بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلیمی تعاون کی نئی راہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 22 June, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد مرتضیٰ نور

21 جون 2025 کو بنگلہ دیش کے اعلیٰ سطحی تعلیمی وفد نے پاکستان کا ایک ہفتے پر محیط تاریخی دورہ کامیابی سے مکمل کیا، جس سے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلیمی تعاون کا نیا دور شروع ہو گیا ہے۔ یہ دورہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی وزارتی قائمہ کمیٹی برائے سائنسی و تکنیکی تعاون کامسٹیک کے تحت منعقد کیا گیا۔ جس کے دوران پاکستان اور بنگلہ دیش کی ممتاز جامعات کے مابین 20 سے زائد مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹری اکیڈمیا روابط کو پروان چڑھانے کے لیے پاکستان کے مشہور فوڈ برینڈ گورمے فوڈز کے ساتھ ایک اہم صنعتی انٹرن شپ شراکت داری بھی قائم کی گئی، جو طلبہ کو عملی تربیت کے شاندار مواقع فراہم کرے گی۔یہ قدم اسلامی دنیا میں سائنسی، تکنیکی اور تعلیمی ترقی کے لیے ایک روشن مثال ہو گا۔

بنگلہ دیشی تعلیمی وفد کے تاریخی دورے کا مرکزی نکتہ اسلام آباد میں منعقدہ وائس چانسلرز فورم برائے بنگلہ دیش تھا، جو او آئی سی-کامسٹیک کے زیر اہتمام کامسٹیک سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا۔ اس خصوصی فورم میں بنگلہ دیش کے 7 رکنی اعلیٰ سطحی وفد نے شرکت کی، جن میں ملک کی سرکردہ جامعات کے وائس چانسلرز اور اعلیٰ تعلیمی حکام شامل تھے۔
فورم میں پاکستان کی 15 ممتاز جامعات کے وائس چانسلرز اور نمائندگان بھی شریک ہوئے، جو کامسٹیک کنسورشیم آف ایکسیلنس (CCoE) کا حصہ ہیں۔ یہ فورم نہ صرف علمی مکالمے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تعلیمی شراکت داری کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔
کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے بنگلہ دیشی تعلیمی وفد کے حالیہ دورہ پاکستان کو سائنسی و تعلیمی اشتراک کے فروغ میں ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا۔
انہوں نے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات اور مشترکہ علمی اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ کامسٹیک کی جانب سے بنگلہ دیشی طلباء کے لیے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے 100 مکمل اسکالرشپس فراہم کیے جائیں گے۔ بنگلہ دیشی وفد نے اس اہم تعلیمی پیش رفت پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد، تعاون اور علمی روابط کو مزید مضبوط کرے گی۔

اس موقع پر پاکستان میں تعینات بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر،محترم اقبال حسین خان،نے کامسٹیک کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس دورے نے اعلیٰ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو مؤثر انداز میں فروغ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات OIC رکن ممالک کے درمیان مضبوط ادارہ جاتی تعلقات اور تعلیمی سفارت کاری کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔

فورم کے دوران دونوں ممالک کے وائس چانسلرز نے مختلف سیشنز میں بھرپور تبادلہ خیال کیا، جن میں تحقیقاتی منصوبے، اساتذہ اور طلباء کا باہمی تبادلہ، پی ایچ ڈی ڈگری پروگراموں میں فیس معافی، تعلیمی تعاون اور سہولیات کی شراکت جیسے اہم شعبے شامل تھے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ ہر جامعہ ایک فوکل پرسن مقرر کرے گی تاکہ دستخط شدہ معاہدوں پر مؤثر پیروی ممکن ہو سکے۔

فورم میں تعلیمی موضوعات پر خصوصی گفتگو بھی شامل تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر شعیب اے خان، چانسلر سرسید کیس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، نے پاکستان میں مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر سیدہ ضیاء بتول، چیئرپرسن پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز ریگولیٹری اتھارٹی، نے یونیورسٹی رینکنگ بہتر بنانے کی حکمت عملیوں پر مفید تجاویز پیش کیں۔

