UrduPoint:
2025-06-19@00:47:23 GMT

معیاری تحقیق یا 'پی ایچ ڈیز‘ کا جمعہ بازار

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

معیاری تحقیق یا 'پی ایچ ڈیز‘ کا جمعہ بازار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جون 2025ء) اکیڈیمکس میں تو آپ کی لاٹری کھل جائے گی!

وہاں ایک دوسرے شخص نے مرکز نگاہ شخص کو حسد اور رشک کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا۔ ہم نے جب یہ منظر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ پاکستان میں شاید خواندگی اور شرح تعلیم تو ضرور بڑھ رہی ہے لیکن دراصل یہ اکثر صرف ڈگری یافتہ لوگوں کا تناسب ہی بن چکا ہے ورنہ کیا پی ایچ ڈی جیسی گراں قدر ڈگری کے حوالے سے ایسے سوال و جواب کا کوئی تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟

یقیناً نہیں۔

! لیکن سوچیے تو اس میں قصور تو ہمارے نظام تعلیم کا بھی ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس تو آج کی بات ہے، ہم نے پہلے ہی پی ایچ ڈی کے جعلی مقالوں اور سرقہ نویسی کی کیسی کیسی کہانیاں نہیں سنیں۔ ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ میں ایک پروفیسر نے اپنے ہی شعبے کے ایک ہم عصر پروفیسر کا مقالہ نقل کر ڈالا تھا اور یہ معاملہ بہت عرصے تک خبروں کی زینت بھی رہا، متعلقہ پروفیسر کو نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے سے بھی روک دیا گیا تھا، لیکن پھر اتنی خوبصورتی سے یہ معاملہ داخل دفتر ہوا کہ جیسے کبھی کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، کیوں کہ دونوں پروفیسرز ایک ہی لابی سے تعلق رکھتے تھے، ورنہ یونیورسٹی کی سطح پر ایسی فاش غلطی کرنے والوں کے ساتھ تو سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہیے تھی!

جیسے ہمارے ہاں تعلیم کا عام مقصد ہی اچھی سے اچھی نوکری کا حصول ہے، بالکل ایسے ہی ڈاکٹریٹ کا معاملہ بھی ہے، جس میں بہت کم ہی ایسے امیدوار ہوتے ہوں گے کہ جو دل سے کوئی تحقیق کرتے ہوں گے۔

(جاری ہے)

جو یہ سوچتے ہوں گے کہ واقعی وہ پڑھنا اور اپنے سماج کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ انہیں تحقیق اور دریافتوں میں دلچسپی ہے۔ ورنہ آپ دیکھ لیجیے کہ اکثر اپنے ناموں کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگائے افراد مختلف سرکاری اور نجی جامعات میں کسی نہ کسی اہم ذمہ داری پر فائز ہوں گے اور پھر اسی پی ایچ ڈی کی بنیاد پر تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہوں گے، کیوں کہ شاید ہمارے ہاں پی ایچ ڈی جیسی اہم ڈگری کا مقصد فقط معاشی آسودگی کا حصول ہی رہ گیا ہے۔

جب بنیاد ہی میں تحقیق اور کھوج کے بجائے مکمل طور پر مادیت پرستی ہو تو پھر پی ایچ ڈی کے موضوعات سے لے کر ان کے مندرجات تک کا جو حشر نشر ہو سکتا ہے، وہی سب آج ہو رہا ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق ہمارے معاشرے میں مبینہ طور پر ایسے طلبہ موجود ہیں جو با معاوضہ پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ کر دے دیتے ہیں۔ اب جہاں امتحانی مراکز میں جعلی امیدوار داخل کرا دیے جانے کے واقعات ہوں وہاں کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ پی ایچ ڈی کی ساری تحقیق واقعی متعلقہ امید وار ہی نے کی ہے۔

اس کی پرکھ کے لیے آخر میں ایک زبانی امتحان وائیوا کی صورت ہی میں باقی رہ جاتا ہے۔ اس میں بھی من پسند ممتحن کا تقرر ہو جانا کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے، جو ہنستے کھیلتے یہ مرحلہ طے کرا دیتا ہے۔

دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم کی بنیاد ان جامعات میں ہونے والی تحقیق پر استوار ہوتی ہے۔ کرنے کو ایچ ای سی نے مختلف اسامیوں کے لیے ڈاکٹریٹ کی شرط تو عائد کر دی ہے، لیکن یہ اس تحقیق کے معیار اور بلندی کو برقرار رکھنے میں کچھ زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔

