UrduPoint:
2025-09-18@23:29:48 GMT

معیاری تحقیق یا 'پی ایچ ڈیز‘ کا جمعہ بازار

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

معیاری تحقیق یا 'پی ایچ ڈیز‘ کا جمعہ بازار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جون 2025ء) اکیڈیمکس میں تو آپ کی لاٹری کھل جائے گی!

وہاں ایک دوسرے شخص نے مرکز نگاہ شخص کو حسد اور رشک کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا۔ ہم نے جب یہ منظر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ پاکستان میں شاید خواندگی اور شرح تعلیم تو ضرور بڑھ رہی ہے لیکن دراصل یہ اکثر صرف ڈگری یافتہ لوگوں کا تناسب ہی بن چکا ہے ورنہ کیا پی ایچ ڈی جیسی گراں قدر ڈگری کے حوالے سے ایسے سوال و جواب کا کوئی تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟

یقیناً نہیں۔

! لیکن سوچیے تو اس میں قصور تو ہمارے نظام تعلیم کا بھی ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس تو آج کی بات ہے، ہم نے پہلے ہی پی ایچ ڈی کے جعلی مقالوں اور سرقہ نویسی کی کیسی کیسی کہانیاں نہیں سنیں۔ ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ میں ایک پروفیسر نے اپنے ہی شعبے کے ایک ہم عصر پروفیسر کا مقالہ نقل کر ڈالا تھا اور یہ معاملہ بہت عرصے تک خبروں کی زینت بھی رہا، متعلقہ پروفیسر کو نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے سے بھی روک دیا گیا تھا، لیکن پھر اتنی خوبصورتی سے یہ معاملہ داخل دفتر ہوا کہ جیسے کبھی کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، کیوں کہ دونوں پروفیسرز ایک ہی لابی سے تعلق رکھتے تھے، ورنہ یونیورسٹی کی سطح پر ایسی فاش غلطی کرنے والوں کے ساتھ تو سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہیے تھی!

جیسے ہمارے ہاں تعلیم کا عام مقصد ہی اچھی سے اچھی نوکری کا حصول ہے، بالکل ایسے ہی ڈاکٹریٹ کا معاملہ بھی ہے، جس میں بہت کم ہی ایسے امیدوار ہوتے ہوں گے کہ جو دل سے کوئی تحقیق کرتے ہوں گے۔

(جاری ہے)

جو یہ سوچتے ہوں گے کہ واقعی وہ پڑھنا اور اپنے سماج کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ انہیں تحقیق اور دریافتوں میں دلچسپی ہے۔ ورنہ آپ دیکھ لیجیے کہ اکثر اپنے ناموں کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگائے افراد مختلف سرکاری اور نجی جامعات میں کسی نہ کسی اہم ذمہ داری پر فائز ہوں گے اور پھر اسی پی ایچ ڈی کی بنیاد پر تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہوں گے، کیوں کہ شاید ہمارے ہاں پی ایچ ڈی جیسی اہم ڈگری کا مقصد فقط معاشی آسودگی کا حصول ہی رہ گیا ہے۔

جب بنیاد ہی میں تحقیق اور کھوج کے بجائے مکمل طور پر مادیت پرستی ہو تو پھر پی ایچ ڈی کے موضوعات سے لے کر ان کے مندرجات تک کا جو حشر نشر ہو سکتا ہے، وہی سب آج ہو رہا ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق ہمارے معاشرے میں مبینہ طور پر ایسے طلبہ موجود ہیں جو با معاوضہ پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ کر دے دیتے ہیں۔ اب جہاں امتحانی مراکز میں جعلی امیدوار داخل کرا دیے جانے کے واقعات ہوں وہاں کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ پی ایچ ڈی کی ساری تحقیق واقعی متعلقہ امید وار ہی نے کی ہے۔

اس کی پرکھ کے لیے آخر میں ایک زبانی امتحان وائیوا کی صورت ہی میں باقی رہ جاتا ہے۔ اس میں بھی من پسند ممتحن کا تقرر ہو جانا کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے، جو ہنستے کھیلتے یہ مرحلہ طے کرا دیتا ہے۔

دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم کی بنیاد ان جامعات میں ہونے والی تحقیق پر استوار ہوتی ہے۔ کرنے کو ایچ ای سی نے مختلف اسامیوں کے لیے ڈاکٹریٹ کی شرط تو عائد کر دی ہے، لیکن یہ اس تحقیق کے معیار اور بلندی کو برقرار رکھنے میں کچھ زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔

آپ کسی بھی یونیورسٹی میں چلے جائیے اور وہاں کے کتب خانوں میں پی ایچ ڈی کے مقالوں کا حال دیکھ لیجیے، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مضبوط سیاہ جلدوں میں مقید ضخیم نسخے فقط کالی کی جانے والی امتحانی کاپی سے زیادہ اہم نہیں، جس کے نتیجے میں فقط امتحان میں اعلیٰ مدارج ہی طے کرنا ہوتے ہیں۔

کرنے کو ایچ ای سی نے پی ایچ ڈی کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں، جس کے تحت اب باقاعدہ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگراموں میں محدود نشستوں پر ہی داخلے دیے جاتے ہیں، جس کے لیے ماسٹرز کی قابلیت رکھنے والے طلبہ بھاری فیس بھی ادا کرتے ہیں، باقاعدہ کلاسز بھی لیتے ہیں اور اسائنمنٹ بھی کرتے ہیں اور پھر امتحانات کے بعد یہ طے ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹریٹ یا ایم فل کی تحقیق کرنے کے اہل ہیں یا نہیں۔

اس کے باوجود بھی تحقیقی مقالوں کے موضوعات سے لے کر ان کے متن اور مندرجات تک مکھی پر مکھی مارنے جیسی مشق ہی دکھائی دیتی ہے۔ سب سے پہلے تو موضوعات کے حوالے سے ہی امیدوار اور ان کے نگران تحقیق ہی نہیں کرتے۔ متعلقہ موضوع پر ہونے والی تحقیق اور اس موضوع کی ضرورت اور اہمیت، وہ بنیادی کلیدیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر کوئی بھی تحقیقی خاکہ منظور کیا جاتا ہے، لیکن افسوس ہمارے ہاں تینوں ہی بنیادوں کو نظر انداز کر کے صرف آسان اور میسر مواد اور طریقے کی طرف رغبت کی جاتی ہے، جس کے بعد پھر چل سو چل۔

اب آپ اسے عام نوٹس کہیے یا کوئی تحقیقی کاوش۔۔۔ یہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔

موضوع اور طریقہ تحقیق کے بعد، تحقیق کا معیار اور اصول دوسرا بڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ تحقیقی اخلاقیات ہوتی ہیں کہ آپ جو کچھ اپنے مقالے میں لکھیں گے اس کے لیے کوئی نہ کوئی حوالہ دیں گے، کوئی نہ کوئی جواز دیں گے، لیکن پی ایچ ڈی محقق کو لگتا ہے کہ اگر اس نے کہیں حوالے دے دیے تو لوگ سمجھیں گے کہ اس نے تو نقل کی ہے اور ہمارے نظام میں اس کی یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہوتی کیوں کہ ڈاکٹریٹ کا مقالہ جمع ہونے سے پہلے اس کی باقاعدہ سائنسی جانچ ہوتی ہے کہ اس میں کتنے فی صد مواد محقق نے خود لکھا ہے اور کتنا مواد اخذ شدہ ہے۔

یہ لکیر کا فقیر سسٹم ہی آن لائن جائزہ لے کر بتا دیتا ہے کہ تھیسز میں کتنے فی صد مواد ادھر ادھر سے لیا گیا ہے اور کتنا خود سے لکھا۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ تحقیق میں یقینی طور پر آپ دوسری تحقیقی مقالوں اور مضامین سے مدد لیتے ہیں اور بطور محقق یہ بات اچھی سمجھی جاتی ہے کہ آپ واوین کا خیال رکھیں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ یہ آپ نے نہیں لکھا، بلکہ فلاں محقق نے بالکل یہی کہا ہے یا تحقیق کی ہے لیکن یہ سسٹم اس سقم کے ساتھ ہی موجود ہے۔

نتیجتاً نگران تحقیق یا سپروائزر پی ایچ ڈی کرنے والوں کو کہتے ہیں کہ اس سسٹم کی 20 فی صد اخذ شدہ کی حد سے بچنے کے لیے واوین کے بجائے اپنے الفاظ میں مفہوم لکھو تا کہ سسٹم کی اسکیننگ میں کم سے کم اخذ شدہ مواد سامنے آئے ورنہ مقالہ جمع ہی نہیں ہو گا۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ماسٹرز کرنے والوں کا تناسب بہ مشکل دو فی صد ہے، اب ان میں سے پی ایچ ڈی کرنے والے کتنے ہوتے ہیں، آپ اندازہ لگا لیجیے۔

