Juraat:
2025-11-02@18:08:54 GMT

اسرائیل پاکستان کا سب سے بڑا دشمن

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

اسرائیل پاکستان کا سب سے بڑا دشمن

ریاض احمدچودھری

پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے اور اس کی ایران کے ساتھ ایک طویل اور غیر محفوظ سرحد ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں حکام نے امریکی سفارت خانے اور دیگر شہروں میں امریکی قونصل خانوں کی سکیورٹی بھی ممکنہ احتجاج یا تشدد کے خدشے کے پیش نظر مزید سخت کر دی ہے۔اسرائیل کی جانب سے ایران میں فضائی حملوں کے بعد پاکستان نے جمعے کے روز اپنے ایئر ڈیفنس سسٹمز فعال کرتے ہوئے ایران سے ملحقہ سرحد اور جوہری تنصیبات کے قریب جنگی طیارے الرٹ کر دیے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ اقدام احتیاطی تدبیر کے طور پر کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری اور اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اقدامات اٹھائیں تاکہ اس کشیدگی کو روکا جاسکے، جو علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے بھی اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یہ حملے اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایران سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ان حملوں کو ”ناجائز” اور ”ایرانی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی” قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ایران میں موجود ہزاروں پاکستانی زائرین کی فوری واپسی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں ہے، جہاں اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ جھڑپوں نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔اسرائیل کے ایران پر وسیع پیمانے پر کیے گئے حملوں کے بعد عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔چونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور حالیہ دنوں میں بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران اسرائیلی ساختہ ڈرونز کو کامیابی سے تباہ کرچکا ہے، تو اب عوامی سطح پر یہ سوال شدت سے ابھر رہا ہے کہ کیا پاکستان موجودہ تنازع میں کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے؟
پاکستان مضبوط قوم و فوج رکھتا ہے اسرائیل کی جرات نہیں پاکستان پر حملہ کرے، اسرائیل بھارت سے مل کر بلوچستان اور کے پی میں سازشیں ہی کر سکتا ہے،پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے، امت مسلمہ متحد ہو جائے تو فلسطین آج آزاد ہو سکتا ہے۔ گریٹر اسرائیل پلان کا حصہ ہے شام لبنان یمن ترکی و سعودی عرب پر حملہ کررہا ہے تو اسے صرف اتحاد سے روکا جا سکتا ہے۔ سچ بڑا تلخ ہے چھتیس اسلامی ممالک ہیں جس کے اسرائیل سے تعلقات ہیں تین نے اپنے سفیر واپس بلائے ہیں، حق اس کو ملتا ہے جو قانون کو مانتا ہے۔
اسرائیل نے ہمیشہ پاکستان کی مخالفت کی۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ہی عرب ممالک پر اسے تسلیم نہ کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل پاکستان کے خلاف بننے والے ہر اتحاد کا سر گرم رکن ہے۔ پاکستان نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اسرائیل اور پاکستان کے درمیان فاصلے کی زیادتی اسرائیل کو براہ راست پاکستان کے خلاف اقدام سے روکے ہوئے ہے۔ اس کا توڑ اس نے یہ نکالا ہے کہ اسرائیل، بھارت جو کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور جس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا، کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف منصوبے بنارہا ہے۔ کشمیر کے جنگ آزادی کے خلاف بھارت کی فوجی اور افرادی امداد کر رہا ہے۔ تاکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلا جا سکے۔ اس سے پاکستان پر برا اثر پڑے گا۔ اسی طرح بھارت کو طیارے اور اب جدید ترین فالکن میزائل دے کر پاکستان کے خلاف اس کی مدد کر رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان کو وجود خدانخواستہ مٹ جائے تو وہ اسلامی دنیا بالخصوص عرب دنیا کو اپنے زیر اثر کر لے گا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے۔
پاکستان یہودیوں کی آنکھوں میں شروع دن سے کھٹکتا رہا ہے 1956ء میں نہر سویز پر اسرائیل ، برطانیہ اور فرانس کے حملے سے لے کر اب تک عرب دنیابالخصوص اہل فلسطین کے خلاف بین الاقوامی صیہونیت نے جتنی کارروائیاں کیں پاکستان نے خود عرب ملک نہ ہونے کے باوجود ان کارروائیوں کو اپنے خلاف سرگرمیاں سمجھا بلکہ عربوں کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی کیونکہ وہ ان کے ساتھ اسلام کے اس رشتے سے منسلک ہے جو گزشتہ پندرہ صدیوں سے مسلمانوں کو آپس میں پروئے ہوئے ہے اور وہ عربوں پراحسان کرکے نہیں بلکہ اپنا دینی فریضہ سمجھ کر اپنا اسلامی کردار ادا کرتا ہے جواباً عربوں کا طرز عمل بھی ایسا ہی تھا وہ پاکستان کے اس کردار کو دلی طور پر پسند کرتے رہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیاتو انہوں نے پاکستان کی اس کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھا اور اس روز اپنے طور پر بے حد خوشی کا اظہار کیا بعض عرب ملکوں نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو سیاسی طور پر تسلیم بھی کرلیا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا اور امریکہ ، برطانیہ وغیرہ کے سخت دباؤ اور ترغیب کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہا اسرائیل کی اس دشمنی کا ایک سبب اور بھی ہے وہ یہ کہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد اسلام ہے یہود کا اسلام کے ساتھ دشمنی صدیوں پرانی ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف پاکستان نے کہ پاکستان کرتے ہوئے کے ساتھ ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

استنبول مذاکرات میں عبوری رضامندی — خطے میں امن و استحکام کی نئی امید

پاکستان اس تمام معاملے کو internationalise کرنے میں کامیاب جو پاکستان کی ایک اہم سفارتی کامیابی ہے - 

گزشتہ چھ روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا: افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا، اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا۔

یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔ تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔

آج ہونے والے مذاکرات کے دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:-

 1. تمام فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دوحہ میں طے شدہ فائربندی کو پائیدار بنانے کیلئے اسے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا (تاہم یہ رضامندی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہونے سے مشروط ہے : اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے)۔

 3. مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوگی۔

 4. ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور verification میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی پارٹی کے خلاف فیصلہ کرنے کا بھی اختیار رکھے گا۔

 5. ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان دونوں فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں فریقین کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔

مذاکرات کے دوران پاکستان کا وفد دلائل، شواہد اور اصولی مؤقف کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ پاکستانی وفد نے جس استقامت، بصیرت اور منطقی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کیے، وہ پیشہ ورانہ مہارت کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آخر کار عوام کے مفاد کی جیت ہوئی اور افغان وفد ایک عبوری مفاہمت پر آمادہ ہونے پر مجبور ہوا ۔ 

اس تمام پس منظر میں جو عبوری پیش رفت حاصل ہوئی ہے، اسے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے عوام بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عالمی سیکیورٹی کے لیے ایک مثبت سنگِ میل قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو مخالف قوتوں کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں، الزامات اور تخریبی ذہنیت کے باوجود دلیل، تدبر اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ ہے۔

پاکستان نے جس سنجیدگی، فہم و فراست اور قومی وقار کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ ساتھ ہی ترکیہ اور قطر جیسے برادر ممالک کی میزبانی اور ثالثی نے اس عبوری کامیابی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس مؤقف پر یکساں، پُرعزم اور مکمل طور پر متحد ہے، اور اپنی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہر داخلی و خارجی خطرے کا مقابلہ بھرپور تیاری، وسائل اور عزم سے کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: بابر اعظم نے ویرات کوہلی کا کونسا ریکارڈ توڑ ڈالا؟
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • جرات، بہادری و ہمت کے نشان، غازیانِ گلگت بلتستان کو سلام
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
  • جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں، جسٹس مسرت ہلالی
  • جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں، جسٹس مسرت ہلالی
  • قطری وزیراعظم نے فلسطینیوں کو جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا ذمے دار ٹھیرادیا
  • استنبول مذاکرات میں عبوری رضامندی — خطے میں امن و استحکام کی نئی امید