر ان ہی قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ زرعی آمدن پر ٹیکس کی تجویزکوئی نئی بات نہیں۔ آئی ایم ایف تو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کو یہ مشورہ دیتا آ رہا ہے کہ زرعی شعبے بالخصوص بڑے زمینداروں اور کارپوریٹ فارموں پر ٹیکس لگایا جائے تاکہ ٹیکس نیٹ وسیع ہو اور آمدنی کی مساوی تقسیم ممکن بنائی جا سکے۔

لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹا ہے۔ جب بھی زرعی ٹیکس کی بات ہوتی ہے، ایک ایسا بیانیہ کھڑا کردیا جاتا ہے کہ جیسے ہرکسان بھوکا، مقروض اور لاچار ہے اور اس پر ٹیکس لگانا ایک ظلمِ ہوگا۔ جی ہاں! بہت سے کسان واقعی مقروض اور استحصال کا شکار ہیں لیکن وہ کسان ایک یا دو ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے والے وہ مزدورکسان ہیں، جن کے پاس نہ جدید ٹریکٹر ہے نہ ہی منڈی تک رسائی اور نہ ہی حکومت کی سبسڈی۔یہ چھوٹے کسان اس نظام کے سب سے مظلوم کردار ہیں۔ ان کے نام پر تحریکیں چلائی جاتی ہیں، ان کے دکھوں پر بیانات دیے جاتے ہیں مگر جب سبسڈی قرض معافی یا مراعات کی تقسیم ہوتی ہے تو ان میں سے بیشتر کا حصہ انھی جاگیرداروں اور طاقتور زمینداروں کو ملتا ہے جو نہ صرف زرعی زمینوں کے مالک ہیں بلکہ سیاسی اقتدارکے مرکز میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ بات صاف الفاظ میں کہنی ہوگی کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ اصولی طور پر غلط نہیں۔ غلط یہ ہے کہ ایک عام تنخواہ دار شخص جو مہینے کے آخر میں بجلی کا بل دیکھ کرکانپ اٹھتا ہے وہ تو انکم ٹیکس بھی دیتا ہے سیلز ٹیکس بھی پٹرول پر لگے ہوئے ٹیکس بھی مگر وہ فرد جو ہزاروں ایکڑ زمین سے کروڑوں کی آمدن حاصل کرتا ہے اس پر کوئی انکم ٹیکس نہ ہو؟یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک اسکول ٹیچر، ایک نرس، ایک کلرک، ایک مزدور تو ٹیکس دے اور ایک ایسا شخص جو صرف اپنے مزارعوں سے زمین جوتوا کرکروڑوں کماتا ہے وہ ٹیکس سے آزاد رہے؟

زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کو اگر چھوٹے کسانوں کے لیے خطرہ بنا دیا جائے تو یہ بدنیتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ واضح پالیسی دے پانچ ایکڑ سے کم زمین رکھنے والے کسان اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں۔ ان کو سبسڈی دی جائے، ان کے لیے بجلی، بیج کھاد اور پانی سستے کیے جائیں، لیکن جو بڑے زمیندار ہیں جو زمین سے دولت کما رہے ہیں جن کے فارم ہاؤسز میں آسائشات کی بھرمار ہے، ان کو اس ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔

آج سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ زمین صرف چند ہاتھوں میں مرتکز ہے۔ زمین کا یہ ارتکاز ہی ہمارے دیہی سماج میں استحصال، غربت اور پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے، آپ اگر غور کریں تو پتا چلے گا کہ بیشتر دیہی مسائل جیسے کہ تعلیم کی کمی، صحت کی سہولیات کا فقدان یا پانی تک رسائی ان سب کے پیچھے یہی جاگیردارانہ ڈھانچہ کھڑا ہے جو اپنی زمین پر ایک اسکول بھی بننے نہیں دیتا تاکہ اس کے مزارعے ہمیشہ ناخواندہ رہیں۔اس پس منظر میں کسانوں کی جانب سے گندم کی کاشت کا بائیکاٹ ایک سنجیدہ مسئلہ بن سکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ واقعی کسانوں کا اجتماعی فیصلہ ہے یا پھر یہ چند بااثر افراد کی حکمت عملی ہے جو ٹیکس سے بچنے کے لیے عوامی ردِ عمل کا لبادہ اوڑھ کر سڑکوں پر آگئے ہیں؟

