سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن پراپرٹیز نیلامی کیس کی سماعت ملتوی
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن پراپرٹیز نیلامی کیس کی سماعت چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں بینچ نے سننے سے انکار کرتے ہوئے کیس پرانے بینچ کو بھیج دیا۔
یہ بھی پڑھیں:بحریہ ٹاؤن پشاور: کیا 60 ہزار لوگوں کے پیسے ڈوبنے کا خدشہ ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا یہ کیس پرانا بینچ ہی سنے۔
سماعت کے دوران وکیل بحریہ ٹاؤن نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آچکا ہے، جس پر وہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اضافی معروضات جمع کرائیں گے۔
عدالت نے اضافی معروضات جمع کرانے کی اجازت دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بحریہ ٹاؤن بحریہ ٹاؤن نیلامی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بحریہ ٹاؤن بحریہ ٹاؤن نیلامی چیف جسٹس یحیی آفریدی سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن
پڑھیں:
سپریم کورٹ: پولیس کے ہاتھ کاکڑ آگیا، سزا چرس پر نہیں بیوقوفی پر ہونی چاہیے، جسٹس ہاشم کاکڑ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ سپریم کورٹ میں آج منشیات اسمگلنگ کیس کی سماعت کے دوران غیر روایتی اور دلچسپ مکالمے سامنے آئے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مجرم ظفراللہ کی اپیل پر سماعت کر رہا تھا۔
ملزم ظفراللہ پر الزام ہے کہ اس کے قبضے سے 12 کلو چرس برآمد ہوئی تھی جس پر اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ابتدا میں جب عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم کا تعلق ”کاکڑ“ قومیت سے ہے تو جسٹس ہاشم کاکڑ نے برجستہ کہا کہ ملزم کاکڑ ہے تو کیا ہوا، میرا کون سا واقف کار ہے! اس پر عدالت میں موجود افراد مسکرا اٹھے۔
بعدازاں سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم پیدل ہی 12 کلو چرس لے کر جا رہا تھا۔ یہ سن کر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ہنستے ہوئے کہا کہ پھر تو سزا چرس پر نہیں بلکہ بے وقوفی پر ہونی چاہیے تھی! اس جملے پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ملزم کے وکیل نے مو ¿قف اپنایا کہ برآمدگی کرنے والا پولیس افسر ہی تفتیشی افسر بنا، اور وہی چرس فرانزک کے لیے بھی لے گیا۔
جس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے طنزیہ کہا کہ پولیس والے کے ہاتھ ایک کاکڑ آگیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید ریمارکس دیے کہ “یہ تو پولیس والے کا ون مین شو لگتا ہے”۔ ریکارڈ کے مطابق، اس وقت تھانے میں دو انسپکٹر مزید موجود تھے، لیکن تفتیش ایک ہی افسر کو سونپی گئی۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مجرم ظفراللہ کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