بھارت کی کینیڈین سیاستدانوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
بھارت دہائیوں سے جنوبی ایشیا میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ بھارت نے جون 2021 میں لاہور میں دہشت گردی کی کارروائی کی۔ سال 2016 میں بھارتی را کے کمانڈر کلبھوشن کو گرفتار کیا گیا۔ بھارتی کمانڈر نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا اعتراف کیا، کلبھوشن کے اسٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر ڈوزیئر دیا گیا۔
کینیڈا کی خفیہ ایجنسی نے تصدیق کی کہ بھارت غیر ملکی مداخلت کا مرتکب ہوا ہے۔ کینیڈین انٹیلیجنس ایجنسی (CSIS) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکام بشمول کینیڈا میں بھارتی پراکسی ایجنٹس، کینیڈا کی کمیونٹیز اور سیاست دانوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت کی یہ سرگرمیاں کینیڈا کے مؤقف کو بھارتی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہیں، بھارتی سرگرمیوں سے خاص طور پر کینیڈا کے خالصتان کے حامی افراد سے متعلق مؤقف پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ رپورٹ بھارت اور کینیڈا کے وزرائے اعظم کی جی سیون اجلاس میں گزشتہ روز کی ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے جب کہ اس ملاقات میں بھارت اور کینیڈا کے وزرائے اعظم نے تعلقات مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔واضح رہے کینیڈا اور بھارت کے تعلقات 2023 سے کشیدہ ہیں جب سابق کینیڈین وزیراعظم ٹروڈو نے سکھ رہنما نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا تاہم مودی حکومت نے سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
کینیڈا میں سکھوں کے قتل اور امریکہ میں سکھ رہنما پر قاتلانہ منصوبے کے بروقت افشاء ہونے پر بھارت امریکہ تعلقات میں بھی دراڑ پڑ گئی ہے۔ بھارت میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے ستمبر میں بتایا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے صدر جوبائیڈن کو 26 جنوری کو ہونے والی یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طورپر مدعو کیا تھالیکن بھارتی سرکار پرکینیڈا اور امریکہ میں سکھوں کے قتل کے الزام کے بعد امریکی صدرنے بھارت کا اہم ترین دورہ منسوخ کر دیا۔ یہ دوسرا موقع ہے جب کسی امریکی صدر نے یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طورپر شرکت کی دعوت مسترد کی ہے۔ اس سے قبل 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بعض گھریلو مصروفیات کے سبب یوم جمہوریہ تقریبات میں شرکت کرنے سے منع کردیا تھا۔امریکی خفیہ ایجنسیوں نے بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے اپریل دوہزارتئیس میں جاری کردہ میمو پیش کردیا جس میں ہندوستانی وزارت خارجہ کی جانب سے میمو نارتھ امریکہ میں قائم بھارتی قونصل خانوں کولکھے گئے۔ میمو میں سکھ رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ہدایات دی گئیں۔ کلاسیفائیڈ دستاویزات پر بھارتی سیکریٹری خارجہ کے دستخط فرانزک رپورٹ سے بھی ثابت ہوچکے ہیں۔پانچ ممالک کی مشترکہ انٹیلی جنس ایجنسی فائیو آئیز نے بھی امریکی اورکینیڈا کے ہندوستان کیخلاف دعوؤں کی تصدیق کی۔ ہندوستانی دستاویزات سے ثابت ہوچکا ہے مودی سرکارنے دنیا بھرمیں سکھ رہنماؤں کو ٹارگٹ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔اپریل2023 میں میموبھارتی قونصل خانوں کو بھیجے گئے، جس کے 2 ماہ بعد ہردیپ سنگھ نجرکوکینیڈامیں قتل کردیا گیا اور جون 2023 میں ہی سکھ رہنما گروپتونت سنگھ کو امریکا میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔
کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا بھارتی خفیہ ایجنسی”را” کے ہاتھوں قتل پر کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے الزامات کو سنجیدہ لینے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ سکھ رہنما کے قتل پر جواب چاہتے ہیں۔ بھارت کو اشتعال دلانے کی کوشش نہیں کررہے۔ برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے بھی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھا یا ہے کہ بھارت کو خبردار کیا جائے کہ ریاستی دہشتگردی برداشت نہیں کی جائے گی۔برطانوی وزیرخارجہ جیمزکلیورلی نے کہا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل کے مجرموں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا اور تمام ممالک کو قانون کی حکمرانی کا احترام کرنا چاہیے۔
