مون سون میں سفید جوتوں کی حفاظت کیسے کریں؟ جانیے
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
فیشن صرف لباس تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کی شخصیت، انفرادیت اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
ایسے کئی فیشن آئٹمز ہیں جو وقت یا موقع کی پابندی سے آزاد ہوتے ہیں، اور ان میں سفید جوتے سرفہرست ہیں۔ چاہے وہ چمڑے کے ہوں، کینوس کے یا میش میٹیریل سے بنے ہوں، سفید جوتے ہر الماری کا لازمی جزو سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم، مون سون کے موسم میں ان کی صفائی اور چمک کو برقرار رکھنا ایک چیلنج بن جاتا ہے کیونکہ بارش، کیچڑ اور مٹی کے داغ ان کی خوبصورتی کو متاثر کرتے ہیں۔
اسی مسئلے کے حل کے لیے ایک آسان اور مؤثر ‘ڈو اِٹ یورسیلف’ (DIY) گائیڈ تیار کی گئی ہے جس میں گھریلو اشیاء کی مدد سے سفید جوتے صاف کرنے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ جوتے کے میٹیریل کی شناخت کی جائے تاکہ اس کے مطابق صفائی کا درست طریقہ اختیار کیا جا سکے اور کسی ممکنہ نقصان سے بچا جا سکے۔
اگر جوتے میش میٹیریل کے ہوں تو نیم گرم پانی میں چند قطرے برتن دھونے والا مائع شامل کر کے نرم برش یا پرانے ٹوتھ برش کی مدد سے جوتے آہستہ آہستہ صاف کیے جا سکتے ہیں۔ کینوس جوتوں کے لیے سفید ٹوتھ پیسٹ انتہائی مؤثر ہے؛ برش سے نرمی سے رگڑنے پر داغ صاف ہو جاتے ہیں۔ چمڑے کے جوتوں کی چمک بحال کرنے کے لیے سفید باڈی لوشن کا استعمال کریں؛ نرم کپڑے پر تھوڑی مقدار میں لوشن لگا کر جوتوں پر ہلکے ہاتھ سے پونچھیں، جوتے نئے جیسے دکھائی دیں گے۔
مزید یہ کہ کچھ جوتے ایسی بھی نوعیت کے ہوتے ہیں جنہیں واشنگ مشین میں دھونا ممکن ہوتا ہے، بشرطیکہ ان پر دی گئی ہدایات ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہوں۔ ایسی صورت میں مناسب سیٹنگ اور ہلکے ڈٹرجنٹ کا استعمال کرتے ہوئے مشین سے صفائی کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی قسم کا خدشہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ کسی ماہر کلینر سے مشورہ کیا جائے۔
ان سادہ اور آزمودہ طریقوں کو اپناتے ہوئے آپ نہ صرف بارش کے دنوں میں اپنے سفید جوتوں کی خوبصورتی کو برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اپنے انداز میں بھی پُر اعتماد انداز سے جلوہ گر ہو سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
معمر خاتون کے ریپ اور قتل کے 92 سالہ مجرم کو عمر قید کی سزا، 58 سال بعد انصاف کی جیت کیسے ہوئی؟
برطانیہ میں انصاف کی تاریخ میں ایک غیرمعمولی فیصلہ سامنے آیا ہے، جہاں ایک 92 سالہ شخص رائلنڈ ہیڈلی کو 58 سال پرانے ریپ اور قتل کیس میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ یہ واقعہ جون 1967 میں پیش آیا تھا اور اسے سرد خانے میں ڈالا گیا کیس تصور کیا جا رہا تھا جو کئی دہائیوں تک حل نہ ہو سکا۔
واقعے کی تفصیل75 سالہ لویسا ڈن کو برسٹل کے علاقے ایسٹن میں ان کے گھر میں ہلاک پایا گیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ خاتون کو پہلے ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گلا دبا کر ہلاک کیا گیا۔ اس وقت پولیس نے وسیع پیمانے پر تحقیقات کیں، جس میں 19,000 مردوں کے ہتھیلی کے نشانات لیے گئے، 1,300 بیانات قلمبند کیے گئے 8,000 گھروں کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تاہم، کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو سکا چنانچہ کیس بند کر دیا گیا۔
