میں جیل سے تحریک کو لیڈ کروں گا(عمران خان)
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
پی ٹی آئی کو 5 اگست تک تیزی لانے کی ہدایت ،آپ لوگ حکومت کے ساتھ اسمبلی اسمبلی کھیل رہے ہو، ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ،آپ کو عوام نے اسمبلی میں بھیجا ہے
مریم نواز کی خواہش پوری کرنے کیلئے ہمیں روکا جاتا ہے، وزیر اعلیٰ کو خوش کرنے کیلئے 26 پی ٹی آئی ممبران کو معطل کردیا گیا،سابق وزیراعظم کا بہنوں کے ذریعے پیغام
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ وہ احتجاج کو لیڈ کریں گے، وہ جیل میں آزاد ہیں اور ہم لوگ جو باہر ہیں وہ قید ہیں، آپ لوگوں کو اپنے لیے نکلنا ہے، رول آف لا اور جمہوریت کے لیے نکلنا ہے اور 26 ویں ترمیم کے خلاف نکلنا ہے۔یہ بات علیمہ خان نے عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر اپنی بہنوں نورین اور عظمی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں کہی۔علیمہ خان نے کہا کہ بہنوں کی عمران خان سے الحمدللہ ملاقات ہوگئی، بانی پی ٹی آئی خیریت سے ہیں، بانی کے ساتھ وہ کچھ ہورہا ہے جو کسی قیدی کے ساتھ نہیں ہوتا، یہ ظلم کی انتہا ہے، ان کا ٹی وی اخبار ایک ہفتے سے بند کیا ہوا ہے، بانی کے پاس پڑھنے لکھنے کے لیے کچھ نہیں، بانی سے مل کر خوشی ہوتی ہے وہ ٹھیک ہیں۔انہوں نے کہا کہ بانی جیل میں بہترین کتاب لکھ سکتے لیکن ان کے پاس کچھ لکھنے کے لیے قلم کاغذ ہو تو لکھیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے تحریک کا آغاز کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو 5 اگست تک اس میں تیزی لانے کی ہدایت کردی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیٹرن انچیف تحریک انصاف کی ہمشیرہ نے بتایا کہ عمران خان نے تحریک کا آغاز کردیا ہے اور اس حوالے سے 5 اگست کی تاریخ دی ہے، عمران خان نے تحریک کو 5 اگست تک بلندی پر لے جانے کا پارٹی کو حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ لوگ حکومت کے ساتھ اسمبلی اسمبلی کھیل رہے ہو، آپ لوگوں نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں، آپ کو عوام نے اسمبلی میں بھیجا ہے ،آپ عوام کے لیے جواب دہ ہیں، اگر آپ باز نہ آئے تو یہ لوگ پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کو کرش کر دیں گے ، جو عہدے دار تحریک کا وزن نہیں اٹھا سکتا وہ الگ ہو جائے ورنہ میں باہر آ کر خود پارٹی سے نکال دوں گا ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں عمران خان سے ملاقات کرنے سے کوئی کرنل نہیں روک رہا بلکہ مریم نواز کے شوق پورے کرنے کیلئے اوپر سے سہولت کاری کی جاتی ہے، مریم نواز جو چاہتی ہیں اس کو پورا کیا جاتا ہے،پنجاب اسمبلی کے چھبیس ارکان معطل ہوئے کیوں کہ مریم نواز اپ سیٹ ہو گئی تھیں، ان کو خوش رکھنے کے لئیے عمران خان سے ملاقات پر پابندی بھی لگائی جاتی ہے، جیل حکام ان کو جوابدہ ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی مریم نواز کے ساتھ ا پ لوگ نے کہا کے لیے
پڑھیں:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
