بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے!
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
معصوم مرادآبادی
حد سے زیادہ چاپلوسی، چمچہ گیری اور کاسہ لیسی بھی انسان کو رسوا کرکے چھوڑتی ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال نائب صدر جمہوریہ کے عہدے سے مستعفی ہونے والے مہاشے جگدیپ دھنکڑ ہیں، جن کے لیے کوئی ایک آنسو بھی نہیں گرا۔ ان لوگوں کا بھی نہیں جن کے لیے انھوں نے اپنے ظرف وضمیر کا بے دریغ سودا کیا تھابلکہ وہ لوگ اب ان کی کردار کشی پر اترآئے ہیں اور ان میں ہزاروں خامیاں تلاش کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی لوگ تھے جو دھنکڑ جی کی ‘سرکاری خدمات’ کے حددرجہ معترف تھے ۔جگدیپ دھنکڑ نے پہلے مغربی بنگال کے گورنر اور پھر نائب صدر جمہوریہ کے طورپر موجودہ حکومت کی جو خدمت انجام دی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔لیکن حکومت کی منشاء کے خلاف ایک کام کرنے کی پاداش میں انھیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیا گیا۔
نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کے اچانک استعفے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دن انھوں نے نہ صرف ایوان کی کارروائی میں حصہ لیا بلکہ اگلے دن کی کارروائی کے موضوعات بھی طے کئے ، لیکن شام گئے ایسا کیا ہوا کہ وہ اچانک اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے ۔انھوں نے پیر کی رات 9 بج کر25منٹ پر اپنااستعفیٰ ایکس پر پوسٹ کیا تو لوگوں کو پتہ چلا کہ موجودہ حکومت کے ایک انتہائی وفادار شخص نے ایک ایسے عہدے سے استعفیٰ دیا جس سے کوئی مستعفی نہیں ہونا چاہتا، کیونکہ نائب صدر جمہوریہ کے عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کی نظر صدر جمہوریہ کی کرسی پر رہتی ہے ، جو اس ملک کا سب سے بڑا عہدہ ہے ۔ اکثر یہی ہوا ہے کہ جب صدر جمہوریہ کی کرسی خالی ہوئی تو اس پر نائب صدر کو بٹھایا گیا۔وہ ملک کے پہلے نائب صدر ہیں جنھوں نے اپنی مدت کار پوری ہونے سے پہلے ہی درمیان میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔حالانکہ ان سے پہلے دونائب صدر وی وی گری اور وینکٹ رمن ایسے گزرے ہیں جنھوں نے درمیان ہی میں عہدہ چھوڑا ہے ، لیکن ایسا انھوں نے صدرجمہوریہ بننے کے لیے کیا تھا۔ جگدیپ دھنکڑ کو ابھی نائب صدر کا عہدہ سنبھالے تین سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے ۔ ان کی مدت کار اگست 2027میں پوری ہونے والی تھی۔ جگدیپ دھنکڑ نے اپنے استعفیٰ کی وجوہات میں سے بڑی وجہ صحت کو بتایا ہے ، لیکن اپوزیشن کا الزام ہے کہ انھوں نے صحت کو ڈھال کے طورپر استعمال کیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیااور ان کے استعفے کا ڈرافٹ بھی حکومت کے کارندوں نے تیار کیا۔انھیں اس پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔
نائب صدر بہ اعتبار عہدہ راجیہ سبھا کا چیئرمین بھی ہوتا ہے اور ایوان بالا کی کارروائی اسی کی مرضی اور منشا سے چلتی ہے ۔ موجودہ حکومت کا ایک مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ اسے کچھ عرصے پہلے تک راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے اہم بلوں کی منظوری میں خاصی دشواریاں پیش آتی تھیں۔2014میں جب مودی سرکار اقتدار میں آئی تو اسے راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے وہاں اسے اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے میں خاصی دشواری پیش آئی۔ کئی ایسے بل تھے جو لوک سبھا میں پاس ہونے کیباوجود راجیہ سبھا میں اوندھے منہ گرگئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محمد حامد انصاری راجیہ سبھا کے چیئرمین تھے ۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنا کام پوری غیرجانبداری اور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے تھے ۔ حکمراں طبقہ نے کئی بار انھیں رعب میں لینے کی کوشش کی لیکن وہ کسی دباؤ میں نہیں آئے ۔ 2017 میں جب وہ نائب صدر کے عہدے سے اپنی دس سالہ مدت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے تو ان کی الوداعی تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی نے کچھ ایسی باتیں کہیں جو انھیں کسی بھی طورزیب نہیں دیتی تھیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے حامد انصاری کو ذاتی طورپر بھی نشانہ بنایا۔بعد کے دنوں میں بھی سنگھ پریوار حامد انصاری کے پیچھے پڑا رہا، لیکن حامد انصاری نے کبھی کوئی ہلکی بات نہیں کہی۔ انھوں نے پورے وقار کے ساتھ راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طورپر اپنی معیاد پوری کی تھی اور ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں تھا، لیکن ان کی سبکدوشی کے بعد اس عہدے کا وہ وقار باقی نہیں رہا۔ حامدانصاری کے بعد ونکیا نائیڈو نائب صدر بنے جو بی جے پی کے بھی صدر رہ چکے تھے ۔ ونکیا نائیڈو کے بعد 2022 میں جگدیپ دھنکڑ اس عہدے پر آئے تو سارا منظر ہی بدل گیا۔انھوں نے اپنے عہدے کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔وہ ایک چاپلوس، موقع پرست اور غیر ذمہ دار شخص کے طورپر جانے گئے ۔
مودی سرکار شروع ہی سے اس بات کی خواہش مند تھی کہ اسے راجیہ سبھا میں کوئی ایسا چیئرمین مل جائے جو اس کی راہ کی دشواریوں کو دور کرتا رہے ۔ یہ کام جگدیپ دھنکڑ نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ وہ نائب صدر کے عہدے پر براجمان ہونے سے پہلے مغربی بنگال کے گورنر تھے اور وہاں انھوں نے اتنا سرگرم سیاسی کرداراداکیا تھا کہ ممتا بنرجی کو سرکار چلانا دوبھر ہوگیا تھا۔ دھنکڑ جی حکومت کے ہرکام میں ٹانگ اڑاتے تھے اور انھیں اپنے عہدے کے وقار کا بھی کوئی پاس نہیں تھا۔اس کے بعد جب نائب صدر جمہوریہ بنے تو انھوں نے اپنا کام جاری رکھا اوور اپنے مزاج کے مطابق حکومت کے لیے بہت سود مند ثابت ہوئے ۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ نائب صدر جمہوریہ کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے اور اس پر بیٹھنے والا خودکو سیاست سے دور رکھتا ہے ، لیکن جگدیپ دھنکڑ ایسے پہلے نائب صدر تھے جوپوری طرح سیاست کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔وہ کھل کر بی جے پی کے حق میں بیان بازی کرتے تھے ۔ حالانکہ زبانی طورپر یہ ضرور کہتے تھے کہ وہ کسی کے دباؤ میں کام نہیں کرتے ہیں، لیکن ان کے اس بیان کی حقیقت اس وقت معلوم ہوتی تھی جب وزیراعظم نریندر مودی سے ان کا سامنا ہوتا تھا۔وہ وزیراعظم کو دیکھ تقریباً جھک جاتے تھے جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی کی لچک کا بھی اندازہ ہوتا تھا۔
راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کا جھکاؤ ہمیشہ حکمراں طبقہ کی طرف ہوتا تھااور وہ اپوزیشن ارکان کے ساتھ کھلا بھید بھاؤ کرتے تھے ۔یہاں تک کہ کئی مواقع پر انھوں نے سینئر اپوزیشن لیڈروں کی بے عزتی بھی کی اور انھیں دیش دروہی تک کہا۔میں نے بارہا راجیہ سبھا کی پریس گیلری میں بیٹھ کر یہ منظر دیکھا کہ انھوں نے اپوزیشن کو قطعی نظرانداز کرکے حکومت کی منشا پوری کی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کی۔وہ راجیہ سبھا کی تاریخ میں ایسے واحد چیئرمین تھے جن پر اپوزیشن نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ بعد کو دھنکڑ جی نے اس تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے مضبوط بازوؤں کی نمائش بھی کی تھی اور اسے مسترد کردیا تھا۔ اب جبکہ جسٹس یشونت ورما کے مواخذہ کی تحریک خود انھوں نے منظورکی تو اس سے حکومت کو جھٹکا لگا۔حکومت ایسا نہیں چاہتی تھی۔
عام خیال یہ ہے کہ ان کے استعفے کے پیچھے مواخذے کی اس تحریک کو قبول کرنا ہی اصل وجہ ہے ۔اس کے علاوہ پچھلے کچھ دنوں سے وہ کسانوں کے مسائل پر بھی کھل کربول رہے تھے جو حکومت کو گراں گزررہا تھا۔ انھوں نے اپنے استعفے میں اپنی گرتی ہوئی صحت کو سبب بتایا ہے ۔ اب سے چند ماہ پہلے وہ نئی دہلی کے ایمس میں ضرور داخل ہوئے تھے اور وہاں ان کی انجیو پلاسٹی کی گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد وہ جلدہی کام پر واپس آگئے تھے اور حکومت کی مرضی کے مطابق اپنا کام انجام دے رہے تھے ۔ ان کے اچانک مستعفی ہونے کے پیچھے کچھ ایسے اسباب ضرور ہیں جن کی پردہ پوشی کی جارہی ہے ۔ دھنکڑ جی نے اپنے استعفے میں صحت کی خرابی کا جو سبب بیان کیا ہے اس کے پیش نظر امید یہ تھی کہ ان کا حال جاننے کے لیے ان کے گھر پر مرکزی وزیروں کا تانتا بندھ جائے گا۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ خود وزیراعظم نریندرمودی نے تقریباً چوبیس گھنٹے بعد ان کی مزاج پرسی کی اور وہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ۔ ان کے استعفیٰ پر بی جے پی نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے ۔یوں بھی ان کا پس منظر آرایس ایس کا نہیں تھا اور وہ 2003میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے ۔اس سے پہلے وہ وکالت کیا کرتے تھے ۔اب چہ میگوئیاں اگلے نائب صدر کے نام پر شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت کو یہ کام جلد کرنا ہوگا۔الیکشن کمیشن نے اس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے اور حکومت ایک اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے نائب صدر کی تلاش میں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: نائب صدر جمہوریہ راجیہ سبھا میں مستعفی ہونے انھوں نے حکومت کی دھنکڑ جی حکومت کے کے طورپر ہوئے تھے ہے کہ ان ان کے اس بی جے پی سے پہلے تھے اور کے عہدے نے اپنے اور وہ ہیں جن کے بعد کیا ہے تھے جو کے لیے اور ان
پڑھیں:
پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں: نائب وزیراعظم
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں.دورہ امریکا ہر لحاظ سےکامیاب رہا، امریکی وزیر خارجہ کو باور کرایا کہ مذاکرات کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں.نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنےکا کوئی منصوبہ نہیں. ہر موقع پر فلسطین کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا۔انہوں نے کہا کہ دورہ امریکا ہر لحاظ سے کامیاب رہا. امریکی وزیر خارجہ کو باور کرایا کہ مذاکرات کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں.امریکی وزیر خارجہ سے تجارت اور ٹیرف سے متعلق گفتگو کی۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ڈائیلاگ ہوا تو جامع ہوگا.بھارت جب بھی جامع ڈائیلاگ کرنا چاہے. پاکستان تیار ہے. بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا۔
دریں اثنا، نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کویت کے وزیر خارجہ عبداللہ الیحییٰ سے ملاقات کی ہے.دونوں کے درمیان ملاقات بین الاقوامی فلسطین کانفرنس کی سائیڈ لائنز ملاقاتوں کے دوران ہوئی۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق ملاقات میں پاکستان اور کویت کے دوطرفہ تعلقات کی مزید مضبوطی سمیت تجارت سیکورٹی اور دفاع کے شعبہ جات میں تعاون کا اعادہ کیا گیا۔دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ اور او آئی سی کے ساتھ مزید معاونت پر اتفاق کیا، اعلامیے کے مطابق ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کے لیے اعلیٰ سطح کے وفود کے تبادلوں پر اتفاق کیا گیا۔