وفد نے لاہور، اسلام آباد، اور مری میں واقع اعلیٰ تعلیمی اداروں کا دورہ کیا، جن میں بیشتر کامسٹیک کے رکن ادارے تھے۔ اس دوران دستخط شدہ 20 سے زائد MoUs میں کانفرنسوں کے انعقاد، دوہری ڈگری پروگرامز، مختصر تربیتی کورسز، اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) سے متعلق تحقیقی اشتراک شامل ہیں۔

اس دورے کے دوران ایک اہم پیش رفت پاکستان کے نمایاں صنعتی ادارے گورمے فوڈز کے ساتھ مفاہمتی یادداشت تھی، جو بنگلہ دیشی طلباء کو صنعتی انٹرن شپس کے مواقع فراہم کرے گی اور تعلیم و صنعت کے درمیان روابط کو فروغ دے گی۔
وفد کے اعزاز میں مختلف استقبالیہ تقاریب منعقد ہوئیں، جن کی میزبانی ڈاکٹر چوہدری عبد الرحمن، چیئرمین پرائیویٹ یونیورسٹیز ایسوسی ایشن، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری، اور محترم اقبال حسین خان نے کی۔ ان تقریبات میں وفد نے پاکستانی ماہرین تعلیم اور صنعت سے وابستہ افراد سے تبادلہ خیال کیا۔

بنگلہ دیشی تعلیمی وفد نے پاکستان کے ایک ہفتے پر مشتمل دورے کو تاریخی، نتیجہ خیز اور علم افزا قرار دیا۔ وفد نے پاکستانی میزبانی، کامسٹیک کی رہنمائی اور خصوصاً 100 اسکالرشپس کے اعلان کو بے حد سراہا۔ یہ دورہ نہ صرف OIC-کامسٹیک کی مسلم دنیا میں سائنسی و تعلیمی خدمات کا مظہر ہے، بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان قائم ثقافتی و علمی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے کا عملی نمونہ بھی ہے۔
دورے کا اختتام دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے اسٹریٹجک شراکت داری کے دور کے آغاز پر ہوا، جو مستقبل میں تحقیق، اعلیٰ تعلیم، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ یہ تعلیمی مشن نہ صرف ادارہ جاتی تعاون کی بنیاد فراہم کرتا ہے بلکہ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح کامسٹیک جیسے پلیٹ فارمز OIC ممالک کو سیکھنے، ترقی اور یکجہتی کے مواقع مہیا کر رہے ہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ مؤثر پیروی کے ذریعے یہ معاہدے نہ صرف حقیقت بنیں گے بلکہ دونوں ممالک علم، تجربات اور سائنسی ترقی کے سفر میں ایک دوسرے کے شراکت دار بھی بنیں گے۔

مصنف تعلیم کے شعبے میں 25 سالہ وسیع تجربہ رکھنے والے سینئر تجزیہ کار اور ماہرِ تعلیم ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہرمز: جہاں ایران کی بندوق، تیل کی نالی پر رکھی جا سکتی ہے ہرمز: جہاں ایران کی بندوق، تیل کی نالی پر رکھی جا سکتی ہے پی آئی اے کی پرواز، ماضی کی بلندیوں سے نجکاری کی دہلیز تک اسلام آباد میں کلائمیٹ چینج کے منفی اثرات زور پکڑنے لگے پارلیمینٹیرینز کافی کارنر: قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج امریکہ تاریخ کے دریئچہ میں دنیا کی جنگیں: پاکستانی کسان کا مقام بمقابلہ بھارتی کسان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: تعلیمی تعاون پاکستان کے بنگلہ دیش کے درمیان

پڑھیں:

حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے

قراردار پاکستان کو منظور ہوئے تقریباً 85 برس بیت گئے، جس کی منظوری کے سات سال بعد 1947 میں پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔

پاکستان ایک ایسی اکائی ہے جس میں مختلف ثقافتوں اور زبانیں بولنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ مملکت خداداد جسے حاصل کرنے کےلیے لاتعداد قربانیاں دینی پڑیں، کیا ہم نے وہ مقاصد حاصل کرلیے؟

وطن عزیر کو حاصل کرنے کےلیے اُس وقت کے مسلمانوں کے پسِ منظر میں صدیوں کی محرومیاں تھیں، جس سے نجات کےلیے ایک طویل جدوجہد شروع کی گئی کہ برصغیر کے نچلے اور افلاس زدہ مسلمانوں کی زندگیوں میں بہتری لائی جاسکے۔ جبکہ آج حقیقت یہ ہے کہ بحثیت پوری قوم دیانت داری، انصاف اور ترقی کا فریضہ فراموش کرکے اپنی ذاتی اغراض کے اسیر ہوگئی ہے۔