شہرکی سڑکوں پر شام اترتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ روشنی نہیں ایک بے نام سی اداسی پورے آسمان پر پھیل گئی ہے۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے گاڑیوں کے شور میں ایک ہی سوال دل کو چیرتا رہتا ہے، میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ یہ لہو صرف ایک گھرانے، ایک خاندان یا ایک دل شکستہ ماں کا نہیں، یہ اس پورے سماج کا ہے جس نے طاقت، دولت اور بے حسی کو اپنا خدا بنا کر انسانیت کو بھول جانے کی قسم کھا لی ہے۔
چند دن پہلے پھر وہی منظر تھا کہ ایک نوجوان جس کی رفتار اس قدر تیز تھی اور وہ اندھا دھند ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ اسٹیرنگ ویل اس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ غرورکی گرفت میں تھا۔ سڑک جو سب کے لیے برابر ہوتی ہے، اس لمحے اُس کے لیے تخت تھی۔ ایک تیز رفتارگاڑی ایک لمحے کی بے احتیاطی اور ایک گھرکا چراغ بجھ گیا۔
بچوں کا باپ، والدین کا سہارا بیوی کا ساتھی ایک جھٹکے میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ گھر میں چولہا نہیں جلے گا، بچوں کی فیس نہیں بھری جائے گی، ماں دھاڑیں مار کر روئے گی مگر جس ہاتھ نے یہ خون بہایا وہ ہاتھ چند گھنٹوں بعد صاف دکھائی دیے گا۔ سفارش فون کال اثر و رسوخ اور قاتل آزاد مسکراتا ہوا دنیا کے کسی اور شہر میں نئی زندگی کی تلاش میں نکل جائے گا۔
ہمارے ملک میں سزا مجرم کو نہیں، غریب کی قسمت میں ہوتی ہے، یہاں حادثے نہیں ہوتے بلکہ معصوم لوگوں کا قتل معمول بن جاتا ہے، وہ عدالتیں جو کمزور کو نصیحتیں دیتی ہیں طاقتور کے آگے سر جھکا دیتی ہیں۔ وہ پولیس جو غریب کے گھر کی دہلیز بے دھڑک پار کر لیتی ہے، امیر کے بڑے بڑے دروازوں کے سامنے خاموش کھڑی رہتی ہے اور وہ سماج جو ایک دن احتجاج کرتا ہے دوسرے دن تصویریں بانٹتا ہے اور تیسرے دن سب بھول جاتا ہے۔
اُسی شہر میں ایک اور المیہ ایک چھوٹا بچہ اپنی دنیا میں مگن اپنے ہی قدموں پہ بھاگتے ہوئے ایک ایسے گڑھے میں اُترگیا، جو ہفتوں سے کھلا تھا۔ لوگ دیکھتے رہے، گزرتے رہے، ہمدردانہ نظروں سے اس کے کنارے اینٹیں رکھتے رہے مگر کسی ادارے نے اسے ڈھکن دینے کی زحمت نہ کی۔ وہ گڑھا اُس بچے کے لیے قبر بن گیا اور گھر والوں کے لیے زندگی بھرکا داغ۔
بچے کی لاش نکالی گئی تو شہر پر جیسے سناٹا چھا گیا۔ اس کی ماں کے ہاتھ خالی ہوگئے، وہ ہاتھ جن پرکبھی وہ بچہ سویا کرتا تھا۔ اُس کے باپ کی آنکھیں ساکت ہوگئیں مگر ادارے؟ افسران وہی پرانی پریس ریلیز، وہی معمول کے بیانات، وہی تحقیقات کے وعدے اور پھر ہمیشہ کی طرح خاموشی۔سوال وہی رہے گا کون ذمے دار ہے؟ کس کی بے حسی نے اس بچے کو نگل لیا؟ اور سب سے بڑھ کر کس کے ہاتھ پر میں اپنا لہو تلاش کروں؟
ملک کے ہر کونے میں یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ کہیں سڑکیں قاتل بن جاتی ہیں، کہیں کھلے مین ہول زندگیاں کھا جاتے ہیں، کہیں طاقت کے نشے میں چور خاندان قانون کو کھیل سمجھ لیتے ہیں۔ ہم ایک ایسے سماج میں زندہ ہیں جس نے انسانیت کو سرکاری فائلوں میں گم ہونے دیا، جہاں ترقی کے نام پر بجٹ تو بنتے ہیں مگرگلی کے ڈھکن نہیں لگتے۔ جس ملک میں ایک بچے کی زندگی کا مول ایک کاغذی معافی ہو، وہاں زخم برسوں تک نہیں بھرتے۔ یہ سب حادثات نہیں، یہ اس نظام کا جرم ہے جو امیروں کے قدم چومتا ہے اور غریب کے بچوں کو لاوارث چھوڑ دیتا ہے۔
