اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ شہری عبد اللہ عمر کی بازیابی  کے لیے ان کی اہلیہ زینب زعیم کی درخواست پر چیئرمین لاپتا افراد بازیابی کمیشن کی عدم تعیناتی و متاثرہ فیملی کو 50 لاکھ کا چیک نہ دینے پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ شہری کی بازیابی و توہین عدالت کیس کی سماعت کی، وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشد حفیظ و اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن اور  درخواست گزار کی جانب سے وکیل خالد محمود عباسی ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو نئے چیئرمین لاپتہ افراد بازیابی کمیشن کی تعیناتی کے لیے 15 جولائی تک مہلت دی، عدالت عالیہ نے متاثرہ فیملی کو پچاس لاکھ کا چیک دو ہفتوں میں جاری کرنے کی آخری مہلت دی،  

ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ نئے چیئرمین لاپتہ افراد بازیابی کمیشن کی تعیناتی دو ہفتے تک ہو جائے گی، نئے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے نامزدگیاں کرکے نام کابینہ کو بھجوادیئے ہیں،۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر متاثرہ فیملی کو چیک نہ دیا گا تو وفاقی حکومت کے فنڈ فریز کردونگا،ہمارا مقصد ہوتا ہے کہ حکومت کو مشکل میں ڈالے بغیر مسئلہ حل ہو، یہاں لوگوں کی چھوٹی چھوٹی اناء کا مسئلہ بنا ہوتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس ر جاوید اقبال کا نام لیے بغیر ذکر کیا اور ریمارکس دیے  کہ حکومت نے پہلے سپریم کورٹ کے سابق جج کو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کمیشن کا سربراہ بنا کر انصاف فراہم نہیں کیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کمیشن نے انصاف فراہم نہ کرکے ظلم کیا، انصاف کی عدم فراہمی کے اس کام  میں عدلیہ بھی اسکا حصہ تھی،  اس کیس میں عدالت نے لاپتہ شہری کو مسنگ پرسن ڈکلیئر کیا ہوا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو احساس ہونا چاہیے اور متاثرہ فیملی کو پتہ تو ہو کہ انکا فیملی ممبر زندہ ہے یا مردہ ،  بدقسمتی سے حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا، پندرہ پندرہ سال سے لاپتہ افراد کے کیس التوا کا شکار ہیں۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ  کیا کہ حکومت کو بتائیں عدالتیں کسی کی پابند نہیں ہوتیں، نیا چئیرمین آئے گا اگر وہ استعفی دے گیا تو پھر نیا چیئرمین آ جائے گا، پھر نیا چیئرمین آگیا تو وہ کہے گا کام شروع سے کرنا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اس کیس میں آخری بار ان کیمرہ بریفننگ کا کہا تھا اسکا کیا بنا؟ سیکرٹری دفاع بتائیں ان کیمرہ بریفننگ کا کیا ہوا اگر وہ نہیں بتانا چاہتے تو انھوں نے ثابت کرنا ہوگا۔ جسٹس محسن اختر کیانی  نے کہا کہ اگر عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو متعلقہ سیکرٹریز دفاع و داخلہ  کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع ہوگی۔

کیس کی اگلی سماعت 15 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ افراد کی بازیابی متاثرہ فیملی کو اٹارنی جنرل لاپتہ شہری حکومت کو کے لیے

پڑھیں:

سپریم کورٹ: رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستیں اعتراضات لگاکر واپس کردیں

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججز کی درخواستیں پر اعتراضات عائد کر کے واپس کردیں۔

ذرائع کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ آفس نے پانچوں ججز کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزار نے واضح نہیں کیا کہ درخواستوں میں کونسا مفاد عامہ کا سوال ہے، درخواست گزار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے کہ آرٹیکل 184/3 کا دائرہ کار استعمال ہو۔

ذرائع کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزاروں نے ذاتی رنجش پر آرٹیکل 184/3 کے غیر معمولی دائرہ کار کے تحت درخواستیں دائر کیں جبکہ سپریم کورٹ کا ذوالفقار مہدی بنام پی آئی اے کیس ذاتی رنجش پر184/3 کی درخواست دائرکرنےکی اجازت نہیں دیتا۔

ذرائع کے مطابق اعتراض میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست کے اجزا پورے نہیں کئے گئے، ججز نے آئینی درخواست دائر کرنے کی ٹھوس وجہ بیان کی نہ نوٹسز کے لیے فریقین کی وضاحت کی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں۔

درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

مزید کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔

درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔

درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • صحیح جج مقرر ہوں گے تو ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک چیزیں ٹھیک ہوں گی. جسٹس محسن اختر کیانی
  • صحیح جج تعینات ہوں گے تو اعلیٰ عدالتوں تک چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی، جسٹس محسن کیانی
  • چیف کمشنر صاحب کو چیئرمین سی ڈی اے کی سیٹ زیادہ پسند ہے. اسلام آباد ہائی کورٹ
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایس ای سی پی کیس کی سماعت، جسٹس محسن اختر کیانی برہم
  • ایس ای سی پی کیخلاف کیس؛ وکیل کے التوا ء مانگنے پر جسٹس محسن برہم
  • سپریم کورٹ: رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستیں اعتراضات لگاکر واپس کردیں
  • وکیل کا کام ہوتا ہے جج کو بکری سے شیر بنانا، اگر کوئی جج بکری بنا ہو تو اس کو شیر بنا دیں، جسٹس محسن اختر کیانی  کا وکیل سے دلچسپ مکالمہ 
  • ایس ای سی پی کیخلاف کیس؛ وکیل درخواست گزار کے التوا مانگنے پر جسٹس محسن برہم
  • لوگ نوکریوں کو ترس رہے ہیں اور یہاں پوسٹیں خالی ہیں، آپ تقرریاں ہی نہیں کرتے: جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس
  • لیبر افسر تعیناتی کیس: چیئرمین سی ڈی اے کے پاس 2 عہدے ہونے پر جسٹس محسن اختر کیانی کے اہم ریمارکس