پاکستان کی جدوجہد میں ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو کہ قوم کو سماجی سطح پر منظم کرنے کے حامی رہے لیکن مسلمان آزادانہ سیاسی کردار ادا کریں اس اشرافیہ کو کبھی قابل قبول نہ تھا۔ یہ اشرافیہ انگریز کے منظور نظر، انگریز استعمار کے وفادار، جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ تھے، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں پاکستان پر قابض ہیں۔

21 ویں صدی میں ایسے نظامِ حکومت کو بہتر سمجھا جاتا ہے جہاں عوام کا تعلق اپنے ریاستی اداروں سے تگڑا اور مضبوط ہو۔ حقیقتاً ریاست اور عوام کے باہمی تعلق کو ہم ان کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جہاں ریاست عوام کو ان کی بنیادی حقوق اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضمانت دیتی ہے تو دوسری جانب عوام بھی ریاستی امور اور قوانین کی مکمل پاسداری کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

یہ بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ’’تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی‘‘ یا یوں کہیے کہ محبت یا لڑائی یکطرفہ نہیں ہوتی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی کے بعد ایک ذمے دار ریاست کے طور پر حکومتیں عوام کے ساتھ باہمی تعلق کو مضبوط بنانے کےلیے ایسی قانون سازی کرتیں کہ جس میں کمزور طبقات کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوتا، تاکہ عوام کی اکثریت ریاستی مفاد کے ساتھ کھڑی ہوتی۔

1973 کے دستور کا بغور جائزہ لیا جائے تو عوامی مسائل کے باب میں ہر پاکستانی کےلیے تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، انصاف، آزادی اظہارِ رائے اور معلومات تک رسائی وغیرہ۔ سب اہم امور شامل ہیں۔ ریاست کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ کمزور طبقات کے مفاد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

آج وطنِ عزیز میں طاقتور اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری حکومتوں سے مسلسل غلطیاں ہورہی ہیں۔ حکومتوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے آج وطنِ عزیز میں بے حس اور ظالمانہ نظام رائج ہوچکا ہے جس میں خلق خدا کی آسانیوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا۔

ہماری حکومتیں صرف ٹیکس مانگنا جانتی ہیں، بدلے میں کچھ دینے کو تیار نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری حکومتیں عوام کو وہ حقوق دیتیں جو کہ دنیا کے مہذب معاشروں میں ان کے عوام کو حاصل ہیں۔ حقوق دینا تو بہت دور کی بات، آج اپنے حق کےلیے آواز اٹھانا بھی جرم بن گیا ہے۔

کیا آج پاکستان میں کوئی عام شہری تصور کرسکتا ہے کہ پولیس طاقتور کے مقابلے میں اُسے تحفظ فراہم کرے گی؟ ایسے مناظر ہم میں سے بیشتر نے دیکھیں ہوں گے کہ جس میں شکایت کنندہ ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے جبکہ ملزمان کو کرسیاں اور چائے پیش کی جاتی ہے۔ آج عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر اُسے پولیس سے کام کروانا ہے تو یا تو اس کے پاس وافر پیسے ہوں یا پھر تگڑی سفارش!

78 برسوں سے پاکستان کا سارا بوجھ ایک عام آدمی ہی اٹھا رہا ہے اور ہماری حکومتوں کا مسلسل ایک ہی بیان ہے کہ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور عوام کو مزید قربانیاں دینی پڑیں گی۔ عوام کے تن کے کپڑے بھی اُتر گئے لیکن پاکستان مشکلات سے نہیں نکلا بلکہ ہر نئی صبح نئی مشکلات کے ساتھ طلوع ہو رہی ہے۔

ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 44.9 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی تقریباً 10 کروڑ پاکستانی غربت کا شکار ہیں۔