اگرچہ ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن معیار پست ہو رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایچ ای سی ڈاکٹریٹ کرنے والے امیدواروں کے مقالہ جات کی کڑی جانچ کے بعد ہی تعلیمی اداروں میں ان کی مراعات کا فیصلہ کرتا یا پھر تحقیق کے موضوعات اور معیار کی منظوری کے حوالے سے کوئی مناسب بند و بست کرتا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹریٹ کے مقالوں سے ملک اور سماج کے مختلف مسائل کے حل میں مدد کا کوئی طریقہ کار وضع ہوتا، تا کہ پتا چلتا کہ اس تحقیق سے امیدوار کی ترقی کے راستے کھلنے کے علاوہ عام فائدہ کیا ہوا؟ اگر اس سمت توجہ نہیں دی گئی تو ہمارے مقالہ جات لائبریریوں کی الماریوں میں بند ہو کر دیمک کی غذا بنتے رہیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی ایچ ڈی کے کرنے والوں کے ساتھ سکتا ہے ہوں گے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

اب چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں! سائنسدانوں نے نظر کی کمزوری کا نیا علاج دریافت کرلیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سائنسدانوں نے ایسے آئی ڈراپس تیار کیے ہیں جو دور کی نظر کی کمزوری یا پریسبیوپیا — وہ مرض جس میں کروڑوں افراد قریب کی چیزیں دیکھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں — کے لیے ایک آسان اور غیر جراحی (بغیر آپریشن) علاج فراہم کرسکتے ہیں۔

اب تک اس بیماری کا علاج صرف عینک یا سرجری کے ذریعے ہی ممکن تھا، مگر نئی تحقیق کے مطابق روزانہ دو بار یہ ڈراپس استعمال کرنے سے مریضوں کی بینائی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

کوپن ہیگن میں منعقدہ یورپین سوسائٹی آف کیٹریکٹ اینڈ ریفریکٹیو سرجنز (ESCRS) کی کانفرنس میں پیش کی گئی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان ڈراپس کے استعمال سے مریضوں کی قریب کی نظر میں نمایاں بہتری دیکھی گئی اور یہ اثر دو سال تک برقرار رہا۔

یہ ڈراپس پائلَکارپین (pilocarpine) اور ڈائکلوفینَک (diclofenac) پر مشتمل ہیں۔ پائلَکارپین آنکھ کی پتلی کو سکیڑ کر فوکس کو بہتر کرتا ہے، جبکہ ڈائکلوفینَک آنکھ میں سوزش کم کرتا ہے۔

ارجنٹینا میں 766 مریضوں پر کی گئی تحقیق میں پائلَکارپین کی تین مختلف مقداریں (1٪، 2٪، 3٪) استعمال کی گئیں۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ 1٪ ڈراپس استعمال کرنے والے تقریباً تمام مریض آئی چارٹ پر دو یا زیادہ لائنیں پڑھنے لگے، جبکہ 3٪ ڈراپس استعمال کرنے والے 84٪ مریض تین یا زیادہ لائنیں پڑھنے کے قابل ہوگئے۔

تحقیق کی نگران ڈاکٹر جیوانا بینوزی کے مطابق ایک گھنٹے کے اندر مریضوں کی نظر میں بہتری آنا شروع ہوگئی۔ ان کے بقول: “یہ علاج ہر فاصلے پر فوکس کو بہتر کرتا ہے۔”

البتہ ماہرین نے خبردار کیا کہ ڈراپس کے کچھ سائیڈ افیکٹس بھی سامنے آئے ہیں جن میں وقتی طور پر دھندلا پن، ہلکی جلن اور سر درد شامل ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ بڑے پیمانے پر استعمال سے قبل طویل المدتی نتائج کا مزید جائزہ لینا ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کی میڈیسن مارکیٹ اور اردو بازار سیوریج نالے بن گئے، طالبات اور حاملہ خواتین کیلئے مشکلات
  • کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو، جسٹس محسن اختر کیانی
  • ساف انڈر17 فٹبال چیمپئن شپ: پاکستان اپنا دوسرا میچ جمعہ کو کھیلے گا
  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  •  اب سزاؤں کا اتوار بازار ختم ہونا چاہیے، نفرتوں سے حکومت کرنے سے پاکستان کا نقصان ہوگا:چیئرمین پی ٹی  آئی
  • سزاؤں کا اتوار بازار ختم ہونا چاہیے، نفرتوں سے پاکستان کا نقصان ہوگا: بیرسٹر گوہر
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • ’ایسی چیزیں قبول نہیں کروں گی‘، سیلاب زدگان کے لیے غیر معیاری سامان ملنے پر حدیقہ کیانی پھٹ پڑیں
  • اب چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں! سائنسدانوں نے نظر کی کمزوری کا نیا علاج دریافت کرلیا