یہ وہ ظلم ہے جو اب عادت بن چکا ہے، اور ہم جو اس ظلم کے گواہ بھی ہیں اور اس کے شکار بھی شاید اس قدر تھک چکے ہیں کہ چیخوں کو بھی خاموشی کی چادر اوڑھا دیتے ہیں۔مگر ان ماؤں کی سسکیاں، ان بچوں کی چیخیں، ان باپوں کی خالی نظریں یہ سب گواہی ہیں کہ ہم اب مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہر بچہ جو کھلے مین ہول میں گرتا ہے، ہر شہری جو کسی طاقتورکی گاڑی تلے کچلا جاتا ہے، وہ ہماری اجتماعی غفلت پر نوحہ ہے۔ جس ملک میں سڑکیں غریبوں کی قبریں بنیں، وہاں کوئی سماج زندہ نہیں رہتا، صرف آبادی رہ جاتی ہے، بے حس، بوجھل اور بکھری ہوئی۔
آج اگر ہم نے اس خون کا حساب نہ لیا تو آنے والے کل میں یہ خون ہمارے اپنے قدموں کو پکڑ لے گا۔ ہمیں ان بچوں کی آنکھوں میں جھانکنا ہوگا جو جاتے جاتے ہم سے سوال کر گئے۔ ہمیں ان سڑکوں سے پوچھنا ہوگا جو بار بار قربانیاں مانگتی ہیں۔ ہمیں ان اداروں کو آئینہ دکھانا ہوگا جو عوام کی حفاظت کے لیے بنے تھے مگر عوام کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔
آخر میں دل ایک بار پھر وہی سوال دہراتا ہے، میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ اس سوال کا جواب شاید ایک چہرہ نہیں، ایک نظام ہے۔ ایک پورا ڈھانچہ ہے جو کمزورکوکچلنے کے لیے تیار رہتا ہے اور طاقتور کے قدموں میں فرش بن جاتا ہے۔ جب تک ہم اس نظام کے سامنے کھڑے نہیں ہوں گے جب تک ہم اپنی آواز کو اجتماعی طاقت نہیں بنائیں گے، تب تک یہ سوال ہمارے دلوں میں جلتا رہے گا۔ مگر امید یہی ہے کہ ایک دن ایک وقت ایک لمحہ ایسا آئے گا، جب ظلم کی زنجیریں ٹوٹیں گی جب بے حسی کی چادر اتر جائے گی، جب جرم اور طاقت کے درمیان دیوار گر جائے گی اور شاید تب ہم اس لہو کا سراغ پا سکیں گے جو ہر روز ہماری سڑکوں پر بہہ جاتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ جو ظلم ہمارے اردگرد ہو رہا ہے اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جائے اور ہمارے سیاست دان اور حکومتی اداروں سے جواب مانگا جائے ان کو احساس دلایا جائے کہ یہ ان کی ذمے داری ہے جو ان کو پوری کرنی ہوگی۔ وہ ہمارے نمایندے ہیں اور ان کا انتخاب اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ خاموش تماشائی بنے رہیں اور عوام صبح شام اپنے نصیبوں کو روتے رہیں۔
عوام کو انصاف چاہیے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ اس سے زیادہ مہلت اب نہیں دی جاسکتی۔ عوام یہ چاہتے ہیں کہ دوبارہ کسی کے ساتھ ایسا حادثہ پیش نہ آئے اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ہر شہری کی جان و مال محفوظ رہے۔ ہم امید تو کر ہی سکتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں گے اور مظلوم کو انصاف ملے گا، یہ کوئی ایسی خواہش تو نہیں کہ جو پوری نہ ہوسکے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے