لاپتہ شہری سے متعلق کیس: متاثرہ فیملی کو چیک نہ دیا گا تو حکومتی فنڈ منجمد کردیں گے، جج ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ شہری عبد اللہ عمر کی بازیابی کے لیے ان کی اہلیہ زینب زعیم کی درخواست پر چیئرمین لاپتا افراد بازیابی کمیشن کی عدم تعیناتی و متاثرہ فیملی کو 50 لاکھ کا چیک نہ دینے پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ شہری کی بازیابی و توہین عدالت کیس کی سماعت کی، وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشد حفیظ و اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن اور درخواست گزار کی جانب سے وکیل خالد محمود عباسی ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو نئے چیئرمین لاپتہ افراد بازیابی کمیشن کی تعیناتی کے لیے 15 جولائی تک مہلت دی، عدالت عالیہ نے متاثرہ فیملی کو پچاس لاکھ کا چیک دو ہفتوں میں جاری کرنے کی آخری مہلت دی،
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئے چیئرمین لاپتہ افراد بازیابی کمیشن کی تعیناتی دو ہفتے تک ہو جائے گی، نئے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے نامزدگیاں کرکے نام کابینہ کو بھجوادیئے ہیں،۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر متاثرہ فیملی کو چیک نہ دیا گا تو وفاقی حکومت کے فنڈ فریز کردونگا،ہمارا مقصد ہوتا ہے کہ حکومت کو مشکل میں ڈالے بغیر مسئلہ حل ہو، یہاں لوگوں کی چھوٹی چھوٹی اناء کا مسئلہ بنا ہوتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس ر جاوید اقبال کا نام لیے بغیر ذکر کیا اور ریمارکس دیے کہ حکومت نے پہلے سپریم کورٹ کے سابق جج کو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کمیشن کا سربراہ بنا کر انصاف فراہم نہیں کیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کمیشن نے انصاف فراہم نہ کرکے ظلم کیا، انصاف کی عدم فراہمی کے اس کام میں عدلیہ بھی اسکا حصہ تھی، اس کیس میں عدالت نے لاپتہ شہری کو مسنگ پرسن ڈکلیئر کیا ہوا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو احساس ہونا چاہیے اور متاثرہ فیملی کو پتہ تو ہو کہ انکا فیملی ممبر زندہ ہے یا مردہ ، بدقسمتی سے حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا، پندرہ پندرہ سال سے لاپتہ افراد کے کیس التوا کا شکار ہیں۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ حکومت کو بتائیں عدالتیں کسی کی پابند نہیں ہوتیں، نیا چئیرمین آئے گا اگر وہ استعفی دے گیا تو پھر نیا چیئرمین آ جائے گا، پھر نیا چیئرمین آگیا تو وہ کہے گا کام شروع سے کرنا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اس کیس میں آخری بار ان کیمرہ بریفننگ کا کہا تھا اسکا کیا بنا؟ سیکرٹری دفاع بتائیں ان کیمرہ بریفننگ کا کیا ہوا اگر وہ نہیں بتانا چاہتے تو انھوں نے ثابت کرنا ہوگا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو متعلقہ سیکرٹریز دفاع و داخلہ کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع ہوگی۔
کیس کی اگلی سماعت 15 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ افراد کی بازیابی متاثرہ فیملی کو اٹارنی جنرل لاپتہ شہری حکومت کو کے لیے
پڑھیں:
شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: اقوام متحدہ کی ایک سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ شام کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے زندہ ہونے کے قابلِ تصدیق شواہد موجود ہیں،سیکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کے قائم کردہ ادارے انڈیپنڈنٹ انسٹی ٹیوشن فار مسنگ پرسنز اِن سیریا کی چیئرپرسن کارلا کوئنٹانا نے استنبول میں ہونے والے TRT ورلڈ فورم 2025 کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لاپتہ افراد جنسی غلامی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہا ہے جن میں شامی حکومت کی تحویل میں لاپتہ افراد، داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شہری، لاپتہ بچے اور ہجرت کے دوران گمشدہ مہاجرین شامل ہیں،دس ماہ قبل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شام میں جا کر لاپتہ افراد کی تلاش ممکن ہوگی مگر اب ہمیں ملک کے اندر کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے، ہم اس وقت سینکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل شام کے اندر رہ کر مقامی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے، تاہم بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے، ادارہ اس وقت شام کی حکومت کے ماتحت قائم نیشنل کمیشن فار دی سرچ آف دی مسنگ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جس کی سربراہی ریٹا یالی کر رہی ہیں۔
کوئنٹانا نے کہا کہ یہ دنیا کی پہلی مثال ہے کہ ایک ہی وقت میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر دو ادارے لاپتہ افراد کی تلاش کر رہے ہیں، اس وقت ادارے کے پاس تقریباً 40 ملازمین ہیں، لیکن بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر مزید تعاون ضروری ہے،کوئی ادارہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا، ہمیں اقوام متحدہ کے دیگر اداروں، رکن ممالک، شامی سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
کارلا کوئنٹانا کاکہناتھا کہ فارنزک سائنس اور جدید ٹیکنالوجی لاپتہ افراد کی شناخت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،جب ہم فارنزک سائنس کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف مردہ افراد کے لیے نہیں، بلکہ زندہ افراد کی شناخت میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد سازی سب سے اہم مرحلہ ہے، اگر خاندان، حکومت اور عالمی ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں تو لاپتہ افراد کا سراغ لگانا ناممکن ہو جائے گا،ہم پہلے ہی بہت تاخیر کر چکے ہیں، مزید تاخیر کی صورت میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کا حق ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں، ہم شام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لاپتہ افراد کی تلاش میں پہلے ہی تاخیر کر چکے ہیں۔ خاندانوں کو سچ جاننے کا حق فوری طور پر حاصل ہے، مگر یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