سندھ حکومت کاعام تعطیلات کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
سٹی 42: سندھ حکومت نے 9 اور دس محرم الحرام کو عام تعطیل کا اعلان کردیا
5 اور 6 جولائی کو تمام تر سرکاری و نیم سرکاری ادارے بند رہیں گے ،بلدیاتی کائونسل اور باختیار اتھارٹیز میں بھی عام تعطیل ہوگی
محکم سروسز جنرل ایڈمنسٹریشنن وکو آرڈی نیشن نے نوٹی فکیشن جاری کردیا
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس: پشاورہائیکورٹ کےچیف جسٹس کیلئے جسٹس عتیق شاہ کا نام منظور
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
کراچی سمیت سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں کینسر کے علاج کی سہولت نہ ہونے کے برابر
کراچی سمیت سندھ کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں بریسٹ کینسر سمیت دیگر اقسام کے کینسر کے علاج کے لیے کوئی سہولت نا ہونے کے برابر ہے، کینسر کے مریضوں کو علاج کے لیے کسی بھی سرکاری سطح پر ون ونڈو کی سہولتیں بھی ناپید ہیں۔
بریسٹ کینسر کی ابتدائی تشخیص کے لیے کسی بھی سرکاری اسپتال میں میموگرافی کی بھی سہولت موجود نہیں، کراچی اور سندھ کی سطح پر بریسٹ کینسر سمیت کسی بھی اقسام کے کینسر کی کوئی رجسٹری بھی موجود نہیں اور نا ہی کینسر کے مریضوں کا مستند ڈیٹا دستیاب ہے۔
کراچی میں صرف جناح اور سول اسپتال میں کینسر یونٹ موجود ہیں لیکن یہاں آنے والے مریضوں کے لیے بہت محدود سہولت ہے، سول میں صرف کیموتھراپی کی سہولت موجود ہے جبکہ جناح اسپتال میں ریڈی ایشن کی سہولت موجود ہے جہاں پر مریضوں کو لمبی لمبی تاریخ دی جاتی ہے، سندھ میں خواتین میں بریسٹ جبکہ مردوں میں منہ کا کینسر سرفہرست ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا میں پاکستان بریسٹ کینسر میں سرفہرست ہے، اس وقت پاکستان میں خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح 40 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ دیہی علاقوں میں خواتین میں مختلف اقسام کے کینسر میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں ماوا گٹکے کے استعمال سے منہ کے کینسر میں 20فیصد، اووری کینسر کی شرح میں 14فیصد اور آنتوں کے کینسر میں 14فیصد اضافہ ہے۔
محکمہ صحت کے ماتحت کراچی سمیت صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں ریڈی ایشن تھراپی کے یونٹس موجود نہیں، جناح اسپتال اور کرن اسپتال میں ریڈی ایشن یونٹ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ماتحت ہیں۔ ریڈی ایشن کی سہولتیں کراچی کے دو سے تین نجی اسپتالوں میں موجود ہیں جہاں ریڈی ایشن تھراپی کے ایک سیشن پر 15 سے 20 ہزار روپے تک کے اخراجات آتے ہیں۔
محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے کراچی کے کسی بھی ضلعی اسپتال میں آنکالوجی او پی ڈی اور کینسر کے علاج کی کوئی سہولت میسر نہیں جبکہ طبی ماہرین کے مطابق کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سرکاری سطح میں کینسر کے علاج کی سہولیات نا ہونے کے برابر ہے، پاکستان اٹامک انرجی کے ماتحت چلنے والے جناح اسپتال میں ریڈی ایشن تھراپی یونٹ میں مریضوں کا شدید دباو ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو کئی کئی ماہ کی تاریخ دی جاتی ہے۔ طبی ماہرین نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کینسر سے بچاو کی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔
بریسٹ کینسر میں مبتلا ایک خاتون کے شوہر عامر نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں بریسٹ کینسر کے علاج کی کوئی سہولت موجود نہیں جبکہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں کینسر کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میری اہلیہ کو بریسٹ میں تکلیف اور گلٹی کی شکایت تھی، تاہم اس نے مجھے اس تکلیف کے بارے میں تاخیر سے بتایا جس پر میں نے سول اور جناح اسپتال رابطہ کیا جہاں پر نہ ہونے کے برابر سہولت تھی جبکہ خواتین مریضوں کے لمبی فہرست موجود تھی جس کے بعد میں نے اپنی اہلیہ کو پرائیویٹ اسپتال میں بریسٹ کینسر کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر روفینہ سومرو سے چیک کروایا جس کے بعد انہوں نے پہلا ابتدائی ٹیسٹ میموگرافی بتائی، اس ٹیسٹ کے بعد بائیوپسی کروائی جس پر بریسٹ کینسر کی تصدیق کی گئی۔
ڈاکٹر کے مطابق بریسٹ کینسر کے علاج کے لیے پہلے سرجری اور بعد میں کیموتھراپی کی جائے گی، انہوں نے بتایا کہ میں نے پہلے اپنی اہلیہ کی سرجری ایک نجی اسپتال سے کروائی اور اس کے بعد کیموتھراپی کے 17سیشن کروائے، کیموتھراپی کے ایک سیشن اور دیگر ٹیسٹ کے کل اخراجات 80ہزار روپے آئے، جس کے بعد میں نے کرن اسپتال رابطہ کیا جہاں پر کیموتھراپی کا ایک سیشن 40 ہزار روپے میں کروایا۔ اس طرح کیموتھراپی کے 17سیشن پر تقریبا 7 لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ اسی دوران دیگر ٹیسٹ و ادویات پر مجموعی طورپر 10 لاکھ روپے کے اخراجات آئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ نجی اسپتالوں میں ریڈی ایشن اور کیموتھراپی بہت مہنگی ہے جبکہ نجی اسپتالوں میں ریڈی ایشن کے مختلف چارجز لیے جاتے ہیں۔
پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا 70 سال محمد فرید نے بتایا کہ ایک سال قبل مجھے اس مرض کی تشخیص ہوئی، سرکاری اسپتالوں میں اس مرض کے علاج کے لیے رجوع کیا لیکن معلوم ہوا کہ صرف اس مرض کا علاج SIUT میں ہے، SIUT میں رابطہ کیا تو وہاں اس مرض کے مریضوں کی بڑی تعداد پہلے سے رجسٹرڈ تھی، مجھے 3 ماہ کا ٹائم دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس دوران میری تکلیف میں اضافہ ہوا جس پر میں نے کراچی کے ایک نجی اسپتال میں یورولوجسٹ سے رابطہ کیا جس پر انہوں نے سرجری کی اور سرجری کی فیس 2 لاکھ روپے لی جس کے بعد انہوں نے مجھے 6 کیموتھراپی سیشن کرانے کی ہدایت کی۔ کیموتھراپی کے لیے میں سول اور جناح اسپتال گیا لیکن وہاں پر یہ سہولت نہیں تھی جس کے بعد میں نے کرن اسپتال میں کیموتھراپی شروع کروائی جہاں پر ایک سیشن کے 40 ہزار روپے دیے۔
محمد فرید نے بتایا کہ کینسر اور دیگر پیچیدہ امراض کے علاج کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں، کینسر کا علاج غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہے، انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ جناح، سول اور سرکاری اسپتالوں میں ہر قسم کے کینسر کے علاج جس میں کیموتھراپی اور ریڈی ایشن تھراپی کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ کینسر کا پرائیویٹ علاج بہت مہنگا ہے، کراچی میں کینسر کے مریض علاج کروائے بغیر دم توڑ جاتے ہیں۔
ماہر انکالوجسٹ اور سول اسپتال شعبہ کینسر کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نور محمد سومرو نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد مختلف اقسام کے کینسر کے نئے مریض رپورٹ ہوتے ہیں، مردوں میں منہ، حلق جبکہ خواتین میں بریسٹ کینسر سرفہرست ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں ہماری تحقیق کے مطابق ہر سال 20ہزار سے زائد نئے کینسر کے مریض رپورٹ ہو رہے ہیں، یہ حتمی اعدادوشمار نہیں کیونکہ سرکاری سطح پر کینسر کے مریضوں کی رجسٹریشن کا کوئی نظام موجود ہی نہیں۔
