ملک بھر میں 71 فیصد بینک اکاؤنٹس کا بیلنس 50,000 روپے سے کم
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں صرف 3 فیصد بینک اکاؤنٹس ایسے ہیں جن میں ایک ملین روپے سے زائد کی رقم موجود ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق 70 فیصد سے زیادہ کمرشل بینک اکاؤنٹس میں صرف 50 ہزار روپے سے کم رقم جمع ہے جبکہ 26 فیصد اکاؤنٹس میں بیلنس 50 ہزار سے لے کر 10 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ مزید تفصیلات کے مطابق 51 فیصد اکاؤنٹس میں صرف 5,000 روپے سے بھی کم رقم موجود ہے، جبکہ 20 فیصد اکاؤنٹس کا بیلنس 50,000 روپے سے کم ہے۔
یہ اعداد و شمار اسٹیٹ بینک کے مالی سال 2025 کی تیسری سہ ماہی کی رپورٹ “کوارٹرلی پیمنٹ سسٹمز ریویو” میں جاری کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل ادائیگی چینلز نے مجموعی ریٹیل ٹرانزیکشنز میں 89 فیصد حصہ ڈالا، جن میں موبائل ایپ بینکنگ کا کردار نمایاں رہا۔ ریٹیل ادائیگیوں کی تعداد میں 12 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 2,408 ملین ٹرانزیکشنز تک پہنچ گئیں جن کی مجموعی مالیت 164 کھرب روپے رہی۔
اسی سہ ماہی کے دوران اسٹیٹ بینک کے ڈیجیٹل ادائیگی پلیٹ فارم “راست” نے 371 ملین ٹرانزیکشنز پروسیس کیں جن کی مالیت 8.
یہ رپورٹ ملک میں مالی وسائل کی غیر مساوی تقسیم، کمزور مالی شمولیت اور ڈیجیٹل بینکاری کے تیزی سے فروغ کی واضح عکاسی کرتی ہے۔
Post Views: 5ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کھرب روپے کے مطابق روپے سے
پڑھیں:
صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد قومی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمے قرضوں کا تناسب اگلے 3 سال میں 70.8 فیصد سے کم ہوکر 60.8 فیصد تک لانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ہے، تاہم خطرات اب بھی موجود ہیں۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جون 2025ء تک مجموعی قرض 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، جب کہ صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جب کہ فنانسنگ کی ضروریات آئندہ برسوں میں 18.1 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رہیں گی۔
وزارت خزانہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی، تاہم قرضوں کا حجم اب بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔
رپورٹ میں قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی تفصیلی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں تبدیلی کو قرض کے بوجھ میں اضافے کی بنیادی وجوہات بتایا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد اندرونی جب کہ 32.3 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، جس سے شرح سود کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کا دباؤ بڑھا ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں، جو دوطرفہ اور کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ ریٹ والے بیرونی قرضوں کی شرح 41 فیصد ہے، جو درمیانی سطح کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