پاکستان اور چین نے جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ایک نئی علاقائی تنظیم کے قیام پر سنجیدہ غور و فکر شروع کر دیا ہے، جو ممکنہ طور پر غیر فعال جنوبی ایشیائی تعاون کی تنظیم (SAARC) کی جگہ لے سکتی ہے۔ باخبر سفارتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان اس تجویز پر مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔

ایکسپریس ٹربیون کے مطابق دونوں ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خطے میں تجارتی و اقتصادی روابط اور بین الاقوامی تعاون کے فروغ کے لیے ایک نئی، فعال اور غیر متنازع پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے 19 جون کو چین کے شہر کن منگ میں پاکستان، چین اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک سہ فریقی سفارتی اجلاس منعقد ہوا، جسے اس ممکنہ تنظیم کی ابتدائی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا مقصد سارک کے رکن ممالک، بالخصوص سری لنکا، مالدیپ اور افغانستان کو نئی تنظیم میں شامل ہونے کی دعوت دینا تھا، تاہم بھارت کی شمولیت کے امکانات انتہائی کم ہیں کیونکہ اس کے مفادات اس علاقائی رجحان سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ’سارک‘ کے احیا پر تبادلہ خیال

خیال رہے کہ سارک تنظیم گزشتہ ایک دہائی سے عملی طور پر غیر فعال ہے۔ آخری سربراہی اجلاس 2014 میں ہوا تھا جبکہ 2016 میں اسلام آباد میں مجوزہ سربراہی اجلاس بھارت کے بائیکاٹ اور بنگلہ دیش کی عدم شرکت کے باعث منسوخ ہو گیا تھا۔

حالیہ دنوں میں بھارت نے سارک کے تحت پاکستانی تاجروں کو جاری کیے جانے والے خصوصی ویزوں کا سلسلہ بھی معطل کر دیا ہے، جس سے تنظیم کی ساکھ کو مزید دھچکا لگا ہے۔

سفارتی مبصرین کے مطابق نئی علاقائی تنظیم میں ان ممالک کو شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو چین کے ساتھ قریبی اقتصادی و سفارتی روابط رکھتے ہیں اور خطے میں مشترکہ ترقی کے خواہاں ہیں۔ بھارت کے برعکس، یہ ممالک عالمی سطح پر متوازن تعاون کو ترجیح دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاک بھارت مسائل کے باوجود سارک کو فعال کرنا ممکن ہے، ڈاکٹر یونس

مبصرین کے مطابق بھارت نہ صرف اس نئی ممکنہ تنظیم سے فاصلہ رکھے گا بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے دیگر علاقائی پلیٹ فارمز سے بھی اس کی دوری بڑھ رہی ہے، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی حالیہ 2 سربراہی اجلاسوں میں شریک نہیں ہوئے۔

یاد رہے کہ ایس سی او کو چین اور روس کی موجودگی کے باعث مغرب کے مقابلے میں ایک تزویراتی بلاک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جبکہ بھارت اس نظریے سے بظاہر اختلاف رکھتا ہے۔

نئی علاقائی تنظیم کے قیام کی صورت میں، سارک جو کبھی جنوبی ایشیا کا ’یورپی یونین‘ کہلایا کرتا تھا، مکمل طور پر ماضی کا حصہ بن جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

SAARC SCO بنگلہ دیش بھارت پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک چین علاقائی تنظیم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بنگلہ دیش بھارت پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک چین علاقائی تنظیم علاقائی تنظیم بنگلہ دیش کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

1971کی جنگ میں بھارت کا مکتی باہنی دہشت گردوں کے ذریعے گھناؤنا اور شرمناک کردار

سن 1965ء کی جنگ میں پاک فوج کے ہاتھوں عبرتناک شکست کے بعد بھی بھارت نے اپنی مکارانہ سازش کو جاری رکھا۔

بھارت نے ریاستی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو تقسیم کرنے کی بہیمانہ سازش کی اور نوجوان بنگالیوں کی ذہن سازی کر کے انھیں مغربی پاکستان کے خلاف اُکسانا شروع کیا۔ پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے بھارت نے مکتی باہنی دہشتگرد گروہ کو زیرِ تسلط کیا۔

پاکستان کے خلاف مکتی باہنی دہشت گردوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔

مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے پاکستان آرمی اور محب وطن بنگالیوں کا اتحاد توڑنے اور پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں شروع کیں۔

بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مکتی باہنی دہشت گردوں نے ہزاروں محب وطن پاکستانیوں کو شہید کیا۔ مکتی باہنی دہشت گردوں میں شامل بڑی تعداد ہندوؤں کی تھی۔

ہندو بنگالیوں نے بھارت کی مسلم دشمن سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے مشرقی پاکستان میں لاتعداد مسلمانوں کو شہید کیا۔

مکتی باہنی کی تشکیل اور بھارتی حکومت کی جانب سے اس کے گوریلا کارندوں کو دی گئی فوجی و انٹیلی جنس مدد ایک معروف تاریخی حقیقت ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارتی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کولکتہ میں رمیشورناتھ کاؤ کی زیر نگرانی کنٹرول ہیڈ کوارٹرز قائم کیا گیا۔

مکتی باہنی کے دہشتگردوں کی ٹریننگ کے لیے 6 مختلف ٹریننگ سینٹرز تشکیل دیے گئے اور ہر ٹریننگ سینٹر بھارتی فوج کے بریگیڈیئر کے زیر کمان تھا، ان تمام 6 کیمپوں میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب مکتی باہنی کے دہشتگردوں کو تربیت فراہم کی گئی۔

اس کے علاوہ 800 مکتی باہنی کے افسران کو باقاعدہ طور پر ’’انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون‘‘ میں تربیت فراہم کی گئی۔ علاوہ ازیں، 600 مکتی باہنی کے دہشتگردوں کو مشرقی پاکستان کی مختلف بندرگاہوں پر حملے کا ٹاسک بھی دیا گیا۔

بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران سول کپڑوں میں مکتی باہنی دہشتگردوں کے ساتھ آپریشنز میں شریک اور ہدایات دیتے رہے۔ مکتی باہنی کے دہشتگرد حملوں میں مشرقی و مغربی پاکستان کے ہزاروں بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے شہید ہوئے۔

متعلقہ مضامین

  • 1971کی جنگ میں بھارت کا مکتی باہنی دہشت گردوں کے ذریعے گھناؤنا اور شرمناک کردار
  • شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی تعاون کو فروغ دینے کیلیے اچھی پوزیشن میں ہے‘ اسحق ڈار
  • حکومت نجی شعبے کی شمولیت کے لیے پرعزم ہے: محمد اورنگزیب
  • ماسکو :ایس سی او اجلاس ، اسحٰق ڈار کی روسی صدر سے ملاقات
  • بھارتی آرمی چیف کا بیان نظرانداز نہیں کر سکتے، بھارت حملہ کر سکتا ہے: خواجہ آصف
  • این اے 104سے صاحبزادہ حامد رضا حقیقی نمائندے ہیں، الیکشن کمیشن کا جاری شیڈول منسوخ کیا جائے، سنی اتحاد کونسل
  • بنگلہ دیش میں انصاف کی فتح‘ بھارت کے علاقائی تسلط کی ناکامی 
  • پچھلی جنگ صرف ٹریلر تھا فلم ابھی باقی ہے، بدترین رسوائی کے بعد بھارتی آرمی چیف کی بڑھک
  • سعودی ولی عہد امریکا کے دورے پر روانہ؛ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدوں کا امکان
  • بھارتی اپوزیشن کا حکومت پر بہار الیکشن میں 14 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کا الزام