Jasarat News:
2025-07-01@18:28:29 GMT

گاڑی کی بیک ونڈو کی ان لکیروں کا کیا مقصد ہوتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

گاڑی کی بیک ونڈو کی ان لکیروں کا کیا مقصد ہوتا ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گاڑی کے پچھلے شیشے (رئیر ونڈ شیلڈ) پر باریک باریک لکیریں کیوں بنی ہوتی ہیں؟ یہ صرف سجاوٹ کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ ایک نہایت کارآمد اور تکنیکی مقصد کے تحت لگائی جاتی ہیں۔

یہ باریک لکیریں درحقیقت ڈی فروسٹر یا ڈی فوگر لائنز کہلاتی ہیں جو سردیوں میں شیشے پر جمنے والی دھند یا برف کو پگھلانے میں مدد دیتی ہیں۔ ان لائنز میں بجلی دوڑتی ہے جو گرمائش پیدا کرتی ہے، جس سے شیشہ صاف رہتا ہے اور ڈرائیور کو پیچھے کا منظر واضح دکھائی دیتا ہے۔

یہ لائنز گرمیوں میں بھی کام آتی ہیں، خاص طور پر جب ہوا میں نمی زیادہ ہو اور شیشہ اندر سے دھندلا جائے ایسے میں یہ نمی کو خشک کرکے شیشے کو صاف رکھتی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لکیریں خاص قسم کی دھاتی تاریں ہوتی ہیں جو شیشے پر لگی ہوتی ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ فرنٹ ونڈ شیلڈ پر یہ لائنز کیوں نہیں ہوتیں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر سامنے کے شیشے پر یہ تاریں لگائی جائیں تو وہ ڈرائیور کے ویژن میں رکاوٹ بن سکتی ہیں اور حادثے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے، اس لیے صرف پچھلے شیشے پر ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

درد اور دردکش داوئیں

ایک سروے کے مطابق پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں سب سے زیادہ دوائیں بکتی ہیں اور ان میں سب سے زیادہ دوائیں وہ ہوتی ہیں جو دردکش یعنی پین کلر کہلاتی ہیں۔ وجہ تو ظاہر ہے لیکن اس ملک میں کبھی حکومت نام کی چیز آئی ہی نہیں ہے کیونکہ ’’پالیسیاں‘‘ حکومتیں بناتی ہیں جب کہ یہاں گینگز آتے ہیں اور اپنی اپنی گھٹڑیاں باندھ کر۔ اور مونہوں کو دسترخوان پر بٹھا کر چلے جاتے ہیں۔

اور ہمیں ’’مال غنیمت‘‘ ہونے سے شاید ہی کبھی نجات ملے لیکن ہمیں اس ’’درد‘‘ پر بات کرنا ہے جو پاکستانیوں کو لاحق ہے اور جس کے لیے یہ اتنی پین کلر کھائی جاتی ہیں حالانکہ درد کوئی مرض یا زحمت نہیں بلکہ خدا کی بہت بڑی ’’نعمت‘‘ ہے۔ یہ انسانی جسم میں خطرے کی گھنٹی یا ایک طرح فائر الارم ہوتا ہے، یہ انسان کو خبردار کرتا ہے کہ تمہارے جسم کے قلعے میں چور یا ڈاکو یا دشمن گھس آیا ہے، کچھ کرو، اس سے پہلے کہ وہ تمہیں نقصان پہنچائے۔