بجٹ 2025-26 میں پاکستان کی کل آمدنی میں سے 46.7 فیصد ہمیں صرف سود کی مد میں ادا کرنا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ ہماری حکومتوں نے 78 سال میں اتنی زیادہ محنت کی ہے کہ ہماری تقریباً آدھی آمدنی ہم قرض کی مد میں بیرونی دنیا کو دے دیتے ہیں۔ وطن عزیز کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے 78 سال میں کوئی ایسا نظام بنایا ہی نہیں جو ہمیں حقیقی معنوں میں ترقی کی جانب گامزن کرسکے۔ عوام کو مسلسل دھوکے دیے جارہے ہیں اور ایسے بیانات داغے جاتے ہیں کہ پاکستان کو صرف کچھ سال میں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کردیا جائے گا لیکن یہ سب زبانی کلامی خرچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا ہم نے ایسی اصلاحات کی ہیں جن کی بدولت ہم ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ہوسکیں؟ 

آپ اس ملک کے اداروں کی نااہلی کا اندازہ اس خبر سے کریں کہ جون کے آخری ہفتے میں ایک ہی خاندان کے سترہ افراد تفریح کی غرض سے سوات جاتے ہیں اور پانی کے ریلے میں کئی گھنٹے پھنسے رہتے ہیں اور مدد کےلیے اپنے لوگوں اور اداروں کو پکارتے ہیں مگر کوئی اُن کی مد د کو نہ آیا۔ وہ آخری لمحے تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اس امید میں رہے کہ شاید انھیں بچا لیا جائے، لیکن پوری ریاستی مشنری بالکل خاموش تھی۔

ایک اور واقعہ کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں چار جولائی کی صبح پیش آیا جس میں چھ منزلہ رہاشی عمارت زمیں بوس ہوگئی اور اس سانحے میں تقریباً ستائیس افراد اپنی جانوں سے گئے۔ این ای ڈی کے سابق وائس چانسلر اور تعمیر کے ماہر ڈاکٹر سروش لودھی نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کراچی میں عمارتوں کی تعمیر کےلیے ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا تھا جس کی مجاز اتھارٹی نے منظوری بھی دی تھی لیکن ایس بی سی اے والوں نے اس ضابطہ اخلاق کو اہمیت ہی نہیں دی۔

ہم 78 سال میں کوئی ایسا نظام سسٹم‘‘ تو نہ بنا سکے جو اداروں میں شفافیت لاتا اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جاتا۔ لیکن افسوس اب ایسا ’’سسٹم‘‘ ضرور موجود ہے کہ جس کی آشیرباد سے اداروں میں لوگ تعنیات کیے جاتے ہیں۔

بجٹ کے اعداد و شمار پر غور کریں تو ہمیں باآسانی سمجھ آجائے گا کہ ہماری اشرافیہ کی ترجیحات کیا ہیں۔ جہاں تعلیم کےلیے صرف 39 ارب اور صحت کےلیے صرف 14.3 ارب روپے رکھے گئے ہوں وہاں ہمیں اشرافیہ کی سوچ کا اندازہ کرلینا چاہیے۔

آج کی اشرافیہ عوام کی محدود کمائی سے ٹیکس لے کر عیاشیاں کر رہی ہے اور عام شہری طبقہ بجلی اور گیس کے بلوں سے تنگ ہوکر خودکشیاں کر رہا ہے۔ آج غریب و امیر کا پاکستان الگ الگ ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اسی طرح ملک چلتا رہے گا یا اسے سدھارنے کےلیے کوئی عملی جدوجہد کی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • امن تعلیم اور صحت کی ریاستی ذمے داری
  • صدر آصف علی زرداری سے عمانی سفیر کی ملاقات، تجارت اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے
  • اچھی خبریں
  • امن ، سکون، خوشحالی، خوبصورتی اور دوستی کے گھر کی تعمیر ،چین اور ہمسایہ ممالک کے تعلقات
  • امن، سکون، خوشحالی، خوبصورتی اور دوستی کے گھر کی تعمیر ،چین اور ہمسایہ ممالک کے تعلقات
  • عدلیہ اور وکلاء برادری کے درمیان تعاون کو ہر صورت یقینی بنائیں گے: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ بنگلہ دیش کا شیڈول طے
  • بنگلہ دیش میں پاکستانی پرچموں کی فروخت میں اضافہ، خوبصورت ویڈیو وائرل
  • وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان سے بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کی ملاقات ، تجارت اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق