ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
بجٹ کی سالانہ رسم سے عوام کی دلچسپی ہر گزرتے سال کم ہوئی ہے۔ جو تھوڑی بہت دلچسپی باقی ہے، وہ بھی اس یقین کی تشفی کے لیے ہے کہ بجٹ میں کہیں کوئی بھولا بھٹکا ریلیف تو نہیں آن گھسا، یا کوئی ایسی تبدیلی تو بھول چوک سے شامل نہیں ہوگئی جس سے خلق خدا کو اشرافیہ کے شکنجے سے کچھ آسودگی میسر ہو۔شہر اقتدار میں اقتدار پر متمکن چہرے بدلے، سیاسی جماعتیں بدلیں، بیانئے بدلے لیکن بجٹ ترجیحات اور اشرافیہ کا مزاج ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والا ہی رہا۔
نئے سال کا یہ بجٹ بھی حسب معمول ’’ تاریخی‘‘ تھا، قومی اسمبلی میں منظوری سے قبل سوچی سمجھی عجلت میں کئی ترامیم جھٹ سے پیش ہوئیں اور کھٹ سے منظور ہوئیں۔ حسب معمول اپوزیشن کی تمام تجاویز رد کردی گئیں۔ یوں پارلیمانی نظام میں بجٹ سازی کا عمل مکمل ہو گیا، اللہ اللہ خیر صلا۔
لاہور کے ایک پالیسی ڈائیلاگ فورم، لاہور گورننس فورم ، نے گزشتہ ہفتے وفاقی بجٹ پر گفتگو کے لیے ایک محفل کا اہتمام کیا۔ معروف اکانومسٹ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری نے بجٹ کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔ خلاصہ یہ تھا کہ بجٹ کا سال اور نام تبدیل ہوا ہے لیکن وسائل کے حصول اور اخراجات کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
حسب معمول قرضوں کی ادائیگی اور سود سب سے بڑے قومی اخراجات ہیں۔ اس کے بعد ڈیفنس ، انتظامی اخراجات، پینشن اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کو جگہ ملی۔ آئی ایم ایف کی ہدایات اور سخت شرائط کے نتیجے میں مجموعی معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں لیکن اس کی بھاری کی قیمت جی ڈی پی گروتھ کی صورت میں ادا کرنی پڑی ہے۔ معاشی ڈھانچے میں کسی بھی قسم کی جوہری تبدیلی کا اشارہ حالیہ بجٹ سے نہیں ملتا۔
میکرو ایکنامک اشاریوں پر توجہ اپنی جگہ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر معیشت کے پیداواری شعبوں میں پیداواری صلاحیت بڑھانے، نئی انویسٹمنٹ اور نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم کرنے کے منصوبوں کی از حد ضرورت ہے۔
ڈاکٹر احسن رانا جو ایک معروف نجی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ حکومت براہ راست ٹیکسز بڑھانے میں یا تو ناکام رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹیکس ریونیو میں بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح مسلسل بڑھی ہے۔ ان کی ایک تخصیص یہ ہے کہ وہ حکومتی نظام کا ایک اہم کل پرزہ رہے لیکن بعد میں لکھنے پڑھنے سے شغف پال لیا۔ پی ایچ ڈی کی اور سرکاری نوکری تج کر یونیورسٹی تدریس کو اپنا لیا۔
انھوں نے پاکستان کے معاشی نظام پر ایک وقیع اور منفرد تحقیقی کتاب ’’ ہیں کواکب کچھ… سرمایہ دارانہ فلاحی نظام، مفروضے اور حقائق‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ محنت کش طبقات کی فلاح اور معاشی نظام میں ان کے لیے سکڑتی ہوئی ترجیحات ان کی تحقیق کا مستقل موضوع ہیں۔
اپنے تحقیقی کام کی مناسبت سے انھوں نے بجٹ میں کئی نکات کی نشاندہی کی جن کی وجہ سے موجودہ معاشی نظام فرسودہ ہو چکا ہے اور عام آدمی کے لیے ریلیف کے قابل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں موجودہ معاشی نظام آئی ایم ایف کی شرائط اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا پرتو ہے جس میں محنت کش طبقات کی شنوائی نہ ہونے کے برابر ہے، مقتدر اشرافیہ گاہے دھڑلے سے مفادات اور فوائد سمیٹنے کے چلن پر کاربند ہے۔ حالیہ بجٹ اسی چلن کا تسلسل ہے۔
اس موقعے پر ان کی کتاب ’’ ہیں کواکب کچھ‘‘ (پبلشر بک کارنر جہلم) کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور محنت کش طبقات کے مابین کشمکش کو سمجھنے اور ممکنہ حل کے تلاش میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر احسن رانا کے نزدیک سرمایہ دارانہ معاشروں میں موجود نام نہاد فلاحی نظام روایتی ’’خراج‘‘ کی دوسری شکل ہے، تاہم محروم طبقات سے ٹیکس کی صورت میں یہ خراج وصول کر کے اشرافیہ اس کا بڑا حصہ اپنی شاہ خرچیوں ، مراعات اور سہولتوں پر صرف کرنے پر کمر بستہ رہتا ہے لیکن محنت کش طبقات کو رعایت دینے پر آمادہ نہیں۔
ان کی یہ تصنیف پاکستان کے فلاحی نظام کے اندرونی تضادات، ناانصافیوں اور کجیوں کی ایک چشم کشا داستان ہے۔ یہ کتاب اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ پاکستان کے کروڑوں عوام کو آج جس درجہ درماندگی اور زبوں حالی کا سامنا ہے اس کا سبب تقدیر کا جبر یا دستیاب وسائل کی کمی نہیں بلکہ ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کے لوٹ مار اور چیرہ دستیوں میں پنہاں ہے۔ان کے بقول پاکستان کے صنعت کاروں ، بڑے تاجروں، بڑے ذمینداروں، سیاست دانوں، حکمرانوں اور محنت کشوں کے بل پر پھلنے پھولنے والے مراعات یافتہ یہ گروہ ہمارے پیداواری عمل اور اس کے ثمرات کی تقسیم کے نظام کو مکمل طور پر یرغمال بنا چکا ہے۔
ایک معروف دانشور ایوان الیچ کے بقول اگر آپ کسی معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو نیا اور متبادل بیانیہ تخلیق کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر احسن رانا کی یہ انتہائی اہم اور پر مغز کتاب پاکستان کے بارے میں اسی متبادل بیانیے کی ایک کامیاب کاوش ہے۔ مصنف کے بقول یہ کتاب اردو میں لکھنے کے کئی سبب ہیں۔
ان کے بقول اس موضوع پر اردو میں کتابیں بہت کم لکھی گئی ہیں۔1980 کی دہائی تک اردو میں سنجیدہ مباحثے کی شاندار روایت قائم رہی جس میں سجاد ظہیر ، سبط حسن اور علی عباس جلال پوری جیسے کئی بڑے لکھنے والے شامل تھے۔ ان کی تحریروں نے کئی نسلوں کی فکری آبیاری کی لیکن 1990 اور بعد کی دہائیوں میں ہونے والی تیز رفتار عالمگیریت میں جہاں اور بہت کچھ بہہ گیا وہاں اردو میں سنجیدہ مباحثے کی روایت بھی کمزور پڑ گئی۔ ڈاکٹر احسن رانا کے بقول سرمایہ دارانہ فلاحی نظام جیسے ثقیل موضوع پر تالیف کے لیے اردو کو ترجیح دے کر یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ اردو زبان میں سنجیدہ فکری بحث اس دور میں بھی نہ صرف ممکن ہے بلکہ لازم ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر احسن رانا سرمایہ دارانہ محنت کش طبقات فلاحی نظام پاکستان کے کے بقول کے لیے
پڑھیں:
اردو یونیورسٹی کے ریٹائرڈ ملازمین و سول سوسائٹی کا مشترکہ اجلاس
کراچی (نیوزڈیسک)وفاقی اردو یونیورسٹی کے ریٹائرڈ اساتذہ، ملازمین کی کمیٹی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے مشترکہ اجلاس نے صدرِ پاکستان اور یونیورسٹی کے چانسلر کی جانب سے ڈپٹی چیئر سینیٹ کو عہدے سے برطرف کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
اجلاس میں منظور کی گئی قرار داد میں مطالبہ کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کی سینیٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے عدالت سے سزا یافتہ وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ اور کرپشن کے سنگین الزامات کی روشنی میں عہدے سے برطرف کیا جائے۔
قرار داد کے مطابق وائس چانسلر نے سابق ڈپٹی چیئر سینیٹ کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس بلا کر اپنے لیے خلافِ ضابطہ بھاری تنخواہ کی منظوری حاصل کی اور کم ترین تعلیمی اہلیت رکھنے والے افراد کو اہم انتظامی عہدوں پر تعینات کیا۔
وفاقی وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے وائس چانسلر کے خلاف جاری تحقیقات کے دوران سینیٹ کا اجلاس طلب نہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
اجلاس کی صدارت سینئر صحافی سہیل سانگی نے کی، جبکہ ڈاکٹر توصیف احمد خان، مسعود احمد، کے یو جے کے طاہر حسن، انسانی حقوق کمیشن کے قاضی خضر، اردو یونیورسٹی کی رکن سینیٹ مہناز رحمان اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر ریاض شیخ اور صحافی و تجزیہ نگار عزیز سنگور اور دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ وائس چانسلر کے مختصر دورِ انتظام میں جامعہ کا تعلیمی اور مالی بحران سنگین ہوگیا ہے۔ اساتذہ اور ملازمین کو تین ماہ سے تنخواہیں جاری نہیں کی گئیں جبکہ ہاؤس سیلنگ کی ادائیگی 15 ماہ سے رکی ہوئی ہے۔ میڈیکل سہولیات بھی مخصوص افراد تک محدود کر دی گئی ہیں۔
گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کی جانب سے خواتین اساتذہ کو ہراساں کرنے اور سنگین مالی بےضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی۔ کمیٹی نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ وفاقی وزارت کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باوجود وائس چانسلر نے بڑی تعداد میں بین الاقوامی دورے کیے۔
وائس چانسلر کے دور میں ریٹائرڈ اساتذہ و ملازمین کو کئی ماہ سے پینشن ادا نہیں کی گئی جبکہ 2017 کے بعد سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو بقایاجات بھی ادا نہیں کیے گئے۔
قرار داد میں یہ بھی کہا گیا کہ جامعہ کی خواتین اساتذہ اور طالبات وائس چانسلر کے پدر سری رویے کا نشانہ بن رہی ہیں اور خواتین کے تحفظ کی عدالت نے انہیں ہراسانی کا مرتکب قرار دیا ہے۔