امریکہ اور کینیڈا میں کم از کم چار سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کو قتل کرنے کے مبینہ منصوبے میں ایک بھارتی باشندے پر فرد جرم عائد کی ہے۔ ان الزامات کی کڑیاں اس سال کینیڈا میں سکھ کینیڈین شہری کے قتل ساتھ بھی جوڑے گئی ہیں۔ چیک ریپبلک میں امریکی درخواست پر گرفتاربھارتی شہری نکھل گپتا پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان کا نشانہ کینیڈین دہری شہریت کے حامل گرو پتونت سنگھ پنوں تھے۔ گرو پتونت سنگھ پنوں امریکہ میں قائم سکھ علیحدگی پسند گروہ کے رکن ہیں۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: میں سکھ رہنما کینیڈا میں امریکہ میں ہردیپ سنگھ میں بھارت کینیڈا کے ہونے کی کی کوشش کے قتل
پڑھیں:
ٹرمپ کا ویزہ وار۔۔ مودی کی سفارتی شکست
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
آپریشن سندور کی ناکامی نے بھارت کی سفارت کاری اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے ۔دنیا کی طاقتور ترین معیشت جب اپنی امیگریشن یا ورک ویزا پالیسی میں کوئی تبدیلی کرتی ہے تو اس کے اثرات براہِ راست کئی ممالک پر پڑتے ہیں۔ خاص طور پر بھارت پر، جہاں لاکھوں نوجوان ہر سال امریکہ جانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایچ ون بی ورکر ویزے کے لیے سالانہ ایک لاکھ ڈالر فیس مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ فیصلہ بجلی بن کر بھارتی معاشرے ، آئی ٹی انڈسٹری اور حکومت پر گرا ہے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ اثر بھارتی پروفیشنل کلاس پر پڑے گا جو بڑی تعداد میں امریکہ میں ملازمت اختیار کرنے کے لیے اس ویزے پر انحصار کرتی ہے ۔ یہ محض ایک مالی رکاوٹ نہیں بلکہ ایک ایسا قدم ہے جس کے معاشی، سماجی اور سیاسی مضمرات بھارت کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈالیں گے۔
ایچ ون بی ویزا امریکی معیشت کے لیے ایک اہم انجن سمجھا جاتا ہے جو ہنر مند ورکرز کو امریکہ لے کر آتا ہے ۔ بھارت اس پروگرام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے کیونکہ امریکہ میں موجود تقریباً 70 فیصد ایچ ون بی ویزا ہولڈرز بھارتی شہری ہیں۔ حیدرآباد، بنگلور، پونے اور دہلی جیسے شہروں سے ہر سال ہزاروں نوجوان آئی ٹی اور انجینئرنگ کے شعبوں سے فارغ التحصیل ہو کر امریکہ جاتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کے اس نئے اقدام کے بعد یہ خواب عام بھارتی نوجوان کے لیے تقریباً ناممکن ہو جائے گا کیونکہ 100,000 ڈالر کی سالانہ فیس ایک ایسی رکاوٹ ہے جسے صرف بڑی کمپنیاں یا انتہائی امیر افراد ہی عبور کر سکیں گے ۔ اس فیصلے کے فوری اثرات بھارتی آئی ٹی سیکٹر پر نظر آئیں گے ۔
انفو سس، ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز اور وپرو جیسی بڑی کمپنیوں کا کاروباری ماڈل اس بنیاد پر قائم ہے کہ وہ ہنر مند افراد کو امریکی کمپنیوں میں بھیج سکیں۔ اب یہ فیس ان پر بھاری پڑے گی، جس کے باعث یا تو ان کی سرگرمیاں محدود ہوں گی یا امریکی طلب کو پورا کرنے میں مشکلات آئیں گی۔ اس کا براہِ راست نقصان بھارتی معیشت کو ہوگا جو پہلے ہی بے روزگاری اور مہنگائی کے دباؤ میں ہے ۔یہ صورتحال اپوزیشن کے لیے مودی حکومت پر تنقید کا موقع بھی بن گئی ہے ۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ بھارتی عوام کے لیے بڑا دھچکا ہے اور مودی حکومت اس پر موثر حکمتِ عملی بنانے میں ناکام رہی ہے ۔ ان کے مطابق بھارت بار بار امریکہ کی خوشنودی کے لیے اپنی پالیسیوں کو جھکاتا رہا ہے لیکن جب بھارتی شہریوں کے مستقبل کی بات آئی تو وزیراعظم بے بس دکھائی دیے ۔ یہ مودی کی عالمی سطح پر کمزوری کا ثبوت ہے ۔مودی نے اپنے دور میں امریکہ سے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کئی کوششیں کیں۔ "ہاؤڈی مودی” جیسے شوز اور امریکی قیادت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بھارتی میڈیا نے کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ لیکن ٹرمپ کا یہ فیصلہ ان تمام بیانیوں پر سوالیہ نشان ہے ۔ اگر واقعی تعلقات اتنے قریبی تھے تو پھر بھارت کو ایسے سخت فیصلے سے پہلے اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کی عالمی حیثیت کے دعوے زیادہ تر دکھاوے تک محدود ہیں۔معاشی پہلو کے ساتھ یہ مسئلہ سماجی بھی ہے ۔ بھارت میں لاکھوں خاندان اپنے بچوں کو امریکہ بھیجنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہ محض ملازمت نہیں بلکہ بہتر مستقبل کی امید ہے ۔ لیکن اب جب یہ دروازہ بند ہوتا جا رہا ہے تو بھارتی متوسط طبقے میں مایوسی پھیل رہی ہے ۔ یہی مایوسی سیاسی دباؤ میں تبدیل ہو کر بی جے پی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے ۔اس فیصلے کے عالمی اثرات بھی نمایاں ہیں۔ اگر امریکہ نے سخت شرائط برقرار رکھیں تو یورپ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک اس خلا کو پر کرنے کے لیے بھارتی پروفیشنلز کو اپنی طرف راغب کریں گے ۔ یہ بھارت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ اس سے "برین ڈرین” مزید تیز ہو جائے گی۔ بھارتی نوجوان جو امریکہ کو منزل سمجھتے تھے اب متبادل راستے تلاش کریں گے لیکن اس عمل میں بھارتی معیشت کو نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کی سب سے بڑی مارکیٹ سکڑ رہی ہے ۔
راہول گاندھی نے درست کہا کہ بھارت اگر خودمختار بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت اس قابل ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک ایسی حکمتِ عملی اپنائے جو عوام کے مفاد میں ہو؟ اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ زیادہ تر اقدامات محض نمائشی ہیں جبکہ معیشت اور نوجوان طبقہ مغربی ممالک کی پالیسیوں پر انحصار کرتے ہیں۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ امریکہ کا یہ قدم صرف بھارت کے خلاف نہیں بلکہ امریکی داخلی سیاست کا حصہ ہے ۔ ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ امریکی ملازمتوں کو امریکی شہریوں کے لیے محفوظ بنائیں گے ۔ ان کے مطابق غیر ملکی ورکرز امریکی نوجوانوں کی نوکریاں چھین لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ فیصلہ مقامی ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے ہے ، لیکن سب سے زیادہ قیمت بھارتی نوجوان ادا کریں گے ۔آنے والے دنوں میں بھارت کے سامنے کئی بڑے سوال کھڑے ہوں گے ۔ کیا وہ اپنی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے متبادل مارکیٹیں تلاش کر پائے گا؟ کیا وہ اپنے نوجوانوں کو اندرونِ ملک بہتر مواقع فراہم کر سکے گا؟ اور کیا وہ عالمی سطح پر اپنی سفارت کاری کو مضبوط بنا سکے گا تاکہ ایسے جھٹکوں کا مقابلہ کیا جا سکے ؟ یہ سوالات مودی حکومت کے لیے کڑی آزمائش ہیں۔آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے لیے یہ وقت امتحان کا ہے ۔ اگر واقعی مودی ایک طاقتور لیڈر ہیں تو انہیں اس چیلنج کو موقع میں بدلنا ہوگا۔ فی الحال صورت حال یہ ہے کہ ٹرمپ کے ایک فیصلے نے بھارتی معیشت اور سیاست دونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ بھارت کو خوابوں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ امریکہ پر انحصار کم کر کے اپنی اندرونی پالیسیوں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے کے بجائے اپنے ملک میں ہی مواقع مل سکیں۔
اقدامات کے طور پر بھارت کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی تعلیمی اور صنعتی پالیسی کو عالمی معیار کے مطابق بنائے تاکہ نوجوانوں کو معیاری مواقع مل سکیں۔ دوسرا، حکومت کو سفارتی سطح پر امریکہ سے بات کرنی چاہیے تاکہ فیس میں کمی یا رعایت کے امکانات پیدا کیے جا سکیں۔ تیسرا، یورپ، کینیڈا اور مشرقِ وسطیٰ جیسے متبادل بازاروں کو بھارتی ورکرز کے لیے کھولنا ہوگا۔ چوتھا، اندرونِ ملک آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی کے لیے ٹیکس مراعات اور بہتر انفراسٹرکچر مہیا کرنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو بیرونِ ملک جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ پانچواں، عوام کو یہ
اعتماد دینا ضروری ہے کہ بھارت بیرونِ ملک ملازمتوں پر انحصار کرنے والا ملک نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی خود کفیل معیشت ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو بھارت کو حقیقی معنوں میں طاقتور اور خودمختار بنا سکتا ہے۔
٭٭٭