اسرائیل کے ساتھ جاسوسی کے الزامات: ایران سے 5 لاکھ افغان باشندے ملک بدر
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
تہران:ایران میں افغان باشندوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ صرف 16 روز کے میں 5 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ایران سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ یہ کارروائی ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب ایران میں افغان باشندوں کے اسرائیل کے لیے مبینہ طور پر جاسوسی میں ملوث ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق ایرانی ریاستی میڈیا پر حالیہ دنوں ایسی ویڈیوز نشر کی گئی ہیں جن میں بعض افغان شہریوں کی جانب سے اسرائیلی اداروں کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا گیا ہے۔
ان اعترافات کے بعد ایرانی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور عوامی سطح پر تمام افغان مہاجرین کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
حکام کے مطابق ایران میں موجود افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا ہے، اور افغان سرحد کے قریب واقع علاقوں میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ملک بدری کے شکار افراد اس وقت افغان سرحد پر شدید کسما پرسی اور بے سروسامانی کا شکار ہیں جبکہ افغان حکومت تاحال ان بے دخل افراد کی کسی قسم کی مدد کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ جاسوسی جیسے سنگین الزامات صرف انفرادی افراد پر عائد کیے گئے ہیں، تاہم مجموعی طور پر افغان باشندوں پر اعتماد کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔
Post Views: 7.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اگر ایران سے خطرہ محسوس ہوا تو دوبارہ حملہ کریں گے،اسرائیلی وزیر دفاع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تل ابیب: اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے ایک بار پھر ایران کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر تہران کی جانب سے کوئی خطرہ محسوس ہوا تو اسرائیل ایران پر دوبارہ حملہ کرے گا، اور اس بار کارروائی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ کی جائے گی۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھااگر ہمیں واپس جانا پڑا، تو ہم زیادہ طاقت کے ساتھ واپس جائیں گے۔ ہماری پہنچ تہران، تبریز، اصفہان اور ایران کے ہر اُس مقام تک ہے جہاں سے اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
خیال رہےکہ حال ہی میں اسرائیل نے جون میں ایران کے خلاف 12 روزہ فضائی حملے کیے تھے، جن میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اسرائیل کا موقف تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے، جسے اسرائیل اپنے لیے ’’وجودی خطرہ‘‘ تصور کرتا ہے۔
ایران نے اسرائیلی الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
واضح رہےکہ جون میں ہونے والی اس کارروائی میں امریکہ نے بھی اسرائیل کا ساتھ دیا اور مبینہ طور پر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں میں شرکت کی۔ اس کشیدگی کے دوران خطے میں وسیع تر جنگ کے خدشات بڑھ گئے تھے۔