Daily Ausaf:
2025-06-24@13:59:55 GMT

کیا اگلاہدف۔۔۔۔پاکستان؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

دنیاکی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جوصرف خبریں نہیں ہوتے،وہ آنے والے زمانوں کی پیش گوئیاں،تہذیبی موڑاورفکری دنگل کے تمہیدی اشارے بن جاتے ہیں۔ دنیا کی سیاسی افق پروہ لمحے باربارنمودارہوتے ہیں جب تاریخ کی سانسیں رکتی محسوس ہوتی ہیں،اورطاقت کے ایوانوں میں گونجنے والی آوازیں گویا حشر کا نقارہ بن جاتی ہیں۔بعض اوقات دنیاکی تاریخ میں کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب تہذیبیں اپنی مکمل معنویت کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں۔یہ الفاظ اگرچہ کسی فلسفی کے نہیں،لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کے عالمی تناظرمیں ایران وامریکا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کوسمجھنے کیلئے ایک گہری تمثیل کادرجہ ضروررکھتے ہیں۔
جی ہاں!ایساہی ایک لمحہ حالیہ ایام میں مشرقِ وسطی کے آسمان پرسایہ فگن ہے،جہاں ایران اورامریکاکے درمیان کشیدگی کی آگ، دھمکیوں کی چنگاریاں بن کربھڑک رہی ہے، اور آج کامشرقِ وسطیٰ بھی کچھ ایسی ہی کیفیات سے گزررہاہے، جہاں ایک طرف سامراجی طاقتیں اپنے اقتصادی مفادات،عسکری برتری اورتہذیبی غرورکے تحت نئی بساط بچھارہی ہیں،تودوسری جانب قدیم اقوام، اپنی روایات،دینی شعوراورتمدنی غیرت کوسینہ سپرکیے ہوئے دفاعِ عظمت میں مصروف ہیں۔ اورآج اس شعلہ بیانی میں اسرائیل کی آتش افشانی اوربھارت کی تپش بھی شامل ہوچکی ہے۔
امریکی سیاست کے تماشے کایہ کرشمہ دیکھئے کہ ایک وہ شخص جوخودکبھی دستوروقانون کی سرحدوں کاپابند نہ رہا،خودکودنیاکا سب سے طاقتورسمجھتے ہوئے متکبرانہ اندازمیں آج ایران جیسے تہذیبی، دینی اورانقلابی مزاج کے حامل ملک سے ’’غیر مشروط سرینڈر‘‘کامطالبہ کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے جی سیون کانفرنس سے قبل یورپی رہنماؤں کوبھی دور رکھتے ہوئے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں پیغام دیاکہ ’’ یہ معاملہ صرف ان کی دوراندیشی پر منحصرہے۔کوئی نہیں جانتامیں کیا کرنا چاہتا ہوں‘‘ توگویاخوداپنی فکری بے سمتی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
اس جملے میں ایک اضطرابی لہرہے،ایک بوکھلاہٹ ہے،جس کامرکزصرف ایران نہیں، بلکہ وہ عالمی ترتیب ہے جومغرب کے ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہے۔ صرف ذاتی انتشارکا اظہار نہیں، بلکہ ایک عالمی حکمتِ عملی کی بوکھلاہٹ اورمغربی یگانگت شکن کاکھلا ثبوت ہے۔ٹرمپ کاایران سے یہ مطالبہ کہ وہ بغیرکسی شرط کے ہتھیارڈال دے،ایک ایسی سیاسی ضد کامظہرہے جوبیسویں صدی کی سامراجی ذہنیت کاعکس لیے ہوئے ہے۔ ٹرمپ کا حالیہ بیانیہ بظاہرایک لاپروائی، مگر درحقیقت ایک گمشدہ مغربی قیادت کی علامت ہے، جواپنے ہی تراشے ہوئے اصولوں اورنظریات کی صلیب پرلٹکی ہوئی ہے۔اپنے اندرایک گہری فکری انتشار،سیاسی غیرسمتی اور نفسیاتی الجھن کا مظہرہے۔ایک سپرپاورکاسربراہ اگراپنی سمت سے ناآشناہوتویہ محض ایک فردکی ذہنی بے چینی نہیں بلکہ پوری تہذیب کی فکری زوال کاآئینہ دار ہوتاہے۔
ایرانی سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہای نے اس مطالبے کومستردکرتے ہوئے کہاکہ’’ایران کبھی سرینڈرنہیں کرے گا،امریکی مداخلت تاریخی، تہذیبی اورمعاشرتی لحاظ سے ناقابلِ تلافی نقصان کاسبب بنے گی‘‘۔ان کایہ اعتمادکسی ذاتی حماقت نہیں،بلکہ40سالہ مزاحمتی روایت،انقلاب کی آگ اورامت کے شعورکی روشنی کانتیجہ ہے۔ خامنہ ای کابیان ایک نظریاتی بنیاد رکھتا ہے۔ان کے نزدیک یہ صرف سیاسی مزاحمت نہیں بلکہ تاریخ،ایمان اورتہذیب کی بقاکی جنگ ہے۔