آپ کسی بھی یونیورسٹی میں چلے جائیے اور وہاں کے کتب خانوں میں پی ایچ ڈی کے مقالوں کا حال دیکھ لیجیے، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مضبوط سیاہ جلدوں میں مقید ضخیم نسخے فقط کالی کی جانے والی امتحانی کاپی سے زیادہ اہم نہیں، جس کے نتیجے میں فقط امتحان میں اعلیٰ مدارج ہی طے کرنا ہوتے ہیں۔

کرنے کو ایچ ای سی نے پی ایچ ڈی کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں، جس کے تحت اب باقاعدہ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگراموں میں محدود نشستوں پر ہی داخلے دیے جاتے ہیں، جس کے لیے ماسٹرز کی قابلیت رکھنے والے طلبہ بھاری فیس بھی ادا کرتے ہیں، باقاعدہ کلاسز بھی لیتے ہیں اور اسائنمنٹ بھی کرتے ہیں اور پھر امتحانات کے بعد یہ طے ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹریٹ یا ایم فل کی تحقیق کرنے کے اہل ہیں یا نہیں۔

اس کے باوجود بھی تحقیقی مقالوں کے موضوعات سے لے کر ان کے متن اور مندرجات تک مکھی پر مکھی مارنے جیسی مشق ہی دکھائی دیتی ہے۔ سب سے پہلے تو موضوعات کے حوالے سے ہی امیدوار اور ان کے نگران تحقیق ہی نہیں کرتے۔ متعلقہ موضوع پر ہونے والی تحقیق اور اس موضوع کی ضرورت اور اہمیت، وہ بنیادی کلیدیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر کوئی بھی تحقیقی خاکہ منظور کیا جاتا ہے، لیکن افسوس ہمارے ہاں تینوں ہی بنیادوں کو نظر انداز کر کے صرف آسان اور میسر مواد اور طریقے کی طرف رغبت کی جاتی ہے، جس کے بعد پھر چل سو چل۔

اب آپ اسے عام نوٹس کہیے یا کوئی تحقیقی کاوش۔۔۔ یہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔

موضوع اور طریقہ تحقیق کے بعد، تحقیق کا معیار اور اصول دوسرا بڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ تحقیقی اخلاقیات ہوتی ہیں کہ آپ جو کچھ اپنے مقالے میں لکھیں گے اس کے لیے کوئی نہ کوئی حوالہ دیں گے، کوئی نہ کوئی جواز دیں گے، لیکن پی ایچ ڈی محقق کو لگتا ہے کہ اگر اس نے کہیں حوالے دے دیے تو لوگ سمجھیں گے کہ اس نے تو نقل کی ہے اور ہمارے نظام میں اس کی یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہوتی کیوں کہ ڈاکٹریٹ کا مقالہ جمع ہونے سے پہلے اس کی باقاعدہ سائنسی جانچ ہوتی ہے کہ اس میں کتنے فی صد مواد محقق نے خود لکھا ہے اور کتنا مواد اخذ شدہ ہے۔

یہ لکیر کا فقیر سسٹم ہی آن لائن جائزہ لے کر بتا دیتا ہے کہ تھیسز میں کتنے فی صد مواد ادھر ادھر سے لیا گیا ہے اور کتنا خود سے لکھا۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ تحقیق میں یقینی طور پر آپ دوسری تحقیقی مقالوں اور مضامین سے مدد لیتے ہیں اور بطور محقق یہ بات اچھی سمجھی جاتی ہے کہ آپ واوین کا خیال رکھیں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ یہ آپ نے نہیں لکھا، بلکہ فلاں محقق نے بالکل یہی کہا ہے یا تحقیق کی ہے لیکن یہ سسٹم اس سقم کے ساتھ ہی موجود ہے۔

نتیجتاً نگران تحقیق یا سپروائزر پی ایچ ڈی کرنے والوں کو کہتے ہیں کہ اس سسٹم کی 20 فی صد اخذ شدہ کی حد سے بچنے کے لیے واوین کے بجائے اپنے الفاظ میں مفہوم لکھو تا کہ سسٹم کی اسکیننگ میں کم سے کم اخذ شدہ مواد سامنے آئے ورنہ مقالہ جمع ہی نہیں ہو گا۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ماسٹرز کرنے والوں کا تناسب بہ مشکل دو فی صد ہے، اب ان میں سے پی ایچ ڈی کرنے والے کتنے ہوتے ہیں، آپ اندازہ لگا لیجیے۔

