Daily Ausaf:
2025-09-23@13:06:45 GMT

کیا اگلاہدف۔۔۔۔پاکستان؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

دنیاکی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جوصرف خبریں نہیں ہوتے،وہ آنے والے زمانوں کی پیش گوئیاں،تہذیبی موڑاورفکری دنگل کے تمہیدی اشارے بن جاتے ہیں۔ دنیا کی سیاسی افق پروہ لمحے باربارنمودارہوتے ہیں جب تاریخ کی سانسیں رکتی محسوس ہوتی ہیں،اورطاقت کے ایوانوں میں گونجنے والی آوازیں گویا حشر کا نقارہ بن جاتی ہیں۔بعض اوقات دنیاکی تاریخ میں کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب تہذیبیں اپنی مکمل معنویت کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں۔یہ الفاظ اگرچہ کسی فلسفی کے نہیں،لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کے عالمی تناظرمیں ایران وامریکا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کوسمجھنے کیلئے ایک گہری تمثیل کادرجہ ضروررکھتے ہیں۔
جی ہاں!ایساہی ایک لمحہ حالیہ ایام میں مشرقِ وسطی کے آسمان پرسایہ فگن ہے،جہاں ایران اورامریکاکے درمیان کشیدگی کی آگ، دھمکیوں کی چنگاریاں بن کربھڑک رہی ہے، اور آج کامشرقِ وسطیٰ بھی کچھ ایسی ہی کیفیات سے گزررہاہے، جہاں ایک طرف سامراجی طاقتیں اپنے اقتصادی مفادات،عسکری برتری اورتہذیبی غرورکے تحت نئی بساط بچھارہی ہیں،تودوسری جانب قدیم اقوام، اپنی روایات،دینی شعوراورتمدنی غیرت کوسینہ سپرکیے ہوئے دفاعِ عظمت میں مصروف ہیں۔ اورآج اس شعلہ بیانی میں اسرائیل کی آتش افشانی اوربھارت کی تپش بھی شامل ہوچکی ہے۔
امریکی سیاست کے تماشے کایہ کرشمہ دیکھئے کہ ایک وہ شخص جوخودکبھی دستوروقانون کی سرحدوں کاپابند نہ رہا،خودکودنیاکا سب سے طاقتورسمجھتے ہوئے متکبرانہ اندازمیں آج ایران جیسے تہذیبی، دینی اورانقلابی مزاج کے حامل ملک سے ’’غیر مشروط سرینڈر‘‘کامطالبہ کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے جی سیون کانفرنس سے قبل یورپی رہنماؤں کوبھی دور رکھتے ہوئے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں پیغام دیاکہ ’’ یہ معاملہ صرف ان کی دوراندیشی پر منحصرہے۔کوئی نہیں جانتامیں کیا کرنا چاہتا ہوں‘‘ توگویاخوداپنی فکری بے سمتی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
اس جملے میں ایک اضطرابی لہرہے،ایک بوکھلاہٹ ہے،جس کامرکزصرف ایران نہیں، بلکہ وہ عالمی ترتیب ہے جومغرب کے ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہے۔ صرف ذاتی انتشارکا اظہار نہیں، بلکہ ایک عالمی حکمتِ عملی کی بوکھلاہٹ اورمغربی یگانگت شکن کاکھلا ثبوت ہے۔ٹرمپ کاایران سے یہ مطالبہ کہ وہ بغیرکسی شرط کے ہتھیارڈال دے،ایک ایسی سیاسی ضد کامظہرہے جوبیسویں صدی کی سامراجی ذہنیت کاعکس لیے ہوئے ہے۔ ٹرمپ کا حالیہ بیانیہ بظاہرایک لاپروائی، مگر درحقیقت ایک گمشدہ مغربی قیادت کی علامت ہے، جواپنے ہی تراشے ہوئے اصولوں اورنظریات کی صلیب پرلٹکی ہوئی ہے۔اپنے اندرایک گہری فکری انتشار،سیاسی غیرسمتی اور نفسیاتی الجھن کا مظہرہے۔ایک سپرپاورکاسربراہ اگراپنی سمت سے ناآشناہوتویہ محض ایک فردکی ذہنی بے چینی نہیں بلکہ پوری تہذیب کی فکری زوال کاآئینہ دار ہوتاہے۔
ایرانی سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہای نے اس مطالبے کومستردکرتے ہوئے کہاکہ’’ایران کبھی سرینڈرنہیں کرے گا،امریکی مداخلت تاریخی، تہذیبی اورمعاشرتی لحاظ سے ناقابلِ تلافی نقصان کاسبب بنے گی‘‘۔ان کایہ اعتمادکسی ذاتی حماقت نہیں،بلکہ40سالہ مزاحمتی روایت،انقلاب کی آگ اورامت کے شعورکی روشنی کانتیجہ ہے۔ خامنہ ای کابیان ایک نظریاتی بنیاد رکھتا ہے۔ان کے نزدیک یہ صرف سیاسی مزاحمت نہیں بلکہ تاریخ،ایمان اورتہذیب کی بقاکی جنگ ہے۔
