لاہور اور کراچی کی شاندار تقریبات (آخری قسط)
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
نومبر میں ہونے والی یومِ اقبال کی تقریب میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہماری قومی زبان اردو کواگر دفتری اور عدالتی زبان نہ بنایا گیا تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہوگا اور نئی نسل کا، جو نہ اردو پڑھ سکتی ہے اور نہ لکھ سکتی ہے، اپنے دین اور وطن کے ساتھ تعلّق کمزور ہوتے ہوئے ٹوٹ جائے گا،اس ضمن میں قراردادیں بھی پاس کی گئیں۔
اپریل کی تقریب میں بھی محترم مجیب الرحمن شامی، خواجہ سعد رفیق اور راقم نے اردو کو زندہ رکھنے کی اہمیّت کو اُجاگر کیا اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے پر زور دیا۔ راقم نے اس بات پر زور دیا کہ نئی نسل اردو سیکھنے کے لیے تب تیّار ہوگی جب اسے روزگار کی زبان بنایا جائے گا، اس کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر منعقد ہونے والے مقابلے کے امتحانات میں اردو کا پرچہ لازمی قرار دیا جائے۔
اس کے علاوہ پاکستان افیئرز اور اسلامیات کے لازمی پرچے (جن کے لیے بہترین کتابیں اور مواد اردو میں میّسر ہے) اردو میں حل کرنا لازم قرار دیا جائے۔ اردو ایک زبان ہی نہیں یہ ہمارے دینی، ثقافتی اور تہذیبی ورثے کی حامل اور وارث ہے۔ اس کی اہمیّت سے چشم پوشی انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہوگی۔
علّامہ اقبال کونسل جو کہ فکرِ اقبالؒ کے فروغ کے لیے مصروفِ عمل ہے، طلبا وطالبات میں کلامِ اقبال پڑھنے اور سمجھنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے ان کے درمیان تقریری اور تحریری مقابلے بھی منعقد کراتی رہتی ہے۔ اس بار کونسل کے چیئرمین کی حیثیّت سے راقم نے سیکڑوں اساتذہ اور طلبا کی موجودگی میں اعلان کیا کہ جی سی یونیورسٹی کے بخاری آڈیٹوریم میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات کے درمیان فکرِ اقبال کے کسی موضوع پر تقریری مقابلہ منعقد کیا جائے، جس کے انتظامات جی سی یونیورسٹی کرے، جب کہ جیتنے والوں کو انعامات اور میڈل علامہ اقبال کونسل کی طرف سے دیے جائیں گے۔
انعامات کی تفصیل بتاتے ہوئے راقم نے بتایا کہ اوّل آنے والے کو پچاس ہزار روپے، دوم آنے والے کو تیس ہزار اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے کو بیس ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔ مگر اس میں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات بھی ضرور حصہ لیں۔ جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر چوہدری صاحب نے اس قومی سطح کے گرینڈ مقابلے کی میزبانی کرنے کی فوراً حامی بھرلی جو انتہائی خوش آیند ہے۔
علامہ اقبال کونسل کی طرف سے اسی طرح کی پیشکش NUST اسلام آباد اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کو بھی کی گئی ہے کہ جو اسٹوڈنٹ، ریسرچ کے میدان میں کوئی غیر معمولی کامیابی حاصل کرے گا یعنی کوئی نئی چیز ایجاد کرے گا، اسے کونسل ایک لاکھ روپے انعام دے گی۔ دونوں تقریبات کی کامیابی کے لیے ہماری بہن محترمہ حامدہ طارق صاحبہ، عزیزم عثمان زمرد، میرے دوست شہباز احمد شیخ اور پولیس افسران میں سے سید خرم علی، خرم شہزاد، اطہر اسمعیل، فیصل کامران، حماد عابد، سید فرید علی اور حماد ناصر نے بڑابھرپور کردار ادا کیا۔
