حمیداللہ بھٹی
جنوبی قفقاز کے ممالک آذربائیجان اورآرمینیا کے درمیان امریکی صدرکی میزبانی میں امن معاہدہ طے پاگیا ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے ۔یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں اور میزبانی میں ہواہے ۔اِس لیے توقع ہے کہ دونوں طرف سے پاسداری ہو گی مگر اِس معاہدے کی جزیات اور شرائط کے بارے میں ابہام ہے جس کی وجہ سے کچھ حلقے بدگمانی کاشکارہیں اورمعاہدے کو خطے کی حساسیت کے مطابق قرارنہیں دیتے ،بلکہ دستاویز کو جلدبازی میں اُٹھایا گیا قدم کہتے ہیں۔ یہ معاہدہ پائیدار امن کی جانب پیش رفت ثابت ہوگا یا نہیں؟ اِس بارے عالمی ردِ عمل اورخیالات کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ خطے کے اہم ممالک روس اور ایران بھی معاہدے پرناخوش ہیں۔
آذربائیجان کے صدرالہام علیوف اور آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پشینیان نے ٹرمپ کے دائیں بائیں بیٹھ کرمعاہدے پر دستخط کیے مگر امن معاہدے کے پوشیدہ پہلو کیاہیں ؟اِس حوالے سے دنیا میں تجسس ہے پاکستان ،ترکیہ اور اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم اوآئی سی نے اگر خیر مقدم کیا ہے تو ایران نے تحفظات ظاہر کرنے میں تاخیر نہیں کی روسی ناخوشی بھی عیاں ہے عین ممکن ہے روس اور ایران ایسی کوششیں کریں کہ امریکہ خطے سے باہررہے ایسی کسی کوششوں کے نتیجے میں ایک نئی کشمکش کا آغاز ہوسکتاہے ۔
آٹھ اگست جمعہ کے روز وائٹ ہائوس میں امریکی ثالثی میں طے پانے والے امن معاہدے سے توقع ظاہر کی گئی کہ جنوبی قفقاز کے دونوں ممالک کے درمیان عشروں پر محیط ایک خونریز تنازع ختم ہو گیا ہے ۔معاہدے کو آذربائیجان اور آرمینیا نے تاریخی پیش رفت قرار دیا جبکہ ٹرمپ نے امن قائم کرنے کی ایک اور کامیابی سے تعبیر کیااور کہا کہ دونوں ممالک ہر طرح کی جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں جس سے باہمی تجارت،سیر وسیاحت کے ساتھ سفارتی تعلقات کوفروغ ملے گاکیونکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کا عہد کیاہے۔ معاہدے کے بعدامریکہ نے آذربائیجان پر فوجی تعاون کے حوالے سے عائد پابندیاں ختم کرتے ہوئے امریکی کمپنیاں کو توانائی ،بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اجازت دے دی۔ ٹرمپ نے دونوں ممالک کو سرحدی سلامتی ،اقتصادی تعاون ،ٹیکنالوجی میں شراکت داری اورترجیح تجارت کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اِس معاہدے کاایک اہم پہلو یہ ہے کہ جنوبی قفقاز میں ٹرمپ کے نام پر ایک امن اور خوشحالی راہداری بنائی جائے گی جس کی ملکیت امریکہ کے پاس ہوگی یہی اِس معاہدے کااہم ترین پہلواورمرکزی نکتہ ہے۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیوف پُرامیدہیں کہ امن معاہدہ امریکہ سے دوطرفہ تعلقات کے ایک نئے دورکا پیش خیمہ ثابت ہوگا جبکہ آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پشینیان نے قیام ِ امن کے لیے ایک ایساعظیم معاہدہ قراردیاجس کے خطے اور دنیا پر مثبت اثرات ہوں گے۔ آرمینیا کے وزیرِ اعظم نے آذربائیجان کے صدر کی طرف سے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی تائید کردی ،ٹرمپ اِس اعزاز کے لیے نارویجن وزیرِ خارجہ ینس ستولتن برگ سے بات بھی کرچکے یادرہے کہ نوبل انعام ہر سال ناروے کی نوبل کمیٹی عطا کرتی ہے جس کا اعلان اکتوبرمیں کیاجاتا ہے اور چار امریکی صدور یہ اعزاز پہلے حاصل کر چکے۔ اسرائیل،پاکستان ،کمبوڈیاسمیت جنوبی قفقازکے دو ممالک صدر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرچکے ۔ٹرمپ کا اپنا بھی یہ خیال ہے کہ وہ ہی اِس انعام کے اصل حقدار ہیں ۔
