امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ: تارکین وطن کو تیسرے ممالک بھیجنے کی ٹرمپ پالیسی بحال
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع امیگریشن پالیسی بحال کر دی ہے، جس کے تحت تارکین وطن کو ان کے آبائی ملک کے بجائے کسی تیسرے ملک میں بھیجا جا سکے گا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو اجازت دے دی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو ان کے اپنے ملک کے علاوہ کسی تیسرے ملک میں بھی بے دخل کر سکتی ہے، چاہے انہیں یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ وہاں درپیش خطرات کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کر سکیں۔
یہ فیصلہ ٹرمپ کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کی پالیسی کے حق میں ایک اور بڑی قانونی فتح تصور کیا جا رہا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ کے تین لبرل ججوں نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی۔
عدالت نے انتظامیہ کی اس درخواست کو منظور کیا کہ وہ ایک سابقہ عدالتی حکم کو معطل کر دے، جس میں کہا گیا تھا کہ جن پناہ گزینوں کو تیسرے ممالک بھیجا جا رہا ہے، انہیں امریکی حکام کو یہ وضاحت دینے کا موقع دیا جانا چاہیے کہ انہیں وہاں تشدد یا نقصان کا خطرہ لاحق ہے، جب تک کہ اس پالیسی کے خلاف قانونی کارروائی مکمل نہ ہو جائے۔
یہ حکم بوسٹن کے ضلعی جج برائن مرفی نے 18 اپریل کو جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ کا حالیہ حکم مختصر اور بغیر دستخط کے تھا، جیسا کہ ہنگامی نوعیت کے فیصلوں میں عموماً ہوتا ہے، عدالت میں اس وقت 6 بمقابلہ 3 کی قدامت پسند اکثریت ہے۔
جج سونیا سوٹو مایور نے دیگر دو لبرل ججوں کے ساتھ مل کر اس فیصلے کو عدالت کے اختیارات کا سنگین غلط استعمال قرار دیا۔
انہوں نے لکھا کہ بظاہر، عدالت کے نزدیک یہ زیادہ قابلِ قبول ہے کہ ہزاروں لوگ دور دراز علاقوں میں تشدد کا نشانہ بنیں، بجائے اس کے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ کسی ضلعی عدالت نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے حکومت کو نوٹس اور قانونی عمل کی پابندی کا کہا ہو، جو ان درخواست گزاروں کا آئینی حق ہے۔
جج سوٹو مایور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ناقابلِ فہم اور ناقابلِ معافی قرار دیا۔
جج مرفی کا مؤقف تھا کہ بغیر اطلاع دیے اور پناہ کے دعوے کا موقع دیے بغیر تیسرے ممالک کو بے دخلی کی پالیسی، امریکی آئین کے تحت حاصل ’ڈیو پروسیس‘ (انصاف کے تقاضوں) کی ممکنہ خلاف ورزی ہے۔
یہ اصول حکومت کو پابند کرتا ہے کہ کسی بھی ناگوار اقدام سے قبل متعلقہ فرد کو مطلع کیا جائے اور اسے مؤثر طور پر سنا جائے۔
جب فروری میں امریکی محکمہ داخلہ نے تیسرے ممالک کو پناہ گزینوں کی بے دخلی کے عمل میں تیزی لائی، تو انسانی حقوق کی تنظیموں نے اجتماعی مقدمہ دائر کیا تاکہ ایسے افراد کو بغیر اطلاع اور قانونی عمل کے ملک بدر ہونے سے روکا جا سکے۔
21 مئی کو جج مرفی نے قرار دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان کے حکم کی خلاف ورزی کی، جب اس نے کچھ پناہ گزینوں کو سیاسی طور پر غیر مستحکم ملک جنوبی سوڈان بھیجنے کی کوشش کی، حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ اس سے پہلے وہاں جرائم، اغوا اور مسلح تصادم کے خطرات کی وجہ سے شہریوں کو وہاں نہ جانے کی ہدایت دے چکا تھا۔
اس عدالتی حکم کے بعد، امریکی حکومت نے ان متاثرہ افراد کو جبوتی کے ایک فوجی اڈے پر رکھا۔
تاہم، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے باوجود جج مرفی نے واضح کیا کہ ان آٹھ افراد کو جنوبی سوڈان بھیجنے کے خلاف ان کا حکم ابھی بھی مکمل طور پر نافذ العمل ہے۔
نیشنل امیگریشن لٹیگیشن الائنس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ترینا ریلموٹو، جو متاثرہ تارکین وطن کی نمائندگی کر رہی ہیں، انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے ان افراد کے وہ بنیادی آئینی حقوق چھین لیے گئے ہیں جو انہیں تشدد اور موت سے بچا سکتے تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس کی تیسری ممالک کی پالیسی پہلے ہی آئینی تقاضوں کے مطابق ہے اور یہ ان افراد کی بے دخلی کے لیے ضروری ہے جنہیں ان کے اپنے ممالک واپس لینے سے انکار کرتے ہیں۔
حکومت کے مطابق جنوبی سوڈان بھیجے جانے والے تمام افراد امریکا میں سنگین جرائم جیسے قتل، آتش زنی اور مسلح ڈکیتی میں ملوث رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ایبیگیل جیکسن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ایک لبرل جج کے حکم کو معطل کرتا ہے اور صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ غیر قانونی مجرم تارکین وطن کو ملک سے نکال کر امریکا کو دوبارہ محفوظ بنائیں۔
محکمہ داخلہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری ٹریشیا میک لافلن نے تبصرہ کیا کہ ملک بدری کے طیارے تیار کرو!۔
مقدمات کی بھرمار
یہ مقدمہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ان کئی قانونی چیلنجز میں سے ایک ہے جو ان کی دوسری مدتِ صدارت کے دوران عدالتوں میں پہنچے۔
مئی میں، سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کو انسانی بنیادوں پر دی گئی عارضی رہائش کی سہولت ختم کرنے کی اجازت دے دی، جس کے تحت ہزاروں غیر ملکی امریکا میں رہائش اور روزگار حاصل کیے ہوئے تھے۔
تاہم، عدالت نے ’الائن اینیمیز ایکٹ‘ کے تحت بعض تارکین وطن سے روا رکھے گئے سلوک کو آئینی تحفظات کے منافی قرار دیا، یہ قانون 1798 میں منظور ہوا تھا اور عام طور پر صرف جنگ کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔
جج سوٹو مایور نے کہا کہ جنوبی سوڈان اور کیوبا کے گوانتانامو بے نیول بیس کے ذریعے چار افراد کو ال سلواڈور بھیجنے کے عمل میں، ٹرمپ انتظامیہ نے جج مرفی کے دو واضح عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ عدالت نے قانون شکنی پر آنکھیں بند کی ہوں اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ آخری بار بھی نہیں ہوگا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ جب بھی عدالت قانون شکنی پر نرمی اختیار کرتی ہے، وہ عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی کی ساکھ کو مزید کمزور کرتی ہے۔
انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے اس وقت مداخلت کی درخواست کی، جب بوسٹن کی فرسٹ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے 16 مئی کو جج مرفی کے حکم کو معطل کرنے سے انکار کر دیا۔
رائٹرز کے مطابق امریکی حکام تارکین وطن کو لیبیا بھی بھیجنے پر غور کر رہے تھے، جو ایک اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ملک ہے، حالانکہ امریکی حکومت پہلے ہی وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کر چکی ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تارکین وطن کو نے سپریم کورٹ سپریم کورٹ کے پناہ گزینوں تیسرے ممالک جنوبی سوڈان کی پالیسی قرار دیا انہوں نے افراد کو عدالت نے کے مطابق ٹرمپ کی جج مرفی بے دخلی کہا کہ کے تحت کیا جا کیا کہ
پڑھیں:
16سال بعد خاتون سرکاری ملازم کو نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ کالعدم
لاہور ہائیکورٹ نے 16سال بعد خاتون سرکاری ملازم کو نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر بحال کردیا، جسٹس ملک اویس خالد نے قرار دیاکہ محض انکوئری کی بنیاد پر کسی کو نوکری سے برخاست نہیں کیا جاسکتا۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک اویس خالد نے تسنیم کوثر کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے 16سال بعد خاتون سرکاری ملازم کی نوکری سے برخاست کرنے کے خلاف اپیل منظور کرلی۔جسٹس ملک اویس خالد نے فیصلے میں لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے مطابق فیئر ٹرائل کا حق دیئے بغیر کسی کو نوکری سے نہیں نکالا جاسکا، درخواست گزار کو 2009ء میں مس کنڈکٹ کی بنیاد پر لیب اسسٹنٹ کی نوکری سے برخاست کیا گیا، درخواست گزار نے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی۔عدالت نے 2014ء میں درخواست گزار کو نوکری پر بحال کردیا، محکمے نے عدالتی حکم کے باوجود درخواست گزار کو بحال نہیں کیا اور غیر معینہ مدت کے معطل کردیا، فیصلہ میں کہا گیاکہ 2014ء میں درخواست گزار کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کرکے شوکاز دیا گیا۔2015ء میں درخواست گزار کو دوبارہ نوکری سے برخاست کردیا گیا، درخواست گزار نے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا، عدالت نے 2021ء میں محکمے کو بغیر کسی دباؤ کے فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپیل نمٹا دی۔محکمے نے درخواست گزار کی نوکری پر بحال کرنے کی اپیل خارج کردی، درخواست گزار پر الزام تھا کہ بھرتی کے وقت اس نے جعلی سرٹیفکیٹ جمع کروائے، انکوائری کے دوران درخواست گزار کو الزامات کا جواب دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔محکمے کا مؤقف تھا کہ درخواست گزار کے سرٹیفکیٹ تصدیق کے لئے متعلقہ ادارے کو بھجوائے گئے، انکوائری کے دوران متعلقہ ادارے سے کسی کو سمن نہیں کیا گیا، فیصلہ میں کہا گیاکہ عدالت نے خاتون کو نوکری سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے متعلقہ اتھارٹی کو درخواست گزار پر لگائے گئے الزامات کی دوبارہ انکوائری کی ہدایت کردی، عدالت نے درخواست گزار کے واجبات کی ادائیگی کو انکوائری کے فیصلہ سے مشروط کردیا، عدالت نے درخواست گزار کو 16سال بعد نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر بحال کردیا۔