اگرچہ ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن معیار پست ہو رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایچ ای سی ڈاکٹریٹ کرنے والے امیدواروں کے مقالہ جات کی کڑی جانچ کے بعد ہی تعلیمی اداروں میں ان کی مراعات کا فیصلہ کرتا یا پھر تحقیق کے موضوعات اور معیار کی منظوری کے حوالے سے کوئی مناسب بند و بست کرتا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹریٹ کے مقالوں سے ملک اور سماج کے مختلف مسائل کے حل میں مدد کا کوئی طریقہ کار وضع ہوتا، تا کہ پتا چلتا کہ اس تحقیق سے امیدوار کی ترقی کے راستے کھلنے کے علاوہ عام فائدہ کیا ہوا؟ اگر اس سمت توجہ نہیں دی گئی تو ہمارے مقالہ جات لائبریریوں کی الماریوں میں بند ہو کر دیمک کی غذا بنتے رہیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی ایچ ڈی کے کرنے والوں کے ساتھ سکتا ہے ہوں گے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

غذا صرف پیٹ بھرنے کے لیے نہیں: سمجھداری سے کھائیں

ہمارے ہاں کھانے کے بارے میں عمومی رویہ یہ ہے کہ جو چیز دستیاب ہو، بھوک لگے تو کھا لی جائے، وقت کا خیال نہ اجزاء کی افادیت پر غور، لیکن آج کے دور میں جہاں صحت مند طرزِ زندگی کو اپنانا ہر فرد کی ضرورت بنتا جا رہا ہے، وہاں صرف کھانے سے پیٹ بھرنا کافی نہیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ کھانے میں موجود غذائی اجزاء ہمارے جسم میں مؤثر طریقے سے جذب ہوں۔تحقیقات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کچھ غذائیں اگر اکیلے کھائی جائیں تو وہ اپنی پوری غذائی افادیت فراہم نہیں کرتیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں کچھ مخصوص وٹامنز اور منرلز کو بہتر طریقے سے جذب ہونے کے لیے دیگر اجزاء کی مدد درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ وٹامنز صرف چکنائی میں حل ہوتے ہیں جبکہ کچھ منرلز کا جذب ہونا دوسرے غذائی عناصر کی موجودگی سے مشروط ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم خوراک کو صرف اس کے ذائقے، رنگ یا خوشبو کی بنیاد پر منتخب کریں اور یہ نہ دیکھیں کہ وہ ہمارے جسم کے لیے کتنا فائدہ مند یا غیر مؤثر ثابت ہوگی، تو ہم اپنے ہی صحت کے سفر کو سست یا نقصان دہ بنا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے ماہرینِ غذائیت صرف ’’کیا کھایا جائے‘‘ پر زور نہیں دیتے بلکہ ’’کس کے ساتھ کھایا جائے‘‘ کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ مضمون انہی اصولوں کی روشنی میں اْن سات عام اور روزمرہ کی غذاؤں پر روشنی ڈالتا ہے جنہیں اگر ہم مخصوص اشیاء کے ساتھ کھائیں تو نہ صرف اْن کا ذائقہ بڑھتا ہے بلکہ اْن کی غذائی افادیت بھی کئی گنا ہو جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب غذائیں ہماری روزمرہ زندگی میں پہلے ہی موجود ہیں، صرف ہمیں اْنہیں زیادہ سمجھ داری سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ تو آئیے، جانتے ہیں کہ وہ سات غذائیں کون سی ہیں، اور کس کے ساتھ کھانے سے وہ ہمارے جسم کو مکمل فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔

 کیلا: دودھ یا دہی کے ساتھ کھائیں

کیلا ایک ایسا پھل ہے جو پاکستان میں سال بھر دستیاب ہوتا ہے، قیمت میں مناسب اور ہر عمر کے افراد کے لیے پسندیدہ بھی۔ بچے ہوں یا بزرگ، کیلا توانائی کا فوری ذریعہ ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کیلا اکیلے کھانے سے آپ کو صرف آدھے فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ اس میں انْیولن (Inulin) نامی ایک فائبر پایا جاتا ہے جو معدے میں موجود مفید بیکٹیریا (Probiotics) کی افزائش میں مدد دیتا ہے۔ مگر ساتھ ہی اگر آپ اسے دودھ، دہی یا پنیر جیسے کیلشیم سے بھرپور غذاؤں کے ساتھ کھائیں تو یہ کیلشیم کے جذب ہونے کو بھی بہتر بناتا ہے، جس سے ہڈیوں کی صحت مضبوط ہوتی ہے۔ ایک بہترین ناشتہ میں کیلے کے قتلے دہی میں شامل کریں یا دودھ میں بلینڈ کر لیں۔ یہ ناشتہ نہ صرف توانائی بخش ہے بلکہ معدے، ہڈیوں اور پٹھوں کے لیے بھی مفید ہے۔

