Express News:
2025-07-02@04:36:19 GMT

غریب خواتین کی کتھا کون سنے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

مریم نیا لیاری میں رہتی ہے۔ یہ بستی شاہراہِ پاکستان سے 18 کلومیٹر دور ہے جہاں کی آبادی کی اکثریت غریبوں پر مشتمل ہے۔ نیا لیاری سے کوئی بس نہیں چلتی۔ جب سے چین کے تیارکردہ چنگ چی رکشے چلنے شروع ہوئے تو اس بستی کے لوگوں کو ایک سواری کی سہولت مل گئی۔ چنگ جی میں بشمول ڈرائیور 8 سے 10 افراد سفرکرتے ہیں۔ نیا لیاری میں خواتین کی اکثریت مختلف نوعیت کے کام کرتی ہے۔

ان میں سے بیشتر عورتیں نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، شادمان ٹاؤن اور فیڈرل بی ایریا کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ چنگ چی کا کم از کم کرایہ 10 روپے اور زیادہ سے زیادہ کرایہ 110 روپے تھا۔ نئی بستی کی محنت کش عورتیںایسے رکشاؤں میں بیٹھ کر کام پر جاتی تھیں۔ چنگ چی رکشہ کے ڈرائیور صبح سے رات گئے تک کام کرتے ہیں۔ اس بناء پر کسی بھی وقت چنگ چی کے ذریعے سفرکیا جاسکتا تھا۔ حکومت سندھ نے اچانک چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کردی۔

نیا لیاری کے محنت کش اس سستی سواری سے محروم ہوگئے، نئی بستی تک کوئی بس نہیں جاتی۔ زیادہ تر بسیں اور منی بسیں نارتھ کراچی اور بفرزون تک جاتی ہیں۔ مرد تو کسی نہ کسی طرح موٹر سائیکل کے ذریعے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں مگر عورتوں کا واحد سہارا ایک منی بس رہ گیا ہے۔ یہ عورتیں منی بسوں میں لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔یوں ہر وقت حادثے کا خوف الگ سر پر سوار رہتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں مختلف سیاسی جماعتوں کی سرپرستی شروع کی تھی۔ شہری سندھ کی لسانی تنظیم کو بھی یہ سرپرستی حاصل ہوئی۔ اس تنظیم کے کارکنوں نے چنگ چی رکشہ کی حوصلہ افزائی شروع کی، یوں چنگ چی رکشہ بغیرکسی پرمٹ کے شہرکی سڑکوں پر دوڑتے ہوئے نظر آنے لگے۔چنگ چی الٹنے کے واقعات بڑھنے لگے۔

سندھ پولیس کی خفیہ برانچ نے تحقیقات کے بعد یہ رپورٹیں تیارکیں کہ شہر میں چوری شدہ موٹر سائیکلیں چنگ چی رکشہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہی رپورٹس بھی آئیں کہ کم عمر بچے اور جرائم میں ملوث افراد کی ایک بڑی تعداد ان رکشوں کو چلا رہی ہے۔ چند سال قبل حکومت سندھ نے چنگ چی رکشوں کے پبلک ٹرانسپورٹ کی حیثیت سے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ سندھ ہائی کورٹ کی مداخلت پر یہ پابندی ختم ہوئی۔ حکومت نے چنگ چی رکشوں کی رجسٹریشن شروع کی۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں 35 ہزار چنگ چی رکشے رجسٹرڈ ہیں۔

اسی طرح 10 سے 12ہزار غیر رجسٹرڈ رکشے سڑکوں پر روزانہ دوڑتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر کے 180 روٹس پر یہ رکشے چلتے تھے۔ ایک سروے کے مطابق چنگ چی رکشہ کے صرف 40 فیصد ڈرائیوروں کے پاس شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس ہیں، باقی 60 فیصد اپنے یا کسی دوسرے کے شناختی کارڈ کا سہارا لے کر چنگ چی رکشہ دوڑاتے ہیں۔ اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹو ں کے مطابق چنگ چی رکشہ ڈرائیوروں کی بڑی اکثریت کی عمر 18 سال سے کم ہے مگر کم عمر بچے پولیس عملے کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ چنگ چی رکشوں کے ڈرائیوروں کی اکثریت کا تعلق وسیب کے علاقے سے ہے۔ اب اندرونِ سندھ سے ڈرائیور بھی چنگ چی چلاتے نظر آتے ہیں۔

دیہی ثقافتی پس منظر کی بناء پر چنگ چی کے ڈرائیوروں کا مسافروں سے جھگڑے اور عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں عموماً سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔ چنگ چی کے ڈرائیور تربیت یافتہ نہیں ہیں، اس بناء پر حادثات کی شرح بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے مگر چنگ چی رکشوں کی اچانک بندش سے شہروں میں ایک بڑا بحران پیدا ہو رہا ہے۔ حکومت نے چنگ چی رکشوں کا متبادل طے کیے بغیر ان پر پابندی عائد کردی ہے۔

 کراچی کا شمار دنیا کے جدید اور عالمی معیار کے مطابق شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی پبلک ٹرانسپورٹ کے تناظر میں بہت پیچھے ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام خاصا جدید تھا۔ شہر کی مختصر سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بسیں اور ٹرام وغیرہ پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر چلتی تھیں۔

پرانے شہر میں ٹرام چلتی تھی۔ سرکلر ریلوے چلنے لگی مگر اس شہر کی بدقسمتی ہے کہ ہر سال گزرنے کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ تباہی کا شکار ہونے لگی۔ ڈبل ڈیکر بسیں لاپتہ ہوگئیں توکراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بڑی بسیں سڑکوں پر دوڑتی تھیں۔ ایک منصوبے کے تحت پہلے ٹرام سروس کو ختم کیا گیا، سرکلر ریلوے ختم ہوئی اور منی بسیں میدان میں آگئیں۔

ان بسوں میں مسافر مرغا بن کر سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ بعد ازاں کراچی مختلف نوعیت کے فسادات کا شکار ہوا۔ انویسٹرز نے سرمایہ کاری بند کردی اور منی بسیں لاپتہ ہوگئیں اور کراچی والے چنگ چی پر سفر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ٹرانسپورٹ کے ماہرین اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ چنگ چی رکشہ سڑک پر حادثات کا سبب بنتا ہے، ان کے روٹس طے نہیں ہیں۔ مگر دوسری طرف کراچی شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ نایاب ہے۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے بڑا بورڈ سے نمائش تک گرین لائن تعمیر کرائی تھی۔ یوں اس علاقے کے مسافروں کو ایئرکنڈیشنڈ بسوں میں باوقار انداز میں سفر کرنے کا موقع ملا، مگر گرین لائن کراچی کے بہت معمولی حصہ میں چلتی ہے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت 1988میں قائم ہوئی جب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے کراچی ماس ٹرانزٹ منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا مگر یہ منصوبہ فائلوں میں کھوگیا۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت 2008 میں قائم ہوئی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کی پبلک ٹرانسپورٹ ترجیح ہی نہیں رہی۔ لاہور، اسلام آباد، ملتان اور پھر پشاور میں بسوں کے جدید ٹریک تعمیر ہوئے مگر سندھ حکومت نے اس بارے میں کچھ نہ کیا۔ سندھ حکومت نے 3 سال قبل ملیرکینٹ سے نمائش تک ریڈ لائن کی تعمیر شروع کی مگر یہ منصوبہ پیپلز پارٹی کے دور کا بدترین منصوبہ بن گیا۔ یہ منصوبہ کب مکمل ہوگا؟ سرکاری حلقے اس بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے شاہراہِ بھٹو سمیت کئی شاہراہوں کی تعمیر میں گہری دلچسپی لی ہے مگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ریڈ لائن منصوبہ کا معائنہ کریں۔