آذربائیجان اور آرمینیا تنازع استعمار کی سازش ہے جب یہ ممالک روسی فیڈریش کا حصہ تھے تو روس نے نگورنوکاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ بناکربعدمیں آرمینیائی اکثریت کی خواہش پرآرمینیا سے جوڑ دیا اورپھر آذربائیجان کاحصہ بنادیا۔یوں ایک بڑی کشمکش نے جنم لیا 1980 میں آرمینیا نے فوجی یلغارسے یہ علاقہ قبضے میں لے لیا حالانکہ یہ آذربائیجان کا تسلیم شدہ حصہ ہے ۔سوویت یونین سے آزادی کے بعد1994 میںنگورنو کاراباخ تنازع پر ایک بڑی خونریز جنگ لڑی گئی بعد میں بھی سرحدی جھڑپیںمعمول رہیں۔ 2023 میں آذربائیجان نے ایک بڑی فوجی مُہم سے یہ علاقہ آرمینیا سے چھین لیا ۔اِس جنگ کو ایک سو برس کے دوران کسی مسلم ملک کی محاذِ جنگ پر پہلی فتح قرار دیا جاتا ہے مگر اِسے کفرواسلام کی جنگ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر آذربائیجان کوڈرونزاوردیگر ہتھیار فراہم کرنے میں ترکیہ جبکہ سفارتی حوالے سے مقدمہ لڑنے میں پاکستان پیش پیش تھاتوایران اور اسرائیل دونوں آرمینیاکے حمایتی رہے ۔
صدر ٹرمپ نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کردیا ہے کہ وہ نفع کے لیے ہر حدتک جا سکتے ہیں اب بھی الاسکا میں روسی صدر پوتن سے ملاقات سے قبل پیشقدمی سے دنیاکو چونکایا ہے ۔امن معاہدے سے امریکہ کو یہ باور کرانے کا موقع ملا ہے کہ وہ عالمی تنازعات حل کرانے کی موثر صلاحیت رکھتا ہے۔ امن معاہدے میں شامل ہوناروسی خواہش تھی مگر حیران کُن طور پر آذربائیجان اور آرمینیا نے ایسی کسی خواہش کو اہمیت نہیں دی اور امریکی ثالثی پر اکتفا کرتے ہوئے ٹرمپ راہداری کے مالکانہ حقوق بھی امریکہ کو دے دیے ۔معاہدے نے روس اور ایران کی سرحدوں کے قریب امریکی موجودگی کا جواز ملا ہے۔ اب امریکہ نہ صرف امن اور خوشحالی راہداری کی صورت میں اپنا سیاسی اور سفارتی کرداربڑھانے ، روس اور ایران پرمستقل نظر ودبائو رکھنے سمیت چینی راہداری منصوبوں کوبھی ناکام بنانے کی پوزیشن میں آگیاہے بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلقات کو فروغ دینے اور دفاعی معاہدوں کا حصہ بنانے میں بھی سہولت حاصل ہوگی۔
آذربائیجان اور آرمینیا دونوں آبادی ،رقبے اور فوجی طاقت کے لحاظ سے کوئی بڑے ممالک نہیں آذربائیجان کا رقبہ چھیاسی ہزار چھ سو مربع کلو میٹر اور آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ یہ یوریشیا کے جنوبی قفقاز میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان اِس ملک کی مشرق میں بیحرہ قزون،شمال میں روس ،مغرب میں آرمینیا اورترکیہ،شمال مغرب میں جارجیا اور جنوب میں ایران سے سرحدیں ملتی ہیں ۔چاروں طرف سے خشکی میں گھرے آرمینیا کا رقبہ 29743مربع کلومیٹر جبکہ آبادی تیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اِس کے مغرب میں ترکیہ،شمال میں جارجیا مشرق میں آذربائیجان اور جنوب میں ایران ہے، مذکورہ ممالک کے رقبے اور آبادی سے زیادہ اہم اِ ن کا محل وقوع ہے ۔وونوں ماضی میں روسی فیڈریشن کا حصہ رہے ہیں۔دونوں کی سرحدیں ایران سے متصل ہیں ۔اسی بنا پرامریکی مہربانی اور نوازشات خالی ازعلت معلوم نہیں ہوتیں ۔ایک ہی معاہدے سے امریکہ نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ اب خطے کے معدنی وسائل امریکی دسترس میں آجائیں گے۔ یہ ایسی پیش رفت ہے جس کے نتیجے میں امریکہ ایشیا اور یورپ کے سنگم پر موجود رہ کر روس اور ایران کو مستقل طورپر سفارتی ،سیاسی اور فوجی نقصان سے دوچارکرسکتاہے اور امن وخوشحالی راہداری کا مطلب امریکی اڈاہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: آذربائیجان اور آرمینیا آذربائیجان کا روس اور ایران دونوں ممالک آرمینیا کے امن معاہدے ایک بڑی پیش رفت کا حصہ کے لیے
پڑھیں:
پاک سعودی معاہدے میں وسعت کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔20 ویں صدی عیسوی کے بہت سے اہم واقعات ہیں جن میں 2 عالمی جنگیں ہوئیں ایک اندازے کے مطابق اس میں مجموعی طور پر دو کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ آزادی کی تحریکیں چلیں نو آبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا دنیا میں کئی ممالک آزاد ہوئے اس صدی کے اہم واقعات میں خلافت منہاج النبوت کا سقوط بھی ہے جو کم وبیش پچھلے چودہ سو سال سے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی عقیدت کا مرکز و محور تھا۔ اسی صدی میں دو نظریاتی مملکتیں بھی وجود میں آئیں، ایک اسرائیل جو صہیونیوں کی نظریاتی مملکت ہے اور دوسری مسلمانوں کی نظریاتی ریاست پاکستان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک برطانوی راج کے دور ذوال میں وجود میں آئیں اسرائیلی حکومت کے قیام کے لیے تو زبردستی فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرکے اور دنیا بھر سے یہودیوں لاکر یہاں بسایا گیا پہلے تو فلسطینیوں سے بہت مہنگے داموں ان کی زمینیں خریدی گئیں یہ کام 1917 سے شروع ہوا اس سے پہلے یہاں یہودیوں کی آبادی تھی لیکن فلسطین میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان ہی کی حکومت تھی یہودیوں کی آبادی تو دس فی صد سے بھی کم تھی اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ فلسطین صرف مسلمانوں کا ہے اسرئیل تو ناجائز ریاست ہے آج جو لوگ دو ریاستی حل کی بات کررہے ہیں اس کی ہماری حکومت بھی حمایت کررہی ہے یہ قائد کے نظریے سے روگردانی ہے۔ ہم ذکر کررہے تھے بیسویں صدی کے اہم واقعات کا جس میں بات قیام پاکستان تک پہنچی تھی۔ قیام پاکستان کو اس صدی کا معجزہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی حکومت کے حلق سے آزادی چھیننا اور ہندو اکثریت کے ظلم کا مقابلہ کرنا اور پھر اس مملکت کے قیام کے بعد بھی لاکھوں افراد کی جان و مال کی قربانیوں کے بعد پاکستان قائم ہوا اور اس کے قیام کے اگلے ہی روز سے اس نوزائیدہ مملکت کو ختم کرنے کی سازشیں شروع ہو گئیں، اور یہ بھی بیسویں صدی کا سانحہ ہے کہ ملک پاکستان کا ایک حصہ مشرقی پاکستان اس سے الگ ہوگیا اس سانحے میں یقینا اپنوں کی غداریوں اور غیروں کی سازشوں کا عمل دخل ہے، پاکستان کمزور ہوگیا لیکن یہ بھی اسی صدی کا معجزہ ہے کہ پاکستان نے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست ہوگی جس نے ایٹمی دھماکا کرکے اپنی سلامتی کو محفوظ کرلیا۔
بیسویں صدی کے اہم واقعات کے بعد ہم اکیسویں صدی کی بات کرتے ہیں۔ اس صدی کے حوالے سے بڑی بڑی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ اس صدی کے سلور جوبلی والے سال میں دو اہم واقعات ہوئے جو ایک طرح سے پوری دنیا کی تاریخ و جغرافیہ بدل دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے، پہلی تو یہ کہ مئی کی پانچ روزہ جنگ جس میں بھارت اور اسرائیل نے مل کر پاکستان پر حملہ کردیا اسرائیل نے اپنے جدید ڈرونز کے ذریعے سے جس کو آپریٹ کرنے کے لیے سو سے زائد انجینئرز بھی آئے تھے حملہ کیا اور بھارت نے بھی اپنی پوری قوت سے حملہ کردیا لیکن پاکستان نے جس طرح ان دونوں ممالک کی جارحیت کا جواب دیا ہے وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اسرائیل کے ستر سے زائد ڈرونز کو ناکارہ کردیا۔ بھارت نے ہمارے سات ملٹری بیسز پر حملے کیے جبکہ پاکستان نے بھارت کے 27 بیسز کو تباہ کردیا۔ فضائی جنگ بھی بڑی دلچسپ تھی انڈیا کے 33 رافیل سمیت 80 جہاز میزائلوں سے لوڈڈ حملہ کرنے آئے اور اپنی دفاع کے لیے پاکستان کے 40 جہاز فضاء میں مقابلے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی رافیل نہیں تھا لیکن اپنا بنایا ہوا J-17 تھنڈر اور چین کے J-10/C تھے ایک گھنٹے کی اس جنگ کا اسکور چھے صفر رہا یعنی پاکستان نے بھارت کے چھے جہاز گرائے جبکہ بھارت نے کوئی جہاز نہیں گرایا ہمیں اس کی مزید تفصیل میں نہیں جانا بتانا یہ ہے کہ جب بھارت نے پاکستان کے شہر بھاولپور اور مرید کے کی آبادی اور مساجد پر حملہ کرکے ہمارے تیس سے زائد شہریوں کو ہلاک اور دو مساجد کو شہید کردیا توکئی مسلم ممالک نے منع کیا کہ بھارت پانچ گنا بڑی فوجی طاقت رکھتا ہے اس لیے آپ جواب نہ دیں لیکن پاکستان نے کہا اب نہیں تو کبھی نہیں اور دس مئی بھرپور جواب دے کر بھارت کے تکبر کو ملیا میٹ کردیا۔ اس جنگ کے بعد ہی پاکستان کا وقار اقوام عالم میں پہلے سے زیادہ بلند ہوگیا۔