ڈاکٹر نور نے بتایا کہ کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے اور کینسر کے 4 اسٹیج ہوتے ہیں، اگر ابتدائی طور پر کینسر کی تشخیص ہوجائے تو علاج ممکن ہوتا ہے، تاہم اسٹیج 4 پر کینسر کے مریضوں کا علاج بہت مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح 40 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے اور اس وقت پاکستان ایشیا میں بریسٹ کینسر میں سرفہرست ہے، خواتین میں اووری کینسر میں 14فیصد، اندرون سندھ میں خواتین میں گٹکے، ماوا کے استعمال سے 20 فیصد منہ کے کینسر میں بھی مبتلا ہیں جبکہ خواتین میں آنتوں کے کینسر میں 14فیصد رپورٹ ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں ہر 7 خواتین میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر میں مبتلا ہے۔
پروفیسر نور محمد سومرو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر کے ماہرین کی تعداد مریضوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، اس وقت پاکستان میں 70 انکالوجسٹ موجود ہیں۔
نور محمد سومرو نے بتایا کہ پاکستان میں کینسر علاج مہنگا ہونے کی وجہ سے غریب مریض متبادل ذرائع علاج تلاش کرتے ہیں جس میں حکمت اور دیسی طریقہ علاج بھی شامل ہے، کینسر کا بروقت علاج نا کیا جائے تو مریض جلد موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کینسر کا علاج تین طریقے سے ہوتا ہے جس میں سرجری، ریڈی ایشن اور کیموتھراپی شامل ہے۔ کیموتھراپی کے مختلف سیشن ہوتے ہیں جو مرض کی اسٹیج کے لحاظ سے طے کیے جاتے ہیں۔ تین، چھ، بارہ اور اٹھارہ سیشن شامل ہیں جبکہ ریڈی ایشن تھراپی کے بھی مرض کی نوعیت کے مطابق سیشن کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نور محمد سومرو نے بتایا کہ کیموتھراپی کی ادویات بہت مہنگی ہیں، مرض کی نوعیت کے لحاظ سے کیموتھراپی کی جاتی ہے، کیموتھراپی کا خرچہ ایک مریض پر 5لاکھ روپے تک آتا ہے۔
انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ کراچی سمیت صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں ریڈی ایشن تھراپی کے یونٹس موجود نہیں، جناح اسپتال اور کرن اسپتال میں ریڈی ایشن کی مشین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے لگائی ہیں، کراچی کے دو سے تین نجی اسپتالوں میں ریڈی ایشن کی سہولیات موجود ہیں جہاں ریڈی ایشن تھراپی کا ایک سیشن 15 سے 20 ہزار روپے تک کے اخراجات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جس انداز میں کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے اس لحاظ سے سرکاری سطح پر کینسر کے علاج کی سہولیات نا ہونے کے برابر ہے، جناح اسپتال میں ریڈی ایشن تھراپی پر مریضوں کا شدید دباؤ ہے جس کی وجہ سے ایسے مریضوں کو کئی کئی ماہ کی تاریخ دی جاتی ہے۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کینسر سے بچاو کی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔
واضح رہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحت ملک بھر میں کینسر کے 19 اسپتال قائم ہیں جن میں کیموتھراپی اور ریڈی ایشن کی سہولت موجود ہے۔ سندھ میں اٹامک انرجی کے تحت 5 کینسر کے اسپتال موجود ہیں جن میں کراچی میں کرن اسپتال اور جناح اسپتال کے احاطے میں بھی کینسر اسپتال موجود ہے، پرائیویٹ اسپتال کے مقابلے میں اٹامک انرجی کیمشن کے اسپتالوں میں کینسر کا علاج بہت سستا ہے۔
کرن اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسپتال میں کینسر کے مریضوں کا علاج دیگر اسپتالوں کے مقابلے میں بہت سستا ہے، کیموتھراپی اور ریڈی ایشن تھراپی کے مختلف پیکیج ہوتے ہیں، کیمو اور ریڈی ایشن کے مریضوں کے مرض کی نوعیت کے حوالے سے ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
حکام نے بتایا کہ اسپتال میں کینسر کا علاج نجی اسپتالوں کے مقابلے میں 70 سے 80 فیصد سستا کیا جاتا ہے۔ کیموتھراپی میں استعمال کیا جانے والا ایک انجکشن جو نجی اسپتالوں میں 25ہزار روپے میں لگایا جاتا ہے وہ انجکشن کرن اسپتال میں 70فیصد رعایت میں مریض کو لگایا جاتا ہے، علاج سستا ہونے کی وجہ سے کرن اسپتال میں مریضوں کا شدید دباؤ رہتا ہے۔