ٹرمپ کاغیرسفارتی لہجہ اوردہمکی کے برعکس خامنہ ای کاجواب تاریخ کے لہجے میں ہے۔خامنہ ای کی زبان سے نکلے الفاظ صرف سیاسی مؤقف یافقط سفارتی ردعمل ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی مزاحمت کابیانیہ اورصدیوں پرمحیط ایرانی عزیمت، دینی تشخص اور تہذیبی بیداری کی گواہی ہے۔یہ اعلانِ مزاحمت ایک ایسی قوم کی طرف سے ہے جس نے دارااورکوروش کی سلطنتوں کوجنم دیا،جو قادسیہ کی گردسے ابھری،جس نے مغلوں کوتہذیب کاشعور سکھایا،اورجس کے سینے میں ابھی بھی امام حسین ؓکی کربلائی روح دھڑک رہی ہے۔یہ آوازکسی ایوانِ اقتدارسے نہیں بلکہ صدیوں پرمحیط عزیمت کی تاریخ سے آتی ہے۔ ایران،جس نے نہ یونانیوں کے سامنے جھکنے کا حوصلہ کیا،نہ چنگیزی لشکروں کے سامنے،وہ آج بھی فکری استقامت کی علامت ہے ۔
اقوامِ متحدہ میں ایران کے سفارتی مشن کی ٹرمپ پرتنقید،ایک اورنوحہ ہے اس عالمی ادارے کی بے بسی کا،جواب محض ایک تھکے ہوئے نقارے کی مانندہے،جس پرسب چوٹ کرتے ہیں مگرکوئی نغمہ برآمدنہیں ہوتا۔ایرانی سفارتی مشن کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں دیاجانے والا بیان، ٹرمپ کے غرورپرکاری ضرب تھا۔جب کہا گیا کہ ’’ہم وائٹ ہاؤس کے قریب بھٹکنابھی نہیں چاہتے‘‘ تواس میں صرف سیاسی تردید نہیں بلکہ ایک تہذیبی استغناکی خوشبوہے۔یہ جملہ گویا مغرب کی بے لطف سیاست کے منہ پرایک طنزیہ مسکراہٹ ہے۔ ایرانی سفارتی مشن نے اقوامِ متحدہ سے ٹرمپ کویہ واضح پیغام محض جملہ نہیں،بلکہ ایک تہذیبی خودداری اوربرخاستی کابیانیہ ہے جومغربی دباؤکاتسلسل توڑکر سامنے آیا۔ایران کی یہ روش،اسلامی تعلیمات کی اس بنیادپرہے جو عزت وذلت کامعیارایمان، استقامت اور عدل کو مانتی ہے،نہ کہ دھونس، پابندیوں یاڈالرکی چمک کو۔
ایران کاحالیہ فیصلہ کہ جنگی اختیارات اور فیصلے مکمل طورپرپاسدارانِ انقلاب کے سپردہوں گے۔ بادی النظرمیں یہ محض ایک فوجی حکمتِ عملی ہے،مگراس کے پس پردہ ایک عمیق پیغام ہے: ’’جب امت کے نظریاتی ستونوں پرحملہ ہوتو تلوار صرف دفاع کاہتھیارنہیں رہتی،وہ خودایک زبان بن جاتی ہے‘‘۔ایران نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے پاسدارانِ انقلاب کوجنگی فیصلوں کا مکمل اختیاردے دیاہے۔یہ اقدام محض عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک تہذیبی اعلان ہے کہ ’’اب گفتگو کاوقت نہیں،میدان کی زبان بولی جائے گی‘‘۔
پاسداران کافلسفہ صرف عسکری تربیت نہیں بلکہ ایک دینی تربیت ہے۔ان کاہتھیارصرف لوہے کانہیں بلکہ ایمان کاہوتاہے اورجب ایمان میدان میں آتاہے توجنگ صرف بارود سے نہیں، جذبے سے جیتی جاتی ہے۔گویاایران کی عسکری حکمتِ عملی میں دینی اسنادہم پلہ نظرآرہی ہے۔ ایران کاپاسدارانِ انقلاب کوجنگی فیصلوں کا اختیار سونپناتہذیبی اورفکری طورپرمعنی خیز ہے۔ اسے محض عسکری فیصلہ نہیں بلکہ ایک تاریخ کا اعلامیہ سمجھیں کہ جب ایمان اورعزت پرسوال اٹھتا ہے،وہاں دفاع کے ہتھیاروں کے ساتھ نظریاتی اصول بھی لڑتے ہیں۔ایران نے جنگ کے اختیارات پاسدارانِ انقلاب کوسونپ کریہ پیغام دیاہے کہ اگرحملہ ہواتوجواب فقط عسکری نہ ہوگا بلکہ تہذیبی سطح پربھی اس کااثرہوگا۔
اسرائیل کی طرف سے ایران پرحملے اورایران کی جانب سے بھرپورجواب،وہ قندیل ہیں جوکسی بڑی جنگ کی آمدکاپیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔یہاں صہیونی ذہنیت اورتہذیبی غرورصرف ایک ملک کے خلاف نہیں،بلکہ پوری مسلم دنیاکے وجود،اس کی روح اوراس کے خوابوں پرحملہ آورہے۔یہ محض حملے اورجوابی حملے نہیں،بلکہ ایک ایساسیاسی طائفان ہے جس کے بطن سے ایک عالمی تصادم جنم لے سکتاہے۔ایران کی جوابی کارروائی کے بعدخطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی سیاست ایک نئے دورمیں داخل ہوگئی ہے۔
نیتن یاہوکی حالیہ دھمکی کہ ایران کے بعد پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کوبھی ختم کیاجائے گا، فقط ایک عسکری اعلان نہیں بلکہ ایک تہذیبی چیلنج ہے۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایران کی