موجودہ صدی کا دوسرا اہم واقعہ ستمبر کے مہینے میں پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ ہے اس پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم ایک بائیں بازو کے لبرل دانشور کا ایک انگلش کا جملہ نقل کرنا چاہیں گے جو انہوں نے اپنے ٹی وی ٹاک شو میں کہا۔۔ Pak Saudi Accord is the begining of Islami Era یعنی پاک سعودی اتحاد اسلامی نشاۃ ثانیہ کی شروعات ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس معاہدے نے پوری دنیا کا منظرنامہ تبدیل کردیا ہے وہ خلیجی ممالک جو امریکا کو اپنی سلامتی کا ضامن سمجھ رہے تھے۔ دوحا پر اسرائیلی حملے اور امریکا کی مجرمانہ خاموشی نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا۔ پھر اسرائیل نے برملا یہ اعلان بھی کیا کہ کسی اور عرب ملک پرحملہ کرسکتا ہے دوحا پر حملے کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں اسرائیل کو یقین دلایا کہ امریکا آج بھی اسرائیل کے ساتھ ہے اور کل بھی وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگا اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب اور قطر میں امریکا کے جو فوجی اڈے ہیں وہ عرب ممالک کے بجائے اسرائیل کی حفاظت کے لیے ہیں۔ یہ بھی خبر نظر سے گزری کہ جو اسرائیلی طیارے حملہ کرنے آئے تھے دوحا کے فوجی اڈے سے ان کی فیولنگ کی گئی تھی اس واقع نے خلیجی ممالک کی سوچ میں تبدیلی پیدا کی اور پھر یہ پاک سعودی معاہدہ جس پر مہینوں سے کام جاری تھا وجود میں آیا۔ اس معاہدے نے پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچادی ہے دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں اس پر تجزیے اور تبصرے چل رہے ہیں کہ اس معاہدے سے سعودیہ کو ایٹمی اور پاکستان کو معاشی چھتری مل گئی۔ یہ پاکستانی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اسے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے حفاظت کی ذمے داری مل گئی۔
اس معاہدے کے بعد سننے میں آرہا ہے کہ کئی اور ممالک بھی اس میں شریک ہونا چاہتے ہیں 25 ستمبر کے اخبار میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کا بیان شائع ہوا ہے کہ پاک سعودی معاہدے میں ایران اور ترکیہ کو بھی شامل کیا جائے انہوں نے کہا کہ امریکا اسرائیل کی پشت پر ہے بار بار جنگ بندی کی قراردد کو ویٹو کرنا اس کی واضح مثال ہے میرے خیال سے حافظ نعیم کے اس مطالبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس میں ایران اور ترکیہ کے ساتھ دیگر عرب ممالک کو بھی اس معاہدے کی چھتری تلے آجانا چاہیے یہ اتحاد مسلم ممالک کا ناٹو بھی بن سکتا ہے اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کو اپنے آپس کے اختلافات کو بھی ختم کرنا چاہیے یہ تو بہت اچھا ہوا کہ چین نے ایران اور سعودی عربیہ کے اختلافات ختم کرادیے ابھی ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایک سعودی وزیر نے ایران کا دورہ کیا اور سعودی حکومت کا اہم پیغام پہنچایا تھا کہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے اسرائیل سے کسی بھی قسم کے روابط قائم نہیں کرے گا۔ اسی طرح سعودی عرب اور یمن کے اختلافات کو بھی ختم کرانے کی ضرورت ہے۔ بہر حال جس وقت پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تھا اس وقت مغربی میڈیا نے اس کو اسلامی بم کا نام دیا تھا جواب میں کہا گیا کہ بھارتی ایٹم بم کو ہندو بم کیوں نہیں کہا جاتا اسرائیل کے ایٹم بم کو یہودی بم کہا جائے۔ جس طرح امریکا کا بم امریکی، اسرائیل کا اسرائیلی اور بھارت کا بھارتی ایٹم بم کہلائے گا اسی طرح یہ پاکستانی ایٹم بم ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ مغربی میڈیا کے تجزیے کچھ غلط نہیں تھے۔