واضح رہے کہ کیموتھراپی میں استعمال ہونے والی تمام ادویات بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں، ان ادویات کی قیمتوں کا تعلق براہ راست ڈالر سے ہوتا ہے۔
سول اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر خالد بخاری نے بتایا کہ سول اسپتال کا کینسر یونٹ 44 بستروں پر مشتمل ہے۔ کینسر او پی ڈی میں یومیہ 100 سے زائد مختلف کینسر اقسام کے مریض رپورٹ ہوتے ہیں، ان میں سے 18 سے 20 خواتین بریسٹ سمیت اووری کینسر میں بھی رپورٹ ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا کہ سول اسپتال کینسر او پی ڈی میں ماہانہ کینسر کے مریضوں کی تعداد 2700 اور سالانہ 3 ہزار سے رپورٹ ہوتی ہیں، ان میں سے بیشتر مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جن کو ضرورت پڑنے پر مفت کیموتھراپی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ سول اسپتال میں گٹکے ماوا کھانے سے منہ کے کینسر کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر خالد بخاری نے بتایا کہ زیادہ تر کینسر کے مریضوں کا تعلق اندرون سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں سے ہوتا ہے، وہاں کی دیہی خواتین عام طور پر گٹکے ماوا کا زیادہ استعمال کرتی ہیں۔ ان کے منہ کے کینسر میں مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کینسر کا بہت مہنگا علاج ہوتا ہے، ایک کیموتھراپی اور خون کے ٹیسٹ کرنے پر ایک مریض کا خرچہ سرکاری سطح پر 40 ہزار سے زائد کا آتا ہے۔
جناح اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشین نے بتایا اسپتال کا کینسر یونٹ 52 بستروں پر مشتمل ہے۔ کینسر او پی ڈی میں یومیہ 172 سے 181 مختلف کینسر کے اقسام کے مریض رپورٹ ہوتے ہیں۔ ایک ماہ میں 3600 سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں۔ انھوں نے 2024 کے اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا کہ کینسر یونٹ میں 1253 مختلف کینسر کے مریضوں کو داخل کیا گیا تھا ان میں 146 کی اموات ہوئی تھی۔
دریں اثنا، جناح اسپتال میں اپنے معائنے کے لیے آنے والی 55 سالہ مریضہ ریحانہ نے بتایا کہ تین ماہ سے اپنے علاج کی غرض سے اسپتال کے چکر لگا رہی ہوں لیکن یہاں سفارشی مریضوں کو داخلہ دیا جاتا ہے، ہمیں کیموتھراپی کی ادویات بھی فراہم نہیں کی جاتی۔
ڈپٹی ڈائریکٹر صحت کراچی اور ماہر صحت عامہ ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی نے ایک سوال کے جواب میں بریسٹ کینسر سے متعلق بتایا کہ بعض فیملی میں یہ مرض جینٹک ہوتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں نوجوان لڑکیوں کے بریسٹ میں ابھار یا گلٹی ہو جائے تو وہ معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے گھر میں بتانے میں شرم محسوس کرتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ مرض آہستہ آہستہ بڑھتا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طبی نکتہ نگاہ سے جب بریسٹ کی شکل تبدیل ہونے لگے اور بریسٹ سے کوئی مودا نکلنے لگے تو یقیںا کینسر کی طرف جاتا ہے۔
ڈاکٹر غلام نبی نے کہا کہ اندروں سندھ غیر صحت مندانہ رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں خواتین ماوے گٹکے کھا رہی ہیں جس کی وجہ سے خواتین میں منہ اور گلے کا کیںسر بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
سرکاری اسپتالوں سول اور جناح اسپتال صوبے کے واحد اسپتال ہیں جہاں کینسر کے مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، محکمہ صحت کی کوشش ہے کہ ان سہولتوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