گویا مجرم وہ خبر دینے والا نہیں ہم ہیں یا پین کلر ہیں اور درد ہمارا دوست ہوتا ہے، یہ حقیقت اس کے نام سے ظاہر ہے ’’کلر‘‘ یعنی مارنے والا وہ بھی ہمارے چوکیدار کو۔ کہتے ہیں کوئی شخص شکار پر نکلا تھا، اس کے ساتھ اس کا پالا ہوا ایک پرندہ بھی تھا، ایک جگہ اسے پیاس لگی تو ایک رستے والے چشمے سے پانی پینے لگا لیکن جب بھی وہ چلو میں پانی اٹھاتا، پرندہ جھپٹا مار کر پانی گرا دیتا، کئی بار ایسا کرنے پر اسے غصہ آیا اور تیر مارکر اس پرندے کو مار ڈالا۔ اب یہ تو مشہور بات ہے کہ انسانی دماغ میں غصے اور عقل کی بیک وقت رہائش ممکن نہیں، غصہ آئے تو عقل چلی جاتی ہے اور غصہ چلا جاتا ہے تو عقل آجاتی ہے، اس کا بھی غصہ چلا گیا تو عقل آگئی، سوچنے لگا آخر یہ اتنا ہوشیار، تابعداد اور سدھایا ہوا پرندہ ایسا کیوں کر رہا تھا۔

وہ چشمے کے ساتھ ساتھ اوپر گیا تو وہاں ایک بہت ہی بڑا اور زہریلا سانپ چشمے میں مردہ پڑا تھا اور اس کے منہ سے زہر نکل کر پانی میں شامل ہو رہا تھا، ہم بھی’’درد‘‘کے پرندے کو بلا سوچے مار دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ قدرت نے ہمارے جسم میں یہ ’’خیرخواہ‘‘ رکھا ہی اس لیے ہے کہ ہمیں خطرے سے خبردار کرے اور ہم خطرے کا تدارک کریں۔

یہ انسانی جسم دراصل ایک حکومت یا ریاست ہے جس پر دماغ کی حکمرانی ہے، یہ دماغ سے ایک سفید سی چیز نکل کر کمر کی شہتیر میں آخر تک گئی ہوتی ہے پھر اس سے کمر کے ہر جوڑ میں پتلے پتلے سفید اعصاب پورے جسم میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں، سر سے لے کر پیر کی انگلیوں، ناخونوں اور تمام خلیات میں یہ اعصابی جال بچھا ہوا ہوتا ہے، ہر ہر حرکت کا حکم بھی دماغ سے صادر ہوکر پہنچتا ہے۔

ایک انگلی بھی دماغ کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتی اور جب جسم میں کوئی ٹوٹ پھوٹ، کوئی مرض، کوئی بے قاعدگی پیدا ہوتی ہے تو اس کی خبر بھی دماغ کو یہی اعصاب پہنچاتے ہیں اور دماغ درد کے ذریعے اس کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہاتھ پیر یا کوئی عضو فالج زدہ ہوجاتا ہے تو وہاں مواصلات کا یہ سلسلہ بھی کٹ جاتا ہے اور اس عضو یا جگہ کوئی درد محسوس نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر اس جگہ پر چوٹ لگاکر معلوم کرتے ہیں کہ اس عضو کا رابطہ دماغ سے قائم ہے اور اگر یہ رابطہ کٹ چکا ہو تو وہ جگر یا عضو بغیر کے سڑنے لگتا ہے، جزام اور گنگرین میں ایسا ہوتا ہے یا بے جان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جب جسم میں کسی مقام پر کوئی بیماری پیدا ہوتی ہے، اس مواصلاتی نظام کے ذریعے دماغ کو اطلاع دی جاتی ہے اور دماغ وہاں کی خبر درد کی شکل میں اظہار کردیتا ہے، ایسے مواقع پر اکثر لوگ کسی سے رجوع کرنے کے بجائے خود سے یا کسی سے پوچھ یا دوا فروش کے مشورے پر پین کلر دوا لیتے ہیں۔