پڑھیں:

وزیر اعظم کا ایرانی صدر کو فون ، امریکی حملوں کی مذمت

اسلام آباد(ویب ڈیسک ) وزیر اعظم شہباز شریف نے برادر ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ پاکستان کی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر دلی تعزیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر عزت مآب مسعود پیزشکیان سے آج سہ پہر ٹیلی فون پر بات چیت کی۔

وزیراعظم نے پاکستان کی جانب سے امریکی حملوں، جو گزشتہ آٹھ دنوں کے دوران اسرائیل کی بلا اشتعال اور بلا جواز جارحیت کے بعد ہوئے، کی مذمت کی ۔ انہوں نے برادر ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ پاکستان کی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر دلی تعزیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔

وزیر اعظم نے تحفظات کا اظہار کیا کہ امریکی حملوں میں ان تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے تحفظات کے تحت تھیں۔ یہ حملے IAEA کے قانون اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت ایران کے حق دفاع کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے امن کے لئے فوری طور پر مذاکرات اور سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا جو آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ ہے۔

وزیر اعظم نے نے صورتحال کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے فوری اجتماعی کوششوں پر بھی زور دیا اور اس تناظر میں پاکستان کے تعمیری کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

صدر پیزشکیان نے ایران کے لیے پاکستان کی حمایت کو سراہا۔ انہوں نے ایران کے عوام اور حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے پر وزیراعظم، حکومت اور پاکستان کے عوام بشمول عسکری قیادت کا دلی شکریہ ادا کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس نازک موڑ پر امت کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے قریبی رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔
مزیدپڑھیں:نئے ہجری سال 1447ھ کے موقع پر سرکاری تعطیل کا اعلان

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی، مسلط کردہ امن نہیں بلکہ طاقت کے بدلتے توازن کی علامت
  • پولیو کا خاتمہ محض ایک پروگرام نہیں بلکہ قومی مشن ہے، وفاقی وزیر صحت
  • رجیم چینج کے سائے: پاکستان کی مغربی سرحد پر بڑھتا ہوا خطرہ
  • جھوٹے دیو قامتوں کا زوال
  • پاکستان کی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی مذمت
  • وزیر اعظم کا ایرانی صدر کو فون ، امریکی حملوں کی مذمت
  • اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، امریکہ اپنی جارحیت کا خود ذمہ دار ہوگا، ایران 
  • فریبی نظام آخری سانسیں اور نئی امیدیں
  • قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج