امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع امیگریشن پالیسی بحال کر دی ہے، جس کے تحت تارکین وطن کو ان کے آبائی ملک کے بجائے کسی تیسرے ملک میں بھیجا جا سکے گا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو اجازت دے دی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو ان کے اپنے ملک کے علاوہ کسی تیسرے ملک میں بھی بے دخل کر سکتی ہے، چاہے انہیں یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ وہاں درپیش خطرات کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کر سکیں۔

یہ فیصلہ ٹرمپ کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کی پالیسی کے حق میں ایک اور بڑی قانونی فتح تصور کیا جا رہا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ کے تین لبرل ججوں نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی۔

عدالت نے انتظامیہ کی اس درخواست کو منظور کیا کہ وہ ایک سابقہ عدالتی حکم کو معطل کر دے، جس میں کہا گیا تھا کہ جن پناہ گزینوں کو تیسرے ممالک بھیجا جا رہا ہے، انہیں امریکی حکام کو یہ وضاحت دینے کا موقع دیا جانا چاہیے کہ انہیں وہاں تشدد یا نقصان کا خطرہ لاحق ہے، جب تک کہ اس پالیسی کے خلاف قانونی کارروائی مکمل نہ ہو جائے۔

یہ حکم بوسٹن کے ضلعی جج برائن مرفی نے 18 اپریل کو جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ کا حالیہ حکم مختصر اور بغیر دستخط کے تھا، جیسا کہ ہنگامی نوعیت کے فیصلوں میں عموماً ہوتا ہے، عدالت میں اس وقت 6 بمقابلہ 3 کی قدامت پسند اکثریت ہے۔

جج سونیا سوٹو مایور نے دیگر دو لبرل ججوں کے ساتھ مل کر اس فیصلے کو عدالت کے اختیارات کا سنگین غلط استعمال قرار دیا۔

انہوں نے لکھا کہ بظاہر، عدالت کے نزدیک یہ زیادہ قابلِ قبول ہے کہ ہزاروں لوگ دور دراز علاقوں میں تشدد کا نشانہ بنیں، بجائے اس کے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ کسی ضلعی عدالت نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے حکومت کو نوٹس اور قانونی عمل کی پابندی کا کہا ہو، جو ان درخواست گزاروں کا آئینی حق ہے۔

جج سوٹو مایور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ناقابلِ فہم اور ناقابلِ معافی قرار دیا۔

جج مرفی کا مؤقف تھا کہ بغیر اطلاع دیے اور پناہ کے دعوے کا موقع دیے بغیر تیسرے ممالک کو بے دخلی کی پالیسی، امریکی آئین کے تحت حاصل ’ڈیو پروسیس‘ (انصاف کے تقاضوں) کی ممکنہ خلاف ورزی ہے۔

یہ اصول حکومت کو پابند کرتا ہے کہ کسی بھی ناگوار اقدام سے قبل متعلقہ فرد کو مطلع کیا جائے اور اسے مؤثر طور پر سنا جائے۔

جب فروری میں امریکی محکمہ داخلہ نے تیسرے ممالک کو پناہ گزینوں کی بے دخلی کے عمل میں تیزی لائی، تو انسانی حقوق کی تنظیموں نے اجتماعی مقدمہ دائر کیا تاکہ ایسے افراد کو بغیر اطلاع اور قانونی عمل کے ملک بدر ہونے سے روکا جا سکے۔

21 مئی کو جج مرفی نے قرار دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان کے حکم کی خلاف ورزی کی، جب اس نے کچھ پناہ گزینوں کو سیاسی طور پر غیر مستحکم ملک جنوبی سوڈان بھیجنے کی کوشش کی، حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ اس سے پہلے وہاں جرائم، اغوا اور مسلح تصادم کے خطرات کی وجہ سے شہریوں کو وہاں نہ جانے کی ہدایت دے چکا تھا۔

اس عدالتی حکم کے بعد، امریکی حکومت نے ان متاثرہ افراد کو جبوتی کے ایک فوجی اڈے پر رکھا۔

تاہم، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے باوجود جج مرفی نے واضح کیا کہ ان آٹھ افراد کو جنوبی سوڈان بھیجنے کے خلاف ان کا حکم ابھی بھی مکمل طور پر نافذ العمل ہے۔

نیشنل امیگریشن لٹیگیشن الائنس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ترینا ریلموٹو، جو متاثرہ تارکین وطن کی نمائندگی کر رہی ہیں، انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے ان افراد کے وہ بنیادی آئینی حقوق چھین لیے گئے ہیں جو انہیں تشدد اور موت سے بچا سکتے تھے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس کی تیسری ممالک کی پالیسی پہلے ہی آئینی تقاضوں کے مطابق ہے اور یہ ان افراد کی بے دخلی کے لیے ضروری ہے جنہیں ان کے اپنے ممالک واپس لینے سے انکار کرتے ہیں۔

حکومت کے مطابق جنوبی سوڈان بھیجے جانے والے تمام افراد امریکا میں سنگین جرائم جیسے قتل، آتش زنی اور مسلح ڈکیتی میں ملوث رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان ایبیگیل جیکسن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ایک لبرل جج کے حکم کو معطل کرتا ہے اور صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ غیر قانونی مجرم تارکین وطن کو ملک سے نکال کر امریکا کو دوبارہ محفوظ بنائیں۔

محکمہ داخلہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری ٹریشیا میک لافلن نے تبصرہ کیا کہ ملک بدری کے طیارے تیار کرو!۔

مقدمات کی بھرمار
یہ مقدمہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ان کئی قانونی چیلنجز میں سے ایک ہے جو ان کی دوسری مدتِ صدارت کے دوران عدالتوں میں پہنچے۔

مئی میں، سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کو انسانی بنیادوں پر دی گئی عارضی رہائش کی سہولت ختم کرنے کی اجازت دے دی، جس کے تحت ہزاروں غیر ملکی امریکا میں رہائش اور روزگار حاصل کیے ہوئے تھے۔

تاہم، عدالت نے ’الائن اینیمیز ایکٹ‘ کے تحت بعض تارکین وطن سے روا رکھے گئے سلوک کو آئینی تحفظات کے منافی قرار دیا، یہ قانون 1798 میں منظور ہوا تھا اور عام طور پر صرف جنگ کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔

جج سوٹو مایور نے کہا کہ جنوبی سوڈان اور کیوبا کے گوانتانامو بے نیول بیس کے ذریعے چار افراد کو ال سلواڈور بھیجنے کے عمل میں، ٹرمپ انتظامیہ نے جج مرفی کے دو واضح عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ عدالت نے قانون شکنی پر آنکھیں بند کی ہوں اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ آخری بار بھی نہیں ہوگا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ جب بھی عدالت قانون شکنی پر نرمی اختیار کرتی ہے، وہ عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی کی ساکھ کو مزید کمزور کرتی ہے۔

انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے اس وقت مداخلت کی درخواست کی، جب بوسٹن کی فرسٹ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے 16 مئی کو جج مرفی کے حکم کو معطل کرنے سے انکار کر دیا۔

رائٹرز کے مطابق امریکی حکام تارکین وطن کو لیبیا بھی بھیجنے پر غور کر رہے تھے، جو ایک اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ملک ہے، حالانکہ امریکی حکومت پہلے ہی وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کر چکی ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: تارکین وطن کو نے سپریم کورٹ سپریم کورٹ کے پناہ گزینوں تیسرے ممالک جنوبی سوڈان کی پالیسی قرار دیا انہوں نے افراد کو عدالت نے کے مطابق ٹرمپ کی جج مرفی بے دخلی کہا کہ کے تحت کیا جا کیا کہ

پڑھیں:

سپریم کورٹ : بیوی کو عدالت کے اندر قتل کرنے والے شوہر کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج

اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے بیوی کو قتل کرنے والے شوہر کی سزائے موت کے خلاف دائر کردہ اپیل خارج کردی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ سمیت تین رکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کی۔

مجرم کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میرے موکل کے خلاف دہشت گردی کی دفعات لگانا درست نہیں، بیوی کو قتل کرنے پر دہشت گردی کی دفعات کیسے لگائی جاسکتی ہیں؟

پراسیکیوٹر پنجاب مرزا عابد مجید نے کہا کہ مجرم نے گجرات فیملی کورٹ کے اندر بیوی کو قتل کیا، سپریم کورٹ کے دہشت گردی دفعات سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، بھری عدالت میں بیوی کو قتل کر کے خوف و ہراس پھیلایا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خاتون انصاف کیلئے عدالت گئی، انصاف کیلئے آئی خاتون کو عدالت میں قتل کرنا دہشت گردی ہے، مجرم کسی رعایت کا حق دار نہیں۔

واضح رہے کہ معاف علی نے 2014ء میں تنسیخ کا دعویٰ کرنے والی بیوی نعیمہ بی بی کو قتل کیا تھا، معاف علی کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت دو بار سزائے موت سنائی گئی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

متعلقہ مضامین

  • ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کیلئے قانون سازی کا حکم
  • سپریم کورٹ کا ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کا حکم، تفصیلی فیصلہ
  • سپریم کورٹ: ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ مجرمان کو اپیل کے حق اور 45 دن میں قانون سازی کا حکم
  • سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دیدیا، قانون سازی کا حکم
  • سپریم کورٹ: بیوی کو قتل کرنے والے سزائے موت کے مجرم کی معافی کی اپیل خارج
  • امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر کی اٹارنی جنرل منصور عثمان سے ملاقات
  • سپریم کورٹ : بیوی کو عدالت کے اندر قتل کرنے والے شوہر کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج
  • سپریم کورٹ نے بیوی کے قاتل کی سزائے موت معاف نہیں کی
  • ایئر انڈیا کریش، پائلٹ کو قصور وار قرار دینے پر بھارتی سپریم کورٹ کا اہم بیان سامنے آگیا
  • ٹرمپ کی ویزا پالیسی سے بھارتی آئی ٹی انڈسٹری کو بڑا دھچکا، لاگت بڑھنے کا خدشہ