چینی باہر بھیجنے میں کون سی شوگر ملز ملوث تھیں؟ فہرست سامنے آگئی WhatsAppFacebookTwitter 0 29 July, 2025 سب نیوز


اسلام آباد(آئی پی ایس) پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں آج چینی بحران پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، جس میں چینی کی برآمد، درآمد، قیمتوں میں اضافے اور شوگر ملز مالکان کی اجارہ داری پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔ اجلاس میں ارکان کی جانب سے حکومت، شوگر مافیا اور ایڈوائزری بورڈ پر سخت تنقید کی گئی۔
سیکرٹری صنعت و پیداوار نے اجلاس کو بتایا کہ شوگر انڈسٹری کو صوبائی حکومتیں ریگولیٹ کرتی ہیں اور شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وفاق اور صوبوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ بریفنگ کے مطابق بورڈ چینی کے موجودہ اسٹاک، ضروریات اور پیداوار کا جائزہ لیتا ہے، اور کرشنگ سیزن ہر سال 15 نومبر سے 15 مارچ تک جاری رہتا ہے۔

سیکرٹری صنعت و پیداوار کے مطابق گزشتہ دس سال میں 5.

09 ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی، جن میں سے 3.927 ملین ٹن برآمد ہوئی۔ سال 2023-24 میں 68 لاکھ ٹن چینی پیدا ہوئی جبکہ مجموعی اسٹاک 76 لاکھ ٹن تھا، جس میں سے 8 لاکھ ٹن سرپلس قرار دی گئی۔ اس پر ای سی سی نے 7.9 لاکھ ٹن برآمد کی اجازت دی، مگر صرف 7.5 لاکھ ٹن ہی برآمد کی جا سکی۔ تاہم، بعد ازاں چینی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سیکرٹری صنعت نے بتایا کہ چینی کے موجودہ ذخائر نومبر تک کے لیے کافی ہیں، لیکن اس سال درآمد کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے بتایا کہ گنے کی پیداوار کم ہونے اور کرشنگ میں تاخیر کے باعث مسائل پیدا ہوئے۔ ان کے مطابق اس وقت چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے ہے، جو اگست میں 167 اور ستمبر میں 169 روپے تک جا سکتی ہے۔ تاہم چیئرمین پی اے سی کے استفسار پر انہوں نے تسلیم کیا کہ چینی کی فی کلو فروخت کی اوسط قیمت 173 روپے ہے۔

چیئرمین پی اے سی اور دیگر ارکان نے قیمتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں چینی 210 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ ’صرف 42 شوگر ملز کی خاطر عوام کو ذلیل کیا جا رہا ہے‘ اور یاد دلایا کہ انہوں نے شوگر ملز مالکان کی فہرست طلب کی تھی۔

سیکرٹری صنعت نے بتایا کہ ان کے پاس ملز کی فہرست موجود ہے، جس پر چیئرمین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شوگر ملز نہیں بلکہ مالکان اور ڈائریکٹرز کی تفصیلات درکار ہیں۔ پی اے سی نے فوری طور پر شوگر ملز مالکان کے ناموں کی فہرست طلب کر لی۔

بعد ازاں وزارت صنعت و پیداوار نے شوگر ملز مالکان اور ڈائریکٹرز کی فہرست، چینی برآمد و درآمد کرنے والی شوگر ملز کے نام اور ملکوں کی تفصیل بھی پیش کر دی۔

چینی ایکسپورٹ کرنے والی ملز کی فہرست
جن ممالک کو چینی ایکسپورٹ کی گئی ان کی فہرست
بریفنگ کے مطابق گزشتہ برس 40 کروڑ ڈالر مالیت کی 7 لاکھ 49 ہزار ٹن چینی برآمد کی گئی، جس میں سے سب سے زیادہ یعنی 4 لاکھ 94 ہزار ٹن چینی افغانستان کو بھیجی گئی۔ سب سے زیادہ چینی جے ڈی ڈبلیو شوگر مل نے برآمد کی۔
ارکان پی اے سی نے انکشاف کیا کہ 117 روپے فی کلو برآمد کی گئی چینی بعد ازاں 170 روپے میں درآمد کی گئی۔ خواجہ شیراز نے سوال اٹھایا کہ ’یہ ڈاکے صرف تب ہی کیوں پڑتے ہیں جب ملز مالکان کی حکومت آتی ہے؟‘
رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ ملک میں سب سے زیادہ شوگر ملز زرداری خاندان کی ہیں، دوسرے نمبر پر جہانگیر ترین اور تیسرے نمبر پر شریف فیملی کی ملز آتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2017 میں شوگر مافیا کو برآمد کی اجازت کے ساتھ 10 روپے فی کلو سبسڈی دی گئی۔ عامر ڈوگر نے مزید کہا کہ سندھ کی ساری شوگر ملز آصف زرداری کی ہیں۔
ان کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے سخت ردعمل دیا اور کہا، ’عامر ڈوگر اپنے الزامات کو ثابت کریں یا واپس لیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ شوگر سیکٹر میں حکومتی مداخلت ختم ہونی چاہیے۔‘
سینیٹر بلال نے بھی عامر ڈوگر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے الفاظ واپس لیں، جبکہ چیئرمین کمیٹی خواجہ شیراز نے کہا کہ چینی کی برآمد یا درآمد کے تمام فیصلے مختلف وزارتوں میں سمریوں کی منظوری سے ہوتے ہیں۔ خواجہ شیراز نے مزید استفسار کیا، ’کیا کسی نے یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ چینی درآمد پر دی گئی ٹیکس چھوٹ آئی ایم ایف معاہدے کے خلاف تھی؟‘
چیئرمین پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ ان شوگر ملز مالکان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی جنہوں نے قیمتیں نہ بڑھانے کی یقین دہانی کروا کر بھی قیمتیں بڑھا دیں؟ اس پر سیکرٹری صنعت نے وضاحت کی کہ چینی کی ”ایکس مل“ قیمت شوگر ایڈوائزری بورڈ کی سفارش پر مقرر کی جاتی ہے۔
عامر ڈوگر کے ریمارکس پر سینیٹر افنان اللہ نے طنز کرتے ہوئے کہا، ’یہ بھی بتائیں کہ آپ کی پارٹی کس کے پیسے سے بنی؟‘ جس کے بعد اجلاس میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور ماحول کشیدہ ہو گیا۔
معین پیرزادہ نے شوگر ایڈوائزری بورڈ کو ”فساد کی جڑ“ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ شوگر مافیا براہ راست حکومتوں کا حصہ ہے، اور عوام کو لوٹ کر ذاتی مفاد حاصل کیا جا رہا ہے۔