اسٹرابیری: مونگ پھلی کے مکھن کے ساتھ

اسٹرابیری ایک موسمی پھل ہے مگر شوقین افراد اسے سردیوں میں فریزر میں محفوظ کر کے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس پھل میں وٹامن سی کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو جسم میں مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے کے ساتھ جلد کی صحت، خلیاتی نشوونما اور آئرن کے جذب میں بھی مدد دیتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وٹامن سی، وٹامن ای کے ساتھ مل کر کام کرے تو یہ آنکھوں کے لیے زبردست فائدہ مند ہوتا ہے۔

وٹامن ای مونگ پھلی، بادام اور سورج مکھی کے بیجوں میں پایا جاتا ہے اور آنکھوں کی بیماریوں، خاص طور پر عمر بڑھنے سے لاحق ’’میکولر ڈی جنریشن‘‘ سے بچاتا ہے۔ لہٰذا اسٹرابیری کو مونگ پھلی کے مکھن یا بادام کے مکھن کے ساتھ کھائیں۔ اس حوالے سے ایک مزیدار تجویز یہ ہے کہ اسٹرابیری پر تھوڑا سا مونگ پھلی کا مکھن لگا کر بچوں کو بطور صحت مند اسنیک دیں۔

بروکلی: سرسوں یا کچی پتّے دار سبزیوں کے ساتھ کھائیں

بروکلی ایک غیر معمولی سبزی ہے جو مغربی ممالک کے ساتھ اب پاکستان میں بھی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جو صحت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ بروکلی میں سلفورافین (Sulforaphane) پایا جاتا ہے، جو کہ اینٹی کینسر مرکب ہے اور جسم کے خلیوں کو فری ریڈیکلز سے بچاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے جب بروکلی کو پکایا جاتا ہے، تو اس میں موجود مایروسینیز (Myrosinase) نامی انزائم ختم ہو جاتا ہے، جو سلفورافین کو فعال حالت میں لاتا ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو بروکلی کے تمام فائدے حاصل ہوں تو اس کے ساتھ کچی سبزیوں جیسے مولی کے پتے یا شلجم شامل کریں۔ ان سبزیوں میں وہ انزائم موجود ہوتا ہے جو سلفورافین کو فعال بناتا ہے۔ پاکستانی معاشرت کے مطابق آپ بروکلی کی ہلکی ابلی ہوئی ترکاری پر سرسوں کا پتا باریک کاٹ کر ڈالیں، یا کچّی مولی کے پتے بطور سلاد شامل کریں۔

کافی: تھوڑی سی چینی کے ساتھ بہتر انتخاب

ہماری زندگی میں کافی کا کردار وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ نوجوان طبقہ، طلبہ، دفاتر میں کام کرنے والے افراد اور رات کو جاگنے والے سب ہی کافی کو جگانے والی دوا سمجھتے ہیں۔ عام خیال ہے کہ کافی میں چینی ڈالنا نقصان دہ ہے، لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ اگر معتدل مقدار میں چینی ڈالی جائے تو یہ ذہنی کارکردگی بہتر بناتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جب لوگوں نے کافی اور چینی ایک ساتھ استعمال کی، تو ان کے دماغ کے وہ حصے جو توجہ، یادداشت اور فیصلہ سازی سے متعلق ہیں، زیادہ مؤثر طور پر کام کرنے لگے۔ یعنی چینی، کیفین کی کارکردگی کو بڑھاتی ہے۔ البتہ ضرورت سے زیادہ چینی استعمال کرنا مضر صحت ہے۔ لہٰذا اگر آپ چینی سے بچنا چاہتے ہیں تو شہد یا کھجور کی قدرتی مٹھاس کا استعمال کریں۔

سیب: سبز چائے کے ساتھ

سیب کو روز کھانے کی پرانی کہاوت ہے کہ An apple a day keeps the doctor away لیکن اگر آپ اس سیب کے ساتھ ایک کپ سبز چائے بھی پی لیں تو ڈاکٹر سے دور رہنے کے امکانات دوگنا ہو جاتے ہیں۔ سیب میں کوئرسٹن (Quercetin) اور سبز چائے میں کٹیچن (Catechin) موجود ہوتا ہے، جو مل کر خون کی پلیٹلیٹس کو جمنے سے روکتے ہیں۔ خون جمنے سے دل کے دورے، فالج اور شریانوں کی بندش جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک آسان تجویز یہ ہے کہ شام کو چائے کے وقت بسکٹ کی جگہ سیب کے قتلے اور ایک کپ گرم سبز چائے کا امتزاج اپنائیں۔ یہ نہ صرف مزیدار ہے بلکہ دل کی صحت کے لیے بھی نہایت مفید تصور کیا گیا ہے۔

پیاز: دال یا گندم کی روٹی کے ساتھ

پیاز ایک ایسی سبزی ہے جو تقریباً ہر پاکستانی کھانے کا لازمی جزو ہے، چاہے وہ سالن ہو، بھنا گوشت یا دال۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ پیاز صرف ذائقے کی چیز نہیں بلکہ صحت کا خزانہ بھی ہے؟ پیاز اور لہسن میں ’’سلفر کمپاؤنڈز‘‘ پائے جاتے ہیں، جو جسم میں زنک کے جذب کو بہتر بناتے ہیں۔ زنک وہ معدنی جز ہے جو مدافعتی نظام، جلد کی صحت، بالوں کی نشوونما اور زخموں کے بھرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ چونکہ دالیں، گندم اور بیسن جیسے اجزاء زنک سے بھرپور ہوتے ہیں، لہٰذا اگر ان کے ساتھ پیاز کھائی جائے تو جسم کو زیادہ مقدار میں زنک ملتا ہے۔ روایتی پاکستانی کھانوں میں یہ امتزاج ویسے ہی موجود ہے، مگر اگر آپ زیادہ فائدہ چاہتے ہیں تو دال کے ساتھ سلاد میں کچی پیاز لازماً شامل کریں۔

گاجر: ایووکاڈو یا زیتون کے تیل کے ساتھ

گاجر سردیوں کی خاص سبزی ہے، جسے ہم کچی کھاتے ہیں، اس کا جوس پیتے ہیں یا گاجر کا حلوہ بناتے ہیں۔ گاجر میں ’’بیٹا کیروٹین‘‘ موجود ہوتا ہے جو جسم میں جا کر وٹامن اے میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہ آنکھوں کی بینائی، جلد کی صحت اور قوت مدافعت کے لیے نہایت اہم ہے۔ لیکن بیٹا کیروٹین چکنائی کے بغیر جذب نہیں ہوتا۔ اس کے لیے آپ کو صحت بخش چکنائی جیسے ایووکاڈو، زیتون کا تیل، اخروٹ یا بادام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سادہ لیکن مفید نسخہ یہ ہو سکتا ہے کہ گاجر کو ایووکاڈو کے ساتھ بلینڈ کر لیں یا گاجر کی سلاد پر زیتون کا تیل چھڑک کر کھائیں۔ اس طرح آپ کو وٹامن اے کا مکمل فائدہ حاصل ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • چیٹ جی پی ٹی دماغی کارکردگی پر اثرانداز ہوتا ہے، ایم آئی ٹی کی تحقیق کا انکشاف
  • فیلڈ مارشل کو وائٹ ہاؤس میں بڑا پروٹوکول:ٹرمپ کی جانب سے ظہرانہ، کوئی سیاسی قیادت ہمراہ نہیں، تفصیلات سب نیوز پر
  • ’کوئی ثبوت نہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے‘، اسرائیل کے ڈھول کا پول پھر کھل گیا
  • غذا صرف پیٹ بھرنے کے لیے نہیں: سمجھداری سے کھائیں
  • ہمیں پتا ہے ایرانی سپریم لیڈر کہاں ہیں لیکن ابھی نشانہ نہیں بنانا چاہتے ، ٹرمپ کا دعویٰ
  • یہ بھی میری ہی جنگ ہے
  • سچا جھوٹ اور جھوٹا سچ
  • پاکستان نے اسرائیل پر ایٹمی حملے سے متعلق کوئی بیان نہیں دیا، اسحاق ڈار
  • پنجاب حکومت کا  نئے مالی سال میں 100 نئے سہولت بازار قائم کرنے کا فیصلہ
  • ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارارہ نہیں، جوہری توانائی اور تحقیق کا حق کوئی نہیں چھین سکتا، ایرانی صدر