ملیرکینٹ سے جیل چورنگی تک سفر جان کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہوگیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر بھر میں اگر 10 سے زیادہ لائن تعمیر کی جائیں تو پھر مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے۔ سندھ حکومت نے گزشتہ 3 برسوں کے دوران جدید ایئرکنڈیشنڈ بسیں چند مختصر روٹس پر چلائی تھیں جس سے عام آدمی کو کچھ فائدہ ہوا تھا مگر ان بسوں کی تعداد 300 کے قریب ہے۔ پہلے ان بسوں کا کرایہ لاہور ، اسلام آباد اور پشاور میں چلنے والی بسوں کے برابر تھا مگر اب کرایہ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

بعض مسافروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ ان بسوں کی تعداد کم ہونے کی بناء پر بہت دیر تک یہ بسیں نہیں آتیں۔ شہری امور کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ چنگ چی رکشہ Local Economy ہے۔ اس لوکل اکنامی میں کسی بین الاقوامی ادارہ کے قرض کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اور چنگ چی رکشہ کی آمدنی سے ایک خاندان کی معیشت بہتر ہوتی ہے۔ کراچی کے امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی علی اوسط کا کہنا ہے کہ چنگ چی رکشہ پر پابندی سے پہلے اس کا متبادل ضروری ہے۔ بقول علی اوسط مسئلے کا حقیقی حل ٹرانسپورٹ کا ایک جدید ترین نظام ہے، مگر مریم اور دیگر غریب عورتوں کی کوئی کتھا سننے کو تیار نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پبلک ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ چنگ چی رکشوں پیپلز پارٹی چنگ چی رکشہ کے ڈرائیور نیا لیاری پر پابندی نے چنگ چی سڑکوں پر حکومت نے کے مطابق بناء پر شروع کی

پڑھیں:

کراچی کو تباہ کرنے والے آج مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں، سعدیہ جاوید

سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید نے کہا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار کراچی کی بلدیاتی حکومت پیپلز پارٹی کو ملی ہے۔ کراچی کو تباہ کرنے والے آج مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔

ایک بیان میں سعدیہ جاوید نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو بلدیاتی حکومت ملنے کے بعد شہر میں عملی کام شروع ہوا، پوچھتی ہوں اپنے دور حکومت میں بارش پر شہر بند کرنے والے آج کس منہ سے بات کر رہے ہیں؟

رقم وصولی کے باوجود ٹی ایم سیز نے سڑکوں کی مرمت نہیں کی، مرتضیٰ وہاب کا سعید غنی کو خط

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ گیس کی فراہمی ضروری ہے مگر سڑکوں کی مرمت بھی اتنی ہی اہم ہے، بیشتر سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہیں، حالیہ بارشوں سے مزید بگاڑ پیدا ہوا۔

سندھ حکومت کی ترجمان نے مزید کہا کہ میئر ہر وقت شہر کی خدمت کےلیے بلدیاتی اداروں کے ساتھ سڑکوں پر موجود رہے، پیپلز پارٹی حکومت نے سندھ، خصوصاً کراچی کےلیے میگا پروجیکٹس دیے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ عوام کے مسترد جھوٹے مینڈیٹ پر بیٹھے لوگ اب جھوٹے الزامات کا کاروبار کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پیٹرول کی قیمت اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافہ، عوام پھٹ پڑے
  • چین کا ایم-6، ایم-9 موٹرویز سمیت شاہراہوں و دیگر منصوبوں میں اظہار دلچسپی
  • دبئی: پبلک ٹرانسپورٹ میں انقلاب، پہلی ائیر ٹیکسی کی کامیاب آزمائشی پرواز
  • بی جے پی کا ترقیاتی ماڈل غریب بچوں سے حقوق تعلیم چھیننے والا ماڈل ہے، راہل گاندھی
  • غریب ممالک کو پائیدار ترقی کے حصول میں مالی وسائل فراہم کرنے کا مطالبہ
  • کراچی کو تباہ کرنے والے آج مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں، سعدیہ جاوید
  • پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے سینیئر رہنما چوہدری رفیق نیئر اور وزیر ٹرانسپورٹ جاوید بٹ ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل
  • سرمایہ دار،غریب عوام اور پاکستانی معیشت
  • غریب عوام پر پٹرول بم گرانے کی تیاری، قیمتوں میں بڑے اضافے کا امکان