ٹرمپ کاغیرسفارتی لہجہ اوردہمکی کے برعکس خامنہ ای کاجواب تاریخ کے لہجے میں ہے۔خامنہ ای کی زبان سے نکلے الفاظ صرف سیاسی مؤقف یافقط سفارتی ردعمل ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی مزاحمت کابیانیہ اورصدیوں پرمحیط ایرانی عزیمت، دینی تشخص اور تہذیبی بیداری کی گواہی ہے۔یہ اعلانِ مزاحمت ایک ایسی قوم کی طرف سے ہے جس نے دارااورکوروش کی سلطنتوں کوجنم دیا،جو قادسیہ کی گردسے ابھری،جس نے مغلوں کوتہذیب کاشعور سکھایا،اورجس کے سینے میں ابھی بھی امام حسین ؓکی کربلائی روح دھڑک رہی ہے۔یہ آوازکسی ایوانِ اقتدارسے نہیں بلکہ صدیوں پرمحیط عزیمت کی تاریخ سے آتی ہے۔ ایران،جس نے نہ یونانیوں کے سامنے جھکنے کا حوصلہ کیا،نہ چنگیزی لشکروں کے سامنے،وہ آج بھی فکری استقامت کی علامت ہے ۔
اقوامِ متحدہ میں ایران کے سفارتی مشن کی ٹرمپ پرتنقید،ایک اورنوحہ ہے اس عالمی ادارے کی بے بسی کا،جواب محض ایک تھکے ہوئے نقارے کی مانندہے،جس پرسب چوٹ کرتے ہیں مگرکوئی نغمہ برآمدنہیں ہوتا۔ایرانی سفارتی مشن کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں دیاجانے والا بیان، ٹرمپ کے غرورپرکاری ضرب تھا۔جب کہا گیا کہ ’’ہم وائٹ ہاؤس کے قریب بھٹکنابھی نہیں چاہتے‘‘ تواس میں صرف سیاسی تردید نہیں بلکہ ایک تہذیبی استغناکی خوشبوہے۔یہ جملہ گویا مغرب کی بے لطف سیاست کے منہ پرایک طنزیہ مسکراہٹ ہے۔ ایرانی سفارتی مشن نے اقوامِ متحدہ سے ٹرمپ کویہ واضح پیغام محض جملہ نہیں،بلکہ ایک تہذیبی خودداری اوربرخاستی کابیانیہ ہے جومغربی دباؤکاتسلسل توڑکر سامنے آیا۔ایران کی یہ روش،اسلامی تعلیمات کی اس بنیادپرہے جو عزت وذلت کامعیارایمان، استقامت اور عدل کو مانتی ہے،نہ کہ دھونس، پابندیوں یاڈالرکی چمک کو۔
ایران کاحالیہ فیصلہ کہ جنگی اختیارات اور فیصلے مکمل طورپرپاسدارانِ انقلاب کے سپردہوں گے۔ بادی النظرمیں یہ محض ایک فوجی حکمتِ عملی ہے،مگراس کے پس پردہ ایک عمیق پیغام ہے: ’’جب امت کے نظریاتی ستونوں پرحملہ ہوتو تلوار صرف دفاع کاہتھیارنہیں رہتی،وہ خودایک زبان بن جاتی ہے‘‘۔ایران نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے پاسدارانِ انقلاب کوجنگی فیصلوں کا مکمل اختیاردے دیاہے۔یہ اقدام محض عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک تہذیبی اعلان ہے کہ ’’اب گفتگو کاوقت نہیں،میدان کی زبان بولی جائے گی‘‘۔
پاسداران کافلسفہ صرف عسکری تربیت نہیں بلکہ ایک دینی تربیت ہے۔ان کاہتھیارصرف لوہے کانہیں بلکہ ایمان کاہوتاہے اورجب ایمان میدان میں آتاہے توجنگ صرف بارود سے نہیں، جذبے سے جیتی جاتی ہے۔گویاایران کی عسکری حکمتِ عملی میں دینی اسنادہم پلہ نظرآرہی ہے۔ ایران کاپاسدارانِ انقلاب کوجنگی فیصلوں کا اختیار سونپناتہذیبی اورفکری طورپرمعنی خیز ہے۔ اسے محض عسکری فیصلہ نہیں بلکہ ایک تاریخ کا اعلامیہ سمجھیں کہ جب ایمان اورعزت پرسوال اٹھتا ہے،وہاں دفاع کے ہتھیاروں کے ساتھ نظریاتی اصول بھی لڑتے ہیں۔ایران نے جنگ کے اختیارات پاسدارانِ انقلاب کوسونپ کریہ پیغام دیاہے کہ اگرحملہ ہواتوجواب فقط عسکری نہ ہوگا بلکہ تہذیبی سطح پربھی اس کااثرہوگا۔
اسرائیل کی طرف سے ایران پرحملے اورایران کی جانب سے بھرپورجواب،وہ قندیل ہیں جوکسی بڑی جنگ کی آمدکاپیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔یہاں صہیونی ذہنیت اورتہذیبی غرورصرف ایک ملک کے خلاف نہیں،بلکہ پوری مسلم دنیاکے وجود،اس کی روح اوراس کے خوابوں پرحملہ آورہے۔یہ محض حملے اورجوابی حملے نہیں،بلکہ ایک ایساسیاسی طائفان ہے جس کے بطن سے ایک عالمی تصادم جنم لے سکتاہے۔ایران کی جوابی کارروائی کے بعدخطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی سیاست ایک نئے دورمیں داخل ہوگئی ہے۔
نیتن یاہوکی حالیہ دھمکی کہ ایران کے بعد پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کوبھی ختم کیاجائے گا، فقط ایک عسکری اعلان نہیں بلکہ ایک تہذیبی چیلنج ہے۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایران کی