پی اے سی نے آخر میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ شوگر ملز مالکان کے نام، ان کے کاروباری مفادات اور برآمد و درآمد میں کردار کو قوم کے سامنے واضح کیا جائے تاکہ چینی بحران کے اصل ذمے داروں کا تعین ہو سکے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارتی رکن پارلیمنٹ نے رافیل طیارہ گرنے کی تصدیق کر دی بھارتی رکن پارلیمنٹ نے رافیل طیارہ گرنے کی تصدیق کر دی حج 2026: اخراجات کی وصولی اگست کے پہلے ہفتے میں متوقع، کتنی رقم دینی ہوگی؟ پی اے سی نے شوگر ملز مالکان کے ناموں کی فہرست فوری طلب کر لی شاہی حکم پر جمیکن دھڑ جڑی جڑواں بچیاں سعودی عرب منتقل، سرجری کا فیصلہ معائنے کے بعد ہوگا عوام کیلئے اچھی خبر، کراچی سمیت ملک بھر کے صارفین کیلئے بجلی سستی ہونے کا امکان عمران خان کی 9مئی مقدمات کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت بغیر کارروائی ملتوی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: شوگر ملز

پڑھیں:

ڈیلرز اور شوگر ملز مالکان کا چینی خریدو فروخت کا تنازع حل نہ ہو سکا‘اسلام آبادمیں چینی کی سپلائی بند

اسلام آباد،لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جولائی2025ء)ڈیلرز اور شوگر ملز مالکان کا چینی خریدو فروخت کا تنازع حل نہ ہو سکااور اسلام آباداور لاہورمیں چینی مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہے ۔ ۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما سہیل ملک نے کہا کہ شوگر ڈیلرز کو آج بھی چینی 165 روپے پر نہیں مل سکی، بازار میں آج بھی چینی کی سپلائی معطل رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ شوگر ملز مالکان نے وزارت سے مل کر چینی ایکسپورٹ کرا دی ہے، اربوں روپے کا منافع شوگر ملز مالکان ہڑپ کر گئے، اب چینی کا بحران آیا تو ذمے دار صرف ڈیلرز کو قرار دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ شوگر ڈیلرز اس وقت روپوش ہو چکے ہیں۔ذرائع کے مطابق شوگر ملز مالکان بحران پر براہ راست موقف دینے سے گریز کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

شوگر ملز کے ذرائع نے کہا کہ چینی اسٹاک کی کمی نہیں ہمارا موقف حکومت کو معلوم ہے۔

ادھرچینی سرکاری ریٹ پر دستیاب نہیں، لاہور اور اسلام آباد کے بازاروں سے تو غائب ہی ہوگئی۔لاہور میں چینی کمیاب ہوگئی، بازاروں میں قلت کے باعث ڈیلرز نے کاروبار بند کردیا۔ہول سیلرزکا کہنا ہے کہ انہیں ملز والے سرکاری ریٹ پر چینی فراہم نہیں کر رہے، زیادہ تر شہروں میں ہول سیلرز کو سرکاری ایکس مل قیمت پر چینی دستیاب نہیں۔ہول سیلرز کا کہنا تھا کہ اسی طرح ہول سیلرز کے سرکاری ریٹ پر دکاندار کو چینی نہیں مل رہی جس سے گھریلو صارف بھی سرکاری قیمت پر چینی حاصل کرنے میں ناکام ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک سال میں 67 شوگر ملز مالکان نے 112 ارب روپے کی چینی باہر بھیجی، پی اے سی کو بریفنگ
  • چینی بحران، پبلک اکاونٹس کمیٹی کے ایف بی آر اور وزارت صنعت سے سخت سوالات، شوگر ملز مالکان کے نام طلب
  • سال 2024-25 میں چینی برآمد کرنے والی شوگز ملز کی فہرست سامنے آگئی
  • شوگر ملز مالکان کو برآمد کیلئے سبسڈی کیوں دی گئی؟ چیئرمین پی اے سی کا سوال
  • چینی بحران، پی اے سی نے شوگر ملز مالکان کے نام طلب کر لیے
  • پی اے سی نے شوگر ملز مالکان کے ناموں کی فہرست فوری طلب کر لی
  • شوگر ملز مالکان اور ڈیلرز کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار، مارکیٹ سے چینی غائب
  • ڈیلرز اور شوگر ملز مالکان کا چینی خریدو فروخت کا تنازع حل نہ ہو سکا‘اسلام آبادمیں چینی کی سپلائی بند
  • ڈیلرز اور شوگر ملز مالکان میں تنازع برقرار، بازار میں چینی کی سپلائی آج بھی معطل