جو آج کل حکومت کی مہربانی سے کریانے کی دکانوں اور کیبنوں، ریڑھیوں پر بھی دستیاب ہیں، گولیاں فوراً اثر کردیتی ہیں لیکن وہ درد کو ختم نہیں کرتی بلکہ دماغ اور درد کے درمیان سلسلہ مواصلات کو مفلوج کردیتی ہے، درد بدستور قائم ہوتا ہے لیکن دماغ تک اس کی اطلاع نہیں پہنچتی، یہی سلسلہ بخار کا بھی، بخار اور درد دونوں ہی خود مرض نہیں ہوتے بلکہ بیماری کے سائرن ہوتے ہیں۔

مرض جاری رہتا ہے بڑھتا رہتا ہے اور مریض پین کلر کھا کر خود کو اس سے بے خبر رکھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اس دارالمسائل ملک میں علاج معالجہ اتنا مشکل اتنا ناقابل برداشت مہنگا کردیا گیا ہے اور یہ مسیحائی کا فن شریف اتنا زیادہ کمرشلائز کردیا گیا ہے کہ لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے سے گھبراتے ہیں، کھاتے پیتے اور فارغ البال لوگ تو اس یفت خوان کو سر کرلیتے ہیں لیکن جسے کھانے کو میسر نہیں وہ پرائیوٹ ’’ماہرین‘‘ کے پاس جانے کے بجائے موت کو ترجیح دے دیتے ہیں کہ کم از کم لواحقین تو اس تباہی سے بچ جائیں جو بیماریاں پالنے پوسنے والے ڈاکٹروں کے ہاتھوں ہونے ہوتی ہیں ان کی فیسوں، ٹیسٹوں، لیبارٹریوں اور ایکسرے۔

اور اس کے بعد ایک بھاری بھر کم پریسکرپشن کی شکل میں ہوتی ہے، ہم نے مزاحیہ طور پر کسی کالم میں یہ چٹکلہ لکھا تھا کہ ڈاکٹروں اور دواساز اداروں نے آپس میں ایکا کرلیا ہے کہ اب کسی مریض کو ہم مرض سے مرنے نہیں دیں گے، علاج اور دواؤں سے ماریں گے۔ یہاں پر آپ کے ذہن میں سرکاری اسپتال اور صحت کارڈ وغیرہ بھی آسکتے ہیں لیکن یہاں ان کو روک کر روزانہ آنے والی ان خبروں پر دھیان دیجیے جن میں جعلی دواؤں اور کرپشن کی اطلاعات ہوتی ہیں جو سرکاری اسپتالوں کو سپلائی کی جاتی ہیں۔

یہاں ایک اور راز کی بات بھی آپ کو بتائیں کہ جعلی کمپنیوں اور نقلی دوائیوں کو تو ایک طرف کر دیجیے خود بڑی بڑی نامور اور مشہور مستند کمپنیاں بھی اپنی ہی دوائیوں کی دونمبر دوائیاں تیار کرتی ہیں جو زیادہ تر سرکاری اسپتالوں اور سیمپلز کی صورت میں پھیلائی جاتی یا بڑے ڈیلروں کو ان کا پتہ ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کا مقصد معیشت کو استحکام کی طرف لے جانا ہے، بلال اظہر کیانی
  • ججوں کو فیصلے کہیں اور سے مل رہے ہیں ، شاہد خاقان
  • سیکرڈ لیڈرشپ: قیادت کا نیا انداز
  • سی ڈی اے ، بقایاجات کی بروقت وصولی کیلئے ون ونڈو فیسلٹیشن سینٹر میں بہترین انتظامات ،شہریوں کی تعریف
  • دمے کا مرض ختم کیوں نہیں ہوتا؟
  • سنوڈونیا میں 13 سو 75 فٹ زیرزمین بنے ہوٹل کی دھوم
  • حکومت نے 285 اشیاء پر دوبارہ ڈیوٹی عائد کرنے کی منظوری دیدی : نجی ٹی وی کا دعویٰ
  • حکومت نے 285 اشیاء پر دوبارہ ڈیوٹیز عائد کرنیکی منظوری دیدی
  • درد اور دردکش داوئیں