لاہور جانا ہو تو دو معروف پولیس افسروں سے ضرور ملاقات ہوتی ہے، فاروق مظہر (جو اپنی دیانتداری اور قابلیّت کی بناء پر معروف ہیں) آج کل نیپا کے ڈائریکٹر جنرل ہیں، انھوں نے نیپا کے افسروں کو لیکچر دینے کے لیے راقم کو پابند کرلیا، لہٰذا نیپا کے مہمان خانے میں ہی قیام رہا اور فاروق مظہر سے بڑی مفید گپ شپ رہی۔ سابق سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق (جنھوں نے میرے ساتھ بھی کام کیا ہے) ایک دیانتدار، دلیر اور دبنگ افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وفا اور دوستی نبھانا بھی وہ خوب جانتے ہیں، لاہور کا دورہ ہو تو ان کی طرف سے بھی ڈنر کا لازمی اہتمام ہوتا ہے جس کو میرے کہنے پر صرف چند قریبی دوستوںتک محدود رکھا جاتا ہے۔
جاوید نواز صاحب ایک اعلیٰ کردار کے حامل اور ملک سے بے حد محبّت کرنے والے شخص ہیں، جو پچھلے کئی سالوں سے مسقط میں مقیم ہیں۔ ایک کامیاب اور معروف بزنس مین کی حیثیّت سے ان کے اومان کے شاہی خاندان اور اعلیٰ حکاّم کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔چاہے وہ رہے مسقط میں ہوں مگر ان کا دل پاکستان میں ہی ہوتا اور پاکستان کے لیے ہی دھڑکتا ہے، بابائے صحافت محترم الطاف حسن قریشی صاحب سے ان کی دیرینہ اور گہری دوستی ہے۔ قریشی صاحب کو بسترِ علالت سے اٹھا کر کہیں بھی لے جانے کا حق اور صلاحیّت صرف جاوید نواز ہی رکھتے ہیں۔
مرکزیہ مجلسِ اقبال کی سالانہ تقریب کے بعد مقررین اور چند چنیدہ مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام خواجہ عبدالرحیم مرحوم کے گھر پر ہوا کرتا تھا۔ وہ روایت قائم رکھتے ہوئے یومِ اقبال کی تقریب کے بعد عشائیے کا اہتمام کرنے کی ذمیّ داری محترم جاوید نواز صاحب نے خود سنبھال لی ہے۔
پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ان کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹیو کلب میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا جس میں محترم الطاف حسن قریشی صاحب، شامی صاحب، ڈاکٹر خالد نواز صاحب،سابق چیف سیکریٹری عابد سعید صاحب، سجّاد میر صاحب اور سلیم منصور صاحب کے علاوہ معروف قانون دان حامد خان صاحب سے بڑی مفید اور دلچسپ بات چیت ہوتی رہی۔
ایک ضروری فریضہ جو میں لاہور جاکر ہر صورت ادا کرنا چاہتا تھا وہ تھا استادِ محترم شیخ امتیاز علی صاحب کی خدمت میں حاضری، مجھے ہر صورت ان کی رہائش گاہ پر سلام کے لیے حاضر ہونا تھا۔ میں یونیورسٹی کے سابق پرنسپل، قائداعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اپنے استاد محترم پروفیسر شیخ امتیاز علی صاحب کو ہر عید کے روز فون پر سلام کرتا ہوں۔ اس بار میں سو گیا اس لیے فون نہ کرسکا تو شیخ صاحب کا اپنا فون آگیا۔
جس پر مجھے سخت شرمندگی ہوئی۔ اور ایسے محسوس ہوا جیسے میں کسی جرم کا مرتکب ہوا ہوں۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کرلیا کہ لاہور جاکر استادِ محترم کے درِ دولت پر حاضر ہوںگا اور سلام کروںگا۔ اس سلسلے میں عزیزم احمد جاوید قاضی (جو شیخ صاحب کی صاحبزادی کے داماد ہیں اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ایک نہایت دیانتدار اور قابل افسر ہیں) سے رابطہ کرکے ان کے ذمّے لگایا کہ وہ استاد ِمحترم سے وقت لیں تاکہ میں سلام کے لیے حاضر ہوسکوں۔
میں شیخ صاحب کی صاحبزادی اور احمد جاوید صاحب کا شکر گذار ہوں کہ ان کی وساطت سے شیخ صاحب کی قدم بوسی کی میری خواہش پوری ہوگئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ملک بھر میں نہ کوئی شیخ امتیاز علی صاحب جیسا استاد دیکھا ہے اور نہ ہی کوئی ان جیسا منتظم۔ میں نے "A Living Legend" کے عنوان سے اپنی پہلی کتاب میں شیخ صاحب کے بارے میں ایک مکمّل آرٹیکل لکھا ہے۔
