اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتیاں یہی سے ہونی چاہئیں، جسٹس (ر) شوکت صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتیاں یہی سے ہونی چاہئیں، جسٹس (ر) شوکت صدیقی WhatsAppFacebookTwitter 0 24 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہے فیڈرل ہائی کورٹ نہیں، میرا موقف ہے کہ یہاں پر ججز کی تعیناتیاں اسلام آباد سے ہونی چاہئیں۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے کہا کہ این آئی آر سی کے چھ میں سے پانچ بینچز کو ویڈیو لنک کے ساتھ منسلک کر دیا ہے، وکلا اب اپنے شہروں میں رہ کر ویڈیو لنک پر دلائل دے دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹی اے ڈی اے کی مد میں جو لاکھوں روپے کے رقم بچے گی اس کو ملازمین پر خرچ کیا جا رہا ہے، صرف پشاور کا بینچ ابھی فی الحال ویڈیو لنک سے منسلک نہیں ہوا۔
جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ بلڈنگ جس جگہ پر ہے وہ 2012 میں ہم نے لی۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کی ملاقات ہوئی، چیف جسٹس اقبال حمید الرحمان تھے، انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے ہمیں مختلف جگہیں دکھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چودھری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو کہا آپ سے یہ کام نہیں ہونا، آپ کمیٹی بنا کر یہ کام جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سونپ دیں۔ چیئرمین سی ڈی اے کو فون کر کے کہا کہ آپ ہمیں ہائی کورٹ کے لیے مجوزہ جگہیں دکھائیں۔
جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ بلڈنگ جس جگہ ہے میں یہاں لے آیا اور کہا کہ اس پلاٹ کا بتائیں، چیئرمین سی ڈی اے کو کہا کہ بورڈ میٹنگ میں ڈسکس کریں اور تمام چیزیں لے کر آئیں۔ میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ جگہ ایسی ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اس پر کسی اور کی نظر نا ہو۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہ رہا تھا کہ تمام چیزیں دستاویزات کے ساتھ ریکارڈ پر آ جائیں، اس بلڈنگ کے ڈیزائن کے حوالے سے ہم نے ایک کمپیٹیشن کرایا جس میں سیکڑوں آرکیٹیکس نے حصہ لیا، یہ کنٹریکٹ تبدیل ہوا جس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے جسے میں یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم ایک تھیم لے کر چل رہے تھے کہ روشن اور ہوا دار ماحول ہوگا مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا، یہ بلڈنگ نومبر 2015 میں مکمل ہونی تھی، کنٹریکٹ تبدیل ہونے پر بتا دیا کہ اب یہ پراجیکٹ پانچ سال لیٹ ہو جائے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرڈاکٹر محمد امجد’’پاکستان چائنہ بزنس ڈویلپمنٹ کمیٹی ‘‘کے کنوینر مقرر وزیراعظم کی پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے میں چین کے تعاون کی تعریف ایران اسرائیل جنگ بندی سے متعلق وزیر دفاع خواجہ آصف کا اہم بیان سامنے آگیا افغان مہاجرین کو واپسی کیلئے 30 جون کی ڈیڈ لائن، اب تک کتنے واپس جاچکے؟ ایران کے بعد غزہ؟ اسرائیلی اپوزیشن نے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ کا غزہ میں بھی جنگ بندی کا مطالبہ اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ میں ایران نے کتنے ایٹمی سائنسدان کھوئے؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی اسلام ا باد ہائی کورٹ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کہا کہ ا ججز کی
پڑھیں:
مجوزہ آئینی ترمیم پر ججز اور وکلاء میں دلچسپ مکالمہ
—فائل فوٹوسپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم پر ججز اور وکلاء کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
آئینی بینچ میں سول سروس رولز سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ نے کی۔
دورانِ سماعت جسٹس امین الدین خان نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا یہ کیس آج ختم ہو جائے گا؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرے خیال سے آج شائد کیس ختم نہ ہو پائے۔
وکیل فیصل صدیقی نے نام لیے بغیر 27 ویں آئینی ترمیم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میری درخواست ہے کہ کیس کا آج فیصلہ کیا جائے، میں وفاقی شرعی عدالت کی بلڈنگ میں کیس پر دلائل دینا نہیں چاہتا، بلڈنگ ہی لے لینی تھی تو وفاقی شرعی عدالت کی کیوں؟ بلڈنگ لینی تھی تو ساتھ والی عمارت لے لیتے۔
وکیل فیصل صدیقی کی بات پر آئینی بینچ کے ججز مسکرا دیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مسکراتے ہوئے وکیل سے کہا کہ رات آپ کے حق میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے کوئی شبہ نہیں سپریم کورٹ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر یہی ایمان ہے تو پھر فکر کی کیا بات ہے؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم تو آئین کے پابند ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے ججز سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کیوں بنائی گئی تھی، آپ ججز اس کمرہ عدالت میں کتنے گرینڈ لگتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمارت کے تبدیل ہونے سے اختیارات کم نہیں ہوں گے۔