ایران اور اسرائیل کی جنگ مسلکی نہیں بلکہ کفر و اسلام کی جنگ ہے، ملی یکجہتی کونسل جنوبی پنجاب
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ایران کے خلاف باتیں کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ کھڑے ہوں کیونکہ یہود و نصاری عالم اسلام کے خلاف اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ملی یکجہتی کونسل جنوبی پنجاب کے جنرل سیکریٹری محمد ایوب مغل، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے مولانا عبدالرحیم گجر، شیعہ علما کونسل جنوبی پنجاب کے ترجمان بشارت عباس قریشی، قومی تاجر اتحاد کے مرکزی صدر سلطان محمود ملک نے دیگر رہنماوں علامہ محمد طارق ہاشمی، سلیم عباس صدیقی، علامہ خالد فاروقی، مفتی ممتاز احمد قاسمی، مفتی زبیر احمد، نزاکت حسین، سید محمد اصف شاہ، عزیز الرحمن جالندھری، محمد اشفاق سعیدی، ملک غلام سرور حیدر، حافظ محمد رستم، محمد بوٹا کے ہمراہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور یورپ بلاتفریق سنی و شیعہ تمام مسلمانوں پر حملہ اور ہیں، اسرائیل دہشت گرد ریاست ہے، ایران نے اپنا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا کر امریکہ اور یورپی ممالک کے سیاہ چہروں کو بے نقاب کر دیا ہے، ایران نے جس ہمت اور جواں مردی سے اسرائیل کو دھول چٹائی ہے اس پر پوری پاکستانی عوام ایران کی جرات اور بہادری کو سلام پیش کرتی ہے، پوری پاکستانی قوم ایران کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، ایران اس وقت اہل اسلام کی نمائندگی کر رہا ہے اور یہ مسلکی جنگ نہیں بلکہ کفر و اسلام کی جنگ ہے، انجمن غلامان امریکہ ٹوٹ رہی ہے، اسرائیل اور یورپ کے بڑھتے ہوئے ظلم و بربریت کو روکنا ہوگا جو امت مسلمہ کے امن کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ایران کے خلاف باتیں کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ کھڑے ہوں کیونکہ یہود و نصاری عالم اسلام کے خلاف اکٹھے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ایران پر حملے کی حماقت دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے، ہم اس موقع پر ایران کے ساتھ ہیں اور اسرائیل امریکہ اور یورپ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرنا اور حکومت پاکستان کا اسرائیلی حملوں کی مذمت اور ایران کے ساتھ ہر محاذ پر ساتھ دینے کا اعلان احسن اقدام ہے، یہ پاکستانی عوام کے جذبات کی بہترین نمائندگی ہے اور اس موقع پر سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کا بھی اسرائیل کی مذمت کرنا وقت کی آواز ہے، پاکستانی عوام فوج کے ساتھ تھی اور فوج کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ چائنہ اور روس سمیت دیگر ممالک اس جنگ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو اپنے دفاع کے لیے ایٹم بم بنانے کا پورا حق حاصل ہے، اگر اسرائیل امریکہ اور یورپ ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو ایران اپنی حفاظت کے لیے ایٹم بم کیوں نہیں بنا سکتا، موجودہ حالات میں ترقی کرنے کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے، اسرائیل اور امریکہ کا اس بنا پر ایران پر حملہ کرنا ظلم و بربریت ہے اور ایران کو اپنے دفاع سے باز رکھنے کے مترادف ہیں، اسرائیل کا ایران پر حملہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اصولوں کے سراسر خلاف ہے اور اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک کی خاموشی انسانیت کے قتل کی بھیانک سازش ہے اور یہ خاموشی پوری دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ایران کے چھ ایٹمی سائنسدان اور جرنیلوں سمیت دیگر شہدا کے غم میں پوری پاکستانی قوم ایرانی عوام کے غم میں برابر کی شریک ہے، اگر آج مسلم امہ صیہونی قوتوں کے خلاف متحد نہ ہوئی تو کل کسی اور کی باری آئے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ اور یورپ ایران کے ساتھ کے خلاف ہے اور کی جنگ کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
ایران کا مسلم ممالک سے اسرائیل کے خلاف مشترکہ آپریشن روم بنانے کا مطالبہ
TEHRAN:ایران نے مسلمان ممالک سے اسرائیل کے خلاف ایک مشترکہ آپریشن روم قائم کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ عملی اقدامات کے ذریعے اسرائیل کی جنونی حکومت کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی لاری جانی نے اپنے بیان میں کہا کہ محض تقاریر اور اجلاسوں سے اسرائیل کی حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔
علی لاری جانی نے یہ واضح کیا کہ کسی عملی قدم کے بغیر فلسطین کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا بے اثر ثابت ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو کم از کم اپنے دفاع کے لیے ایک مؤثر فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ اسرائیل کی حکومت نہ صرف فلسطین کے عوام بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دے گی۔
لاری جانی نے مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایک مشترکہ آپریشن روم تشکیل دیں جو صیہونی حکومت کے سرپرستوں کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہوگا۔
ان کے مطابق یہ ایک مثبت قدم ہوگا جس سے نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے کچھ کیا جا سکے گا بلکہ اس سے مسلمان ممالک کو اپنی خودمختاری اور سلامتی کی حفاظت کے لیے بھی ایک مؤثر حکمت عملی ملے گی۔