Juraat:
2025-09-17@23:52:23 GMT

بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے!

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے!

معصوم مرادآبادی

حد سے زیادہ چاپلوسی، چمچہ گیری اور کاسہ لیسی بھی انسان کو رسوا کرکے چھوڑتی ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال نائب صدر جمہوریہ کے عہدے سے مستعفی ہونے والے مہاشے جگدیپ دھنکڑ ہیں، جن کے لیے کوئی ایک آنسو بھی نہیں گرا۔ ان لوگوں کا بھی نہیں جن کے لیے انھوں نے اپنے ظرف وضمیر کا بے دریغ سودا کیا تھابلکہ وہ لوگ اب ان کی کردار کشی پر اترآئے ہیں اور ان میں ہزاروں خامیاں تلاش کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی لوگ تھے جو دھنکڑ جی کی ‘سرکاری خدمات’ کے حددرجہ معترف تھے ۔جگدیپ دھنکڑ نے پہلے مغربی بنگال کے گورنر اور پھر نائب صدر جمہوریہ کے طورپر موجودہ حکومت کی جو خدمت انجام دی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔لیکن حکومت کی منشاء کے خلاف ایک کام کرنے کی پاداش میں انھیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیا گیا۔
نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کے اچانک استعفے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دن انھوں نے نہ صرف ایوان کی کارروائی میں حصہ لیا بلکہ اگلے دن کی کارروائی کے موضوعات بھی طے کئے ، لیکن شام گئے ایسا کیا ہوا کہ وہ اچانک اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے ۔انھوں نے پیر کی رات 9 بج کر25منٹ پر اپنااستعفیٰ ایکس پر پوسٹ کیا تو لوگوں کو پتہ چلا کہ موجودہ حکومت کے ایک انتہائی وفادار شخص نے ایک ایسے عہدے سے استعفیٰ دیا جس سے کوئی مستعفی نہیں ہونا چاہتا، کیونکہ نائب صدر جمہوریہ کے عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کی نظر صدر جمہوریہ کی کرسی پر رہتی ہے ، جو اس ملک کا سب سے بڑا عہدہ ہے ۔ اکثر یہی ہوا ہے کہ جب صدر جمہوریہ کی کرسی خالی ہوئی تو اس پر نائب صدر کو بٹھایا گیا۔وہ ملک کے پہلے نائب صدر ہیں جنھوں نے اپنی مدت کار پوری ہونے سے پہلے ہی درمیان میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔حالانکہ ان سے پہلے دونائب صدر وی وی گری اور وینکٹ رمن ایسے گزرے ہیں جنھوں نے درمیان ہی میں عہدہ چھوڑا ہے ، لیکن ایسا انھوں نے صدرجمہوریہ بننے کے لیے کیا تھا۔ جگدیپ دھنکڑ کو ابھی نائب صدر کا عہدہ سنبھالے تین سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے ۔ ان کی مدت کار اگست 2027میں پوری ہونے والی تھی۔ جگدیپ دھنکڑ نے اپنے استعفیٰ کی وجوہات میں سے بڑی وجہ صحت کو بتایا ہے ، لیکن اپوزیشن کا الزام ہے کہ انھوں نے صحت کو ڈھال کے طورپر استعمال کیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیااور ان کے استعفے کا ڈرافٹ بھی حکومت کے کارندوں نے تیار کیا۔انھیں اس پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔
نائب صدر بہ اعتبار عہدہ راجیہ سبھا کا چیئرمین بھی ہوتا ہے اور ایوان بالا کی کارروائی اسی کی مرضی اور منشا سے چلتی ہے ۔ موجودہ حکومت کا ایک مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ اسے کچھ عرصے پہلے تک راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے اہم بلوں کی منظوری میں خاصی دشواریاں پیش آتی تھیں۔2014میں جب مودی سرکار اقتدار میں آئی تو اسے راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے وہاں اسے اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے میں خاصی دشواری پیش آئی۔ کئی ایسے بل تھے جو لوک سبھا میں پاس ہونے کیباوجود راجیہ سبھا میں اوندھے منہ گرگئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محمد حامد انصاری راجیہ سبھا کے چیئرمین تھے ۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنا کام پوری غیرجانبداری اور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے تھے ۔ حکمراں طبقہ نے کئی بار انھیں رعب میں لینے کی کوشش کی لیکن وہ کسی دباؤ میں نہیں آئے ۔ 2017 میں جب وہ نائب صدر کے عہدے سے اپنی دس سالہ مدت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے تو ان کی الوداعی تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی نے کچھ ایسی باتیں کہیں جو انھیں کسی بھی طورزیب نہیں دیتی تھیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے حامد انصاری کو ذاتی طورپر بھی نشانہ بنایا۔بعد کے دنوں میں بھی سنگھ پریوار حامد انصاری کے پیچھے پڑا رہا، لیکن حامد انصاری نے کبھی کوئی ہلکی بات نہیں کہی۔ انھوں نے پورے وقار کے ساتھ راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طورپر اپنی معیاد پوری کی تھی اور ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں تھا، لیکن ان کی سبکدوشی کے بعد اس عہدے کا وہ وقار باقی نہیں رہا۔ حامدانصاری کے بعد ونکیا نائیڈو نائب صدر بنے جو بی جے پی کے بھی صدر رہ چکے تھے ۔ ونکیا نائیڈو کے بعد 2022 میں جگدیپ دھنکڑ اس عہدے پر آئے تو سارا منظر ہی بدل گیا۔انھوں نے اپنے عہدے کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔وہ ایک چاپلوس، موقع پرست اور غیر ذمہ دار شخص کے طورپر جانے گئے ۔
مودی سرکار شروع ہی سے اس بات کی خواہش مند تھی کہ اسے راجیہ سبھا میں کوئی ایسا چیئرمین مل جائے جو اس کی راہ کی دشواریوں کو دور کرتا رہے ۔ یہ کام جگدیپ دھنکڑ نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ وہ نائب صدر کے عہدے پر براجمان ہونے سے پہلے مغربی بنگال کے گورنر تھے اور وہاں انھوں نے اتنا سرگرم سیاسی کرداراداکیا تھا کہ ممتا بنرجی کو سرکار چلانا دوبھر ہوگیا تھا۔ دھنکڑ جی حکومت کے ہرکام میں ٹانگ اڑاتے تھے اور انھیں اپنے عہدے کے وقار کا بھی کوئی پاس نہیں تھا۔اس کے بعد جب نائب صدر جمہوریہ بنے تو انھوں نے اپنا کام جاری رکھا اوور اپنے مزاج کے مطابق حکومت کے لیے بہت سود مند ثابت ہوئے ۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ نائب صدر جمہوریہ کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے اور اس پر بیٹھنے والا خودکو سیاست سے دور رکھتا ہے ، لیکن جگدیپ دھنکڑ ایسے پہلے نائب صدر تھے جوپوری طرح سیاست کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔وہ کھل کر بی جے پی کے حق میں بیان بازی کرتے تھے ۔ حالانکہ زبانی طورپر یہ ضرور کہتے تھے کہ وہ کسی کے دباؤ میں کام نہیں کرتے ہیں، لیکن ان کے اس بیان کی حقیقت اس وقت معلوم ہوتی تھی جب وزیراعظم نریندر مودی سے ان کا سامنا ہوتا تھا۔وہ وزیراعظم کو دیکھ تقریباً جھک جاتے تھے جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی کی لچک کا بھی اندازہ ہوتا تھا۔
راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کا جھکاؤ ہمیشہ حکمراں طبقہ کی طرف ہوتا تھااور وہ اپوزیشن ارکان کے ساتھ کھلا بھید بھاؤ کرتے تھے ۔یہاں تک کہ کئی مواقع پر انھوں نے سینئر اپوزیشن لیڈروں کی بے عزتی بھی کی اور انھیں دیش دروہی تک کہا۔میں نے بارہا راجیہ سبھا کی پریس گیلری میں بیٹھ کر یہ منظر دیکھا کہ انھوں نے اپوزیشن کو قطعی نظرانداز کرکے حکومت کی منشا پوری کی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کی۔وہ راجیہ سبھا کی تاریخ میں ایسے واحد چیئرمین تھے جن پر اپوزیشن نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ بعد کو دھنکڑ جی نے اس تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے مضبوط بازوؤں کی نمائش بھی کی تھی اور اسے مسترد کردیا تھا۔ اب جبکہ جسٹس یشونت ورما کے مواخذہ کی تحریک خود انھوں نے منظورکی تو اس سے حکومت کو جھٹکا لگا۔حکومت ایسا نہیں چاہتی تھی۔
عام خیال یہ ہے کہ ان کے استعفے کے پیچھے مواخذے کی اس تحریک کو قبول کرنا ہی اصل وجہ ہے ۔اس کے علاوہ پچھلے کچھ دنوں سے وہ کسانوں کے مسائل پر بھی کھل کربول رہے تھے جو حکومت کو گراں گزررہا تھا۔ انھوں نے اپنے استعفے میں اپنی گرتی ہوئی صحت کو سبب بتایا ہے ۔ اب سے چند ماہ پہلے وہ نئی دہلی کے ایمس میں ضرور داخل ہوئے تھے اور وہاں ان کی انجیو پلاسٹی کی گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد وہ جلدہی کام پر واپس آگئے تھے اور حکومت کی مرضی کے مطابق اپنا کام انجام دے رہے تھے ۔ ان کے اچانک مستعفی ہونے کے پیچھے کچھ ایسے اسباب ضرور ہیں جن کی پردہ پوشی کی جارہی ہے ۔ دھنکڑ جی نے اپنے استعفے میں صحت کی خرابی کا جو سبب بیان کیا ہے اس کے پیش نظر امید یہ تھی کہ ان کا حال جاننے کے لیے ان کے گھر پر مرکزی وزیروں کا تانتا بندھ جائے گا۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ خود وزیراعظم نریندرمودی نے تقریباً چوبیس گھنٹے بعد ان کی مزاج پرسی کی اور وہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ۔ ان کے استعفیٰ پر بی جے پی نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے ۔یوں بھی ان کا پس منظر آرایس ایس کا نہیں تھا اور وہ 2003میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے ۔اس سے پہلے وہ وکالت کیا کرتے تھے ۔اب چہ میگوئیاں اگلے نائب صدر کے نام پر شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت کو یہ کام جلد کرنا ہوگا۔الیکشن کمیشن نے اس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے اور حکومت ایک اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے نائب صدر کی تلاش میں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: نائب صدر جمہوریہ راجیہ سبھا میں مستعفی ہونے انھوں نے حکومت کی دھنکڑ جی حکومت کے کے طورپر ہوئے تھے ہے کہ ان ان کے اس بی جے پی سے پہلے تھے اور کے عہدے نے اپنے اور وہ ہیں جن کے بعد کیا ہے تھے جو کے لیے اور ان

پڑھیں:

سیلاب ،بارش اور سیاست

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل

کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • نبی کریمﷺ کی تعلیمات پرعمل کرکے امن قائم کیاجاسکتا ہے،مولاناعتیق
  • کراچی: کورنگی سے لاپتہ ہوکر گھر واپس آنے والے دلہے کا ابتدائی بیان سامنے آگیا
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے،اسحق ڈار
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دینا ہوگا، اسحاق ڈار
  • مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • برطانوی ولی عہد کی رہائشگاہ کے نزدیک گاڑیاں چرا لے جانے والے چور بچ نکلے، سراغ نہ لگ سکا