جدید ٹیکنالوجی کا کردار: 2023 میں کیس دوبارہ کھلاتقریباً 56 سال بعد، 2023 میں پولیس نے اس کیس کو دوبارہ کھولا۔ جدید فرانزک ٹیکنالوجی کی مدد سے مقتولہ کی اسکرٹ سے ڈی این اے حاصل کیا گیا، جو اس وقت کی ٹیکنالوجی سے ممکن نہ تھا۔
یہ ڈی این اے بعد ازاں رائلنڈ ہیڈلی کے ڈیٹا سے میچ ہوا، جو پہلے 1977 میں 2بزرگ خواتین کے ریپ میں سزا یافتہ رہ چکا تھا۔ اس میچنگ کے بعد، پولیس نے نومبر 2024 میں ہیڈلی کو گرفتار کر لیا۔
فیصلہ اور عدالتی ریمارکسبرسٹل کراؤن کورٹ نے 1 جولائی 2025 کو ہیڈلی کو ریپ اور قتل کا مجرم قرار دیا، اور اگلے دن عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جج ڈیریک سویٹنگ نے کہا:
’آپ نے ایک کمزور، معمر خاتون کے گھر میں گھس کر اس پر جنسی حملہ کیا، اور اس حملے کے دوران اسے بے رحمی سے قتل کیا۔ یہ ایک سفاکانہ اور بے رحم جرم تھا، جس میں انسانی وقار کا کوئی خیال نہ رکھا گیا۔‘
جج نے مزید کہا کہ مجرم کی عمر کے پیشِ نظر وہ اب جیل ہی میں اپنی زندگی کا اختتام کرے گا۔
پرانے شواہد کا دوبارہ جائزہعدالت کو بتایا گیا کہ پولیس نے 20 ڈبوں پر مشتمل پرانا مواد دوبارہ چھانا۔ ان میں سے ایک پرانے ہتھیلی کے نشان کو بھی جدید تکنیک سے جانچا گیا، جو مقتولہ کے گھر کی کھڑکی پر ملا تھا۔ 4 ماہرین نے اس نشان کو ہیڈلی سے میچ کیا۔
ماضی کے جرائم سے مماثلت نے مدد کیہیڈلی نے 1977 میں ایپسوچ کے علاقے میں 2 ضعیف خواتین کو ان کے گھروں میں گھس کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ متاثرہ خواتین میں ایک کی عمر 70 سال اور دوسری کی 80 سال سے زائد تھی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اگرچہ برطانیہ میں پرانے مقدمات از خود قابلِ قبول نہیں ہوتے، مگر ان جرائم میں غیر معمولی مماثلت نے قائل کیا کہ یہ شواہد قابل توجہ ہیں۔
انصاف کی راہ میں سست روی اور چیلنجزیہ فیصلہ اگرچہ پولیس اور استغاثہ کی عزم، محنت اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا مظہر ہے، تاہم برطانیہ میں ریپ کے مقدمات میں سزا کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے۔
2024 میں 71,227 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے صرف 2.7 فیصد کیسز میں فرد جرم عائد کی گئی۔ پولیس کو ملزم پر فرد جرم عائد کرنے میں اوسطاً 344 دن لگتے ہیں جبکہ عدالتوں کو کیس مکمل کرنے میں اوسطاً 336 دن لگتے ہیں۔
استغاثہ کا مؤقفکراؤن پراسکیکوشن سروس کی وکیل شارلٹ ریئم نے کہا ’ یہ فیصلہ ہماری مستقل مزاجی اور عزم کا ثبوت ہے کہ ہم انصاف کے حصول کے لیے وقت کی قید سے بالاتر ہو کر کام کرتے ہیں۔ یہ کیس ان ہزاروں متاثرین کے لیے امید کی کرن ہے، جنہیں برسوں سے انصاف نہیں ملا۔‘
دیر سے سہی، انصاف ہو گیایہ مقدمہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ انصاف میں دیر ہو سکتی ہے، لیکن اندھیر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ ایک مضبوط پیغام ہے کہ جرم خواہ جتنا پرانا ہو، سچ بالآخر سامنے آ کر رہتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، پیشہ ورانہ مہارت، اور عزم نے ایک 58 سال پرانے زخم پر مرہم رکھا، اور ایک مظلوم کو آخرکار انصاف ملا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ جرم و سزا