استاد محترم سے قانون کے ضابطوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے اصول بھی سیکھے ہیں۔ اس وقت ماشاء اللہ 102 سال کے ہوگئے ہیں مگر ذہنی طور پر الرٹ ہیں اور حافظہ حیرت انگیز طور پر اسی طرح ہے جس طرح آج سے نصف صدی پہلے ہوتا تھا۔ شیخ صاحب نے مجھے قائداعظم کے بارے میں ایک کتاب دی جس پر اپنے ہاتھ سے لکھا ’’ قائداعظم جس طرح کے پاکستانی چاہتے تھے، ذوالفقار بالکل اسی طرح ہے‘‘ استادِ محترم کے ہاتھ سے لکھے ہوئے چند الفاظ میرے لیے ملک کے سب سے بڑے میڈل اور اعزاز سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں اچھی صحت عطا کریں اور ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائیں۔
کراچی یونیورسٹی سے کئی ماہ پہلے کا دعوت نامہ آیا ہوا تھا، وہاں سے ڈاکٹر نوشین صاحبہ کا کئی بار فون آچکا تھا اور انھوں نے بھی فکرِ اقبال پر لیکچر کے لیے مدعو کیا ہوا تھا۔ ایک دوبار تاریخ بھی مقرّر ہوئی مگر ایک بار میری مصروفیّت کے باعث اور ایک بار جامعہ کراچی میں اساتذہ کی ہڑتال کے باعث پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ مگر بالآخر جامعہ کراچی میں یہ تقریب منعقد ہوئی جس میں میں پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس، ڈاکٹر نوشین اور ڈی آئی جی جاوید اکبر ریاض کے ہمراہ ہال میں داخل ہوا۔ ہال پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ تقریب کے اختتام پر طلباء و طالبات کا کہنا تھا کہ انھوں نے پہلی بار مفکّرِ پاکستان کے ایسے روح پرور اشعار سنے ہیں۔ وہ کلامِ اقبال سنکر بلاشبہ بہت motivate ہوئے ہیں۔
اُس وقت (30اپریل) بھارت کا جنگی جنون زوروں پر تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے جب میں نے یہ کہا کہ اگر ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی نے کوئی شرارت کی تو ملک کے ہر شہر، ہر گاؤں سے اور ہر علاقے سے نوجوان سارے گلے شکوے بھلا کر دفاعِ وطن کے لیے نکلیں گے۔ ان کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم اور زبان پر یہ شعر ہوگا۔
اے وطن تونے پکارا تو لہو کھول اُٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
آخر میں تمام طلباء و طالبات نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ اتنے زور سے لگایا کہ جس سے کراچی یونیورسٹی کے درو دیوار گونج اُٹھے۔ علاّمہ اقبالؒ نے اللہ تعالیٰ سے کئی دعائیں مانگیں۔ مگر اپنے لیے نہیں، سب ملّتِ اسلامیہ کے لیے تھیں۔ ایک التجا یہ کی کہ
یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپادے
پھر یہ دعا کی کہ
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
اگر ہم اقبالؒ کے نورِ بصیرت سے اپنے دل و دماغ منوّر کرلیں تو ہمیں منزل بھی نظر آجائے گی اور رستہ بھی دکھائی دینے لگے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یونیورسٹی کے کی طرف سے صاحب کی نے والے کے لیے
پڑھیں:
خرابات فرنگ
تقریباً دو ہفتے پہلے ‘ علامہ عاصم صاحب کا فون آیا۔ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق صاحب نے گھر پر ایک ادبی محفل رکھی ہے اور آپ نے ضرور آنا ہے۔ برادرم عاصم‘ بذات خود ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں تو خیر وہ ہیں ہی۔ مگر‘ ایک حد درجہ مخلص‘ مہذب اور مرنجان مرنج انسان بھی ہیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ طالب علم‘ ڈاکٹر وحید الزماں کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ خیر تھوڑی دیر بعد‘ ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا۔ بتانے لگے کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ہیں۔ معلوم پڑا کہ میرے سے چار سال سینئر تھے۔