زرعی شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں زمین کی حد بندی کرنی ہوگی۔ بڑے زمینداروں کی زمینوں پر حد مقررکی جائے، جس کے پاس دس ہزار ایکڑ زمین ہے، اس سے یہ تو پوچھا جائے کہ اس زمین پرکس مزدور کی محنت سے فصل اگتی ہے؟ ان مزدوروں کوکیا تنخواہ دی جاتی ہے؟ کیا انھیں سوشل سیکیورٹی حاصل ہے؟ کیا ان کے بچے اسکول جا پاتے ہیں؟ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دیہی معیشت کا جائزہ صرف فصل کی قیمتوں اور پیداوار سے لیا جاتا ہے جب کہ اصل مسئلہ اس پیداوار کی تقسیم اور اس میں شامل طبقات کے استحصال کا ہے۔

اس پس منظر میں اگر کوئی حکومت واقعی اصلاحات چاہتی ہے تو اسے دو اقدامات کرنے ہوں گے، (اول) زرعی آمدن پر ٹیکس کا نفاذ صرف بڑے زمینداروں اورکارپوریٹ فارموں پرکیا جائے۔ (دوم) چھوٹے کسانوں کو مالی امداد سبسڈی اور قرضوں سے نجات دینے کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے۔

کسانوں کی گرفتاری کی دھمکیوں اور بائیکاٹ کی اپیلوں کو جذباتی بیانات سے ہٹ کر طبقاتی سیاست کے عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کسانوں کو مزید دبایا جائے ہم یہ کہتے ہیں کہ اصل کسان وہ ہے جس کے ہاتھ میں چھالا ہے اور پیٹھ پر دھوپ ہے اُسے سہارا دو مگر جس کے پاس ہزاروں ایکڑ اور درجنوں سیاسی تعلقات ہیں اُسے جوابدہ بناؤ۔

آخر میں یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر حکومتیں بڑے کاروباری افراد صنعت کاروں اور بلڈر مافیازکو ٹیکس نیٹ میں لا سکتی ہیں تو زرعی جاگیرداروں کو کیوں نہیں؟ اگر واقعی یہ ملک زرعی ہے تو پھر اس کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی کسان کو سب سے پہلے تحفظ ملنا چاہیے اور استحصال کرنے والے کو سب سے پہلے کٹہرے میں آنا چاہیے۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہماری زمین تو رہے گی مگر اسے جوتنے والا نہ ہو گا۔ کھیت تو ہوں گے، مگر فصل نہیں اگے گی اور جو بھوک آج غریب کسان کے گھر میں ہے، کل وہ شہر کی دیواروں پر ناچ رہی ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • عامر خان کا ستارے زمین پر کا پریمیئر یوٹیوب پر کرنے کا اعلان
  • چینی صدر کی دی گورننس آف چائنا’’ کی پانچویں جلد چینی اور انگریزی میں شائع ہو گئی
  •  صحت کے مسائل اور بجٹ!
  • تعلیم اور درسگاہوںکے مسائل
  • زرعی ٹیکس، چھوٹا کسان اور طاقتور طبقہ
  • روبوٹس کو کھا کر طاقت بڑھانے والا نیا روبوٹ، کہیں اس کا اگلا شکار انسان تو نہیں؟
  • فسطائیت کے خلاف فتح سے بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کی تشکیل تک’’ کے موضوع پر اسلام آباد میں سیمینار کا کامیاب انعقاد
  • فسطائیت کے خلاف فتح سے بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کی تشکیل تک” کے موضوع پر اسلام آباد میں سیمینار کا کامیاب انعقاد
  • صحت کی سہولت لگژری نہیں ہر انسان کا بنیادی حق ہے ،مصطفی کمال
  • مصر میں 4 ہزار سال پرانے انسان کے ہاتھ کا نشان دریافت