پڑھیں:

مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر پاک بھارت تعلقات قائم نہیں ہوسکتے: وزیر اعظم شہباز شریف

وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 4 جنگیں ہوئیں، اربوں ڈالرخرچ ہوئے، جنگوں پر خرچ ہونے والےاربوں ڈالر عوام کی ترقی وخوشحالی پر خرچ ہونےچاہئییں۔لندن میں اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں،ہمیں ساتھ رہناہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت سے برابری کی بنیاد پر بات کرنا چاہتےہیں، مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر پاک بھارت تعلقات قائم نہیں ہوسکتے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگوں پر خرچ ہونے والےاربوں ڈالر عوام کی ترقی وخوشحالی پر خرچ ہونےچاہئییں۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کاخون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔اس کے علاوہ وزیراعظم نے اوورسیز پاکستانیز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اشعار بھی سنائے۔برطانیہ کے دورے پر لندن میں 4 دن قیام کے دوران وزیراعظم نے پاکستانی کمیونٹی اور تاجر رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ وزیراعظم کا لندن میں خطاب آج دوپہر نشر کیا جائےگا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے پرجوش تقریر کی ۔لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔وزیراعظم نے آپریشن بنیان مرصوص ،معیشت اور سفارتی تعلقات پر بات کی۔واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آج لندن سے امریکا روانہ ہوں گے ۔وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے اور غزہ پر خصوصی اجلاس میں بھی شریک ہوں گے۔وزیراعظم دورۂ امریکا میں مسئلہ کشمیر، فلسطین اور قطر پر حملے سے متعلق پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے ۔

متعلقہ مضامین

  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • اگر دوبارہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو اسرائیل باقی نہیں رہیگا، ملیحہ محمدی
  • جماعت اسلامی کا یکم سے 7 اکتوبر تک اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف ’ملین مارچ‘، فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اعلان
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات  کے درمیان 81 لاکھ ڈالرز کا بیف ایکسپورٹ معاہدہ
  • ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟
  • دہشت گردی کا تسلسل اور قومی ذمے داری کا تقاضا
  • حد سے بڑھے مطالبات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے،  ایرانی صدر کا دو ٹوک اعلان 
  • مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر پاک بھارت تعلقات قائم نہیں ہوسکتے: وزیر اعظم شہباز شریف
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • صرف ریاست کی رٹ قائم کرنا نہیں بلکہ عوامی حقوق کا تحفظ بھی حکومتوں کی ذمہ داری ہے