ایران پر امریکی حملوں کے بعد عالمی سطح پر سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی ہے۔ کریملن نے واضح کیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فوری طور پر بات کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، تاہم اس اہم معاملے پر جلد ہی فون کال متوقع ہے۔

ادھر ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر پیوٹن سے ملاقات کے لیے آج روس کا دورہ کر رہے ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق عراقچی کل روسی صدر سے ماسکو میں باضابطہ ملاقات کریں گے تاکہ حالیہ بحران اور خطے کی صورتحال پر سنجیدہ مشاورت کی جا سکے۔

عباس عراقچی نے کہا کہ روس ایران کا دیرینہ دوست ہے، اور دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے سے مشورے کرتے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا، ’ہم ایک دوسرے کے ساتھ کام جاری رکھیں گے‘۔

سفارتی کوششوں کے ضمن میں عراقچی نے مذاکرات کے مستقبل پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم مذاکرات کی میز پر کیسے واپس آئیں جب ہم وہاں سے گئے ہی نہیں‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ہفتے امریکہ اور ایران کے درمیان جاری سفارتی کوششوں کو اسرائیل نے جان بوجھ کر سبوتاژ کیا، جب کہ رواں ہفتے ایران اور یورپی نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہو چکے تھے۔

عباس عراقچی نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ اس نے ایران اور یورپی عہدیداروں کے درمیان سفارتکاری کے اس نازک موقع کو ضائع کیا۔ ان کے بقول، ایران کسی ایسی جگہ کیسے لوٹ سکتا ہے جہاں سے وہ گیا ہی نہیں۔

ایران مذاکرات کی میز پر واپس کیسے آئے، جب وہ وہاں سے گیا ہی نہیں

عباس عراقچی نے استنبول میں ایک ہنگامی میڈیا بریفنگ میں کہا کہ امریکی فورسز نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا، جو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ایران اپنی آزادی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا اور امریکی جارحیت کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ جنگوں کو ختم کریں گے، لیکن حملہ کرکے وہ اپنے ہی عوام سے کیے گئے وعدے سے منحرف ہو گئے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہوتے ہوئے عالمی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران عالمی ایٹمی عدم پھیلاؤ کی تنظیم (IAEA) سے اس حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔

عراقچی نے مزید کہا کہ امریکا نے براہ راست ایران پر حملہ کیا ہے اور اب سفارتی کوششوں کا کوئی مطلب باقی نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکا نے سفارتکاری کے راستے کو خود مسترد کیا ہے اور اب اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی امریکا پر عائد ہوگی۔

انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ایرانی عوام اپنے دفاع پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے اور اقوام متحدہ کا چارٹر ایران کو جواب دینے کا مکمل حق دیتا ہے۔

عباس عراقچی نے کہا کہ ایران مذاکرات کی میز پر واپس کیسے آئے، جب وہ وہاں سے گیا ہی نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران ہمیشہ سفارتکاری کے راستے پر قائم رہا ہے اور کسی بھی موقع پر مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔

عراقچی نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ ہفتے امریکہ اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات کو اسرائیل نے دانستہ طور پر سبوتاژ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے ایران اور یورپی نمائندوں کے درمیان اہم سفارتی بات چیت ہوئی، لیکن امریکہ نے اس سفارتی موقع کو ضائع کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران کسی ایسی جگہ کیسے واپس جا سکتا ہے جہاں سے وہ گیا ہی نہیں، کیونکہ تہران تو شروع دن سے مذاکرات کا حامی رہا ہے۔ عباس عراقچی نے زور دے کر کہا کہ خطے میں امن کے لیے یکطرفہ الزام تراشی یا طاقت کا استعمال نہیں، بلکہ سنجیدہ اور نتیجہ خیز سفارتکاری کی ضرورت ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کا کہنا تھا گیا ہی نہیں کے درمیان تھا کہ کیا ہے کیا کہ

پڑھیں:

پیوٹن کا بڑا قدم: روس نے خطرناک ہتھیاروں پر پابندی ختم کر دی

روس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اب زمین سے درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری، جانچ اور تعیناتی پر کسی پابندی کا پابند نہیں ہے۔ 

یہ فیصلہ انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (INF) معاہدے کے تحت عائد خودساختہ پابندیوں سے مکمل دستبرداری کی علامت ہے۔

روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نیٹو اور امریکا کی جانب سے مسلسل انکار کے بعد ماسکو کے پاس اب اس معاہدے کی پاسداری کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ 

وزارت کے مطابق واشنگٹن کو بارہا خبردار کیا گیا مگر امریکی اقدامات سے واضح ہو گیا کہ وہ ایسے میزائل یورپ، ایشیا اور بحرالکاہل میں تعینات کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ INF معاہدے پر سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف اور امریکی صدر رونالڈ ریگن نے 1987 میں دستخط کیے تھے، جس کے تحت 500 سے 5,500 کلومیٹر تک مار کرنے والے زمین سے داغے جانے والے میزائلوں کی تیاری، جانچ اور تعیناتی پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔

روس نے الزام لگایا ہے کہ امریکا نے نہ صرف 2019 میں اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری اختیار کی بلکہ اس کے بعد مذکورہ میزائلوں کی تیاری جاری رکھی اور مشقوں کے لیے انہیں ڈنمارک اور فلپائن جیسے علاقوں میں منتقل بھی کیا۔

روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اب روسی قیادت جوابی اقدامات کا فیصلہ کرے گی، جو مغربی ممالک کی سرگرمیوں، میزائلوں کی تعیناتی کی تعداد اور عالمی اسٹریٹیجک استحکام کی مجموعی صورت حال پر منحصر ہوگا۔

 

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ کی جانب سے اضافی ٹیرف عائد کرنے پر بھارت کا ردعمل سامنے آگیا
  • امریکی صدر کے ایلچی کی روسی صدر سے ملاقات
  • ٹرمپ کے مزید 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے پر بھارت کا ردعمل آگیا
  • وائٹ ہاؤس کی چھت پر ایٹمی میزائل لگا رہا ہوں!, ٹرمپ کا نیا مذاق
  • ائیر ایران کی پہلی پرواز کل کوئٹہ پہنچ جائیگی، علی رضا رجائی
  • ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن بند کرنے کا اشارہ، مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی پیشکش
  • پیوٹن کا بڑا قدم: روس نے خطرناک ہتھیاروں پر پابندی ختم کر دی
  • ایرانی صدر کا دورہ ثبوت ہے کہ پاکستان نے ایران، اسرائیل جنگ میں مثبت کردار ادا کیا، عرفان صدیقی
  • درفشاں اور بلال عباس نے نکاح کرلیا؟ اداکارہ نے حقیقت بتا دی
  • سوشل میڈیا کے خودساختہ مذہبی سکالرز اور نیم خواندہ مفتیوں سے محتاط رہیں، طاہرالقادری