میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
شہرکی سڑکوں پر شام اترتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ روشنی نہیں ایک بے نام سی اداسی پورے آسمان پر پھیل گئی ہے۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے گاڑیوں کے شور میں ایک ہی سوال دل کو چیرتا رہتا ہے، میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ یہ لہو صرف ایک گھرانے، ایک خاندان یا ایک دل شکستہ ماں کا نہیں، یہ اس پورے سماج کا ہے جس نے طاقت، دولت اور بے حسی کو اپنا خدا بنا کر انسانیت کو بھول جانے کی قسم کھا لی ہے۔
چند دن پہلے پھر وہی منظر تھا کہ ایک نوجوان جس کی رفتار اس قدر تیز تھی اور وہ اندھا دھند ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ اسٹیرنگ ویل اس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ غرورکی گرفت میں تھا۔ سڑک جو سب کے لیے برابر ہوتی ہے، اس لمحے اُس کے لیے تخت تھی۔ ایک تیز رفتارگاڑی ایک لمحے کی بے احتیاطی اور ایک گھرکا چراغ بجھ گیا۔
بچوں کا باپ، والدین کا سہارا بیوی کا ساتھی ایک جھٹکے میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ گھر میں چولہا نہیں جلے گا، بچوں کی فیس نہیں بھری جائے گی، ماں دھاڑیں مار کر روئے گی مگر جس ہاتھ نے یہ خون بہایا وہ ہاتھ چند گھنٹوں بعد صاف دکھائی دیے گا۔ سفارش فون کال اثر و رسوخ اور قاتل آزاد مسکراتا ہوا دنیا کے کسی اور شہر میں نئی زندگی کی تلاش میں نکل جائے گا۔
ہمارے ملک میں سزا مجرم کو نہیں، غریب کی قسمت میں ہوتی ہے، یہاں حادثے نہیں ہوتے بلکہ معصوم لوگوں کا قتل معمول بن جاتا ہے، وہ عدالتیں جو کمزور کو نصیحتیں دیتی ہیں طاقتور کے آگے سر جھکا دیتی ہیں۔ وہ پولیس جو غریب کے گھر کی دہلیز بے دھڑک پار کر لیتی ہے، امیر کے بڑے بڑے دروازوں کے سامنے خاموش کھڑی رہتی ہے اور وہ سماج جو ایک دن احتجاج کرتا ہے دوسرے دن تصویریں بانٹتا ہے اور تیسرے دن سب بھول جاتا ہے۔
اُسی شہر میں ایک اور المیہ ایک چھوٹا بچہ اپنی دنیا میں مگن اپنے ہی قدموں پہ بھاگتے ہوئے ایک ایسے گڑھے میں اُترگیا، جو ہفتوں سے کھلا تھا۔ لوگ دیکھتے رہے، گزرتے رہے، ہمدردانہ نظروں سے اس کے کنارے اینٹیں رکھتے رہے مگر کسی ادارے نے اسے ڈھکن دینے کی زحمت نہ کی۔ وہ گڑھا اُس بچے کے لیے قبر بن گیا اور گھر والوں کے لیے زندگی بھرکا داغ۔
بچے کی لاش نکالی گئی تو شہر پر جیسے سناٹا چھا گیا۔ اس کی ماں کے ہاتھ خالی ہوگئے، وہ ہاتھ جن پرکبھی وہ بچہ سویا کرتا تھا۔ اُس کے باپ کی آنکھیں ساکت ہوگئیں مگر ادارے؟ افسران وہی پرانی پریس ریلیز، وہی معمول کے بیانات، وہی تحقیقات کے وعدے اور پھر ہمیشہ کی طرح خاموشی۔سوال وہی رہے گا کون ذمے دار ہے؟ کس کی بے حسی نے اس بچے کو نگل لیا؟ اور سب سے بڑھ کر کس کے ہاتھ پر میں اپنا لہو تلاش کروں؟
ملک کے ہر کونے میں یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ کہیں سڑکیں قاتل بن جاتی ہیں، کہیں کھلے مین ہول زندگیاں کھا جاتے ہیں، کہیں طاقت کے نشے میں چور خاندان قانون کو کھیل سمجھ لیتے ہیں۔ ہم ایک ایسے سماج میں زندہ ہیں جس نے انسانیت کو سرکاری فائلوں میں گم ہونے دیا، جہاں ترقی کے نام پر بجٹ تو بنتے ہیں مگرگلی کے ڈھکن نہیں لگتے۔ جس ملک میں ایک بچے کی زندگی کا مول ایک کاغذی معافی ہو، وہاں زخم برسوں تک نہیں بھرتے۔ یہ سب حادثات نہیں، یہ اس نظام کا جرم ہے جو امیروں کے قدم چومتا ہے اور غریب کے بچوں کو لاوارث چھوڑ دیتا ہے۔
یہ وہ ظلم ہے جو اب عادت بن چکا ہے، اور ہم جو اس ظلم کے گواہ بھی ہیں اور اس کے شکار بھی شاید اس قدر تھک چکے ہیں کہ چیخوں کو بھی خاموشی کی چادر اوڑھا دیتے ہیں۔مگر ان ماؤں کی سسکیاں، ان بچوں کی چیخیں، ان باپوں کی خالی نظریں یہ سب گواہی ہیں کہ ہم اب مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہر بچہ جو کھلے مین ہول میں گرتا ہے، ہر شہری جو کسی طاقتورکی گاڑی تلے کچلا جاتا ہے، وہ ہماری اجتماعی غفلت پر نوحہ ہے۔ جس ملک میں سڑکیں غریبوں کی قبریں بنیں، وہاں کوئی سماج زندہ نہیں رہتا، صرف آبادی رہ جاتی ہے، بے حس، بوجھل اور بکھری ہوئی۔
آج اگر ہم نے اس خون کا حساب نہ لیا تو آنے والے کل میں یہ خون ہمارے اپنے قدموں کو پکڑ لے گا۔ ہمیں ان بچوں کی آنکھوں میں جھانکنا ہوگا جو جاتے جاتے ہم سے سوال کر گئے۔ ہمیں ان سڑکوں سے پوچھنا ہوگا جو بار بار قربانیاں مانگتی ہیں۔ ہمیں ان اداروں کو آئینہ دکھانا ہوگا جو عوام کی حفاظت کے لیے بنے تھے مگر عوام کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔
آخر میں دل ایک بار پھر وہی سوال دہراتا ہے، میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ اس سوال کا جواب شاید ایک چہرہ نہیں، ایک نظام ہے۔ ایک پورا ڈھانچہ ہے جو کمزورکوکچلنے کے لیے تیار رہتا ہے اور طاقتور کے قدموں میں فرش بن جاتا ہے۔ جب تک ہم اس نظام کے سامنے کھڑے نہیں ہوں گے جب تک ہم اپنی آواز کو اجتماعی طاقت نہیں بنائیں گے، تب تک یہ سوال ہمارے دلوں میں جلتا رہے گا۔ مگر امید یہی ہے کہ ایک دن ایک وقت ایک لمحہ ایسا آئے گا، جب ظلم کی زنجیریں ٹوٹیں گی جب بے حسی کی چادر اتر جائے گی، جب جرم اور طاقت کے درمیان دیوار گر جائے گی اور شاید تب ہم اس لہو کا سراغ پا سکیں گے جو ہر روز ہماری سڑکوں پر بہہ جاتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ جو ظلم ہمارے اردگرد ہو رہا ہے اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جائے اور ہمارے سیاست دان اور حکومتی اداروں سے جواب مانگا جائے ان کو احساس دلایا جائے کہ یہ ان کی ذمے داری ہے جو ان کو پوری کرنی ہوگی۔ وہ ہمارے نمایندے ہیں اور ان کا انتخاب اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ خاموش تماشائی بنے رہیں اور عوام صبح شام اپنے نصیبوں کو روتے رہیں۔
عوام کو انصاف چاہیے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ اس سے زیادہ مہلت اب نہیں دی جاسکتی۔ عوام یہ چاہتے ہیں کہ دوبارہ کسی کے ساتھ ایسا حادثہ پیش نہ آئے اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ہر شہری کی جان و مال محفوظ رہے۔ ہم امید تو کر ہی سکتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں گے اور مظلوم کو انصاف ملے گا، یہ کوئی ایسی خواہش تو نہیں کہ جو پوری نہ ہوسکے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں کس کے ہاتھ جاتا ہے ہیں کہ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
یوکرین اپنا بہت سا حصہ کھو چکا، ڈونلڈ ٹرمپ کا جنگ میں روس کی برتری کا اعتراف
امریکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ روسی صدر پیوٹن اور یوکرینی صدر زیلنسکی ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتے ہیں، اسی وجہ سے دونوں کیلئے امن معاہدہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین سے تنازع میں روس کو برتری حاصل ہے، یوکرین اپنا بہت سا حصہ کھو چکا ہے۔ امریکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا کہ روسی صدر پیوٹن اور یوکرینی صدر زیلنسکی ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتے ہیں، اسی وجہ سے دونوں کے لیے امن معاہدہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک بھی بہتر طور پر اپنا کردار ادا نہیں کر رہے، یورپ بات کرتا ہے، لیکن کوئی عمل نہیں ہوتا اور جنگ چلے جا رہی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یوکرینی صدر زیلنسکی نے امریکا کا مجوزہ امن منصوبہ بھی نہیں پڑھا، یوکرین کو اب انتخابات کرا لینے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین جنگ کو انتخابات نہ کرانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، یوکرینی عوام کو انتخاب کا حق حاصل ہونا چاہیئے۔