فدوی بھی اسی علمی درسگاہ سے فیض یاب ہوا ہے۔ بہر حال برف پگھلنی شروع ہو گئی۔ مختص دن اور شام کو ان کے گھر پہنچا۔ تو بیسمنٹ میں دوست جمع ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے تعارف ہوا۔ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو ہیں‘مگر فارسی میں بھی پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
لاہور کی قدآور ادبی شخصیات موجود تھیں۔ اوریا مقبول جان جو میرے دیرینہ رفیق ہیں، اپنے مخصوص انداز میں چہک رہے تھے ۔ اوریا کے سیاسی خیالات اپنی جگہ۔ مگر‘ ادب پر اس کی کمال گرفت ہے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ تھوڑی دیر میں ‘ محترم مجیب الرحمن شامی بھی آ گئے۔ ان کی باتوں کی شائستگی ‘ محفل کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ چار گھنٹے ہر زاویہ سے باتیں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے صاحب قلم اور صاحبان علم کا ایک ایسا گلدستہ اکٹھا کیا ہوا تھا جن کی دل آویز خوشبو ‘ ہمیشہ اپنا احساس دلاتی رہے گی۔
ڈاکٹر صاحب‘ فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔میری پسندیدہ ترین شخصیت‘ علامہ اقبال کے کام پر گہری نظر ہے۔ ڈاکٹر وحیدالزماں جو فوج کے میڈیکل کے شعبہ سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر بھی ہیں۔ انھوں نے کمال محبت سے اپنی ایک کتاب کی دو جلدیں عنایت فرمائیں۔ یہ ان کی لندن کے قیام کے قصے تھے۔ نام تھا خرابات فرنگ۔ اس جمعہ اور ہفتہ کو قدرے فرصت تھی ۔
لہٰذا دونوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ بہت عمدہ کتابیں نکلیں۔ محترم الطاف حسن قریشی‘ اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں۔کتاب کا اسلوب بیانیہ ہونے کے باوجود اتنا دلکش اور مؤثر ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود ہائیڈپارک کارنر کی بینچ پر بیٹھا ہو یا برٹش میوزیم کی راہداریوں میں گم ہو چکا ہو‘‘۔ مادام تساؤ کا میوزیم‘‘ ہویاٹر افالگر اسکوائر ‘وکٹوریہ گارڈن ہو یا نیشنل گیلری ‘ ہر مقام کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے کہ صرف جگہیں ہی نہیں بلکہ ان سے جڑے ثقافتی اور فکری پہلو بھی روشن ہو جاتے ہیں۔کتاب کا نام ’’خرابات فرہنگ‘‘ خود ایک استعارہ ہے۔ ’’خرابات‘‘ یعنی وہ جگہ جہاں روح شکست کھا جائے‘ جہاں دل کو قرار نہ آئے۔ اور ’’فرنگ‘‘ یعنی مغرب‘ جہاں تہذیب ہے‘ ترقی ہے‘ لیکن روحانیت گم ہے۔
شامی صاحب رقم طراز ہیں کہ طارق کا لاحقہ انھوںنے خود لگایا یا تخلص رکھ لیا‘ معنویت میںاضافہ ہو گیا۔ وحید الزماں طارق طب کے ڈاکٹر ہیں اور ادب کے بھی۔ میڈیکل میں کمال حاصل کیا‘ تو ادب کی طرف رجوع کر لیا۔ اقبال کے کلام سے ناتہ جوڑا تو اس کے شارح اور مفسر بن گئے۔ ایک عالم کو گرویدہ بنا لیا۔ اقبال کا فارسی کلام فارسی سے نابلد لوگوں کو سمجھا دیا۔
اب کچھ کتاب سے لیے ہوئے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔قطبین میں سے ایک قطب کا انتخاب: مغرب میں اہل ایمان کی تذبذب کی کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں لوگ اپنی پارسائی کا بھرم رکھ کر چھپ چھپا کر گناہ کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ انسان اپنی حرکات و سکنات سے اپنی شناخت کا تعین کرتا ہے۔ یا تو وہ صحیح مومن بن جاتا ہے یا پھر مغرب کی چکا چوند روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ کی تربیت صحیح ہوئی ہو تو انسان ان خرافات سے دور بھاگتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دقیانوسیت سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :
بہ افرنگی بتان دل باختم من
ز تابِ دیریان بگدا ختم من
دیار فرنگ میںاپنے تقویٰ اور پرہیز گاری کو قائم رکھنا مشکل تو تھا لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارا انگلستان میں حال کچھ یوں تھا کہ بقول علامہ اقبال:
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
انگریز معاشرے کے مسائل اور خوبیاں: انگریز معاشرے کے اپنے مسائل تھے اور خوبیاں بھی تھیں جو سامنے آ جاتی تھیں۔ انگریزقوم کے افراد کسی حد تک آگے بڑھتے اور پھر وہیں رک جاتے تھے۔ اور اسے مغربی تہذیب کا نام دیتے جس کی جھلکیاں ان کی مصوری‘ موسیقی اور ڈراموں میں دکھائی دیتی تھیں۔ وہی حال ان کے تجارتی اشتہارات کا تھاجن سے ان کی زیر زمین ریل گاڑیاں اور ڈبل ڈیکر بسیں تک مزین ہوا کرتی تھیں ایسی تصاویر اور آرٹ بچوں کے کچے ذہنوں پر اثر انداز ہوا کرتے تھے۔
پاکستان کے تارکین وطن کی برطانیہ میں پیدا ہو کر پرورش پانے والی نسل کو یہ سب کچھ نارمل دکھائی دیتا تھا اور وہ اس اخلاقی نظام پہ انگلیاں اٹھاتے تھے جس کی تلقین ان کے قدامت پسند بزرگ کیا کرتے تھے۔ پھر اگر انھیں پاکستان یا اسلامی معاشرے میں کچھ دیر کے لیے وقت گزرانا پڑتا تو انھیں وہاں پر اگر انھیں منافقت یا مصلحت اندیش خاموشی نظر آتی تو وہ ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے تھے جن کا جواب دینے سے ہمارے اکثر بڑے قاصر ہوتے تھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کہتے کچھ ہیں اور ہمارا عمل کچھ اور ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم پردہ پوشی سے کام لیتے ہیں۔
انگلستان سے ٹوٹتا ہوا تعلق: ہم 2018 میں عمان ایئرکے ذریعے ابو ظہبی سے مسقط اور وہاں سے مانچسٹر پہنچے۔ یارکشائر‘ گلاسگواسکاٹ لینڈ‘ لندن‘ اسٹیو ینیج‘ کیمبریج اور پھر مانچسٹر ‘ ہر سو اداسی تھی۔ اس بار خالہ بلقیس ‘ بھائی جان امان اللہ اور آنٹی نجمہ واحد سے ہم آخری بار ملے تھے۔ عید پر گلاسگو گئے تو ابھی بشیر مان صاحب بھی زندہ تھے لیکن سخت بیمار تھے۔ انھیں ایک پھیپھڑے میں سرطان ہو چکا تھا اور ان سے ہم آخری بار 2016 میں ان کے اپارٹمنٹ میں ملے تھے۔
اب وہ سب لوگ اس دنیا میں نہیں رہے۔پروفیسر لانگسن تو 1989 میں ہی وہا ں سے نکل مکانی کر گئے تھے۔ وہ بھی سویٹزر لینڈ میں جا کر جنیوا جھیل کے کنارے مدفون ہیں۔ مسز ڈینس لانگسن سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ بنات ولا اور شرلی رچمنڈ کا کچھ علم نہیں۔ ماؤراٹمبوری وفات پا چکی ہیں۔ رولف اور جیکی فروری 1988 میں ہی وہاںسے ہل چلے گئے تھے۔ جیرالڈ کاربٹ اور اس کی بیگم وفات پا چکے تھے۔ ڈاکٹر شرلی رچمنڈ بھی نہیں رہیں۔ جو باقی ہیں ان سے بھی ملاقات مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
آخرمیں ڈاکٹر وحید الزماں نے جو کچھ‘ اس کتاب کے متعلق لکھا ہے۔ عرض کرتا ہوں۔کمبل پوش نے ’’عجائبات فرنگ‘‘ تصنیف کی تھی‘ وردی پوش نے ’’خرابات فرنگ‘‘ رقم کی ہے۔ بریگیڈیئر وحیدالزماں طارق صاحب کی یہ تصنیف لطیف سفر نامہ بھی ہے اور حضر نامہ بھی ۔ انھوںنے جوانی میں انگلستان کی شان دیکھی تھی‘ وقت پیری انھیں یہ خیال آیا کہ دیکھا ہے جو کچھ میں نے‘ اوروں کو بھی دکھلا دوں۔ سو کتاب کے نام کی مناسبت سے انھوںنے ہمیں خرابات کی سیر تو کرائی ہے لیکن نام کے برعکس بھی بہت سے دل کش مقامات دکھائے ہیں۔ اس تصنیف میں سیر مقامات بھی ہے اور احوال حیات بھی۔ یہاں انھوںنے ہماری ملاقات ایک ایسے پاک دل و پاک باز شخص سے کرائی ہے جس پر اقبال کا یہ مصرع صادق آتا ہے: بے داغ ہے مانند ِ سحر اس کی جوانی۔ یہ شخص وحیدالزماں طارق ہے جو خود تو رنگین مزاج نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب تحریر بہت رنگین ہے۔
بہر حال ‘ وحید صاحب نے انگلستان میں اپنی یادوں کو حد درجہ دلکش انداز میں محفوظ کیا ہے۔ یہ دونوں جلدیں ‘ واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