ٹرمپ کی بڑی فتح، سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو آرڈرز روکنے والے ججوں کے اختیارات محدودکردیئے
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو روکنے والے ججوں کے اختیارات پر قدغن لگادی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بڑی فتح دلاتے ہوئے سنگل بینچ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو روکنے کے اختیار کو محدود کر دیا۔
پیدائشی شہریت کے خاتمے کی ٹرمپ کی کوشش سے متعلق 6-3 کے فیصلے میں، عدالت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججوں کے جاری کردہ ملک گیر حکم امتناعی ’ ممکنہ طور پر اس آئینی اختیار سے تجاوز کرتے ہیں جو کانگریس نے وفاقی عدالتوں کو دیا ہے۔
اعلیٰ عدالت نے امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے بچوں کے لئے خودکار شہریت ختم کرنے کے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کی آئینی حیثیت پر فوری فیصلہ نہیں دیا۔
لیکن عدالتی فیصلوں کے دائرہ کار پر یہ وسیع فیصلہ ٹرمپ کے اکثر انتہائی متنازع احکامات کے لیے ایک بڑی رکاوٹ کو دور کرے گا اور وائٹ ہاؤس کے اختیارات کی توثیق کرے گا۔
جسٹس ایمی کونی بیرٹ، جنہوں نے یہ رائے تحریر کی ہے ، نے کہا کہ ’ وفاقی عدالتیں ایگزیکٹو برانچ کی عمومی نگرانی نہیں کرتیں، وہ کانگریس کی طرف سے دیے گئے اختیار کے مطابق مقدمات اور تنازعات کو حل کرتی ہیں۔’
جسٹس ایمی کونی بیرٹ بیرٹ نے ایک رائے میں کہا،’ جب کوئی عدالت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ ایگزیکٹو برانچ نے غیر قانونی طور پر کام کیا ہے، تو اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ عدالت بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرے۔’ اس رائے کی عدالت کے دیگر پانچ قدامت پسند ججوں نے بھی توثیق کی، جبکہ تین لبرل ججوں نے اختلاف کیا۔
اس فیصلے کے عدلیہ کی ٹرمپ یا مستقبل کے امریکی صدور کو لگام ڈالنے کی صلاحیت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ مقدمہ بظاہر ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے ایگزیکٹو آرڈر کے بارے میں تھا جس پر انہوں نے منصب صدارت سنبھالنے کے پہلے ہی دن دستخط کیے تھے۔
لیکن اس کی اصل توجہ اس بات پر تھی کہ کیا ایک واحد وفاقی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی صدارتی حکم نامے پر عالمگیر حکم امتناعی کے ذریعے ملک گیر پابندی لگائے جبکہ یہ معاملہ عدالتوں میں زیر بحث ہو۔
ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے حکم کو میری لینڈ، میساچوسٹس اور واشنگٹن ریاست کی عدالتوں نے غیر آئینی قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے صدر نے سپریم کورٹ میں ہنگامی اپیل کی تاکہ اعلیٰ عدالت ملک گیر حکم امتناعی کے استعمال کو ختم کرے۔
یہ مسئلہ ٹرمپ اور ان کے ریپبلکن اتحادیوں کے لیے ایک اہم نعرہ بن گیا ہے، جو عدلیہ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ووٹروں کی مرضی کے خلاف ان کے ایجنڈے کو روک رہی ہے۔
ٹرمپ کا پیدائشی شہریت کا ایگزیکٹو آرڈر ان کے متعدد ایجنڈوں میں سے صرف ایک ہے جسے جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ملک بھر کے ججوں، جمہوری اور ریپبلکن دونوں کے مقرر کردہ ، نے روک دیا ہے۔
مئی میں سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی زبانی بحث کے دوران، قدامت پسند اور لبرل دونوں ججوں نے حالیہ برسوں میں ڈسٹرکٹ عدالتوں کی طرف سے ملک گیر حکم امتناعی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
جسٹس سیموئیل ایلیٹو، جو ایک کٹر قدامت پسند ہیں، نے کہا کہ ملک گیر حکم امتناعی ایک ’ عملی مسئلہ’ پیدا کرتے ہیں کیونکہ سیکڑوں ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو ’ یقین’ ہے کہ وہ بہترین جانتے ہیں۔
سولیسٹر جنرل جان سائر نے ملک گیر حکم امتناعی کا موازنہ ’ ایٹمی ہتھیار’ سے کیا، انہوں نے کہا کہ وہ ’ آئین کی طاقتوں کی علیحدگی کے محتاط توازن کو درہم برہم کرتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ ایک ڈسٹرکٹ کورٹ کے حکم امتناعی کے اطلاق کو صرف ان فریقوں تک محدود کرے جنہوں نے مقدمہ دائر کیا اور اس ضلع تک جہاں جج تعینات ہے۔
گذشتہ صدور نے بھی قومی حکم امتناعی کے اپنے ایجنڈے کو روکنے کی شکایت کی ہے، لیکن ٹرمپ کے دور میں ایسے احکامات میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔
ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے ایگزیکٹو آرڈر میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ امریکا میں غیر قانونی طور پر یا عارضی ویزوں پر مقیم والدین کے بچے خود بخود شہری نہیں بنیں گے۔
تین ذیلی عدالتوں نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو 14ویں ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ’تمام افراد جو امریکا میں پیدا ہوئے ہیں یا قدرتی طور پر شہری بنے ہیں اور اس کے دائرہ اختیار میں ہیں، ریاستہائے متحدہ کے شہری ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ملک گیر حکم امتناعی کے ایگزیکٹو ا رڈر پیدائشی شہریت کے حکم امتناعی کے ڈسٹرکٹ کورٹ کے سپریم کورٹ کے اختیار نے کہا کہ ٹرمپ کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کر دیے
سپریم کورٹ نے عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کر دیے WhatsAppFacebookTwitter 0 12 August, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی نے منگل کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر دی گئی آبزرویشن پر سوالات اٹھا دیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس محمد شفیع صدیقی اور میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے آج ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر پیش ہوئے، جب کہ پنجاب کے اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے ریاست کی نمائندگی کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آفریدی نے لاہور ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں دیے گئے بعض ’نتائج‘ پر نوٹس لیا، جن کی بنیاد پر عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی گئی تھیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ضمانت کے کیس میں حتمی مشاہدات دیے جا سکتے ہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ اس اصول کی بنیاد پر فی الحال ہم یہ بات نہیں کریں گے کہ اس کیس میں دیے گئے نتائج درست ہیں یا نہیں، ہم اس وقت قانونی نکات میں نہیں جائیں گے، اگر ہم قانونی نتائج کو چھیڑیں گے تو پھر دونوں میں سے کسی ایک فریق کا کیس متاثر ہو سکتا ہے۔
انہوں نے فریقین کے وکلا کو ہدایت کی کہ وہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں اور اگلی سماعت تک اپنی تیاری مکمل کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کوئی ایسے نتائج نہیں دے گی جو کیس کو متاثر کریں۔
ایک موقع پر سلمان صفدر نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں روسٹرم پر بات کرنے کی اجازت دی جائے لیکن چیف جسٹس آفریدی نے یہ استدعا مسترد کر دی۔
بعد ازاں بینچ نے پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 19 اگست تک ملتوی کر دی۔
’انجینئرڈ اور جعلی شواہد‘
سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 29 جون کو عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں کی سماعت کی تھی، لیکن سلمان صفدر کی غیر حاضری کے باعث نوٹس جاری کیے بغیر سماعت ملتوی کر دی گئی تھی۔
عمران خان کی اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ پی ٹی آئی کے بانی پر 9 مئی کو تشدد کی سازش اور اس میں مدد دینے کا الزام ہے، تاہم، مبینہ جرم کے وقت عمران خان قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں تھے، لہٰذا ان کا تشدد میں ملوث ہونا ’ناممکن‘ تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواستیں مسترد کرنے پر، تازہ اپیل میں کہا گیا کہ عدالت نے ’انجینئرڈ اور جعلی شواہد‘ پر انحصار کیا، جن میں پولیس افسران کے پرانے، ناقابلِ اعتبار اور تاخیر سے دیے گئے بیانات شامل ہیں۔
اپنے تفصیلی فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید شہباز علی رضوی اور جسٹس طارق محمود باجوہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے مشاہدہ کیا کہ استغاثہ کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جو 9 مئی کو عمران خان کے تشدد میں کردار کو ظاہر کرتے ہیں، جو ان کی گرفتاری کے بعد شروع ہوا تھا۔
بینچ نے 2 پولیس افسران اور استغاثہ کے گواہوں کے بیانات نقل کیے، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خفیہ طور پر پی ٹی آئی کے اجلاسوں میں شرکت کی، جہاں عمران خان نے مبینہ طور پر دیگر رہنماؤں کو ہدایت دی کہ اگر انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا جائے تو فوجی تنصیبات پر حملہ کیا جائے۔
یہ اجلاس مبینہ طور پر 4 مئی کو چکری، راولپنڈی کے ایک ریسٹ ایریا میں اور 7 تا 9 مئی 2023 کو عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ لاہور میں منعقد ہوئے تھے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جشنِ آزادی کی تقریب و سیمینار مؤخر پشاور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈرز کی تقرری روک دی علاقہ چھوڑنے سے انکار، باجوڑ اور خیبرمیں فتنہ الخوارج کیخلاف کارروائی کا فیصلہ ژوب میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، 4روز میں بھارتی حمایت یافتہ 50 خوارج ہلاک پاکستان اور ٹرمپ حکومت کی بڑھتی قربت نے بھارت کی تشویش میں اضافہ کردیا، فنانشل ٹائمز امریکا اور چین میں تجارتی جنگ 90 روز کے لیے مؤخر، بھاری ٹیرف کا خطرہ ٹل گیا سعودی عرب سمیت 24ممالک میں 15ہزار 953پاکستانیوں کے قید ہونے کا انکشافCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم